اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی سیاست کے بہت بڑے نباض ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ کب کون سا داؤ چلا جائے کہ کام یابی اپنے اور ناکامی مخالفین کے حصے میں آئے۔ اپنی اسی خوبی اور صلاحیت کی بنیاد پر وہ اب تک ہندوستانی سیاست میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ جب وہ ریاست گجرات کی سیاست میں سرگرم تھے تو وہاں وہ کوئی الیکشن نہیں ہارے اور جب مرکز کی سیاست میں آئے تو یہاں بھی وہ کام یابی کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی قیادت میں بی جے پی جانے متعدد اسمبلی انتخابات ہار چکی ہے۔ لیکن اس بات کے لیے مودی کو داد دینی پڑے گی کہ انھیں کسی بھی ایشو کو انتخابی کارڈ بنانے میں کوئی جھجک نہیں رہی۔ وہ ان معاملات کو بھی اپنے انتخابی ایجنڈے میں ڈھٹائی کے ساتھ شامل کر لیتے ہیں جن کی وہ پہلے کبھی مخالفت کر چکے ہوتے ہیں۔ انھیں اس کی پروا نہیں کہ ان کے بارے میں کوئی کیا رائے بناتا ہے۔ انھیں تو صرف اس سے غرض ہے کہ الیکشن کیسے جیتے جائیں۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بی جے پی ایک ہندوتو وادی پارٹی ہے اور اس کی پالیسی کی بنیاد آر ایس ایس کے بانیوں اور دیگر رہ نماؤں کے نظریات و خیالات ہیں۔ ان نظریات میں ہندو مذہب اور قوم کے علاوہ کسی اور مذہب و قوم کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آر ایس ایس کا نظریہ مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مسلمان اگر ہندوستان میں رہنا چاہیں تو ہندو بن کر یا پھر ہندوؤں کے دست نگر بن کر رہ سکتے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس وقتاً فوقتاً دنیا کو دکھانے کے لیے اپنی پالیسیوں میں نرمی لے آتا ہے یا اس کی جانب سے ایسے بیانات دیے جانے لگتے ہیں جس سے عوام میں یہ تاثر جائے کہ اس کے نزدیک سب برابر ہیں وہ کسی کی دشمن نہیں۔ نریندر مودی نے اس کی اسی پالیسی سے متاثر ہو کر سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ گھڑا تھا۔ دنیا کو دکھانے کے لیے یہ نعرہ لگایا جاتا ہے اور لوگوںکو اچھا بھی لگتا ہے۔ لیکن جب عمل کا موقع آتا ہے تو اسے کنارے رکھ دیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ایجنڈے میں مسلمان کسی بھی طرح فٹ نہیں ہوتے۔ خواہ مسلمان مرد ہوں یا مسلمان خواتین۔ لیکن یہ اس کی عیاری اور چالاکی ہے کہ جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے تو پھر کوئی ایسا نیا نعرہ گھڑ لیا جاتا ہے جو دل فریب بھی ہو اور پرکشش بھی۔ طلاق ثلاثہ کا نعرہ اسی لیے لگایا گیا اور اس کے خلاف قانون منظور کیا گیا۔ اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ اس کے نام پر مسلم خواتین کے ووٹ حاصل کیے جائیں۔ لیکن درحقیقت بی جے پی مسلم خواتین کی ہمدرد نہیں ہے۔ لیکن وہ موقع بہ موقع طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے والے ایکٹ کا حوالہ دیتی رہتی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے مسلم خواتین کو رجھانے کے بعد مسلم مردوں کے ایک طبقے کو اپنے قریب لانے کی کوشش کی ہے اور اس مقصد سے انھوں نے پسماندہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا خوب صورت جال پھینکا ہے۔
