دہلی اور پنجاب کے نتائج مایوس کن کیوں رہے؟

سہیل انجم
جون 2024

کانگریس اور عام آدمی پارٹی ایک دوسرے کی حریف پارٹیاں ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے جہاں بی جے پی کے بہت سے ووٹرز کو اپنے حق میں کیا ہے وہیں اس کی عوامی مضبوطی کی بنیاد کانگریس کے روایتی ووٹرز بھی ہیں۔ دونوں کے رہ نما ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔ جب اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد بنانے کا آغاز ہوا تو اس میں عام آدمی پارٹی کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ شروع میں عام آدمی پارٹی نے جھجک کا مظاہرہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت دہلی کے لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) کے توسط سے اس کی حکومت کے خلاف اقدامات کر رہی ہے اور اسے کام نہیں کرنے دے رہی ہیں، اس کی مخالفت کانگریس بھی کرے اور وہ اس معاملے میں اس کا ساتھ دے۔ کانگریس کے اندر اس سلسلے میں اختلاف رائے تھا۔ بہت سے لیڈر اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ عام آدمی پارٹی اس کی کٹر مخالف ہے اور اس کی حمایت کرنے کا مطلب ہوگا اپنی عوامی بنیاد کھو دینا۔ لیکن بہرحال کافی غور و خوض کے بعد کانگریس نے اس کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا جس کے جواب میں اس نے اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

جب دونوں اپوزیشن کے اتحاد میں شامل ہو گئے اور مختلف ریاستوں میں اتحاد کی پارٹیوں کے درمیان انتخابی مفاہمت کی کوشش کی جانے لگی تو ان دونوں کے درمیان بھی اتحاد کی کوشش شروع ہوئی جس کی کانگریس کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے مخالفت کی جانے لگی۔ لیکن بہرحال اعلیٰ کمان کے دباؤ میں لوگ تیار ہو گئے۔ لیکن عام آدمی پارٹی صرف دہلی میں اتحاد کرنے کی خواہش مند تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دوسری ریاستوں میں اور بالخصوص پنجاب میں کانگریس سے اتحاد کرنے کی صورت میں اس کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اس نے صرف دہلی میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا۔ کانگریس نے اسے بھی برداشت کر لیا۔ دراصل عام آدمی پارٹی کا خیال تھا اور کانگریس کا بھی کہ اگر یہ دونوں پارٹیاں مل جائیں تو بی جے پی کو شکست دے سکتی ہیں۔ بہرحال اتحاد ہو گیا اور انتخابی مہم شروع ہو گئی۔ لیکن مہم کے دوران بار بار یہ بات سامنے آتی رہی کہ دونوں میں اتنا اچھا تال میل نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔ حالاں کہ دونوں پارٹیوں کے لیڈر اور ورکر ایک ساتھ مل کر مہم چلاتے رہے اور انھوں نے مشترکہ ریلیاں بھی کیں۔ لیکن وہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا جس کی توقع تھی۔

ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ ساتوں نہیں تو کم از کم تین چار سیٹیں تو بی جے پی گنوا دے گی۔ جب چار جون کو ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو ابتدا میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے بعض امیدوار آگے رہے۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ وہ پچھڑنے لگے اور بالآخر بی جے پی ساتوں سیٹیں مار لے گئی۔ اب اس کے اسباب کا جائزہ لیا جائے گا۔ لیکن سردست دونوں پارٹیوں کے اندرونی ذرائع سے ملی اطلاعات کے مطابق ان دونوں پارٹیوں میں ہم آہنگی کی کمی رہی۔ انتخابی مہم بھی مضبوط انداز میں نہیں چلائی گئی۔ دونوں پارٹیوں کے لیڈر اور ورکر کھل کر اور دل و جان سے مہم میں شریک نہیں ہو سکے۔ جس کے نتیجے میں اس اتحاد کو نقصان اٹھانا پڑ گیا۔ ویسے دہلی کی ساتوں پارلیمانی سیٹیں عام طور پر بی جے پی ہی جیتتی رہی ہے۔

دہلی کے عوام کا کہنا ہے کہ دہلی میں کیجری وال اور مرکز میں نریندر مودی۔ بہرحال اس الیکشن میں دہلی میں کانگریس کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کانگریس کو شمال مشرقی اور شمال مغربی سیٹوں پر زیادہ نقصان ہوا جس کے نتیجے میں اس کے ووٹ شیئر میں گراوٹ آگئی۔ 2019 میں اسے 22 فیصد ووٹ ملے جو اس بار کم ہو کر 19 فیصد پر آگئے۔ لیکن عام آدمی پارٹی کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کو چھ فیصد ووٹ زیادہ ملے۔ ا س کا ووٹ شیئر 24 فیصد تک پہنچ گیا۔ بی جے پی نے اگر چہ ساتوں سیٹیں جیت لیں لیکن اس کے ووٹ شیئر میں کمی آئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں اسے 56 فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس بار وہ کم ہو کر 54 فیصد تک رہ گئے۔

