ہندو انڈیا میں مسلمان: ایک تنقیدی جائزہ

محمد غزالی خان
مئی 2024

نام کتاب: ہندو انڈیا میں مسلمان – ایک تنقیدی جائزہ

Being Muslim in Hindu India: A critical view

مصنف: ضیاءالسلام

ناشر: ہارپر کولنز پبلشر، انڈیا۔

قیمت: 540₹

مبصر: محمد غزالی خان

 

یوں تو ہندوستانی مسلمان سوتیلے پن اور امتیاز کا سامنا 1947 سے کر تے چلے آرہے ہیں۔ مگر سینئر صحافی اور مصنف ضیاء السلام کی زیر تبصرہ کتاب Being Muslim in Hindu India میں لکھتے ہیں کہ “مسلمانوں کو”یتیمی کی کیفیت سے مصالحت بتدریج اور تکلیف دہ انداز میں کرنی پڑی ہے۔ فی الحقیقت صورت حال کو سمجھنےمیں کافی وقت لگا ہے، شاید ساٹھ سال سے زیادہ، اور مختلف سیاسی جماعتوں میں قیادتوں کی تبدیلی کے تواتر کے بعد ملت پر یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ ہندوستان میں اس کا کوئی گاڈ فادر نہیں ہے۔”

حقیقت یہ ہے کہ 80کی دہائی تک، جب سید شہاب الدین صاحب افق سیاست پر اور ساتھ ساتھ اخبارات و رسائل میں نمودار ہوئے، مین اسٹریم اخبارات یا رسائل میں کسی مسلمان کی تحریر تو کیا کوئی چھوٹا سا مراسلہ بھی مشکل ہی سے نظر آتا تھا۔ ان اخبارات یا رسائل میں کام کرنے والے مسلمان، مسلم مسائل پر اظہارخیال کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے؛ مبادا ان پر فرقہ پرستی کا الزام نہ لگ جائے۔ مگر 80 کی دہائی کے بعد صحافت میں بہت سے نام نظر آئے۔ البتہ ضرورت سے زیادہ احتیاط میں ان کا رویہ پرانا والا ہی رہا۔ مگر جیسے جیسے ہندوتوا کا خطرہ بڑھتا گیا کچھ صحافیوں کے رویے میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ ان جری صحافیوں میں ایک نام ضیاءالسلام کا ہے۔

مذکورہ بالا کتاب میں انھوں نے نہ صرف ہندوتوا فسطائیت کی خطرناک روش کا پردہ چاک کیا ہے بلکہ ان مسلمانوں کی بھی خبر لی ڈالی ہے جو مسلمان بادشاہوں کو اسلامی ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ دونوں انتہا پسندوں کو حقیقت کا آئینہ دکھاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں “غوری اور پرتھوی راج کے درمیان جنگیں سیاسی خواہشات کا نتیجہ تھیں نہ کہ تہذیبوں کے مابین تصادم کا اور جو مسلمان غزنوی یا غوری اور دوسروں کے نام بڑے فخر کےساتھ لیتے ہیں بہتر ہوگا کہ وہ یہ نہ بھولیں کہ یہ مجاہدین اسلام نہیں تھے، جو دشمنان دین کا خاتمہ کرنے کے لیے اٹھے تھے۔”

ضیاء السلام صاحب فلمی رسالوں کے مدیر رہ چکے ہیں لہٰذا بالی ووڈ اور اس کے ذریعے مسلم منافرت کے ماحول کو ان سے زیادہ کون سمجھے گا۔ لکھتے ہیں”ہندی سنیما نے حکومت وقت کے سیاسی نظریات کو فروغ دینے کے لیے باندی کا کردارنبھا کر ہمیشہ خوشی محسوس کی ہے۔ 1950 میں جب ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو نے سوشلزم پر زوردیا تو۔ ۔۔ ہندی فلمیں بنانے والوں نے بخوشی سیکولرزم اور مساوات کو فروغ دینے والی فلمیں بنانا شروع کردیں۔ 2014کے بعد ہمارے فلم ساز اب بھی سیاسی تھاپ کو پورے انہماک سے سن کر اس پررقص کررہے ہیں۔ بہت سے ڈائریکٹر حکومت کی سیاسی فکر کے فروغ کے لیے فلمیں بناکر خوش ہوتے ہیں۔”

