یا أخی!
میں نے صدیوں تلک تم کو آواز دی
اک صدائے حزیں
چیخ بن کر خلاؤں میں پھرتی رہی
تم نہیں سن سکے!
بے حسی پر أخی
بزمِ افلاک سے ”جسمِ واحد” کا فرمان جاری ہوا
تم نے رد کر دیا!
تم پہ لازم ہے اب
داستانِ تباہی سنو یا أخی!
عین اس وقت تم جس گھڑی
مصلحت کی ردا تان کر سو گئے تھے أخی
میری آغوش میں بیٹیاں بے ردا ہو گئیں
میرے خیموں پہ شب خون پڑتے رہے
میرے جانباز مصلوب ہوتے رہے
ناتواں بازوؤں پر جواں سال بیٹوں کے لاشے اٹھے
ماؤں کے سامنے ان کے کبرو جواں سولیاں چڑھ گئے
ننھے بچوں کے سر پر کفن بندھ گیا
شیر خواروں کے منھ سے لگی ماؤں کی چھاتیاں نوچ ڈالی گئیں
اور دشمن نے اپنے دہکتے ہوئے آتشی اسلحے میرے سینے پہ ٹھنڈے کیے
ہائے تم چپ رہے!
جب کبھی میرے سینے کو داغا گیا بزمِ انسانیت میں چراغاں ہوا
اور امن و اماں کے صحیفے کھلے کے کھلے رہ گئے!
امن کی آڑ میں سر زمینِ قدس جنگ کی چھاؤنی بن گئی
عورتیں، بوڑھے، بچے سبھی
امنِ عالم کے سفاک جبڑوں میں پھینکے گئے
اور ارضِ فلسطین پر خون کی ندیاں بہتی رہیں
دشمنوں سے بھلا کیا گلہ یا أخی
تم بھی چپ چاپ محوِ تماشا رہے!
سر زمینِ قدس سرخ ہوتی رہی
پر تمھاری رگوں کا لہو منجمد ہو گیا
پھر جسے میرے خیموں سے اٹھتی ہوئی آگ تک بھی نہ پگھلا سکی
سانحہ ہے أخی!
جب مری آنکھ کے سارے منظر لہو ہو گئے
عین اس وقت تم سبز رنگوں سے محظوظ ہونے میں مشغول تھے!
کب تلک یا أخی
کب تلک کوئی جبرِ مسلسل سہے
آخرش ہم بھی تھک ہار کر بے رسد بھِڑ گئے
اور پھر سارے عالم نے دیکھا کہ اس شام صیہونیت کی صفوں میں بڑا رَن پڑا
یاد رکھنا مگر
عالمِ ظلم سے تنہا لڑتے ہوئے میرے بچے اگر بچ گئے
تو تمھاری جبینوں پہ اپنے لہو سے لکھیں گے فسانے سبھی مصلحت کے أخی!