شیئر کیجیے

مساجد پر نئے مقدمات اور عبادت گاہوں سے متعلق قانون

مشرف علی

تاریخی بابری مسجد پر حقائق و شواہد کے خلاف دیا گیاسپریم کورٹ کا فیصلہ جوخود عدالت کے ذریعہ اخذ کئے گئے نتائج کےبھی برعکس ہے، کے بعد جب مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار ہو گیا تو ملک میں فرقہ پرستوں کا حوصلہ اور بڑھ گیا ہے۔ کئی مساجد جو پہلے سے ان کے نشانے پر ہیں ایک ایک کران پر دعوے کیے جا رہے ہیں اور انہیں مسمار کر ان کی جگہ مندر تعمیر کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ متھرا کی شاہی عید گاہ اور کاشی (بنارس) کی گیان واپی مسجد پر دعوے کے بعد بعد اب قطب مینار کے احاطے میں واقع مسجد قوۃ الاسلام پر بھی دعوی کیا گیا ہے ۔
دہلی کی ساکیت عدالت میں دائر عرضی میں کہا گیا ہے مسجد قوت الاسلام 27 ہندو اور جین مندر وں کو توڑ کر بنائی گئی ہے اور تاریخ میں اس کے شواہد موجود ہیں، لہذا اس مسجد کو ان تمام مندروں کی تعمیر نو کے لئے ہندو طبقے کے حوالے کر دیا جائے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ عرضی عدالت نے سماعت کےلئے منظور کر لی ہے اور سول جج نے کہا ہے کہ عرضی کافی طویل ہے اور اس میں دیے گئے ’’حقائق ‘‘ پر مطالعہ کی ضرورت ہے۔جب کہ اصول یہ ہے کہ ملک میں پندرہ اگست 1947 تک جس کی عبادت گاہ کی جو حیثیت تھی ، وہی اس کی اصل حیثیت مانی جائے گی۔ عدالت میں ابتدائی بحث میں عرضی گزارہری شنکر جین کا کہنا تھا کہ محمد غوری کے غلام قطب الدین ایبک نے دہلی میں قدم رکھتے ہیں 27 مندروں کو منہدم کروا دیا تھا اور انہیں کے باقیات سے یہ مسجد کھڑی کر دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد کی دیواروں اور ستونوں پر بتوں کے نقوش آج بھی موجود ہیں۔ پھر درخواست دہندہ نے یہ دلیل بھی دی کہ ان بتوں کی موجودگی کی وجہ سے اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی جاتی ہے، بلکہ کبھی نہیں پڑھی گئی۔ہری شنکر جین کے مطابق مسجد کی تعمیر نماز ادا کرنے کے لیے ہوئی ہی نہیں تھی ،اس کا مقصد تو ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کرنا اور اسلام کی قوت کا مظاہرہ کرنا تھا، اس لئے اس مسجد کا نام بھی قوۃالاسلام رکھا گیا۔
1192عیسوی میں تعمیر کردہ قوۃ الاسلام مسجد د گزشتہ آٹھ سو برسوں سے اپنی جگہ موجود ہے۔ ہے ہندو اکثریت والے ملک میں اس تاریخی عمارت کی موجودگی خود اس بات کی دلیل ہے کہ عرضی گزار کے دلائل بالکل کو کھلے ہیں ۔حالانکہ عدالت میں انہیں ’حقائق‘ سے تعبیر کر کے اپنے ارادے کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ ان دلیلوںپر گزشتہ برسوں میں بار بار غور کیا جا چکا ہے اور ان کا بے بنیاد ہونا ثابت ہوچکا ہے ۔ درخواست گزار کے ذریعہ لگائے گئے الزامات میں اگر سچائی کی تھوڑی بھی گنجائش ہوتی تو 1991ء میں اتنی آسانی سےیہ قانون نہیں بن جاتا کہ تمام عبادت گاہوں کو ان کے آزادی کے وقت کے موقف پر برقرار رکھا جائے ،یا کم از کم اس مسجد کو بھی بابری مسجد کی طرح اس قانون سے استثنیٰ دے دیا جاتا۔
اس سے قبل کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر بھی دعوی کیا جا چکا ہے ۔گزشتہ ستمبر میںا کھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد نے میں ان مساجد پر دعوی پیش کرنے کے بعد کہا کہ مسلمانوں کو ان سے ازخود دست بردار ہو جانا چاہئے اور خود اپنی مرضی سے ان مسجدوں کو ہندوؤں کے حوالے کر دینا چاہیے۔اکھاڑا پریشد نے یہ اعلان بھی کیا کہ رام مندر کی طرح ان مسجدوں کی حصولیابی کے لیے بھی ملک گیر عوامی تحریک چلائی جائے گی۔ یعنی اکھاڑا پریشد کو اس بات کا احساس ہے کہ قانوں طور پر اور جائز طریقہ سے ان مساجد کو توڑنا اور ان کی جگہ مندر تعمیر کرنا ممکن نہیں، لہذا وہ اکثریتی طبقہ کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے اس کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ متھرا کی عید پر دعویٰ کرنے والی ایک عرضی آگرہ کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔
