شیئر کیجیے

تبلیغی جماعت پر کورونا کے مقدمات اورعدالتوں کے فیصلے

ابوصباحت

تبلیغی جماعت اور اس سے وابستہ لوگوں کے وہم وگمان میں بھی یہ بات کبھی نہیں آئی ہوگی کہ جس جماعت کا قیام اصلاح معاشرہ اوردعوت وتبلیغ کے لئے کیا گیا ،دنیا اوراس میں رونما ہونے والے حالات وواقعات اورمقدمہ بازی سے ان کا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس جماعت اوراس سے جڑے لوگوں کو ان ہی حالات وواقعات اورمقدمہ بازی میں گھسیٹا جائے گا ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جماعت سے وابستہ غیر ملکی مہمانوں کو جیلوں میں بند کردیا گیا ۔دعوت وتبلیغ کے بجائے جماعت پر ملک میں کورونا پھیلانے کا بیہودہ الزام لگایا گیا ۔یہ بات اب کسی سے مخفی نہیں کہ سرکاری سطح پر جماعتیوں کے خلاف منظم مہم چلائی گئی ،میڈیا نے اس کی تشہیر کی اورپورے ملک میں ملکی اورغیرملکیوں کی اتنے بڑے پیمانے پر گرفتاری کی گئی اوران کو کورنٹائن کیا گیا کہ ان سے سماج میںدہشت پیدا ہوگئی۔ کہ جو لوگ جماعت میں نکلے ہوئے تھے اوراپنے گھروں سے دور اچانک لاک ڈائون میں پھنس گئے ، ان کو گھروں میں پناہ دینا تو دور جن مساجد میں قیام کرکے وہ دعوت وتبلیغ کا دینی فریضہ انجام دیتے تھے ،وہاں بھی ان کو ٹھہرنے نہیں دیا گیا۔ایک مجرم کی طرح پولیس کو ان کے قیام کی خبر دی گئی یا پولیس نے خود ہی ان کو پکڑکر جیلوں میں بند کردیا ۔
دہلی کی بستی حضرت نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کےمرکزکے ساتھ پورے ملک میں موجود تمام تبلیغی مراکز کومقفل کردیا گیا اورسماج میں جماعتیوں کے خلاف ایسی بدگمانی پیدا کردی گئی کہ غیر مسلم کیا ، خود مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی بھی سمجھنے لگی کہ تبلیغی جماعت نے کوئی گناہ عظیم کیا ہے۔ لیکن وقت اورحالات نے ثابت کردیا کہ اپنی ناکامی اورغلطی کوچھپانے کے لئے تبلیغی جماعت کو صرف ’بلی کا بکرا‘ بنایا گیا تھا۔سرکار نے دہری پالیسی اختیار کی تاکہ تبلیغی جماعت اوراس کی آڑمیں مسلمانوں کو بدنام کیا جائے ۔ورنہ جس سرکار کو لاک ڈائون کے دوران یہ پتہ چل گیا کہ ملک میں جماعتیوں کی نقل وحرکت سے کورونا پھیلا اسے یہ کیوں نہیں پتہ چل پایا کہ لاک ڈائون میں کتنے مزدوروں کو پریشانی ہوئی ؟کتنے لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں ؟ اور کاروبار ومعیشت کو کتنا نقصان پہنچا ؟سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لاک ڈائون کے دوران کتنے مزدوروں نے سرکار پر عدم اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے نقل مکانی کی ؟ان میں سے راستے میں کتنے مرگئے ،؟ ان کو لیجانے والی کتنی ٹرینیں کس قدر تاخیر سے اپنی منزل پر پہنچیں ؟جماعتیوں کی طرح کتنے مزدوروں کو کورونا ہوا ؟اوران کے نقل مکانی کرنے کی وجہ سے کتنا کورونا پھیلا؟کتنے طبی عملے کو کورونا ہوا اوران میں سے کتنوں کی موت ہوئی ؟اسی سے جڑا اوراس وقت پیش آیا واقعہ بھی ہے کہ چین نے کتنی دراندازی کی ؟یہ سب سوالات سرکار سے اس لئے کئے گئے کہ جب کوئی بات چلتی ہے تو دور تک جاتی ہے ۔ سرکار نے ان میں سے کسی کا جواب نہیں دیا ، وہ تو صرف تبلیغی جماعت کا ریکارڈ رکھتی رہی اورپیش کرتی رہی ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن قوانین کا غلط استعمال کرکے سرکارنے اپنی غلطی اورناکامی کو چھپانے اورتبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کا کام کیا تھا جماعتیوں نے ان ہی قوانین کا صحیح استعمال کرکے خود کو بے قصور اور سرکار کوغلط ثابت کردیا ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ جماعت کا پروگرام مرکز حضرت نظام الدین میں پولیس کی جانکاری میں ہوا تھا، جماعتیوں کے ٹھہرنے کا بھی پولیس کوپتہ تھا،پھر جو غیرملکی جماعتی سرکار سے ویزا لے کر ہندوستان اورمرکزآئے تھے اوروہاں سے ملک کے دوسرے حصوں میں گئے تھے ، ان کی آمدیا مبینہ ان کے ذریعہ کورونا کے پھیلائو کی ذمہ دارتبلیغی جماعت کیسے ہوسکتی ہے؟کورونا کے دور میں بیرون ملک سے لوگ ہندوستان آتے رہے اورپازیٹیونکلتے رہے ۔
جس امریکہ میں سب سے زیادہ کورونا پھیلاہوا ہے ، وہاں کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی ہندوستان آئے اوروزیراعظم نریندرمودی نے لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں احمدآباد میں ان کا پرزور استقبال کیا اوراس کے بعد احمدآباد میں کورونا تیزی سے پھیلاجب یہ لوگ کورونا کے پھیلائو کے ذمہ دار نہیں بن سکے تو غیر ملکی جماعتی کیسے ہوسکتے ہیں جو ایئر پورٹ پر کوروناکا ٹیسٹ کرانےکےبعد ملک میں داخل ہوئے تھے ۔پھر جب تبلیغی مرکز نے جنتاکرفیو اورلاک ڈائون کے وقت خود ہی انتظامیہ اورتھانے کو خطوط بھیج کرجماعتیوں کے مرکز میں ٹھہرنے کی جانکاری دے دی تھی اوران کو ان کے گھر بھیجنے کا انتظام کرنے کی درخواست کی تھی لیکن وہ انتظام تو نہیں کیا گیا الٹے اسی جانکاری کی بنیاد پر موقع دیکھتے ہی مرکز پر چھاپہ مارکروہاں موجود جماعتیوں کو ہنگامہ خیز انداز میں اٹھایا گیا ، ان کو کورنٹائن کیاگیا، سب کا کورونا ٹیسٹ بھی نہیں کرایا گیا اورساکیت کی عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا جو سراسر ناانصافی تھی اوراس صورت حال کی جتنی ذمہ دار مرکزی حکومت تھی اس سے کم دہلی سرکار نہیں تھی ۔
غور طلب امریہ ہے کہ جماعتیوں کی گرفتاری کی مہم ملک بھر میں اس وقت چلائی گئی اوران کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی رہی جب کورونا کا ہاٹ اسپاٹ قرار دیئے گئے حضرت نظام الدین مرکز سے جماعتیوں کو اٹھانے کے بعد تین دنوں تک پورے علاقے کو سینیٹائز کیا گیا اورلوگوں کی کورونا جانچ کی گئی لیکن کورونا کا ایک بھی کیس نہیں نکلا تو جس تبلیغی مرکز سے قرب وجوار کے علاقے میں کورونا نہیں پھیلا ، پورے ملک میں کیسے پھیل سکتا ہے ؟اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سرکار نے تبلیغی جماعت کے خلاف کارروائی کرکے ایک تیر سے کئی شکار کئے ۔تبلیغی جماعت صرف ایک بہانہ تھی ، اس کی آڑ میں پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت وتعصب اوردشمنی پھیلانے کی گہری سازش کی گئی جسے مسلمان بھی نہیں سمجھ سکے ۔غیرمسلم علاقوں میں مسلمانوں کو سبزی وپھل بیچنا اورکاروبار کرنا مشکل ہوگیا۔اسپتالوں تک میں ان کے ساتھ تعصب کے واقعات سامنے آئے ۔حالت یہ ہوگئی کہ خود مسلمانوں کوہی کورونا کا وائرس سمجھاجانے لگا اوران کے ساتھ ویساہی سلوک کیا جانے لگا ۔
