رام کی حقیقت

قابیل،کپل یا وشنو کے ساتویں اوتار

عبداللہ دانش
جولائی 2024

اندور مدھیہ پردیش کے چڑیا گھر میں ایک مجسمہ نصب ہے جس کا سر دو سینگ والے چوپائے کے مانند ہے اور باقی جسم انسان کا ہے اس کے ایک ہاتھ میں نیزه اور بازو میں لٹکا ہوا ایک نصف دائری اوزار ہے۔ اس کی مخصوص بناوٹ کی وجہ اس مضمون میں آگے آئے گی ۔ اس مجسمے کے بارے میں معلوم کرنے پر گائیڈ نے بتایا کہ یہ مصر (Egypt) کے ایک دیوتا کا مجسمہ ہے۔ مصر کے دیوتا کا مجسمہ ہندوستان کے چڑیا گھر میں پرندوں والے حصے میں کیوں نصب ہے اور اس سے یہاں کے لوگوں کو دلچسپی کیوں پیدا ہوئی؟ آگے اس کی وضاحت ہو جائے گی۔
تصویروں کے ذریعے تاریخ نگاری اہرام مصر کی دیواروں اور وہاں کے قدیم آثار پر ایک خاص زبان میں اس زمانے کی تاریخ نقش ہے۔ اس زبان کو ہائروگلف (Hieroglyphs) کہتے ہیں۔ اس زبان میں اس زمانے کی تاریخ اور حالات بیان کرنے کے لیے تصویروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ دنیا کی قدیم تاریخ کے مآخذ میں سے ایک آثار قدیمہ میں نقش مورتوں کی بناوٹ بھی ہے، جن سے مذہبی اور سیاسی تاریخ کا اندازه لگایا جاتا ہے ۔ شیو (शिव) کی مورت کے اوپر ناگ یا وشنو (विष्णव) کا پھن ظاہر کرتا ہے کہ وشنو شیو کی حفاظت کر رہا ہے،اور جس مورت میں ناگ شیو کو لپیٹے ہوئے ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وشنو نے شیو پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ اندور کے چڑیا گھر میں جو مجسمہ نصب ہے، وه اسی تاریخی زبان و بیان کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح رام چرت مانس میں ایک کردار کاک بھشنڈ (भुशुंड)پایا جاتا ہے ۔ اس کردار کا سر پرندے کا ہے اور باقی جسم انسان کا ہے۔ واضح رہے کہ ہندی زبان میں کاک کوئے کو کہتے ہیں اور قابیل کو اپنے بھائی کی لاش کو چھپانے کا طریقہ کوئے ہی کے ذریعے سکھایا گیا تھا- قابیل نے چوں کہ کوئے سے نعش چھپانے کا طریقہ سیکھا اس لئے اس واقعے کو بیان کرنے کے لئے سر کوئے جیسا دکھایا گیا۔ قابیل نے ہابیل کے قتل اور ہندوستانی آثار کے مطابق خلافت ارضی سے عاق کر دئے جانے کے بعد ناراضگی میں جو جانوروں والے کام کئے ان کو ظاہر کرنے کےلیے اس جانور کا سر انسانی جسم سے جوڑ کر دکھایا گیا ہے۔ مذکوره بالا مجسمہ میں جو نیزه اور نصف دائری اوزار ہے، وه اس زمانے کے اسلحے ہیں جن کا استعمال ہابیل کو قتل کرنے کے لئے قابیل نے کیا تھا۔
کیا رمسیس دوم ہی رام ہے؟
ولاڈی وینکٹ رتنم کی کتاب ” رام مصر کا عظیم فرعون ” کے مطابق رام کا قصہ در اصل مصر سے تعلق رکھتا ہے۔یہ قصہ نارد نے والمیکی کو سنایا تھا اور والمیکی نے اسے منظوم شکل میں پیش کیا۔ ایشیا کے تمام مذہبی فرقوں نے اس قصہ کو اپنے اپنے طریقہ سے پیش کیا ہے۔ اسی لئے ہندوستان میں رامائن کے مختلف متغیرات پائے جاتے ہیں اور ان میں جو کردار بیان کیے گئے ہیں، ان میں رام اور راون کی کہانی کو ان کے گرد دیو مالائی قصے گھڑ کر مسخ کر دیا گیا ہے اور اس قصہ میں در پیش مقامات کو ہندوستانی مقامات سے بدل دیا گیا ہے۔ ہندو مقدس کتابوں میں اسمرتیوں میں ایک کپل اسمرتی شامل ہے۔ کپل سمرتی کے ایک شلوک میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