جب بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ اپنے نقطۂ عروج پر تھا تب 1990 ء کے اوائل میں وشواہندوپریشد ( وی ایچ پی ) اور دیگر ہندو تنظیموں نے ملک کے طول وعرض میں واقع 300 مسجدوں پر دعویٰ پیش کیاتھا، جن میں بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ان دو مساجد کے تعلق سے عوامی تحریک شروع کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی ۔ اُسی تناظر میں پی وی نرسمہا راؤ حکومت نے ستمبر 1991 ء میں ایک خصوصی قانون مدون کیاجس کے تحت تمام عبادت گاہوں کے 15 اگست 1947 ء سے پہلے کے موقف کو منجمد کر دیا گیا۔ یعنی 15 اگست 1947 ء کو کسی عبادت گاہ کا جو موقف تھا، اسے برقرار رکھا جائےگااور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔اس بل کا مقصد یہ بھی تھا کہ کسی بھی گروپ کی جانب سے کسی عبادت گاہ کے ماضی کے موقف سے متعلق نئے دعویٰ کو روکا جائے ۔یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ قانون ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ میں ممد و معاون ثابت ہوگی ۔ تاہم بابری مسجد -رام جنم بھومی کو مذکورہ قانون کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیااس لئے کہ طویل عرصہ سے یہ قانونی تنازعات کا شکار تھا۔ بابری مسجدکو استثنیٰ دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت اس تنازعہ کو گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنے کاراستہ کھلا رکھنا چاہتی تھی ۔
اُس وقت کے وزیرداخلہ ایس بی چوہان نے 10 ستمبر 1991 ء کو لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے مذکورہ بل کے بارے میں کہا تھا ’’اس بل یا قانون کو ہم ہندوستان میں بھائی چارہ، امن اور محبت کی شاندار و عظیم روایات کو فروغ دینے والے بل کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں امن و آشتی اور اتحاد و یکجہتی کی ہماری روایات شدید دباؤ کا شکار ہوگئیں تھیں ۔ ان حالات میں ہم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورامن و آشتی سے متعلق اپنی روایات کی بحالی کی کوشش کی ہے‘‘۔ کانگریس نے بھی لوک سبھا انتخابات 1991 ء کے اپنے انتخابی منشور میں بھی اس طرح کی قانون سازی کا وعدہ کیا تھااور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے کئے گئے صدارتی خطاب میں بھی اس کا حوالہ دیا گیا ۔
یہ قانون اعلان کرتا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کا مذہبی کردار ہمیشہ ویسا ہی رہے گا اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی ۔ یہ قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی عبادت گاہ کے ساموقف یا مقام کو خواہ وہ کسی بھی مذہب و مسلک کاہو اسے کسی دوسرے مسلک یا فرقہ کی عبادت گاہ میں بدل نہیں سکتا ۔ یہ قانون اعلان کرتا ہے کہ تمام مقدمات اپیلیں یا کوئی اور کارروائی کسی عبادت گاہ کے موقف یا مقام یا کردار کو بدلنے کی مکلف نہیں ہوگی اور 15 اگست 1947 ء کے بعد اس سلسلہ میں کی گئی اپیل یا مقدمہ کی درخواست کی سماعت نہیں ہوگی ۔ ان قوانین کا اطلاق قدیم یا تاریخی آثار قدیمہ کے مقامات پر نہیں ہوگا جو 1958 ء کے قدیم عجائب اور آثار قدیمہ کے تحت ہوں ۔
جو کوئی بھی کسی عبادت گاہ کے مقام پر عائد قانون کی خلاف ورزی کرے گا وہ قابل دست انداز قانون ہوگا ۔ اس قانون کے تحت اسے 3 سال کی قید بامشقت اور کسی بھی پابندی سے متعلق جرمانہ کی طرح اس پر بھی جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے ۔ اس جرم میں ساتھ دینے یا سازش میں شامل رہنے والوں کو بھی سزا دی جائےگی ۔
بی جے پی نے اس قانون سازی کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ اس کی قیادت نے یہ کہتے ہوئے اس بل کی مذمت کی تھی کہ یہ ’’جعلی سیکولرازم‘‘ کی ایک مثال ہے جو ہمارے ملک میں جاری ہے ۔ بی جے پی نے اُسے اقلیتوں کی چاپلوسی اور منہہ بھرائی سے تعبیر کیا تھا ۔