دونوں پارٹیوں کے اندرونی ذرائع اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جس منظم انداز میں دہلی میں انتخابی مہم چلانی چاہیے تھی ویسی نہیں چلائی گئی۔ البتہ دونوں کو ایک فائدہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ اقلیتی ووٹ تقسیم نہیں ہوا۔ 2020 کے اسمبلی انتخابا ت میں مسلمانوں کا ووٹ بٹ گیا تھا۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں عام آدمی پارٹی کو کافی نقصان ہوا تھا۔ شاید اس بات کا احساس کیجری وال کو رہا ہوگا اسی لیے انھوں نے کانگریس سے سمجھوتا کیا۔ اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا کہ کانگریس کا ووٹ عام آدمی پارٹی کو مل جائے۔ حالاں کہ دہلی کے مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کی حمایت شروع سے کی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے کانگریسی مسلمان بھی اس کی طرف آئے ہیں لیکن اس نے مسلمانوں کو مرکز میں رکھ کر کوئی پروگرام نہیں بنایا۔ بلکہ اقلیتوں سے متعلق ادارے معطل ہو کر رہ گئے۔ ان میں کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ خواہ اقلیتی کمیشن ہو یا اردو اکیڈمی ہو یا پھر اس قسم کے دیگر ادارے ہوں۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کا ساتھ دیا۔ اس بار بھی انھوں نے اس کا ساتھ دیا اور جہاں جہاں اس کے امیدوار تھے مسلمانوں نے کھل کر اس کی حمایت کی۔ کانگریس کے بعض لیڈروں کا کہنا ہے کہ کانگریس کے ووٹ تو عام آدمی پارٹی کو مل گئے لیکن عام آدمی پارٹی اپنے ووٹ کانگریس کے حق میں ٹرانسفر کرانے میں ناکام رہی۔ جب کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اس کی وجہ روابط اور تال میل کی کمی بتاتے ہیں۔

جہاں تک پنجاب کا معاملہ ہے تو عام آدمی پارٹی کا خیال تھا کہ ریاست میں اس کی کارکردگی بہت اچھی رہے گی اور اسے کسی پارٹی سے اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے ریاست کی تمام 13 سیٹوں پر قبضہ کرنے کا پلان بنایا تھا۔ اس مقصد کے تحت ہی اس نے وہاں کانگریس سے انتخابی اتحاد نہیں کیا۔ حالاں کہ یہ اس کی بہت بڑی غلطی تھی۔ لیکن وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ وہ تمام سیٹیں اپنی جھولی میں ڈال لے گی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب 2022 میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے تو اس نے 117 میں سے 92 سیٹیں جیت لی تھیں۔ وزیر اعلیٰ بھگونت مان اور کیجری وال دونوں کا خیال تھا کہ کسی سے اتحاد کرنے کی صرورت نہیں ہے۔ اس کا اسے زبردست نقصان ہوا۔ ریاست کی 13 پارلیمانی سیٹوں میں سے اسے صرف تین سیٹیں ملیں جب کہ کانگریس نے سات سیٹیں جیت لیں۔ اس نتیجے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان میں اتحاد ہوا ہوتا تو ممکن ہے کہ وہ تمام سیٹیں جیت لیتے۔

وزیر اعلیٰ بھگونت مان سمجھتے تھے کہ ان کی حکومت کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات ان کی حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہے۔ یعنی ان کی حکومت بہت اچھی چل رہی ہے۔ اس سے عوام خوش ہیں۔ لہٰذا وہی تمام سیٹوں پر قابض ہوگی۔ لیکن متعدد اسباب سے عام آدمی پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے ووٹ شیئر میں کمی آگئی۔ اس کا ووٹ شیئر 42 فیصد سے گر کر 26 فیصد تک آگیا۔ حالاں کہ دو سال پہلے ہی یہ حکومت قائم ہوئی ہے لیکن عوام اس سے نالاں ہیں۔ گوکہ اس نے عوام کو خوش کرنے کے لیے متعدد سرکاری اقدامات کیے تھے۔ جیسے کہ تین سو یونٹ مفت بجلی دینا۔ مفت عام آدمی محلہ کلینک کا قیام، نہروں کی مرمت اور نئے اسکولوں کا قیام وغیرہ۔ لیکن اس کے یہ اقدامات عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہے۔

اس سے عوام کی ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے ارکان اسمبلی تک عوام کی رسائی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے ایم ایل اے سے مل کر اس کے سامنے اپنا کوئی مسئلہ رکھنا چاہتا ہے تو وہ اپنے ایم ایل اے سے مل نہیں سکتا۔ بتایا جاتا ہے کہ 80 فیصد ارکان اسمبلی اپنے ووٹرز اور عوام سے کٹے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ انھیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ ان کے حلقۂ انتخاب میں لوگوں کو ان کا انتظار ہے۔ انھیں اپنے عوام کے مسائل حل کرنے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے خود کو ہمیشہ کے لیے منتخب شدہ مان لیا جس کی وجہ سے انھوں نے عوام کے کام آنے اور اپنے فرائض کی ادائیگی ضروری نہیں سمجھی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ دہلی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی خراب کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ لوگوں نے اتحاد کے سلسلے میں اس کے رویے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ان کے خیال میں دہلی میں کانگریس سے اتحاد کرنا اور دوسری ریاستوں میں اس کے مقابلے پر لڑنا اس کا چالاکی بھرا قدم تھا۔ جب کہ کانگریس پنجاب میں بھی اس سے اتحاد چاہتی تھی۔ لیکن بہرحال وہ نہیں ہو سکا۔ جس کا خمیازہ عام آدمی پارٹی کو بھگتنا پڑا۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.