कुबुध्दय: कुबोध्दार: कुत्सिताचारकारका:
नावलोक्या: न सम्भाष्या: विप्रनाम् कथारका:
) कपिल स्मृति 50)
یعنی یہ لوگ بری عقل والے ہیں، ان کے دین کا فہم بھی گمراہ کن ہے، حالانکہ ان کا دعوی ہے کہ وه دین کا علم رکھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وه بے دین ہیں۔ انہوں نے جس چیز کو دین کے مثالی نمونے کے طور پر پیش کیا ہے، وه خدا کا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ خدائی تعلیم کی تحریف کا نتیجہ ہے۔ وید (خدائی کلام) کے دین میں جو ہدایت موجود ہے اس کو انہوں نے نہ تو پڑھا ہے اور نہ سمجھا ہے – یہ ایسے لوگوں کا گروه ہے جو ایمان والوں کی قوم سے عاق کر دیے گئے تھے اور وه دین کے نام پر دیو مالائی کہانیاں گھڑتے رہتے تھے ۔ یا قابیل ہی کپل وشنو کا اوتار رام ہے؟ کپل اسمرتی کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کی سند کیا ہے؟
یہ کتاب اسمرتیوں کے مجموعے اسمرتی سندربھ ( स्मृति संदर्भ) کا حصہ ہے۔ اس طرح اس کی تاریخی حیثیت اسی طرح ہے، جس طرح منو اسمرتی اور دیگر اسمرتیوں کی ہے۔ انسانی تاریخ کی وضاحت جس قدر اس قدیم ماخذ سے ہوتی ہے، اس قدر کسی دوسری کتاب سے نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے مذہب کی جامع تاریخ بھی سامنے آتی ہے۔ (جہاں تک وید کا مذہبی کتاب کی حیثیت سے تعلق ہے، تو موجوده ویدوں کو ویدانت کہا جاتا ہے۔ ویدانت کے دو معنی بتائے جاتے ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ وه کتاب جس میں وید کے بارے میں سب کچھ کہ دیا گیا، یعنی یہ وید کا متن نہیں ہیں بلکہ انکی تفسیر یا تعارف ہیں۔ دوسرا معنی وید کا خاتمہ ہے، اور یہی مفہوم قرین قیاس بھی ہے۔ کیونکہ بعض دانشور کہتے ہیں کہ اصل وید جرمنی میں ہے، گو کہ وید کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ وه آسمانی کلام ہے، لیکن موجوده وید ایسا دعو ٰی نہیں کرتا۔ لہذا اس مضمون میں جہاں دین وحی آیا ہے اس سے مراد موجوده رگ وید نہیں بلکہ اصل واق وید لیا جائے گا۔)
اسی کپل اسمرتی کے پہلے ہی شلوک میں رام اور راون /بھوو منوکی اصل کہانی کی طرف اشاره ملتا ہے۔ اس شلوک سے انسانی تاریخ کی ایک پہیلی کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے۔ اب تک کی تاریخ ایسا تاثر دیتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تک تمام انبیاء عرب علاقوں میں ہی آئے ہیں اور گویا باقی دنیا کے انسانوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن یہ کتاب ہمیں بتا رہی ہے کہ باقی علاقوں کے انسان بھی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور چونکہ انہوں نے انبیائی ہدایت کو چھوڑ دیا اور قابیل کے پیرو ہو گئے۔ اس لیے انہوں نے اپنا سلسلہ نسب بھی انبیاء سے نہیں جوڑا ہے۔ کپل اسمرتی کا پہلا شلوک کرۀ ارض پر اولین خاندان کا بیان اس طرح کرتا ہے۔
पुरा तु शौनक: श्रीमान्भाविनं पतिमीक्ष्य वै
मीनोत्यंतं कलौ भूम्यां तिष्ठेद्विप्रत्वमित्य सौ
