ہمارے ملک بھارت جیسا ملک شاید دنیا میں کوئی دوسرا ہو۔ جغرافیائی بلکہ سماجی اور مذہبی رنگارنگی نے اس کے حسن کو دوبالا کردیا ہے۔ میں جب کسی جلوس میں نوجوانوں کو ناچتے گاتے اور تھرکتے دیکھتا ہوں، جب چوراہوں پر پھول مالاؤں سے شرکا جلوس کا استقبال ہونے کا نظارہ کرتا ہوں، جب دیگر مذاہب کے لوگ جگہ جگہ چائے پانی کے اسٹال لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن ادھر کئی برسوں سے ان جلوسوں سے خوف سا لگنے لگا ہے، جب شرکا کے ہاتھوں میں تلواریں اور کٹاریں ہوتی ہیں، جب وہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، جب وہ اپنے جلوس کو کسی مسجد کے پاس سے گزارنے پر اصرار کرتے ہیں اورجلوس میں شامل کوئی جنونی مسجد پر بھگوا جھنڈا لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر کوئی پتھر آتا ہے اور فساد ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد پولیس کا ظلم شروع ہوتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ملک کی خوب صورتی کو بدنمائی سے بدل دیا۔ ایک تنظیم نے باقاعدہ نفرت پر مبنی پالیسی کے تحت پاٹھ شالاؤں سے لے کر جنگی تربیت گاہیں تک کھول لر ہر جانب نفرت کے سوداگر پیدا کردیے ہیں، یہ سلسلہ گذشتہ سو سال سے شروع ہوا اور اب عروج پر ہے۔ وہ جب بھی منھ کھولتے ہیں تو نفرت کا زہر اگلتے ہیں۔ انھوں نے ایک صدی پہلے ہر طرف نفرت کے جوبیج بوئے تھے آج وہ تناور درخت بن گئے ہیں۔
اسی نفرت کے نتیجے میں ایک عرصہ سے ایک ہی مذہب کے لوگ ماب لنچنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کہیں گائے کو لے کر ماردیا جاتاہے؟کسی کے ہاتھ میں گوشت نظر آجائے تو اس پر بلا تحقیق مقدمات قائم کردیے جاتے ہیں۔ کہیں زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ کہیں راستے میں نماز پڑھنے والوں پر مقدمات قائم ہوجاتے ہیں۔ کہیں باحجاب لڑکیوں کو کالج سے نکال دیا جاتا ہے۔ کہیں لوجہاد کے نام پر جیلوں میں ٹھونس دیا دیا جاتا ہے، لیکن معاملہ برعکس ہو یعنی کوئی مسلمان لڑکی غیر مسلم لڑکے ساتھ بھاگ کر شادی کرلیتی ہے تو اس کی حمایت میں سرکار کی پشت پناہی کے ساتھ بھگواتنظیمیں کھڑی ہوجاتی ہیں، اسے لو جہاد کے بجائے گھر واپسی کہا جاتا ہے۔ علی الاعلان مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کی لڑکیوں سے شادی کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور حکومت ان کی پشت پناہی کرتی نظر آتی ہے۔ اگر کوئی مفتی فلسطین جنگ کے تناظر میں امریکہ و اسرائیل کو للکارتا ہے تو اسے پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ تمام سرکاری اسکیمیں جو اقلیتوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کو یا تو بند کردیا جاتاہے یا پھر ان کے فنڈ میں کمی کردی جاتی ہے، اس پر بھی بجٹ کی مختص رقم جاری نہیں کی جاتی۔ مسلمانوں کا سروے ہوتا ہے، ان کی پسماندگی کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ لیکن ان کی ترقی کا کوئی منصوبہ بنانے کے بجائے ان کو مزید تاریکی اور پسماندگی کے غار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
