شیئر کیجیے

بلقیس بانو کے مجرمین کی سزا برقرار

سپریم کورٹ کا ایک تاریخی فیصلہ
قاسم رسول الیاس

بلقیس بانو کے مجرمین کی سزا کو بحال کر تے ہو ئے ایک تاریخی اور اہم فیصلہ دیتے ہو ئے سپریم کورٹ نے اپنے ہی ایک سابقہ فیصلہ کو تبدیل کر دیا۔ نیز کورٹ مجرمین کے ساتھ حکومت گجرات کے منصفانہ طرز عمل کو بھی پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر کہا کہ حکومت گجرات نے جس اختیار کا استعمال کر تے ہو ئے مجرمین کی رہائی میں تخفیف کی دراصل وہ اسے حاصل ہی نہیں تھا۔

سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ جسٹس بی وی نا گاتھنا اور جسٹس امول بھوئیان نے اپنے فیصلہ میں کہا سابقہ فیصلہ ایک فراڈ کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا جس میں عدالت سے اہم نکات چھپائے گئے تھے۔ راد ھے شام گھنشام داس شاہ،جن کی سزا کی تخفیف کا مقدمہ تھا،اس معاملہ میں گجرات ہائی کورٹ نے 2019 میں شاہ سے کہا تھا کہ وہ اس معاملہ میں مہاراشٹر حکومت سے رجوع کر ے۔ اس کے بعد شاہ نے مہاراشٹر کی وزارات داخلہ سے رجوع کیا۔ مہاراشٹر کی وزارات داخلہ نے سی بی آئی جس نے مقدمہ چلایا تھا،سے استفسار کیا۔ ایجنسی نے جواب دیا کہ شاہ کو کے ساتھ کو ئی نرمی نہیں برتی جائے بلکہ اس کی سزا کو پورا ہو نے دیا جائے۔ اسی طرح اسپیشلCBI کورٹ کا جواب بھی نفی میں ہی تھا۔ اسی طرح داہود کے سپریٹنڈنٹ آف پولیس نے کہا تھا کہ اگر مجرم کو چھوڑ دیا گیا تو یہ بلقیس بانو اور ان کے خاندان کے ساتھ سنگین جرم ہو گا۔ داہودکے ڈسٹرکٹ کلکٹر کا جواب بھی نفی میں ہی تھا۔ جسٹس ناگرتھنا نے کہا کہ ان تمام حقائق سے کورٹ کو بے خبر رکھا گیا۔

اگر بصورت دیگر مئی2022 کا فیصلہ مختلف ہو تا۔

کورٹ نے کہا حکومت کو یہ اختیار یقیناََ حاصل ہے کہ اگر عمر قید کے کسی مجرم کا کر دار اچھا ہے تو وہ 14 سال بعد اس کی سزا میں تخفیف کر سکتی ہے، البتہ چوں کہ یہ مقدمہ ریاست مہاراشٹر میں چلا یا گیا تھا اور سزا بھی وہیں سنائی گئی تھی لہذا اس تخفیف کا اختیار بھی حکومت مہاراشٹر ہی کو ہے۔

اگر مئی 2022 کا فیصلہ بر قرار رہتا اور سپریم کورٹ اس کے برعکس فیصلہ نہ سناتی تو شاید بلقیس بانو کی درخواست قبول ہی نہ کی جاتی۔

اجتماعی عصمت دری دراصل انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ جرم2002 کے دنگوں میں ایک مسلم خاندان کے ساتھ کیا گیا،2002 کے دنگوں میں دراصل ایک طبقہ کو ہدف بنایا گیا تھا۔ عالمی عدالت انصاف نے انسانیت کے خلاف جرم کی سزا30 سال متعین کی ہے، جس میں کسی بھی تخفیف کی اجازت نہیں ہے۔

کورٹ نے حکومت گجرات کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہو ئے کہا کہ جب وہ یہ جانتی تھی کہ تخفیف کا اختیار حکومت مہاراشٹر کو ہے تو اسے 13مئی، 2022 کے فیصلہ کو تبدیل کر نے کی درخواست دینی چاہیے تھی۔ اس کے برعکس حکومت گجرات اس معاملے میں مجرمین کے ساتھ کھڑی دکھائی دی۔ان ہی اندیشوںکے پیش نظر2002 کے دنگوں سے متعلق کیسوں کو مہاراشٹر میں منتقل کیا گیا تھا۔

بحث کے اختتام پر مجرمین نے عدالت سے درخوست کی کہ انھیں دوبارہ زنداں کے حوالے نہ کیا جائے اس لیے کہ آزادی بڑی قیمتی نعمت ہے۔ اس پر جج کا جواب تھا یقیناََ آزادی ایک نعمت ہے مگر اس وقت جب کہ اسے قانونی راستوں ہی سے حاصل کیا جائے۔ مزید کہا آزادی اس وقت بھی نعمت ہو تی ہے، جب اسے غیر قانونی راستوں سے ختم کیا جاتا ہے جیسا کہ ان دنوں ہو رہا ہے۔ مجرمین نے مزید درخواست کی کہ عدالت آرٹیکل142 کے تحت اس معاملہ میں اپنے غیر معمولی اختیارات کا استعمال کرے۔ اس پر کورٹ نے کہا اس دفعہ(142) کا مقصد انصاف کے حصول کے لیے غیر معمولی اختیارات کا استعمال کر نا ہے۔ اس کیس میں انصاف کا تقاصہ یہ ہے کہ جیوں کی تیوں(Status Quo) حیثیت کو برقرار رکھا جائے۔

اس معاملہ میں بلقیس بانو اور ان کے پورے خاندان کی جرائت واستقامت کی بھی ستائش کی جانی چاہیے کہ وہ ان درندہ صفت انسانوں اور سفاک مجرمین کے درمیان رہتے ہو ئے، ہر قسم کے خوف و دہشت سے بے پروا انصاف کے حصول کے لیے کو شاں رہے۔ اسی طرح وہ خواتین بھی قابل تعریف ہیں جو اس مقدمہ میں بلقیس بونو کے ساتھ کھڑی رہیں۔