سلام صاحب لکھتے ہیں”جہاں ایک طرف یہ فہم واقعاتی لحاظ سے غلط ہے تو دوسری جانب اس نے جدید تاریخ کی احمقانہ تقسیم کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔”مصنف نے اس کی بہت سی مثالیں دی ہیں جن میں سے ایک اکشے کمار کی فلم ’سمراٹ پرتھوی راج‘ ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ پرتھوی راج نے محمد غوری کو شکست ینے کے بعد اسے قتل کردیا تھا۔ مگر سلام صاحب رقم طراز ہیں”درحقیقت پرتھوی راج کی موت 1119 میں ہوگئی تھی جب کہ محمد غوری 1206 تک زندہ رہا جس کے بعد اس کے آزاد کردہ غلام قطب الدین ایبک نے دہلی میں خاندان غلامان کی سلطنت کی بنیاد رکھی۔”

کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے جس میں “سیاسی حاشیہ بندی”، “ دوروسطیٰ کی تاریخ کا مسخ کیا جانا”، “ایک دن ایک مسلمان کو مارو”، “مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے”، “محبت کے معاملات”، “جماعت اور حجاب”، “ہیئت اور اس کے بعد”، “آواز اٹھانے کا عمل” شامل ہیں۔ اس کتاب میں مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی نا انصافی اور بالخصوص 2014 کے بعد پیدا ہونے والے مسلم مخالف ماحول پر نہایت بے باکی کے ساتھ بات کی گئی ہے۔

ہندوستان، جسے دنیا بھر میں سب سے بڑی جمہوریت سمجھا جاتا ہے، میں مسلمانوں کو حاشیے پر لانے، مسلم اکثریت والے انتخابی حلقوں میں پارلیمنٹ اور صوبوں کی قانون ساز اسمبلیوں کی نشستوں کو نچلی ذات کے ہندوؤں (درجہ فہرست کی ذاتوں یا شڈیول کاسٹس) کے لیے مخصوص کر کے مسلمانوں کو نمائندگی کو گھٹانے کی حقیقت سے لوگ واقف نہیں ہیں۔ اس حوالے سے سلام صاحب لکھتے ہیں” 2014 سے سیاسی طور پر مسلمانوں کو حاشیے پر لانے کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے مگر جو بات عام طورپر نظروں سے اوجھل رہتی ہے وہ یہ ہےکہ 1980 کے انتخابات کے بعد سے لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹ رہی ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رکی ہوئی ہے جب کہ ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔” وہ مزید لکھتے ہیں”اگر ایوان میں نمائندگی آبادی کے لحاظ سے ہوتی تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد سے زیادہ ہونے کے باعث مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد تقریباً 74 ہونی چاہیے تھی۔ مگر ملت کے نمائندگان کی تعداد کبھی اس کے آس پاس بھی نہیں پہنچی۔ سب سے بڑی تعداد 1980 کے انتخابات میں آئی تھی جو 49 تھی۔ اس کے بعد یہ تعداد کم ہی رہی ہے۔ اقتدارکی ان راہداریوں میں کم نمائندگی کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ آبادی والی نشستوں کو درج فہرست ذاتوں (ایس سی) کے لیے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ شیڈیول کاسٹس کی ابتر حالت کو بہتر بنانا قابل تحسین قدم ہے مگراس کی قیمت اکثرمسلمانوں کو ہی ادا کرنی پڑتی ہے جو سچر کمیٹی کی تحقیق کے مطابق پہلے ہی تمام قوموں (ایس سی سمیت) سے صحت، تعلیم، روز گار اور سیاست میں نمائندگی جیسے ہر پیرامیٹر میں سب سے پیچھے ہیں [۔۔۔ اور ] یہ کوئی نئی پیش رفت نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ آزادی کے وقت سے جاری ہے۔”