مسلمانوں سے عداوت اور دشمنی میں آئین و قانون کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ اسی پاٹھ شالہ کا پڑھاہوا ایک جج دلائل کے بجائے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ دیتا ہے اور ایک جج ریٹائر منٹ کی شام کو جامع مسجد بنارس میں پوجا کی اجازت عطا کرتا ہے، جس پر عمل کرنے میں ہماری پولیس وانتظامیہ چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دن نکلنے کا بھی انتظار نہیں کرتی۔ ہلدوانی میں مسجد اور مدرسہ کے تعلق سے عدالت میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے، اس کے باوجود نفرت کے سوداگر منصوبہ بند طریقہ سے اس کو منہدم کرنے پہنچ جاتے ہیں اور ساتھ میں کرائے کے غنڈے لے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو مارا جاتا ہے، ان کو لوٹا جاتا ہے، ان کو قید خانوں میں ٹھونسا جاتا ہے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر جائدادیں بھی قرق کرلی جاتی ہیں۔ آگرہ میں ایک میٹرو اسٹیشن وہاں کی جامع مسجد کے پاس بنایاجاتا ہے اور اس کا نام جامع مسجد رکھ دیا جاتا ہے تونفرت کے ٹھیکداروں کو یہ برداشت نہیں ہوتااور تبدیل کرکے اس کا نام منکامیشور رکھاجاتا ہے۔ بغیر کسی نوٹس کے مہرولی کی چھ سو سالہ قدیم مسجد اور قبرستان کو مسمار کردیا جاتا ہے۔ کیا یہی آئین کی حکم رانی ہے۔ نفرت کی انتہایہ ہے کہ مسلمان دکانداروں سے سامان نہ خریدنے، مسلمان ڈرائیوروں کے ساتھ سفر نہ کرنے، اور اپنی کالونیوں میں مسلمان ریڑھی ٹھیلے والوں کو نہ آنے دینے کی مہم چلائی جاتی ہے۔
سی اے اے اوریکساں سول کوڈ کے نام پر بھی صرف مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، اتراکھنڈ میں جو مسودہ اسمبلی نے پاس کیا ہے۔ اس میں قبائلیوں کو چھوٹ دی گئی ہے، لیکن مسلمانوں کی شریعت میں دخل اندازی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ظلم کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے مسلمان خواتین کو بااختیار بنایا ہے۔ انھیں آزادی دی ہے۔ مسلم نوجوانوں کی بے روزگاری کی وجہ سے ان کی ماؤں اور خواتین کو جو پریشانی ہورہی ہے وہ آپ کو نظر نہیں آتی۔
اس وقت بھارت کا مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہا ہے۔ بھارت کی تعمیر میں مسلمانوں کی قربانیاں دوسری اقوام سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان مسلم حکم رانوں کو جنھوں نے اپنی زندگیاں ملک کی توسیع و ترقی میں لگادیں اور یہیں دفن ہوگئے، ان کو مطعون کیاجارہا ہے۔ ان کی نشانیوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ ان کی تاریخ کو نصاب سے ہٹایا جارہا ہے۔ جب کہ آج بھی ان کی تعمیرات سے کروڑوں روپے کمائے جارہے ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اس قدر پھیلایا جارہا ہے کہ مسلمان صرف چارہ بن کر رہ گیا ہے۔ کیا کسی ملک کی ترقی اس صورت حال میں ممکن ہے؟ آپ عرب ممالک میں عربی بول کر تالیاں بجواتے ہیں اور ملک میں عربی اداروں کو ختم کرنے کے درپے ہیں، یہاں آپ کو اردو سے بھی نفرت ہے۔
