ادارتی ڈیسک سے
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد اس وقت سے ہی سرکار اوردہلی پولیس کے نشانہ پر ہیں جب وہ ملک کے دیگر طلباکی طرح راجدھانی کی مشہور یونیورسٹی جواہر لال نہرو میں اپنا کیریئربنانے اورزندگی کو سنوارنے کی جدوجہدمیں مصروف تھے۔لیکن کیریئر توکیا اس کی پوری زندگی برباد کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔ایک بار وہ پولیس کے ہتھے کیا چڑھے ، ان پر شکنجہ کستا ہی جا رہا ہے ۔ ان کے خلاف ایک کیس کمزور ہوتا نہیں، یا دوسرے الفاظ میں وہ ایک کیس سے باہر آتے نہیں کہ دوسرے کیس میں انہیں پھنسانے کا پورا انتظام کردیا جاتا ہے ۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے ملک میں یہی دیکھا جارہا ہے کہ پولیس کی نظروں میں جو چہرہ ’نرم چارہ ‘ یا ’مہرہ ‘بناپھر تو اس کے خلاف کیسوں اورمقدمات کی فہرست تیار ہونے لگتی ہے ۔ہر معاملہ میں اس کا نام ڈال دیا جاتا ہے تاکہ وہ جیل سے نکل ہی نہ سکے ۔ ایک کیس کمزور ہوگا تو دوسرے میں الجھا رہے گا ۔دوسرے میں راحت کی کرن نظر آئے گی تو تیسرا کیس اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوجائے گا عمر خالد کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔
جے این یو میں ملک مخالف نعرے سے لے کر سی اے اے مخالف تحریک تک اورپھر دہلی فسادات ، یہ سارے معاملے اپنے آپ میں عمر خالدکے خلاف منصوبہ بند سازش لگتے ہیں ۔ملک سے بغاوت کے معاملے میں عمر خالد کو پولیس پھنسانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو سی اے اے مخالف تحریک اوردہلی فسادات سے جوڑ کرانہیں اس طرح پھنسایا گیاکہ کم از کم ایک دوسال تک وہ جیل سے باہر ہی نہیں آسکتے ۔پولیس یا سرکار کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے پر کس نے مجبور کیا ،فسادات کی کھلے عام دھمکی کس نے دی ،کون لوگ اشتعال انگیز تقریریں کررہے تھے ، فسادات میں کس کمیونٹی کو سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان پہنچا اورکون اجڑایا برباد ہوا ۔پولیس اسی پرانی تھیوری پر کام کررہی ہے جو اب تک ملک میں کام کرتی رہی ہے کہ جن لوگوں نے فسادات کئے، ان کو بچایا جائے اورجس کمیونٹی کونقصان پہنچااسی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پھنسایا جائے۔ جو لوگ سچ بولتے ہیں ، سرکار اورپولیس کے رول پر سوال اٹھاتے ہیں اورجو عدم تشدد ، امن اورشانتی کی بات کرتے ہیں ۔ان کوہی گرفتار کرکےجیلوں میں اس طرح ڈال دیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف درج مقدمات کی سماعت ہی نہیں ہوسکے ۔
عمر خالد کے خلاف 2016 سے یہی کھیل ہورہا ہے ۔ا ب تو پولیس اسی دور کی کوڑی پر کام کررہی ہے کہ جن لوگوں کا سی اے اے مخالف تحریک میں ہاتھ تھا ، ان ہی لوگوں نے دہلی فسادات کروایا جبکہ دہلی فسادات کے وہ چہرے آج بھی کیمروں ،ویڈیو اوراخبارات کی خبروں میں قید ہیں جنہوں نے سی اے اے مخالف تحریک کے خلاف اشتعال انگیز سیاسی تقریریں کیں ، لوگوں کو اکسایا اورتشدد برپا کرنے کی دھمکی دی ۔
یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ جے این یو میں کن لوگوں نے ماحول خراب کیا اورکن لوگوں نے پولیس کی آنکھوں کے سامنے کیمپس میں گھس کر مارپیٹ کی اوراپنا مقصد پورا کرکے کیمپس سے باہرچلے گئے ،لیکن ان کے خلاف نہ تو کوئی کیس بنا اورنہ کوئی انکوائری ہوئی ۔ یہ سوال سماج کا ہر انصاف پسندشہری کب سے کررہا ہے لیکن کبھی پولیس کو اس کا جواب دہ نہیں بنایا گیا ۔پولیس کو اس کا بھی جواب دہ نہیں بنایا گیا کہ جس دہلی فسادات کو وہ خود منظم کہتی ہے کہ اس کی بھنک تک اسے کیوں نہیں لگی؟جب اشتعال انگیز بیانات جاری کئے جارہے تھے ،تحریک گاہوں پر لوگ ہتھیاروں سے پرامن مظاہرین کو دھمکیاں دے رہے تھے اور مظاہرہ کرنے والی خواتین کو ہٹانے کے لئے تشدد برپا کرنے کی باتیں کی جارہی تھیں تو پولیس کو اس کا خیال کیوں نہیں آیا کہ ان سب باتوں کا انجام کیا ہوسکتا ہے ؟جو فسادات تین دنوں تک بلاروک ٹوک ہوتے رہے پولیس کے ساتھ ساتھ دہلی کی دونوں سرکاریں صرف تماشا دیکھتی رہیں ۔ کہیں بھی فسادات روکنے یا لوگوں کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔جب فسادی اپنا کام کرکے فساد زدہ علاقوں سے نکل گئے تب پولیس کو یہ الہام کہاں سے ہوگیا کہ جن لوگوں نے سی اے اے مخالف تحریک چلائی تھی ان ہی لوگوں نے فسادات بھی برپا کیا ہے۔ اگر یہ بات ہے تو پولیس اس کا بھی جواب دے دیتی کہ سی اے اے مخالف تحریک چلانے والوں نے کیا خود کو ہی نقصان پہنچانے کے لئے فسادات کروایا، کیونکہ ان کو نہ تو اس کا سیاسی فائدہ ملا اورنہ ہی کائی مالی فائدہ۔ البتہ اشتعال انگیزی کرنے والوں کو خوب سیاسی فائدہ پہنچا اورانہوں نے اس کا فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی بھی ۔
عمر خالدکے خلاف پولیس نے شکنجہ کس قدر کس دیا ہے ، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے اورآرمس ایکٹ تک کی دفعات لگائی گئی ہیں، تاکہ پولیس کی کہانی عدالت میںچلے یا نہ چلے میڈیا ٹرائل خوب چل سکے ۔اسی طرح عمر خالد کو کم از کم ایک دوسال تک ضمانت نہ مل سکے ۔ویسے بھی گرفتاری کورونا کے دور میں کی گئی ہے جب اس طرح کے معاملوں کی سماعت عموماً عدالت میں نہیںہورہی ہے ۔
سی اے اے کے خلاف عرضیاں عدالت میں ایک سال سے پڑی ہیں ۔ان کی سماعت نہیں ہورہی ہیں تو دہلی فسادات کے مقدمات کی سماعت میں تیزی کہاں سے آئے گی ۔عمر خالد کے خلاف پہلا مقدمہ جے این یو میں ملک مخالف نعرے سے متعلق 2016 میں درج کیا گیا تھا، لیکن اس میں وہ جلد ہی جیل سے باہر آگئے۔ 6 مارچ 2020 کو پھر ان کے خلاف دوسرا مقدمہ درج کیا گیا جس میں 31 جولائی اورپھر 13 سمتبر کو پوچھ گچھ کے بعد ان کو گرفتار کرلیا گیا ۔ گرفتاری کے وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ان کے خلاف دودرجن سے زیادہ سنگین دفعات اس طرح لگائی جائیں گی جیسے دہلی فسادات صرف عمر خالد نے یا ان کے ساتھ طاہر حسین اورشرجیل امام جیسے دو-ایک لوگوں نے کرایا ہے۔تب سے عمر خالد عدالتی حراست میں ہیں ۔
اب تو ان کے خلاف 930 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ بھی داخل کردی گئی ہے ۔فساد بھڑکانے ، غیر قانونی طریقے سے جمع ہونے ، مجرمانہ سازش ،قتل ، مذہب، ذات پات اورزبان وغیرہ کی بنیاد پر دشمنی کو بڑھاوا دینے اورتعزیرات ہند کی دفعات لگائی گئی ہیں۔یہ ایسی دفعات ہیں جن کے تحت سات سال سے لےکرعمر قید تک کی سزائیں ہوسکتی ہیں ۔یہ تمام دفعات اس دہلی فساد کے نام پر لگائی گئی ہیں جو 24فروری 2019کوشروع ہوئے تھے،جن میں 53لوگوں کی جانیں گئی تھیں اور200 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔دہلی فسادات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان میںبیشتر جانی ومالی نقصان مسلمانوں کو ہی پہنچا تھا، کیوں کہ وہ ہی نشانے پرتھے۔ پھر بھی فسادات بھڑکانے کے لئے مقدمات بھی مسلمانوں پر ہی چلائے جارہے ہیں ۔پولیس بھلے ہی کچھ کہے ، یہ بات کسی کے حلق سے نیچے نہیں اتررہی ہے کہ مسلمان خو دکو نقصان پہنچانے کے لئے فسادات کیوں کرائیں گے ، لیکن یہ ہندوستان کے اب تک کے مسلم مخالف فسادات کی افسوس ناک اورتلخ حقیقت ہے کہ فسادات کے بعد فسادیوں کو بچایا جاتا ہے اورمظلوم مسلمانوں کو پھنسایا جاتا ہے ۔
دہلی کے فسادات کے تعلق سے قانونی کارروائی کی حقیقت یہ ہے کہ اب تک جن لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ان میں ایک بھی نام ایسا نہیں ہے جس کا فسادمیں کوئی رول ہو بلکہ جن لوگوں نے اس میں سرگرم حصہ لیا ، ان کے خلاف کوئی کارروائی تو دور، ان کو پوچھ گچھ کی رسم ادا کرنے تک کے لئے نہیں بلایا گیا ۔وہ چہرے آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں ۔پھنسائے گئے وہ لوگ جو حق با ت کی وجہ سے انظامیہ کی نگاہوںمیں کھٹکتے رہتے ہیں اورجن کا وہ منھ بند کرنا چاہتی ہے ۔آج کے دور میں اس کا سب سے آسان طریقہ ان کے خلاف مقدمہ بازی کو بنالیا گیا ہے ۔کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہرش مندر ، سیتارام یچوری ،یوگیندریادو اوراپوروانند کے نام بھی چارج شیٹ میں آسکتے ہیں ۔
عمر خالد کے خلاف تو پولیس کی کارروائی گویامنصوبہ بند طریقے سے ہورہی ہے ۔ پہلے 2016 میں جے این یو میںایک پروگرام کو لے کر ان پر غداری کا الزام عائدکیا گیا۔ پھر2017 میں بھیما کورے گائوں تشدد معاملے میں ان کا نام لیا گیا اوریہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے جگ نیش میوانی کے ساتھ اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ لوگوں کو تشدد کے لئے اکسایا اوراب دہلی فسادات بھڑکانے کا الزام۔ اس دوران اگست 2018میں دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب کے باہر عمر خالد پر فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیاتھاجس میں وہ بال بال بچے تھے لیکن یہ حملہ پولیس کے لئے اہمیت کا حامل نہیں بن سکا۔ اس کی تہہ میں جانے کی کوشش پولیس نے نہیں کی۔ اس کے بر خلاف عمر خالد کے خلاف پولیس کی کارروائیوں کا دائرہ اورمقدمات کی تعدادبڑھتی ہی جارہی ہے۔سازش کہاں اورکس کے خلاف ہورہی ہے ، اس کی گواہی توحالات وواقعات خودہی دے رہے ہیں ۔
دہلی فسادات کے تعلق سے ریکارڈ 751 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں ۔ ان میں سب سے اہم منصوبہ بند سازش سے متعلق ایف آئی آر59ہیں، جو 6مارچ کو درج کی گئی تھیں ۔ان ایف آئی آرمیں ابتدا میں تو صرف دونام تھے ایک عمر خالد اوردوسرا محمد دانش کا، لیکن جیسے ہی پولیس کو یہ احساس ہوا کہ اس کی طرف سے درج دوسرے مقدمات دیگر ملزمین کے خلاف عدالت میں ٹک نہیں پارہے ہیںاورکیس کمزور ہونے کی وجہ سے ان کو ضمانت ملنے لگی ہے تو ایف آئی آر 59میں ناموں کی شمولیت کا سلسلہ شروع ہوگیا اوردیکھتے ہی دیکھتے 15 لوگوں کے نام اس میں شامل کردیئے گئے ۔یہی وہ ایف آئی آر ہے جس میں عمر خالد اوردیگر کے خلاف یواے پی اے کی دفعات 13/16/17/18 کا اطلاق کیا گیا جن کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ جن کے خلاف یہ دفعات لگائی گئی ہیں ان کو کسی قانونی کارروائی کے بغیر ہی طویل عرصے تک جیل میں رکھا جاسکے۔ان میں ملزمین کو آسانی سے ضمانت نہیں مل سکتی ۔اسی ایف آئی آر کے ذریعہ دہلی فسادات کی پوری ذمہ داری عمر خالد اور دیگر پر ڈال دی گئی اورپولیس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ سارا فساد ان ہی لوگوں کی سازش اورلوگوں کو جمع کرنے کی وجہ سے ہوا ۔
