عورتوں کا حق وراثت اور موجودہ ہندوستانی مسلم معاشرہ

محمد رضی الاسلام ندوی
جون 2024

کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی ملکیت میں رہنے والی تمام چیزیں (زمین، جائیداد، مکان، دکان، نقدی وغیرہ) اس کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم ہوں، اسے وراثت کہتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ مختلف سماجوں میں جو شخص زور آور ہوتا ہے وہ اس پر قبضہ کرلیتا ہے اور میّت سے اپنے برابر یا اپنے سے زیادہ قریبی تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کو محروم کردیتا ہے۔ یہ عمل صدیوں سے جاری ہے۔عورتیں مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں اپنے جائز حقِ وراثت سے محروم رہی ہیں اورعموماً انھیں نظرانداز کیا گیا ہے۔ وراثت کا حق دار صرف بڑا لڑکا ہوتا تھا اور بیوہ اور لڑکیاں اس کے رحم و کرم پر ہوتی تھیں۔ لڑکا نہ ہو، تب لڑکیاں میراث پاتی تھیں۔

اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے عورتوں کو سماج میں مردوں کے مساوی حیثیت دی اور انھیں بھی وراثت کا مستحق قرار دیا۔ قرآن کریم نے پوری صراحت اورقوت کے ساتھ اس کا اعلان کیاہے: ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘ (النساء: 7)اس آیت میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ مالِ وراثت چاہے زیادہ ہو یا کم، ہر حال میں عورتیں بھی اس میں سے حصہ پائیں گی۔ساتھ ہی ’مقرّر حصہ‘ کہہ کر مزید تاکید کردی گئی ہے کہ مالِ وراثت میں عورتوں کا حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی کی جاسکتی ہے نہ انھیں بالکلیہ محروم کیا جاسکتا ہے۔

وارثین میں تین خواتین ایسی ہیں جو کسی بھی حال میں بالکلیہ میراث سے محروم نہیں ہوتیں: وہ ہیں ماں، بیوی اور بیٹی۔ اس کے علاوہ مختلف صورتوں میں پوتی، حقیقی بہن، باپ شریک بہن، ماں شریک بہن اور دوسری خواتین بھی حصہ پاتی ہیں۔ تقسیمِ میراث کے متعدد حالات ایسے ہیں جن میں عورت کا حصہ مرد کے برابر ہوتا ہے اور ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ مثلاً میت کے وارثین میں اگر اس کی اولاد بھی ہو اور والدین بھی تو ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ (النساء: 11)

احکامِ دین کے اصول عموماً قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں اور ان کی جزئیات اور تفصیلات کا تذکرہ احادیث میں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں نماز کی فرضیت بیان کی گئی ہے، اس کے اوقات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور چند بنیادی احکام دیے گئے ہیں، جب کہ اوقاتِ نماز کی تعیین، رکعات کی تعداد، نمازکی ادائیگی کا طریقہ، اس کو فاسد کرنے والی چیزیں اور دیگر تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ یہی حال زکوٰۃ، روزہ،اورحج وغیرہ کا ہے کہ ہر ایک کے بنیادی احکام قرآن مجید میں مذکور ہیں، جن کی تشریح و تفصیل رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور عمل سے کی ہے، لیکن وراثت کا معاملہ اس سے مختلف ہے کہ اس کے تقریباً تمام احکام قرآن مجید میں ذکر کردیے گئے ہیں اور مختلف صورتوں میں مستحقین کے حصے بھی بیان کر دیے گئے ہیں۔ یہ تمام احکام قرآن مجید کی چوتھی سورہ النساء کی آیات 7 تا 14 اور 176 میں مذکور ہیں۔ آیت نمبر7 میں بتایا گیا ہے کہ وراثت میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی حصہ ہے، اس لیے انھیں ان کا حصہ ضرور دیا جانا چاہیے۔ آیت نمبر8 میں کہا گہا ہے کہ وراثت تقسیم ہونے لگے تو مستحقین کے علاوہ دیگر موجود رشتے داروں کو بھی کچھ نہ کچھ دینا چاہیے۔ آیت نمبر9 میں درست تقسیم پر جذباتی انداز میں ابھارا گیا ہے، چناں چہ کہا گیا ہے کہ ذرا سوچو، اگر تمھارا انتقال ہو اور دوسرے اس پر قبضہ کرلیں اور تمھارے ورثہ کو محروم کردیں تو کیا تمھارے نزدیک یہ پسندیدہ ہوگا۔ اسی طرح تمھیں بھی اس غلط کام سے بچنا چاہیے۔آیت نمبر 10 میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ آگ کے انگاروں سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ آیت نمبر11،12 میں احکامِ وراثت کا بیان ہے۔ اس کے بعد آیت نمبر13، 14 میں دھمکی کے انداز میں کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو لوگ ان حدوں سے تجاوز نہیں گے اور اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کریں گے وہ روزِ قیامت جنت کے مستحق ہوں گے اور جو لوگ ان حدوں کو پامال کریں گے اور اللہ اور رسول کی نافرمانی کریں گے وہ جہنم میں جھونک دیے جائیں گے، جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔

انسانوں کے بنائے ہوئے قانون اعتدال، توازن اور فطری تقاضوں کی رعایت سے محروم ہوتے ہیں اور ان میں بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ اس کا مظہر یہ ہے کہ کہاں تو پہلے عورت وراثت سے محروم تھی اور کہاں اب اسے مرد کے برابر کا حق دار بنا دیا گیا ہے اور چوں کہ اسلام میں تقسیمِ وراثت کی چند مخصوص حالتوں میں عورت کاحصہ مرد کا نصف ہوتا ہے، اس لیے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے اور اس کا حصہ مرد سے کم متعین کر کے اس کی حق تلفی کی ہے۔ حالاں کہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وراثت کی بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے کم ہونے کا سبب نظامِ معاشرت میں دونوں کی مخصوص پوزیشن ہے۔ اسلامی نظام معاشرت میں کمانے، گھر کا خرچ چلانے اور ماتحت افراد کی مالی کفالت کرنے کی ذمہ داری مرد پر عائد کی گئی ہے، جب کہ عورت کو معاشی جدّو جہد سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ بچپن میں اس کی کفالت باپ کے ذمے ہے، جوانی میں شادی کے بعد شوہر کے ذمّے اور بڑھاپے میں اولاد کے ذمے۔ وہ جس قدر مال کی مالک بنتی ہے سب اس کے پاس محفوظ رہتا ہے، دوسروں پر خرچ کرنا اس کی ذمہ داری نہیں، لیکن مرد جو کچھ مال حاصل کرتا ہے اسے زیرِ کفالت افراد پر خرچ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس بنا پر یہ بات قرینِ انصاف ہے کہ مرد کاحصہ عورت کا دوگنا رکھا گیا ہے۔ اگر دونوں کا حصہ برابر کردیا جاتا تو یہ مرد کے ساتھ ناانصافی ہوتی۔

تقسیم وراثت کی اتنی سخت تاکید،اس میں عورتوں کا بھی حصہ متعین کیے جانے اور انھیں محروم کرنے کی صورت میں جہنم کی وعید سنائے جانے کے باوجود یہ دیکھ کر بہت حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلم سماج اس سے بالکل بے گانہ ہے۔ اسے احکام وراثت کی خبر ہے نہ اس کے اندر اس پر عمل کا جذبہ پایا جاتا ہے۔اس میں دین کا جو حکم سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے وہ وراثت کا ہے۔ایک آدمی نماز نہیں پڑھتا، ہم اسے بے دین سمجھتے ہیں۔ ایک آدمی صحت مند ہونے کے باوجود روزہ نہیں رکھتا، ہم اس پر نگاہِ غلط ڈالتے ہیں۔ ایک آدمی مال دار ہونے کے باوجود زکوٰۃ نہیں ادا کرتا، ہم اسے اللہ کا نافرمان قرار دیتے ہیں۔ ایک آدمی صاحب حیثیت ہونے کے باوجود حج نہیں کرتا، ہم اسے سچّا مسلمان نہیں سمجھتے۔ لیکن ایک آدمی اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد اور مملوکہ چیزوں پر قابض رہتا ہے اور اپنی بہنوں کو وراثت سے محروم رکھتا ہے، اس کے باوجود ہم اسے سچّا پکّا مسلمان سمجھتے ہیں،حالاں کہ وراثت کی تقسیم بھی مسلمانوں پر اسی طرح فرض ہے، جس طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس لیے جس طرح ان عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی طرح تقسیم وراثت کا بھی اہتمام کیا جانا چاہیے۔

بعض مسلمان کہتے ہیں کہ ہندوستان میں لڑکیوں کو وراثت میں جو کچھ ملنے والا ہوتا ہے وہ انھیں پہلے ہی جہیز کی شکل میں دے دیا جاتا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ جہیز ایک غیر اسلامی رسم ہے۔ اس کا لین دین پسندیدہ نہیں۔ اس کو بڑھاوا دینے والے ایک نا مطلوب عمل کو رواج دینے کے قصور وار ہیں، جب کہ تقسیمِ وراثت کا قرآن میں صریح الفاظ میں بہ تاکید حکم دیا گیا ہے، اسے فرض قرار دیا گیا ہے اور اسے اللہ کی مقرر کردہ حد کہا گیا ہے۔ اس لیے جو لوگ مالِ وراثت پر خود قبضہ کر لیتے ہیں اور دوسروں کو، خاص طور پر اپنی بہنوں اور دوسری رشتے دار عورتوں کو محروم رکھتے ہیں، وہ بڑے گناہ گار ہیں۔ وہ چاہے جتنے پکّے نمازی اور حاجی ہوں، چاہے جتنی پابندی سے روزہ رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہوں، لیکن اللہ کی نظر میں وہ سخت مبغوض ہیں۔ جہیز دینے والے اور وراثت سے مستحقین کو محروم رکھنے والے دوہرے جرم کا ارتکاب کرنے والے ہیں: ایک نا مطلوب عمل کو رواج دینے کا جرم اور دوسرے تاکیدی فرض پر عمل نہ کرنے کا جرم۔ اس لیے مسلم سماج کی سلامتی اسی میں ہے کہ جہیز کے لین دین کی حوصلہ شکنی کی جائے اور لوگوں کو تقسیمِ وراثت پر آمادہ کیا جائے۔

مسلمانوں سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دین کے تمام احکام پر عمل کریں۔کچھ احکام کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے اور کچھ احکام کا تعلق انسانوں کے حقو ق سے۔ متعدد احادیث میں صراحت سے مذکور ہے کہ حقوق اللہ میں کوتاہی تو اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمی سے معاف کردے گا، لیکن حقوق العباد میں کوتاہی اور ظلم و زیادتی کسی بھی حال میں قابلِ معافی نہ ہوگی، جب تک کہ وہ شخص نہ معاف کردے جس کی حق تلفی کی گئی ہوگی۔ ضرورت ہے کہ مسلم سماج میں تقسیم وراثت کے بارے میں بیداری لائی جائے اور قرآن مجید کے اس اہم حکم پر عمل کرنے کے لیے اسے تیار کیا جائے۔