حکومت کا کام سماج میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ ماضی کے حکم رانوں کا حساب موجودہ عوام سے لینا ظلم کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ اس ملک کے مسلمانوں کا کوئی نسلی اور نسبی تعلق ماضی کے مسلم حکم رانوں سے نہیں ہے۔ ان کے کسی عمل کے لیے نہ وہ ذمہ دار ہیں نہ جواب دہ۔ پھر وقفہ وقفہ سے ان کے نام پر انھیں کیوں ستایا جارہا ہے؟اگر کوئی شخص بھارت کے کسی سابق حکم ران کی قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی چلاجائے تو میڈیا اس پر سوالوں کی بوچھار کردیتی ہے، کیا دستور میں موجود مذہبی آزادی اسی کا نام ہے؟
موجودہ حکومتیں عوام کی منتخب حکومتیں ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں، ملک کی سالمیت، ایکتا اور اکھنڈتا کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اچھی غذا، تعلیم، روزگار کے مواقع اور احترام ہر شہری کا بنیادی حق ہے جو اسے ہر حال میں ملنا چاہیے۔ مذہبی آزادی دستور کا حصہ ہے، لیکن یہ آزادی کسی کونہیں ہے کہ وہ زبردستی اپنے مذہبی نظریات کو کسی پر تھوپنے کی کوشش کرے۔ مسلمان بحیثیت مجموعی امن پسند ہیں۔ ان کا دین کسی کو تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا، وہ دوسروں کے جذبات اور مذہبی شعائر کا احترام کرتے ہیں، اس کے باوجودان کے ساتھ مستقل عداوت کا رشتہ رکھنا، ان کے شعائر کا مذاق اڑانا، ان کے ذرائع معاش کو مٹانے کی سازشیں کرنا، ان کے ساتھ تعصب اور ناانصافی کرناچاہے وہ حکومت کی سطح پر ہویا اکثریت کی طرف سے، ظلم ہے۔ اکثریت کے ذریعے ایک طبقہ کوجس طرح زدو کوب کیا جارہا ہے اور مسلم خواتین کو آزادی دینے کے نام پر جس طرح کی قانون سازی کی جارہے نیز مسلمانوں کے ساتھ جس قسم کا نفرت آمیز رویہ اختیار کیا جارہا ہے اس کے نقصانات بھی کسی بڑے فساد سے کم نہیں ہیں۔ آج کی نئی نسل تک سوشل میڈیا کے ذریعے سب کچھ پہنچ رہا ہے، جس سے اس کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا ہے۔ نوجوان ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، ان کے اندر احساس محرومی خود ملک کا بڑا نقصان ہے۔
اس وقت مسلمانوں میں وہ نسل موجود ہے جس نے یہاں آزادی کے بعد محبت کے بہت سے مناظر دیکھے ہیں، حالاں کہ وہ آنکھیں بوڑھی ہوچکی ہیں۔ اس وقت جو نسل جوانی کی دہلیز پر کھڑی ہے اسے آئینی اداروں کی ناانصافی، سرکاری دفاتر میں نظر انداز کیے جانے کا شکوہ ہے۔ وہ کھلے عام اپنے ہندو بھائیوں کو تلواریں اور کٹاریں لہراتے ہوئے دیکھ رہی ہے، وہ مساجد کی بے حرمتی، شریعت میں دخل اندازی کو محسوس کررہی ہے اور اتفاق سے وہ علم سے بھی دور ہوتی جارہی ہے، اس نسل کی گودوں میں جو نسل پرورش پائے گی، میں سوچتا ہوں اس کی نفسیات کیسی ہوں گی؟کیا وہ محبت کے لفظ سے بھی آشنا ہوگی، کیا اس کا رد عمل ملک کے لیے سود مند ہوگا؟میری گزارش ہے ارباب حکومت سے کہ وہ نفرت کی پالیسی چھوڑ کر بقائے باہم کی پالیسی کو اپنائیں۔ آپ مسلمانوں پر ظلم کرکے انھیں ملک میں کم زور کرسکتے ہیں، مٹا نہیں سکتے۔ تغیرات زندگی کا حصہ ہیں، کل ہم جہاں تھے آج آپ وہاں ہیں، ہوسکتا ہے کل پھر ہماری باری آجائے۔