عمر خالد کے خلاف پولیس کی جو بھی کہانی ہے ، وہ مفروضات پر مبنی ہے ۔ چاہے وہ شاہین باغ میں عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین سے ملاقات ہو ،یا امرائوتی کی تقریر کا ایک حصہ ہو یا یہ تھیوری کہ عمر خالد اوراس کے ساتھی الگ الگ تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سب نے مل جل کر فساد کی سازش رچی تھی یا امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے سے متعلق عمر خالد کی تقریریں ،ان میں کوئی یکسانیت نہیں ہے ۔سب میں جھول ہی جھول ہے ۔صرف کہانیاں ہیں،دلیل یا ثبوت کوئی نہیں ہے۔مثال کے طور پر جس طاہر حسین کے ساتھ عمر خالد کی میٹنگ کی بات پولیس نے کہی ہے کہ اس کا مفروضہ یہ ہے کہ دونوں کے موبائل لوکیشن ایک ہی جگہ کے ہیں ۔اگر موبائل لوکیشن ہی ثبوت بننے لگے تو کسی بھی واقعہ کے وقت ہزاروں موبائل لوکیشن ایک ہی جگہ کے مل جائیں گے، تو کیا یہ مان لیا جائے گا کہ وہ تمام موبائل والے کسی واقعہ کے ذمہ دار ہوں گے ۔اسی طرح ٹرمپ کے دورے سے پہلے جس تقریر میں ہندوستا ن کی تصویر ٹرمپ اوردنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے لوگوں سے گھروں سے باہر آنے کی اپیل کی گئی تھی ، اسی تقریر میں یہ بات بھی کہی گئی تھی ’ ہم نفرت کے خلاف محبت سے لڑیں گے ، ہم لوگ تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیں گے ، اگر وہ نفرتیں پھیلائیں گے توہم اس کا جواب محبت سے دیں گے، اگر وہ ڈنڈا چلائیں گے تو ہم ترنگا لہرائیں گے، وغیرہ وغیرہ ۔ حیرت ہے کہ عمر خالد کی یہ وہ تقریر ہے جسے پارلیامنٹ میں بھی اٹھایا گیا تو اوریونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ نامی تنظیم نے صحافتی بیان جاری کرکے اس کو غلط اورپوری تقریر میں سے آدھی ادھوری بات کہی تھی ،۔ پھر بھی پولیس نے اسے اپنی تھیوری بنائی اوراپنی کارروائی کی ۔
عمر خالد کے خلاف پولیس نے صرف یواے پی اے کی چار دفعات لاگو نہیں کیں بلکہ تعزیرات ہند کی دفعات 109/ 114/ 124A/ 147/ 148/ 149/ 153AA/ 186/ 201/ 212/ 295/ 302/ 307/ 341/ 353/ 395/ 419/ 420/ 427/ 435/ 436/ 452/ 454/ 468/ 471/ 34، آرمس ایکٹ دفعات 25/27 ، پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعات 3/4 اورآرڈبلیو120 جیسی دفعات شامل ہیں ۔یعنی الزام اگرچہ صرف دہلی فسادات بھڑکانے کا ہے لیکن دفعات کی طریل فہرست ہے۔اسی کو کہتے ہیں الزام ایک دفعات انیک ۔چارج شیٹ میں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے کہا ہے کہ جے این یو میں ملک مخالف نعرے لگانے کے ملزم عمر خالدسال 2020 تک کافی دور تک پہنچ چکا ہے ، اس نے مجرمانہ سازش رچی اورٹررسٹ ایکٹ کیا۔ اسپیشل سیل نے چارج شیٹ میں عمر خالد کے خلاف جو ثبوت پیش کئے ہیں ، ان میں سیلم پور کی ایک تقریرہے، جس کا فسادپھیلانے سے کوئی تعلق نہیں ہے،واٹس اپ چیٹ اورکال ڈیٹیلس ہیں،جو قانون کی نظر میں ثبوت نہیں بنتے ۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس نے اس پورے معاملہ میں عمر خالد کو ریموٹ کنٹرول سے تعبیر کیا ہے جو پردے کے پیچھے سے آپریٹ کررہا تھا ۔