انھوں نے اپنی ایک انتخابی ریلی میں اچانک پسماندہ مسلمانوں کا نعرہ لگا دیا اور پھر بی جے پی کارکنوں سے اس طبقے کو اپنے پالے میں لانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت دے دی۔ بس پھر کیا تھا ملک میں پسماندہ مسلمانوں کا شور مچ گیا۔ حالاں کہ جنتا دل یو کے سابق رکن پارلیمنٹ علی انور نے سب سے پہلے پسماندہ مسلمانوں کی آواز اٹھائی تھی۔ انھوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے اور ایک تنظیم بھی بنائی ہے۔ لیکن وزیر اعظم مودی کو نہ تو علی انور سے کوئی دل چسپی رہی اور نہ ہی ان کے نعرے یا ان کی کتاب سے۔ لیکن جب ان کو محسوس ہوا کہ مسلمانوں کے اس طبقے کو اپنے جال میں پھانسا جا سکتا ہے تو انھوں نے اس طرح اس معاملے کو اٹھایا کہ جیسے پسماندہ مسلمانوں کا ان سے بڑا کوئی ہمدرد نہیں۔ پھر تو بی جے پی کی مقامی یونٹوں کی جانب سے پروگرام بھی منعقد کیے جانے لگے۔ لیکن جس طرح یہ نعرہ نمائشی ہے اسی طرح یہ پروگرام بھی نمائشی ہی رہے۔ کسی بھی پروگرام میں پسماندہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کا کوئی خاکہ پیش کیا گیا اور نہ ہی کوئی پروگرام سامنے رکھا گیا۔ اگر وزیر اعظم اس معاملے میں سنجیدہ ہوتے تو کچھ نہیں تو کم از کم علی انور کو ہی بلا کر ان سے اس سلسلے میں مشورہ کرتے یا ان کو کوئی ذمہ داری دیتے۔ لیکن وہ ایسا کیسے کرتے۔ ان کو تو اندیشہ رہا ہوگا کہ اس طرح تو ان کا کھیل بگڑ جائے گا۔ویسے انھوں نے پسماندہ مسلمانوں کے مسائل جاننے کے لیے کوئی کمیٹی بھی تو نہیں بنائی جس کو یہ ذمہ داری دی گئی ہو کہ وہ ان کے مسائل کو سمجھے اور انھیں حل کرنے کے مشورے دے۔
پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تیلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم مودی نے جگہ جگہ انتخابی ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں اور جگہ جگہ جا کر فلاحی اسکیموں اور پروجکٹوں کا اعلان کیا۔ لیکن کیا کسی نے اِدھر سنا ہے کہ انھوں نے ان ریلیوں میں سے کسی میں بھی پسماندہ مسلمانوں کی بات کی ہو۔ کیوں نہیں کی۔ اس لیے نہیں کی کہ پہلی بات تو اس معاملے میں وہ سنجیدہ نہیں ہیں اور دوسرے جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے تھے وہاں پسماندہ مسلمان ہیں ہی نہیں۔ ہاں اترپردیش یا بہار میں انتخابات ہونے والے ہوتے تو ممکن ہے کہ وہ یہ نعرہ پھر سے لگاتے۔ ان کو معلوم ہے کہ وہاں مسلمانوں کا نام لینا خسارے کا سودہ ہوگا۔ اسی لیے انھوں نے بی جے پی کے اسی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جو ابھی تک اس کو محبوب رہا ہے۔ یعنی فرقہ واریت کا ایجنڈا۔ مسلم مخالفت کا ایجنڈا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ راجستھان کی انتخابی ریلی میں ادے پور میں ایک ہندو درزی کے قتل کے معاملے کو نہ اچھالتے۔ انھوں نے جس ڈرامائی انداز میں اس ایشو کو اچھالا ہے اس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کرنا تھا تاکہ اس کی آڑمیں ہندوؤں کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ اب وہ رفتہ رفتہ ہندوتو کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے دوسرے رہ نما بھی اسی طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ دراصل بہار حکومت کی جانب سے ذات برادری کی بنیاد پر کی جانے والی مردم شماری اور اس کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی وجہ سے بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے پسماندہ مسلمانوں کا نعرہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر نہیں بلکہ پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر لگایا ہے۔ وہ 2024 میں ایک بار پھر اس ایشو کو اٹھائیں گے اور مسلمانوں کے اس طبقے کو رجھانے کی کوشش کریں گے۔ ممکن ہے کہ اس وقت تک وہ پسماندہ مسلمانوں کے نام پر کسی پروجکٹ کااسی طرح اعلان کر دیں جس طرح خواتین ریزرویشن کا قانون منظور کیاگیا ہے۔ ظاہر ہے خواتین کو 2029 میں جا کر اس سے فائدہ ہوگا تو ہوگا، سردست کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے اس طبقے کو سبز باغ دکھایا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا بی جے پی اس نعرے کا انتخابی فائدہ اٹھا پائے گی۔ اس کا امکان بہت کم ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کے اس طبقے کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ یہ حکومت اس کی ہمدرد نہیں ہے۔ بلکہ سرے سے مسلمانوں کی ہی ہمدرد نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو آج مرکزی کابینہ مسلمانوں سے خالی نہ ہوتی۔ اس کے ارکان پارلیمنٹ کی صفوں میں بھی مسلمان ہوتے اور کابینہ میں بھی ہوتے۔ مختار عباس نقوی کی راجیہ سبھا کی رکنیت ختم ہونے کے بعد نہ تو انھیں پھر سے ایم پی بنایا گیا اور نہ ہی دوسرے کسی مسلمان کو خواہ وہ نام کا ہی مسلمان کیوں نہ ہو بنایا گیا۔ اٹل بہاری واجپئی کے زمانے میں نقوی کے علاوہ سید شاہنواز حسین کو بھی اہم مقام حاصل تھا۔ لیکن انھیں بہار کی سیاست میں اس طرح لے جا کر پھینک دیا گیا کہ بالآخر ان پر دل کا دورہ پڑ ہی گیا۔ موجودہ حکومت نے، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے جتنے ادارے تھے سب کو غیر مؤثر کر دیا ہے۔ کوئی بھی ادارہ کام نہیں کر رہا ہے۔ نہ تو اقلیتی کمیشن کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ادارے کی۔ اقلیتی امور کی وزارت بھی ایک ایسی خاتون کو دی گئی ہے جس کو مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ حج جیسے انتہائی اہم معاملے کو وزارت خارجہ سے نکال کر اقلیتی وزارت میں لا پھینکا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ سے حاجیوں کو کیا کیا دشواریاں جھیلنی پڑیں اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ فاؤنڈیشن سے اقلیتی طلبہ کو دی جانی والی اسکالر شپ ختم کر دی گئی۔ اسی طرح مسلمانوں سے متعلق دیگر ادارے بھی ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔
ایسے میں اگر بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کی بات کرتی ہے تو کیا وہ بات مسلمانوں کے گلے سے اترے گی۔ اور پھر اس صورت میں جب کہ یہ حکومت اپنے وعدوں کے سلسلے میں بے نقاب ہو چکی ہے۔ اگر بی جے پی پارلیمانی انتخابات میں پسماندہ مسلمانوں کا نعرہ لگاتی بھی ہے تو اس کے ٹریک ریکارڈ کے پیش نظر پسماندہ مسلم طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک بھی مسلمان اس پر بھروسا نہیں کرے گا۔لہٰذ اگر بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ وہ پسماندہ مسلمانوں کا نعرہ لگا کر ان لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کام یاب ہو جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ مسلمان تو مسلمان سنجیدہ ہندو بھی اب اس کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ بہت سے ایسے ہندو جو بی جے پی کے حامی اور طرفدار رہے ہیں یہ کہتے سنے جا رہے ہیں کہ اب اس حکومت کو چلے جانا چاہیے۔ ان حالات میں کیا بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کا نعرہ لگا کر اپنے ہندوتو حامی ووٹروں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لے گی، اس کا امکان بہت کم ہے۔