یعنی اسی بستی میں جہاں )شونک/بابیل کا قتل ہوا، شرعی ایمان والے(श्रीमान)بھوو منو یعنی بغیر ماں باپ کے پیدا ہونے والے( صاحب ایمان گروه کے پرجاپتی ( خلیفہ ) رہا کرتےتھے. وه خلیفہ مینہ کے طائی ( جن کی اطاعت لازم تھی) تھے۔ انہوں نے قتل کی پاداش میں یہ حتمی فیصلہ سنا دیا کہ تم قاتل (قابیل/کپل) جس سرزمین پر باعزت مقام رکھتے تھے، وہاں سے عاق کر دیے گئے۔ اس قتل کو شلوک نمبر 34 میں انسانی تاریخ میں قتل کی ابتدا بتایا گیا ہے اور وحی کے مطابق زمین پر پہلا قتل ہابیل کا ہوا ہے۔ انسانی تاریخ میں شونک/ مارچ/ ہرنیہ کشیپ /ہابیل کے قتل کی ابتدا کے دن سے ہی (اے شہنشاه) آپ کو ویدک سماجی نظام سے عاق کر دیا گیا ہے اور آپ نے اپنی کوششوں سے الحاد کے بانی(Founder of Atheism) کا مقام حاصل کر لیا ہے اور آپ نے شیو /ادم کے دین قر۶ت پر لگام لگا دیا ہے اور اس طرح آپ نے دھرم کو وام پنتھی (بائیں بازو والا) بنانے میں ملکہ حاصل کر لیا ہے اور زبان کو بھی بدل کر بائیں بازو سے لکھنے پڑھنے والی بنا دیا ہے۔
واضح رہے کہ سنسکرت لفظ کا معنی بدلی ہوئی(پراکریت سے) زبان ہوتا ہے۔ برخلاف دین وحی کی زبان کے، اور آپ کے دھرم کا وحی کے (ایک الزام) دھرم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موجوده دور کی طرح ہی اس وقت بھی انبیاء کے دین کو دہشت گردی سے جوڑا گیا تھا۔ اسی شلوک سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل ہے- اس قتل کے بعد حضرت آدم علیہ السلام نے قابیل کو اپنی دینی وراثت سے عاق کر دیا تھا اور اس بات پر ناراض ہو کر قابیل نے بغاوت کر کے اور وشنو/ناگراج کے مانند رویہ اختیار کر کے اپنی مرضی کے مطابق نئے مذاہب ایجاد کرتا رہا۔ کپل اسمرتی کے دوسرے شلوک میں بتایا گیا ہے کہ کپل/ قابیل نے بہت زیاده ناراضگی کی حالت میں وشنو( ناگراج ) کا رویہ اختیار کر لیا، جس کے نتیجے میں ایمان والے گروه کا زوال شروع ہو گیا اور (بزعم خود، سیتا کا اصلی شوہر ) مضبوط ہوتا چلا گیا یعنی اس کا عروج ہونے لگا۔ کپل اسمرتی کے اگلے (تیسرے) شلوک میں بتایا گیا ہے کہ قابیل /کپل کے عروج کے ساتھ ساتھ موسیقی بجانا اور شیو ( शिव)کے اٹھے ہوئے )عضو ) کی پرستش کو دھرم قرار دے دیا گیا ، جس طرح ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کا ستر کھلوایا تھا اسی طرح اب اس نے کپل کے ذریعے ستر کی پرستش والا مذہب ہی ایجاد کرا دیا۔ خواہشات کی پیروی والا نظام اطاعت کی تشکیل کر کے اس نے سماعت کرده دین وحی ) کو تباه کر دیااور ہاتھ جوڑ کر عبادت والا مسلک پاتنجلی قرار دیا گیا۔ وشنو/کپل کے مختلف اوتار اسی طرح کپل/ وشنو کو اس عمل کی بنا پر پاتنجلی اوتار کہا گیا ۔ اس کے علاوه وشنو کے کل نو 9, اوتار بتائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ ابہام نہ ہو کہ اوتار جنم لیتے تھے بلکہ قابیل اپنی زندگی میں 350 برس زنده رہا اور اس معیاد عمر میں اس نے جو نئے فلسفے یا مذہبی مسالک ایجاد کیے ان کی بنیاد پر اسے وشنو کے مختلف اوتار بتایا گیا ہے۔ رام کو وشنو کا ساتواں اوتار بتایا جاتا ہے۔ اس اوتار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جو پہلے آدم (/شیو/ منو کا مع +را )یعنی وحی کے مطابق دین تھا اسے الٹ کر را+مع یا رام کر دیا۔
मरा मरा कहते कहते राम राम कहने लगे