بنارس کی ایک ضلعی عدالت نے مندر کے ایک ٹرسٹ کے ذریعہ گیان واپی مسجد کے مقام پرکئے گئے دعویٰ کے مقدمہ کو قبول کرلیا ہے ،تاہم ضلعی عدالت کے حکم کو الہٰ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں ہائی کورٹ نے اُس پر قانونی پابندی کا حوالہ دیا تھا جس کے تحت کسی بھی عباد ت گاہ کے مقام کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور یہ معاملہ اب تک عدالت میں زیرالتواء ہے۔ شاہی عیدگاہ جو متھرا میں کرشن مندر کے قریب واقع ہے وہ بھی کرشن جنم بھومی سنستھا اور عیدگاہ کمیٹی کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت واقع ہے ۔ اس عیدگاہ کی متنازعہ اراضی کی ملکیت پر کرشن جنم بھومی سنستھا کا قبضہ ہے اور اس کا انتظام عیدگاہ کمیٹی کے ہاتھوں میں ہے ۔
عبادت گاہوں سے متعلق اتنے واضح قانون کے باوجود فرقہ پرست عوامل کی جانب سے مساجد پر دعوے کیے جا رہے ہیں اور عدالتیں ان دعووں کو تسلیم کر رہی ہیں۔ اس صورتحال کے لیے بڑی حد تک بابری مسجد ملکیت معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ذمہ دار ہے۔ سپریم کورٹ نے جس طرح حقائق کو نظر انداز کیا یا کیا، دلائل اور شواہد کے برعکس فیصلہ دیا ،اس سے تخریب کار ذہنیت کو بڑی تقویت ملی اور ان کے حوصلے بلند ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے جو نتائج اخذ کئے اور جو فیصلہ دیا ان دونوں میں کوئی تال میل نہیں ہے۔اپنے اخذ کردہ نتائج میں سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کیا کہ بابری مسجد روز اوّل سے ایک مسجد ہے۔ اس کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر نہیں ہوئی۔کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مسجد میں غلط طریقے سےمورتیاں رکھی گئیںاور یہ کہ1992ء میں ایک سازش کے تحت مسجد کو شہید کردیا گیا ، جو کہ ایک غیر قانونی عمل تھا۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کورٹ نے اپنے فیصلے میں مسجد کی اراضی اس کی شہادت کی سازش کرنے والوں کے حوالے کردی۔اتنا ہی نہیں اس فیصلے کے چند مہینوں بعد سی بی آئی عدالت نے مسجد کی شہادت کے تمام ملزمین کو، کو جنہیں سپریم کورٹ نے گویامجرم تسلیم کیا تھا،باعزت بری کر دیا۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کو غلط اور غیر قانونی تسلیم کر کے گویا اس عمل کو جرم تسلیم کیا ہے اور جرم کرنے والا مجرم ہی کہلاتا ہے۔
یکے بعد دیگرے آنے والے ان دونوں فیصلوں نے تخریب کاروں کو یقین دلادیا کہ وہ قانون کے خلاف بھی مساجد پر دعوے کر سکتے ہیں اور عوامی تحریک چلا کر عدالتوں کو دلائل و شواہد کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ظلم پر مبنی اس فیصلے نے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بری طرح مجروح کر دیا ہے۔ ظلم کی بنیاد پر ظلم کاہی فروغ ہوتا ہےاور امن و انصاف کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔
خشت اوّل گر نہد معمار کج
تا ثریّا می رود دیوار کج
٭٭٭

اس سے قبل کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر بھی دعوی کیا جا چکا ہے ۔گزشتہ ستمبر میںا کھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد نے میں ان مساجد پر دعوی پیش کرنے کے بعد کہا کہ مسلمانوں کو ان سے ازخود دست بردار ہو جانا چاہئے اور خود اپنی مرضی سے ان مسجدوں کو ہندوؤں کے حوالے کر دینا چاہیے۔اکھاڑا پریشد نے یہ اعلان بھی کیا کہ رام مندر کی طرح ان مسجدوں کی حصولیابی کے لیے بھی ملک گیر عوامی تحریک چلائی جائے گی۔ یعنی اکھاڑا پریشد کو اس بات کا احساس ہے کہ قانوں طور پر اور جائز طریقہ سے ان مساجد کو توڑنا اور ان کی جگہ مندر تعمیر کرنا ممکن نہیں، لہذا وہ اکثریتی طبقہ کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے اس کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ متھرا کی عید پر دعویٰ کرنے والی ایک عرضی آگرہ کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