شیئر کیجیے

فیملی پلاننگ پر سیاست کے برعکس سرکار کا حلف نامہ

ادارتی ڈیسک سے

فیملی پلاننگ اوردوبچوں کی لازمیت سے متعلق عرضی پر سپریم کورٹ میں مرکز کی مودی سرکار نے جو حلف نامہ داخل کیا، ا س سے ان لوگوں کو حیرت ضرور ہوئی ہوگی جو اس کی سیاست کرتے ہیں اوراس کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں ۔سیاست کوئی اورنہیں کرتا صرف بی جے پی کے لیڈران ہی کرتے ہیں اورپارٹی کی حکومت نے ہی اس کے خلاف موقف اختیار کیا ۔کتنی عجیب بات ہے کہ پارٹی کے لیڈر یوں تو سیاسی وانتخابی جلسوں اورریلیوں اور بیانات میں کہتے رہتے ہیں کہ فیملی پلاننگ اوردوبچوں کی لازمیت کے لئے قانون بناکر لوگوں کو اس کا پابند بنانا چاہئے لیکن یہی لیڈر پارٹی فورم یا حکومت میں یہ بات نہیں اٹھاتے ہیں اورایسا بارہا اوربہت سے ایشوز میں ہوا ہے۔کچھ لوگ انفرادی طور پر سرکار کو اس بابت خطوظ ضرور لکھتے ہیں جیساکہ فیملی پلاننگ میں وزیراعظم نریندرمودی کو لکھا گیا، لیکن اس پر اصرار نہیں کرتے اورنہ ہی جوا ب طلب کرتے ہیں ۔
بہر حال فیملی پلاننگ اوردو بچوں کی لازمیت کے لئے قانون سازی کا جو مسئلہ سرکار کے سامنے اٹھانا چاہئے تھا، وہ پہلے دہلی ہائیکورٹ میں اٹھایا گیا ۔ ہائیکورٹ میں اس کے لئے مفاد عامہ کی عرضی کسی اورنے نہیں بلکہ بی جے پی کے لیڈر اورایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے داخل کی ، جو عموما متنازعہ مسائل پر خواہ ان سے ان کایا ان کی کمیونیٹی کا تعلق ہو یا نہ ہو ، کبھی ہائیکورٹ میں تو کبھی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرتے رہتے ہیں ۔انہوں نے اپنی عرضی میں ہائیکورٹ میں اپنی دلیل میں چین کی آبادی سے ہندوستان کی آبادی کا موازنہ کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان کی آبادی چین سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔یہ نہیں کہا کہ چین نے بھی اب اپنی فیملی پلاننگ کی پالیسی بدل دی ہے اورجو سختی اس نے کی تھی ، اس کے تلخ اورنقصا ن دہ تجربہ کے بعد اب کچھ چھوٹ دے دی ہے ۔ایڈوکیٹ اپادھیائے نے اپنی دلیل میں یہ بھی کہا کہ ملک کی تقریبا20 فیصد آبادی کے پاس آدھار کارڈ نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دیگر دستاویز جیسے ووٹر شناختی کارڈ ، پین کارڈ ، راشن کارڈ ، بینک اکائرنٹ ، ڈرائیونگ لائسنس اورپاسپورٹ وغیرہ بھی نہیں ہیں۔ اس میں کچھ توسرکار کی طرف سے کمی ہوتی ہے اورکچھ شہریوں میں خواندگی اوربیداری کی کمی کی وجہ سے ہے لیکن پروف نہ ہونا یا نہ بننا بڑھتی آبادی سے کیا تعلق رکھتا ہے ؟
بی جے پی کے لیڈر نے اور بھی کئی باتیں کہی تھیں ۔غرضیکہ ان کی دلیلوں کاآبادی پر کنٹرول سے کوئی تعلق نہیں تھااورنہ یہ معاملہ عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔ہاں بھولے بھالے اورسیدھے سادے عوام کو ان باتوں سے ضرور بیوقوف بنایا جاسکتا ہے ۔ہائی کورٹ نے 3 ستمبر کو ان کی عرضی خارج کرتے ہوئے ان کو اچھی طرح سمجھادیا تھا کہ قانون سازی کرنا پارلیامنٹ اورریاستی اسمبلیوں کاکام ہے ، عدالت کا نہیں ۔اس سے صورت حال پوری طرح واضح ہوگئی تھی پھر بھی بات ان کو سمجھ میں نہیں آئی ۔ انہوں نے اپنی تشنگی دور کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہاں مرکز نے اپنے حلف نامہ کے ذریعہ ان کو سمجھایا ۔