کورونا کے پھیلائو کے نام پر تبلیغی جماعت اورجماعتیوں کے خلاف ملک بھر میں کتنے بڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی ، کورونا کے کتنے معاملوں سے انہیں جوڑا گیا ، کتنی گرفتاریاں کی گئیں ، کتنوں کے خلاف مقدمات چلائے گئے اوران کا حشر کیا ہوا اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ کتنے جماعتیوں کا کووڈ۔19ٹیسٹ کیا گیا اورکتنوں کو کورنٹائن کیا گیا ، سرکاری طور پر اس کے اعدادوشمار سامنے نہیں آئے ۔البتہ وکی پیڈیا نے وزات صحت کے یومیہ بلیٹن سے ضرورکچھ ریکارڈ جمع کئے ہیںجو اس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔اس کے مطابق 18اپریل کو وزات صحت نے کہا کہ ملک کی 23ریاستوں اورمرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 14,378کیس سامنے آچکے جن میںسے 4,291کالنک تبلیغی جماعت سے ہے ۔اس وقت وزارت صحافت یومیہ بریفنگ میں بتاتی تھی کہ کہاں کتنے نئے کیس سامنے آئے اوران میں سے کتنوں کا تعلق جماعتیوں یا ان کے رابطہ میں آنے والے لوگوں سے ہے ۔
2اپریل کو مرکزی وزارت داخلہ نے تبلیغی اجتماع میں شریک 960غیرملکی جماعتیوں کی پہچان کرکے ان کے ویزا کو بلیک لسٹ کردیا۔حکومت دہلی کی ہدایت پر 30مارچ کو دہلی پولیس نے تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کاندھلوی کے خلاف ایف آئی آر درج کی اوران کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مار کارروائی شروع ہوئی جوابھی تک پولیس کی رسائی سے دور ہیں ۔ایک طرف سرکارکی طرف سے جماعتیوں کے خلاف یہ کارروائی دوسری طرف جماعتیوں کی انسانیت نوازی دیکھئے کہ جب دہلی میں کورونا کے مریضوں کوپلازمہ تھیرپی دینے کا فیصلہ کیا گیا اورلوگ پلازمہ دینے سے کترارہے تھے تومولانا سعد کی اپیل پر ان ہی جماعتیوں نے آگے بڑھ کرپلازمہ عطیہ کرنے کی پیش کش کی اوردیا بھی ، اس وقت ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے والی سرکاروں نے نہیں کہا کہ جماعتیوں سے پلازمہ نہ لیا جائے، بلکہ خوشی خوشی لیا گیا اور جماعتیوں کے ذریعہ عطیہ کئے گئے پلازمہ سے سیکڑوں لوگوں کی جانیں بچیں ۔ہندوستان میں کورونا کو تبلیغی جماعت یا مسلمانوں سے جوڑنے اورجماعتیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی ایسی مہم چلائی گئی کہ ملک ہی نہیں بیرون ملک سے اس پر سوالات کھڑے کئے جانے لگے ۔ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے ایگزیکیوٹوڈائرکٹر مائیکل ریان کو یہ بیان دینا پڑ ا کہ کورونا وائرس کے مریضوں کی پہچان مذہب ، زبان یا نظریہ کی بنیاد پر نہیں کرنی چاہئے اورنہ اس کی تشہیر کرنی چاہئے ۔مہاراشٹر کے وزیراعلی ادھو ٹھاکرے نے بھی کہا کہ کورونا کے خلاف لڑائی کوفرقہ وارانہ رنگ نہیں دینا چاہئے کیونکہ کووڈ ۔19کاکوئی مذہب نہیں ہوتا ۔وہاں کے وزیرداخلہ انل دیشمکھ نے دہلی پولیس پر اس بات کے لئے تنقید کی کہ جب کورونا پھیل رہا تھا تو اس نے تبلیغی مرکز کو اجتماع کرنے کی اجازت کیوں دی ؟بہر حال جو لوگ مسلمانوں میں کورونا تلاش کررہے تھے اوراس کی تشہیر کررہے تھے ، جب ان کو کورونا ہوا تو یہ نہیں بتایاگیا کہ وہ کن جماعتیوں کے اورکیسے رابطے میں آئے ؟ اوران کو کورونا کیسے ہوگیا ؟ نیز ان سے مزید کتنے لوگوں میں کورونا پھیلا؟