دہلی تشدد سے ایک دن پہلے سمستی پور کا انڈیگو کی فلائٹ سے سفر بھی فساد کی سازش سے جوڑ کر دکھایا گیا ہے ۔حیرت ہے کہ جب فسادات کا سازشی ہی شہر چھوڑ کر چلاجائے گا تو فسادات کون کرائے گا؟اسی طرح ’پنجڑہ توڑ‘ کی ممبر نتاشا یا دیگر لوگوں کے ساتھ بات چیت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر عمر خالددہلی میں فسادات کرانا چاہتا تھا تو عین موقع پر ایک دن پہلے دہلی چھوڑ کر باہر کیوں گیا ؟ یواے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار عمر خالد کا ذکر دہلی فسادات کی اڈیشنل چارج شیٹ میں بھی آیا اور ’پنچڑہ توڑ‘ کی مبینہ تین خاتون ممبران یا طالبات دیوانگنا کلیتا ،نتاشا نروال اورگلفشاںفاطمہ کے حوالہ سے یہ کہا گیا کہ ان کو عمر خالد نے تشدد پر اکسایا اوربھیڑ کو جمع کرنے کا کام کیا ۔غرضیکہ سارے ثبوت اورپوری کہانی ایسی ہے جس سے عمر خالد کو کچھ دنوں تک جیل میں رکھنے کا انتظام کیا جاسکتاہے ، لیکن کہانی اور مفروضات عدالت میں نہیں چل سکتے ۔جے این یو معاملہ میں جب غداری کے کیس میں عمر خالد کو کلیدی ملزم بناکرگرفتارکیاگیا تووہ ضمانت پر باہر آگئے اب دہلی فسادات معاملے میں کلیدی ملزم بنایا گیا تو یہاں بھی حالات پہلے سے مختلف نہیں ہوں گے ۔جب میڈیا کے ٹرائل کے لئے اس میں زیادہ مواد نہیں ملا جس کی وجہ سے میڈیا ٹرائل زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا تو عدالت میں الزامات کیسے ٹک سکتے ہیں ؟
سچ کو وقتی طور پر پریشان تو کیا جاسکتا ہے لیکن دبایا نہیں جاسکتا ۔دہشت گردی مخالف مقدمات کا حشر پورا ملک دیکھ چکاہے ۔ ٹاڈاہو یا پوٹا ی،موجودہ یواے پی اے ہویاریاستی سرکاروں کی طرف سے بنائے گئے ان سے ملتے جلتے قوانین ، ان کے تحت گرفتاری تو ہزاروں کی تعداد میں اب تک کی جاچکی ہے لیکن اگر سزا کی بات کی جائے تو ان لوگوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے جن کو ایسے قوانین کے تحت سزائیںہوئیں ۔ بیشتر ملزمین کے مقدمات عدالتوں میں نہیں چل سکے ۔ بہت سے بے قصور ثابت ہوکر رہا ہوگئے لیکن ان کی زندگی اورکیریئر تباہ ہوگیا ، مقدمہ بازی کے چکر میںان کا خاندان بھی برباد ہوگیا ۔ عام طور پر ایسے مقدمات کا یہی مقصد ہوتا ہے ۔عمر خالد کے معاملہ میں بھی کچھ ایسی ہی بددنیتی نظر آ رہی ہے ۔صحیح بات یہ ہے کہ دہلی فسادات کی حقیقی جانچ نہیں ہوئی اورنہ اصل گنہگار پکڑے جارہے ہیں بلکہ اس کی آڑ میں سی اے اے مخالف تحریک چلانے والوں کو پھنساکر سبق سکھایا جارہا ہے تاکہ وہ آئندہ پھر ایسی تحریک چلانے کی ہمت نہ کرسکیں۔دہلی فسادات کی سازش کی جانچ کی آڑمیںپرامن احتجاج کرنے والے کارکنوں اورسماجی کارکنوں کو پھنسانے کی سازش رچی گئی۔وقت کا تقاضااورضرورت ہے کہ ملک کے انصاف پسند لوگ صرف عمر خالد ہی نہیں بلکہ جتنے لوگوں کو دہلی فسادات میں پھنسایا گیا اورانہیں گرفتار کیا گیا ، ان کی رہائی کی مانگ کریں ۔ انصاف کی ہر آواز بلند ہونی چاہئے ۔ اسی میں ملک وقوم کی بہبود وترقی ہے ۔ ٭٭٭
عمر خالدکے خلاف پولیس نے شکنجہ کس قدر کس دیا ہے ، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے اورآرمس ایکٹ تک کی دفعات لگائی گئی ہیں، تاکہ پولیس کی کہانی عدالت میںچلے یا نہ چلے میڈیا ٹرائل خوب چل سکے ۔اسی طرح عمر خالد کو کم از کم ایک دوسال تک ضمانت نہ مل سکے ۔