مرکزی حکومت کی طرف سے وزارت صحت نے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ حکومت ہند فیملی پلاننگ لوگوں پر جبرا تھوپنے یا دوبچوںکی لازمیت سے متعلق قانون بنانے کے خلاف ہے ۔ مقررہ تعداد میں بچوں کو جنم دینے کی کسی بھی طرح کی پابندی نقصان دہ ہوگی ۔آبادی اورجنسی تناسب کا توازن بگڑجائے گا ۔سرکار نے یہاں تک کہہ دیا کہ جن ملکوں نے اس طرح کی قانون سازی کی ، اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ۔فیملی پلاننگ کا پروگرام اختیاری ہے جس میں اپنے کنبہ میں افراد کی تعداد کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف جوڑے کو ہوتا ہے ۔اس میں کسی طرح کی لازمیت یا پابندی نہیں ہے ۔ اورفیملی پلاننگ کا پروگرام صرف لوگوں میں بیداری کے لئے چلایا جاتا ہے ۔
دلچسپ بات ہے کہ جس بڑھتی آبادی کا رونا رویا جاتا ہے ،اس کا غبارہ بھر کر اڑایاجاتا ہے اوراس کی آڑ میں فیملی پلاننگ پر زور دیا جاتا ہے ، اس کی حقیقت خود مرکزی سرکار نے بیان کردی ۔شاید اگر مذکورہ بات کسی اورپارٹی کی حکومت کہتی تو اس پر خوب ہنگامہ ہوتا اورسیاست بھی ہوتی لیکن بی جے پی کی حکومت نے کہی اس لئے کوئی ہنگامہ نہیں ہوا اورخبرا س طرح دبادی گئی کہ بہت کم لوگوں کو اس پورے معاملہ کا علم ہے ۔ حیرت ہے کہ اتنے بڑے سیاسی ایشو پر میڈیا نے ٹیلی ویژن چینلوں پر بحثیں نہیں کرائیں اورپرنٹ میڈیا میں تبصرےشایع نہیں ہوئے ۔ایڈوکیٹ اپادھیائے کی عرضی کا جواب دیتے ہوئے مرکز نے یہ بھی بتادیا جس کو چھپایا جاتا ہے کہ ملک میں شرح پیدائش میں میں کمی آئی ہے ۔سرکار نے قومی آبادی پالیسی 2000کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہندوستان میں شرح پیدائش 3.2فیصد تھی جو 2018میں گھٹ کر 2.2 فیصد ہوگئی ہے یعنی کسی قانون یا پابندی کے بغیر ہی شرح پیدائش ایک فیصد کم ہوگئی ۔سرکار کا یہ کہنا کافی معنی رکھتاہے کہ لوگوں کو اپنے حالات اورضرورت کے حساب سے فیملی پر کنٹرول کی آزادی دی گئی ہے ۔ فیملی پلاننگ کو کسی پر زبردستی تھوپا نہیں جاسکتا ۔
ہے نہ عجیب بات کہ بی جے پی کالیڈر فیملی پلاننگ اوردوبچوں کی لازمیت سے متعلق قانون سازی کے لئے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اوراسی پارٹی کی مرکزی حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے ، یہ بالکل تاج محل کیس کی طرح ہے ۔جسے مندر ثابت کرنے کے لئے 2017میں مقامی عدالت میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی ۔اس میں مرکزی حکومت اورمرکزی محکمہ آثار قدیمہ کو فریق بنایا گیا تھا ۔