جس تبلیغی جماعت کے اجتماع کا رونا رویا گیا اوراس سے کورونا پھیلنے کا الزام لگایا گیا اس میں شرکاء کی تعداد بشمول 960غیرملکی صرف 9000تھی لیکن ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں تقریبا 40ہزار جماعتیوں ، ان کے رشتہ داروں یا ان کے رابطہ میں آئے لوگوں کو کورنٹائن کیا گیا ۔تقریبا 6 ماہ تک جماعتیوں کے خلاف پرزور مہم چلتی رہی اوراس کی وجہ سے ایک بڑی آبادی کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ تبلیغی جماعت ہی کی وجہ سے ملک میں کورونا پھیلا۔یہ تو اچھا ہوا کہ ممبئی ہائیکورٹ کی اورنگ آباد بینچ کا جماعتیوں کے خلاف کورونا کے معاملہ وہ تاریخی فیصلہ آگیا جو اس معاملہ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اوربعد میں دیگر عدالتوں کے فیصلوں کے لئے نظیر بن گیا ۔جب وہ فیصلہ آیا تھا تو اس وقت تک تقریبا40ممالک کے 3500غیرملکی جماعتی گرفتار ہوچکے تھے جو بہت بڑی بات ہے۔ لیکن دیر آید درست آید، اس فیصلہ اورجسٹس ٹی وی نلوڑے وجسٹس ایم جی سیلولیکر پر مشتمل بینچ کے ریمارکس نے سب کی بولتی بند کردی۔دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی کردیا ۔، سرکار سے لے کر عوام تک سب کو آئینہ دکھادیا ۔ ہائیکورٹ کی بینچ نے اپنے فیصلہ میں صاف صاف کہدیا کہ غیرملکی جماعتی حکومت ہند کی طرف سے جاری ویزاپر ملک آئے تھے ،ان کے آنے کا مقصد یہاںکی تہذیب ، مہمان نوازی اورکھانے کا تجربہ کرنا تھا ۔ 58صفحات پر مشتمل فیصلہ میں کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’اتی تھی دیوو بھوہ‘(مہمان دیوتا ہوتا ہے) کی ملک کی عظیم روایت پر عمل کرنے کے بجائے غیرملکی مہمانوں پر ظلم کیا گیا ۔
نہ تو ریکارڈ پر موجود دستاویزات کے مطابق غیر ملکیوں کے مذہبی مقامات پر جانے کی پابندی ہے اورنہ ہی تبلیغی جماعت مسلمانوں کا کوئی الگ طبقہ ہے، بلکہ وہ مذہب کی اصلاح کی تحریک ہے جس کی ضرورت ہمیشہ سماج میں تبدیلی کے لئے ہوتی ہے ۔اسی کی وجہ سے ہر مذہب کی تشہیر ہوئی ہے ۔ کہیں سے بھی یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے غیرملکی جماعتی اسلام کی تبلیغ کررہے تھے ۔ہائیکورٹ نے تبلیغی مرکز کے اجتماع میں شریک ہونے والے 35جماعتیوں جن میں سے 29غیرملکی تھیء ان کے خلاف ایف آئی آر خارج کرتے ہوئے وہ اہم تبصرہ بھی کیا جو اس فیصلہ کا سب سے اہم حصہ ہے کہ وبائی بیماری اورآفت کے وقت سرکار ’بلی کا بکرا ‘ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے اورحالات بتاتے ہیں کہ ان جماعتیوں کو ’ بلی کا بکرا ‘ بنانے کے لئے چنا گیا ۔ان کی ایسی شبیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان میں یہی لوگ کووڈ۔19پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اور ان کو ہراساں کیا گیا ۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں وہ بات بھی کہہ دی جو برسوں سے مسلمان کہتے آرہے ہیں کہ اس طرح کا پروپیگنڈہ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا چلاتاہے ۔پھر بھی حیرت ہے کہ ایک طرف ممبئی ہائیکورٹ کے یہ ریمارکس اوردوسری طرف سپریم کورٹ میں مرکز کاحلف نامہ جو اس نے مسلمانوں کے بارے میں میڈیا کے غلط پررپیگنڈے کے خلاف جمعیتہ علماء ہند کی عرضی میں کورٹ کی ہدایت پر داخل کیا جس میں اس نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے بارے میںمیڈیا کونہ رپورٹنگ سے روکا جاسکتا ہے اورنہ تبلیغی مرکز کے بارے میں بیشتر خبریں غلط تھیں ۔