اس کے علاوہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب بڑی احتیاط کے ساتھ ایسے کم زورعناصر کا کیا جاتا ہے جو مسلم مسائل پر کبھی آواز ہی نہ اٹھا پائیں۔یاد رہے 1980 میں مرادآباد کامسلم کش فساد اس وقت ہوا تھا جب ہندوستانی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تاریخ کی سب سے بڑی نمائندگی تھی اور 49 مسلمان پارلیمنٹ میں موجود تھے۔ اسی طرح تاریخ کے بھیانک ترین مسلم کش فسادات میں سے ایک مظفرنگر کا 2013 کا فساد اس وقت ہوا جب اتر پردیش اسمبلی میں مسلمان نمائندگان کی تعداد 63تھی۔

مراد آباد کےفساد کے وقت کسی ایک رکن پارلیمنٹ کی ہمت نہیں ہوئی کہ پارلیمنٹ میں آواز اٹھاتا، یہ فرض کفایہ جنتا پارٹی کے سید شہاب الدین صاحب اور مسلم لیگ کے محمود بنات والا صاحب (اللہ تعالیٰ دونوں کے درجات بلند فرمائے) کو ادا کرنا پڑا۔ مظفرنگر مسلم کش فساد کے وقت تو صورت حال اور بھی زیادہ خراب تھی کیوں کہ اس وقت یوپی اسمبلی میں سید شہاب الدین یا محمود بنات والا جیسا کوئی بیباک نمائندہ موجود نہیں تھا۔

ان تمام مسائل کے باوجود مصنف کو مسلم نوجوانوں کے بدلتے ہوئے رویوں میں امید کی ایک کرن نظر آرہی ہے۔ وہ رقم طراز ہیں “مسلمانوں نے نفرت پھیلا کراپنی برتری ثابت کرنے والوں کی سازشوں کا شکار ہونے کے بجائے اندرونی صفائی پر توجہ مرکوز کرنے، تعلیم پر توجہ دینے اور قدم بقدم مگر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے، بازارمیں کھلے مقابلے میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔” اس نتیجے پر پہنچنے کے حق میں انھوں نے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں اور دکھایا ہے کہ مسلمان نوجوانوں نے کس طرح سول سروسز، منصفی اور پولیس میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے مقابلے کے امتحانات میں حصہ لینا شروع کردیا ہے۔

ملت کی استقامت اور نازک حالات میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی اس کی طاقت اور ہمت کا ذکر کرتے ہوئے اور پرامیدی کا اظہار کرتے ہوئے سلام صاحب رقم طراز ہیں “رات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اندھیرا اب بھی بہت ہے، بہت تاریک اندھیرا ہے، جیسا کہ شمال مشرقی دہلی کے حالات نے ثابت کردیا۔ مگر پھر بھی ایک ہلکی سی کرن نظر آرہی ہے۔ ابھی دیر ہے مگر ہو سکتا ہے کہ یہ ایک نئے سویرے کی نوید ہو۔”

سلام صاحب نے روایتی قیادت اور علما پر بجا تنقید کی ہے مگر تمام علما پر یہ الزام لگا کر کہ وہ نئی نسل کو جدید (اُن کے بقول ’سیکولر‘) تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں، انھوں نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے علما خود اسکول اور کالج چلارہے ہیں اور مسلمان بچوں کو مقابلے کے امتحانات میں حصہ لینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

یہ جرات مندانہ کتاب لکھنے کے لیے ضیاء السلام صاحب قابل مبارکباد ہیں۔ کاش اس کا ہندی ترجمہ بھی ہوجائے اور ایوان سیاست، میڈیا اور دیگر مقامات پر ان لوگوں تک اسے پہنچادیا جائے جو طبعا انصاف پسند ہیں مگر محض غلط اور جھوٹی افواہوں کی بنیاد پر نفرت اور تعصب کا پہاڑ اپنے دلوں میں بنائے ہوئے ہیں تو یقینا اس کا فائدہ دوچند ہوجائےگا۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.