اس عرضی میں کہا گیا تھا کہ تاج محل ممتاز محل کا مقبرہ نہیں بلکہ شیومندر تیجومہالے ہے لیکن محکمہ آثار قدیمہ نے عدالت میں پیش اپنی رپورٹ میں صاف صاف کہہ دیا کہ تاج محل ممتازمحل کی یاد میں بنایا گیا مقبرہ ہی ہے مندر نہیں ۔حکومت سے باہر رہ کر کسی مسئلہ کی سیاست کرنا آسان ہوتا ہے اور اس سے سیاسی فائدہ ہورہا ہو یا ہونے کی توقع ہوتو اس کی رٹ باربار لگائی جاتی ہے لیکن جب قانون سازی یا قانونی کٹہرے میں کھڑے ہونے کی نوبت آتی ہے تو اس وقت موقف کچھ اورہوجاتا ہے۔باربار قانون سازی کے وعدے کے باوجود بی جے پی کی مرکزی سرکار نے اجودھیا میں رام مندر کے لئے قانون سازی نہیں کی تھی ۔دراصل سرکار جانتی ہے کہ جس بڑھتی آبادی کا شگوفہ وقتا فوقتا چھوڑا جاتا ہے اورمسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے ، اس میں ذرابھی سچائی نہیں ہے ۔مردم شماری کی موٹی باتوں کو پیش کرکے کچھ بھی کہا جائے ، رپورٹ میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ شرح پیدائش میں اضافہ کی شرح اکثریتی فرقہ کے مقابلہ میں مسلمانوں میں زیادہ گھٹی ہے ۔یہ بات مردم شماری 2011 کی رپورٹ میں واضح طور پر لکھی گئی ہے لیکن بدنیتی سے اس پہلو کو بیان نہیں کیا جاتا ہے ۔
ملک کی بڑھتی آبادی اور اس کے پیش نظر سرکار کی طرف سے بنائی گئی فیملی پلاننگ کی پالیسی کی سیاست بے موسم برسات کی طرح ہوتی ہے ۔جب کسی کو خبروں میں آنے یا سستی شہرت کے لئے کچھ نہیں ملتا تو اس آسان ہتھکنڈے کو اپناتا ہے ۔ جن لوگوں کو حقیقت کا علم نہیں ہے یا جن میں شعور کی کمی ہے ، وہ فریب میں آجاتے ہیں ۔چونکہ فیملی پلاننگ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر یا مذہب کی آمیزش کرکے پیش کیا جاتا ہے اس لئے تیر آسانی سے نشانے پر لگ جاتا ہے اورجو مقصد ہوتا ہے وہ حاصل ہوجاتا ہے ۔دومواقع پر اس کاشور خاص طور سے مچایا جاتا ہے ۔ ایک اس وقت جب مردم شماری کی رپورٹ آتی ہے ، دوسرے جب الیکشن کا وقت ہوتا ہے ۔سماج میں یہ تاثر قائم کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ملک میں صرف مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے یاملک کی آبادی صرف مسلمانوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے ۔ان کے یہاں پیدائش کی شرح زیادہ ہوتی ہے ۔بعض لوگ تو اس معاملہ کا تجزیہ بہت دور تک کرتے ہیں اوراگلے 50 اور100 برسوںکا حساب کرکے مسلم آبادی کے اندازے پیش کرتے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر مسلم آبادی میں اضافے کی یہی شرح رہی تو اگلے 50 یا 100 برسوں میں وہ ملک میں اکثریت میں آجائیں گے ۔یہ اندازے ملکی سطح پر ہی نہیں عالمی سطح پر بھی لگائے جاتے ہیں اوراس طرح کی رپورٹیں ہر سال کسی نہ کسی نام نہاد اداروں ، ایجنسیوں یا تنظیموںکی طرف سے شایع ہوتی رہتی ہیں ۔ان ہی میں ایک امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر بھی ہے جس کی رپورٹ جب آتی ہے تو مہینوں اس پر عالمی سطح پر بحثیں ہوتی رہتی ہیں ۔ان اداروں ، ایجنسیوں اورتنظیموں یا تھنک ٹینک کی رپوررٹنگ کا اندازکچھ ایسا ہوتا ہے جیسے صرف مسلم آبادی بڑھ رہی رہی ہے دیگر اقوام کی آبادی منجمدہے یا رہے گی ، ان میں اضافہ کی شرح بہت کم دکھائی جاتی ہے ۔ آبادی کی سیاست ملک کی آزادی کے بعد سے ہی کی جارہی ہے ۔فیملی پلاننگ کی پالیسی گزشتہ 50 برسوں سےچل رہی ہے ۔اب یہ کون بتائے یا سمجھائے کہ جب آزادی کے بعد طویل 73برسوں میں مسلم آبادی ملک کی مجموعی آبادی کی ایک چوتھائی بھی نہیں ہوپائی تو آگے چل کر مسلمان اکثریت میں کیسے آجائیں گے ؟جتنی آبادی مسلمانوں کی بڑھتی ہے ،اس سے کئی گنا زیادہ اکثریتی فرقہ کی بڑھتی ہے ۔ جس طرح سیدھے سادے غیرمسلموں میں مسلم آبادی کے تعلق سے غلط فہمی اوربدگمانی پھیلتی ہے ،اسی طرح بعض مسلما ن بھی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر مخالف قوتوں کو سیاست کرنے کاموقع فراہم کرتے ہیں ۔
بی جے پی کے لیڈر کی طرف سے فیملی پلاننگ یا آبادی پر کنٹرول کے لئے دہلی ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنااوراسی پارٹی کی مرکزی حکومت کی طرف سے اس کی مخالفت کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اوردکھانے کے اور ‘والی پالیسی پر بی جے پی چلتی ہے ۔پارٹی اورا س کے لیڈر بھلے ہی بڑھتی آبادی ، فیملی پلاننگ اوردوبچوں کی لازمیت کے لئے قانون سازی کی سیاست کرتے ہیںلیکن عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ایسا کچھ کیا گیا تو اس سے سب سے زیادہ متاثراکثریتی فرقہ کے لوگ ہوں گے کیونکہ تعددازدواج اور طلاق کی طرح دوبچوں سے زیادہ کنبوں کی شرح اکثریتی فرقہ میںہی زیادہ ہے لیکن بدنام مسلمانوں کو کیا جاتا ہے ۔ملک میں بہت سے لوگوں کو ایسے مقدمات کا علم نہیں ہوتا اورجن کو پتہ بھی چلتا وہ جلد ہی بھول جاتے ہیں ۔اسی کا فائدہ سیاسی پارٹیاں اٹھاتی ہیں ، وہ دبے الفاظ میںکہیں حقیقت کا اعتراف کرکے یا لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر قول وعمل میں تضاد دکھادیتی ہیں ۔مودی سرکار کے مذکورہ حلف نامہ کے بعد یہ ایشو ختم ہوجانا چاہئے اوراس کی سیاست بند ہوجانی چاہئے لیکن اس کا امکان کم نظر آتا ہے ۔ کل پھر یہی لوگ سیاست کریں گے ، لوگوں کو ورغلائیں گے اورگمراہ کریں گے تاکہ مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمی اوربدگمانی میں کمی نہ آئے ،ماحول خراب رہے اورانہیں سیاسی روٹیاں سینکنے کا موقع ملتا رہے ۔ملک کی انوکھی سیاست کا یہی تومزاج ہے جسے بہت کم لوگ سمجھتے ہیں ، اکثربیوقوف بنتے رہتے ہیں ۔
٭٭٭

بی جے پی کے لیڈر کی طرف سے فیملی پلاننگ یا آبادی پر کنٹرول کے لئے دہلی ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنااوراسی پارٹی کی مرکزی حکومت کی طرف سے اس کی مخالفت کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ’ہاتھی کے دانت کھانے کے اوردکھانے کے اور ‘والی پالیسی پر بی جے پی چلتی ہے ۔پارٹی اورا س کے لیڈر بھلے ہی بڑھتی آبادی ، فیملی پلاننگ اوردوبچوں کی لازمیت کے لئے قانون سازی کی سیاست کرتے ہیںلیکن عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے ۔