مطلب ان کی کچھ خبریں صحیح تھیں اوران کوجھوٹی خبریں چلانے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ایسے میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سرکار اورمیڈیا کے درمیان ساز باز ہے اوردونوں مل کر کام کررہے ہیں ، اسے غلط نہیں کہا جاسکتا ۔
بہر حال بمبئی ہائیکورٹ کے ٖفیصلہ سے تبلیغی جماعت اوراس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف کورونا کے غبارے کی ہوا کیا نکلی ملک کی دیگر عدالتوں سے بھی اسی طرح کے فیصلے آنے لگے اورملکی وغیر ملکی جماعتیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔تھانے کی عدالت نے جماعتیوں کی رہائی کا فیصلہ سنایا تو الہ آباد ہائیکورٹ سے ان کی رہا ئی کا حکم صادرہوا تازہ دہلی کی ساکیت عدالت سے 15دسمبر کو 36غیرملکی جماعتی رہا ہوئے ہیں ۔ آگے بھی اورعدالتوں سے جماعتیوں کی رہائی کا فرمان صادر ہونے کا امکان ہے ۔کتنے غیرملکی جماعتی رہاہوکر اپنے وطن چلے گئے اورملکی جماعتی بھی اپنے گھروں کو پہنچ کر راحت کی سانس لی ۔جن غیر ملکیوں کے ساتھ کورونا کے نام پر ظلم کیا گیا ، کسی نے ایک لمحہ کے لئے نہیں سوچاکہ اس سے بیرون ملک کتنی بدنامی ہوئی اوراس سے ملک کو کتنا معاشی نقصان ہوگا ۔سیاحت کے نام پر ملک کی غیرملکیوں سے جو آمدنی ہوتی ہے اس میں غیرملکی جماعتیوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ جن لوگوں نے کورونا کے نام پر تبلیغی جماعت اوراس کی آڑمیں مسلمانوں کو بدنام کیا ،خود ان میں بڑی تعداد میں کورونا کے مریض پائے گئے۔ زی نیوز کے دفتر میں بھی بڑی تعداد میں کورونا کے مریض نکلے۔ کورونا کے دوران مدھیہ پردیش کی شیوراج سنگھ سرکار کی حلف برداری ہوئی ، ملک میں قانون ساز کونسل اوراسمبلی وپارلیامنٹ کے ضمنی اوربہار کے اسمبلی انتخابات ہوئے ، اسمبلیوں اورپارلیامنٹ کے اجلاس ہوئے اوردیوالی کے بعد اچانک دہلی میں کورونا کے کیسوں میں تیزی سے اضافہ ہوا کسی نے بھی نہیں کہا کہ ان کی وجہ سے بھی ملک میں کورونا پھیلا۔ بدنیتی اورفرقہ پرستی کی وجہ سے صرف تبلیغی جماعت اورمسلمانوں کو ہی بدنام کرنے کی مہم چلائی گئی جس کی حقیقت دیر سے ہی سہی لیکن سامنے آگئی ۔
٭٭٭

غیر ملکی جماعتی ملک میں کورونا پھیلاؤ کے ذمہ دارکیسے ہوسکتے ہیں جو ایئر پورٹ پر کوروناکا ٹیسٹ کرانےکےبعد ملک میں داخل ہوئے تھے ۔پھر جب تبلیغی مرکز نے جنتاکرفیو اورلاک ڈائون کے وقت خود ہی انتظامیہ اورتھانے کو خطوط بھیج کرجماعتیوں کے مرکز میں ٹھہرنے کی جانکاری دے دی تھی اوران کو ان کے گھر بھیجنے کا انتظام کرنے کی درخواست کی تھی لیکن وہ انتظام تو نہیں کیا گیا الٹے اسی جانکاری کی بنیاد پر موقع دیکھتے ہی مرکز پر چھاپہ مارکروہاں موجود جماعتیوں کو ہنگامہ خیز انداز میں اٹھایا گیا ، ان کو کورنٹائن کیاگیا، سب کا کورونا ٹیسٹ بھی نہیں کرایا گیا اورساکیت کی عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا جو سراسر ناانصافی تھی اوراس صورت حال کی جتنی ذمہ دار مرکزی حکومت تھی اس سے کم دہلی سرکار نہیں تھی ۔