یہ فقره صوبہ اتر پردیش میں کافی مشہور رہا ہے۔ دین وحی کو بدل کر اس کے مخالف دین بنانے کے لیے زبان وحی کے حروف کو الٹ دیا گیا اور اس میں ایسے نئے حروف کو داخل کیا گیا جن کو نگھنٹو ( निघंटु)یعنی جو گلے سے نیچے نہ اتر سکے، قرار دیا گیا تھا۔ یہ کام وحی کے احکام کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس طرح رام نے اپنے والد بھوو منو آدم کے دین کو تباه کردیا تھا۔ بھارت رتن بابا صاحب امبیڈکر کی رائے کے مطابق
دین میں تحریف کا مقصد ہمیشہ ظلم اور استحصال ہوا کرتا ہے ۔ بھارت رتن ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر نے اپنی معرکت الاراء
کتاب ریڈلس ان ہندوازم (Riddles in Hinduism)کے آخر میں ملحقات کے طور پر رام اور کرشن کے معموں کو شامل کیا ہے۔ اس کتاب کو حکومت ہند نے شائع کیا ہے لیکن ان ملحقات سے اپنی نااتفاقی کا اظہار بھی ملحقات کےفوٹ نوٹ میں کر دیا ہے۔ رام کے معاملے میں آپ لکھتے ہیں کہ رام نہ تو اچھے بیٹے تھے نہ اچھے باپ تھے نہ اچھے شوہر اور نہ اچھے حکمران تھے۔ اپنی رائے کے حق میں آپ نے مضبوط دلائل پیش کیے ہیں۔ عزت مآب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو ان کی ان آراء اور تصنیفات کے باوجود حکومت ہند نے آپ کو بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں، ریڈلس ان ہندو ازم، بابا صاحب بھیم راو امبیڈکر، شائع کرده، ڈاکٹر امبیڈکر فاؤنڈیشن، وزارت انصاف و اختیار دہی، حکومت ہند، نئی دہلی۔) رام بھکتی اور سماجی انصاف واضح رہے کہ جو لوگ رام بھکت ہونے کا دعوی کرتے ہیں، رام راج کی بات کرتے ہیں، ہندو راشٹر بنانے اور ہندوتو کے غلبے کی بات کرتے ہیں وه منو اسمرتی کو (موجوده حالت میں ،جس میں متعدد مرتبہ ترمیم ہو چکی ہے، تاکہ اس کی تحریف شده تعلیم کو ظلم کے لئے استعمال کیا جا سکے) نافذ کرنے کی بھی بات کرتے ہیں. اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رام بھکتی کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان میں رام کو لوگ مختلف حیثیتوں سے مانتے ہیں۔ بعض لوگ ان کو مریادا پروشوتم یعنی عالی شان اور بہترین مرد کے طور پر مانتے ہیں، لیکن بعض لوگ ان کو پر ماتما اور خدا بھی قرار دیتے ہیں۔ اس عقیده کی بنیاد کپل اسمرتی کے شلوک 12 اور 13 میں بتائی گئی ہے۔ راجہ سے معبود کیسے ہو گئے؟ کہا گیا ہے کہ جب رام /کپل /وشنو حکمران بن گئے اور تمام معاملات پر ان کو غلبہ حاصل ہو گیا تو چاپلوسوں نے کہا کہ اے بادشاه !تمام انسانوں میں روحیں موجود ہیں اور چونکہ آپ راجہ ہیں اس لیے آپ کے اندر جو روح ہے وه مطلق روح ہے۔ اس لیے آپ پرم آتما یعنی پرماتما ہیں ۔ بادشاه کی حیثیت سے جو آپ کی ذمہ داریاں ہیں ان کے مطابق تو آپ پر ماتما ہی ہیں ، آپ محض انسانی جسم کے ڈھانچہ میں جلوه افروز ہو گئے ہیں۔ اس طرح انہوں نے رام کو خدا قرار دے دیا حالانکہ ان کی حیثیت صرف ایک حکمران کی تھی۔ اور کپل/رام نے اپنے چاپلوسی کے تسمیہ کو مسکراتے ہوئے اختیار کر لیا تھا۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا اب بعید از قیاس نہیں ہوگا کہ رام بھوو منو/شیو جی کے بیٹے کپل ہیں۔ یہ بات بحث میں آ چکی ہے کہ روئے زمین پر پہلے قتل کی بات کپل اسمرتی کے پہلے شلوک میں ہی کی گئی ہے اور یہ کہ قاتل کپل ہے اور مقتول شونک ہے اور اس وقت حکمران /پرجا پتی/بھوو منو/شو جی تھے۔ اس شلوک کو پڑھ کر ذہن میں خود بخود آدم علیہ السلام کے بیٹوں قابیل اور ہابیل کی تصویر ابھرتی ہے۔ سائنسی تحقیق ڈی این اے مطالعات سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ تمام انسانیت کی ماں ایک سیاه فام افریقی ماں ہیں یعنی حضرت آدم علیہ السلام اور ماں حوا کی اولین بودوباش افریقہ میں اور امکانی طور پر مصر و سوڈان میں رہی ہوگی۔ ہندوستانی مذہبی کتابوں میں جن مقامات کا ذکر آتا ہے وه مقامات بھارت کے مقامات کی بجائے مصر و سوڈان، فلسطین، ترکی اور یمن کی جغرافیہ سے زیاده مشابہ ہیں۔ منو اسمرتی کے پہلے باب کے شلوک 35 میں پلستیم یا فلسطین (पुलस्तयं) پلھم ) یا استامبول(पुलहं) قرتم (क्रतुम) انگیراسو یعنی مصر اور سو ڈان) अंगीरसौ ) کا صاف ذکر آیا ہے۔ کیا رمسیس دوم ہی رام چندر تھے؟ جناب ولاڈی وینکٹ رتنم اپنی کتاب رام گریٹسٹ فارعوه آف ایجپٹ (Rama the Greatest Faroah of Egypt) میں رام کو مصر کا فرعون ثابت کرتے ہیں. ان کا خیال ہے کہ رمسیس دوم ہی وه شخصیت ہے جس کو بھارت میں رام چندر کہا جاتا ہے۔ جناب ولاڈی وینکٹ رتنم لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کو ایک تیلگو برہمن نے بتایا تھا کہ را مائن کی لنکا سیلون نہیں ہے بلکہ کہیں اور ہے۔ پھر وینکٹ رتنم کو ہیوگ ونکر کی کتاب اسیریا اینڈ بیبیلوبیہ (Assyria and Babylonia) پڑھنے کا موقع ملا، جس میں دسرتھ کا تعارف سیریا میں میتھانی ( Mittani ) کے بادشاه کی حیثیت سے ہوا۔ اس آریا بادشاه کے ذکر نے وینکٹ رتنم کو ہسٹری آف اینشینٹ ایجپیٹ (History of Ancient Egypt ) پڑھنے کے لیے راغب کیا۔ جنوبی مصر کے نوبیا (Nubia) میں ابو سمبل(Abu Simbal)کے بیان نے رام کی کہانی کا مکمل بیانیہ فراہم کر دیا۔ ابو سمبل مندر کے صدر دروازے پر تراش کیے ہوئے چار عظیم مجسمے اور مندر کے اندر رام سیس دوم کا بیان بحیثیت اپنے دس دشمنوں کے قاتل کے بطور پیش کیا گیا ہے۔ مصر کے ابو سمبل، فلسطین کے رام الله، مصرکی سیتا زینب مسجد ، ایران میں رامسور کا مقام ، روس، انڈونیشیا ، تھائی لینڈ اور شری لنکا میں رام کی کہانیوں سے اندازه ہوتا ہے کہ رام کا کردار افسانہ محض نہیں ہے بلکہ اس حقیقی منفی کردار کے گرد افسانے گڑھے گئے ہیں۔ جین رامائن میں سیتا کو راون کی بیٹی بتایا گیا ہے۔ سیتا کو لکشمن کی بہن اور بھوجائی کی بات مشہور ہے۔ اس طرح یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ راون/جنک/دشرتھ/ ایک ہی شخصیت کے مختلف نام ہیں۔ دشرتھ میں 10 جڑا ہوا ہے اور راون کے 10 سر بتائے جاتے ہیں یہ دسرتھ اور دس سر،علامتی اشارے ہیں۔ دراصل رامن/ادم/
جنک کی اولاد سیتا رام اور لکشمن ہیں اور یہی زمین پر پہلا انسانی خاندان ہے جس کو آسمانی ادیان اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں حضرت آدم علیہ السلام اور ان کا خاندان بتایا گیا ہے۔ اس خاندان میں سے قابیل وه شخص ہے جس نے شریعت سے بغاوت کی تھی اور کپل اسمرتی کے مطابق اس نے وشنو بن کر نو اوتار کی حیثیت سے نو فلسفے یا نو مذاہب کی بنیاد ڈالی تھی۔ قابیل نے ہابیل کا قتل کیا تھا۔ اس کا ذکر قران، بائبل اور تورات میں آیاہے- لیکن ہندوستانی کتابوں اور مصری آثار قدیمہ کی روشنی میں اس نے حضرت آدم علیہ السلام کا قتل نماز کی امامت کے وقت سجدے کی حالت میں کیا تھا۔ قتِل کا یہ واقعہ سرہند میں پیش آیا تھا۔ یہ واقعہ سنسکرت آثار کے مطابق مکر سنکرانتی کے دن پیش آیا تھا،جس کی یاد میں اس دن لوگ غسل کرتے ہیں۔منو کے قتل کی وجہ سے ہی اس کا نام ہنومان ہوا تھا۔ ( مزید تفصیلات کےلئے دیکھیں پالیتھیزم ان پروٹو ویدک افریکا، مصنف:محمد نعیم اور مترجم حسین جعفری، اندو بک سروسیز پرائیویٹ لمیٹڈ،٢١،انصاری روڈ، دریا گج، نئی دہلی۔) لیکن کپل/ رام بعد میں اپنے بھائی شونک اور منو شو کے قتل پر شرمنده ہوا اور دنیا میں بدھسٹ اصنام گری، اور عشقیہ اصنام تراشی اور جنسی اعضاء کی پرستش پھیلی تو اس کے قلع قمع کی کوشش بھی کی تھی۔ اگرچہ کپل اسمرتی کے بیانیہ اور ولاڈی وینکٹ رتنم کی تحقیق میں یہ فرق ہے کہ کپل اسمرتی رام کو قابیل بتا رہی ہے اور ولاڈی وینکٹ رتنم اسے رمسیس دوم قرار دے رہے ہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ اصلا رام کے کردار کا تعلق قابیل سے ہو اور کے ادوار میں رام کے نام پر افراد کا نام رکھا جانے لگا ہو اور رمسیس دوم کا نام بھی رام کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا ہو۔ بہر حال دونوں بیانیوں کے مطابق رام کا تعلق شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا سے ہے اور دونوں کے مطابق رام کے اندر کوئی حقیقی الہی اوصاف نہیں تھے۔ ۔ ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں قابیل کے آریائی فلسفوں اور بھوو منو کی توحید دونوں شامل ہیں۔ تاریخ میں شیو کے اوتار شیو اور وشنو کے اوتار ویشنو دونوں برسر جنگ رہے ہیں۔ لیکن آج دونوں اسلام کے مخالف ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جیسا کہ قران میں بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین نے اسی وقت کفر کیا جب ان کے پاس بینہ آگئی اور سوره بیینہ میں بتایا گیا ہے کہ دین القیمہ کیا ہے۔ آج جو لوگ اپنے مذہب کو سناتن (ہمیشہ سے اور ہمیشہ رہنے والا) دھرم یا دین قیمہ کہتے ہیں ،ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ سناتن دھرم کی کوئی شکل و صورت موجود نہیں ہے۔ یہاں لوگوں کا جو بھی عقیده وعمل ہے اس کو سناتن دھرم کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ گانا بجانا شیولنگ کی پرستش وغیره کپل اسمرتی کے مطابق وشنو کی ایجاد ہیں اور وشنو سناتن کے برخلاف آریوں کے معبود اور ہیرو ہیں۔ اس طرح انسانی تاریخ کے متعلق رام کی شخصیت پر جو روشنی پڑتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے رام کو امکانی پیغمبر کہنا، مریادا پروشوتم کہنا اور امام ہند کہنا کم سے کم مسلمانوں کے لیے خلاف واقعہ بات کہنے کے مترادف ہے۔ رام کو کپل اسمرتی میں وشو گرو کہا گیا ہے، لیکن ان کو گرو، دین سے محض دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے معاملے میں کہا گیا ہے۔ وه اہل ایمان کے لیے وشو گرو نہیں ہیں۔ جیسا کہ اس مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ انسانیت کے پہلے خاندان کی بود و باش مصر میں تھی جہاں اس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بھارت میں جو مشرا اور گپتا ذاتیں پائی جاتی ہیں، ان کا نام بھی مصری اصل کی وجہ سے ہے۔ مصری دیوتا کا مجسمہ ہند کے چڑیا گھر میں نصب کرنے کی وجہ بھی بھارتی تہذیب کے مصر سے دیرینہ رشتے ہیں-

•••

عبداللہ دانش