مہاراشٹر میں لوک سبھا عام انتخابات 2024, کے نتائج نے الیکشن کمیشن، مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکر اور عدلیہ کے ذریعے اصلی اور نقلی کے فیصلہ کو الٹ دیا ہے۔ عوام کی نظر میں ان تینوں کے ذریعے نقلی قرار دیے گئے کو اصلی اور اصلی قرار دیے گئے کو عوام نے مسترد کردیا ہے۔ گودی میڈیا سے الگ سوشل میڈیا پر اپنی آواز بلند کرنے والے صحافیوں میں بھی اس بات پر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ عوام نے بہت حد تک دھونس اور دھاندلی اور بلیک میلنگ کے ذریعے کسی کی پارٹی توڑدینے اور اسے بے دست و پا کردینے والوں کو اچھا سبق سکھایا۔ مہاراشٹر کے انتخابی نتائج کچھ اس طرح ہیں انڈین نیشنل کانگریس (13)، بی جے پی (9)، ادھو ٹھاکرے والی شیو سینا( 9)، شرد پوار والی این سی پی (8)، شندے والی شیو سینا (7)، اجیت دادا والی این سی پی (1)اور آزاد( 1)۔2019 کے لوک سبھا میں بی جے پی کو (23) اور شیو سینا کو( 18)سیٹیں ملی تھی۔ فری پریس اور ایشین ایج سے وابستہ رہے صحافی وویک بھاوسار کہتے ہیں اس الیکشن میں سب سے زیادہ نقصان بی جے پی کو ہوا ہے انھیں 2019 میں 23 کے مقابلہ 2024, میں محض 9 سیٹوں پر سمٹنا پڑا ہے۔ یوں نقصان تو شیو سینا کا بھی ہوا ہے لیکن وہ اسے ماضی قریب میں حاصل کرسکتی ہے جب کہ بی جے پی کے لیے نقصان کی بھرپائی کی امید نظر نہیں آتی۔ اسی طرح این سی پی سے ٹوٹ کر بی جے پی کے ساتھ ریاستی حکومت میں شامل ہونے والے اجیت دادا پوار کو کافی نقصان ہوا ہے انھیں محض ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا۔ این سی پی شرد پوار کو فائدہ ہی فائدہ ہے ان کے پاس 2019میں صرف چار سیٹیں تھیں جب کہ 2024 میں انھیں آٹھ سیٹیوں پر کام یابی ملی ہے۔ سب سے بہتر کارکردگی کانگریس کی رہی جس کو 2019, میں صرف ایک سیٹ پر صبر کرنا پڑا تھا اس بار بارہ سیٹوں کے فائدہ کے ساتھ وہ 13 سیٹوں پر کام یاب رہی ہے۔ 2024,کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے چھبیس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے جب کہ کانگریس، این سی پی (شرد پوار) اور شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) کا مجموعی ووٹ چوالیس فیصد کے قریب ہے۔ یہاں مجھے اس صحافی کی بات درست لگی کہ مہاراشٹر میں عوام شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہیں کیوں کہ انھوں نے انھیں ووٹ کیا تھا اور وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان دونوں لیڈروں کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ عوام کو یہ بھی احساس تھا کہ دھوکہ بازی کے پس پشت پرکونسی پارٹی اور نظریہ کام کررہا ہے۔ اس لیے انھوں نے وقت آنے پر اس کا بہترین جواب دے دیا۔
مہاراشٹر الیکشن کے نتائج کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ مسلم نمائندگی صفر ہوگئی ہے۔ اول تو انڈیا اتحاد نے مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کردیا، ایک بھی سیٹ سے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اورنگ آباد سیٹ سے امتیاز جلیل اگر فتح یاب ہوتے تو ایک سیٹ کی امید تھی مگر وہ اورنگ آباد سے ایک لاکھ چونتیس ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے شکست کھاگئے۔ بغیر سوچے سمجھے تو عام طور پر یہی بات کی جائے گی کہ ونچت بہوجن اگھاڑی کے مسلم امیدوار افسر خان کی وجہ سے امتیاز جلیل کو شکست کا سامنا کرناپڑا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ اگر انڈیا اتحاد نے مسلم نمائندگی کے تعلق سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہوتا نیز مجلس اتحاد المسلمین کو بھی اس اتحاد کا حصہ بنایا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ امتیاز جلیل کی صورت میں بھارتی پارلیمنٹ کو ایک مسلم نمائندہ مل جاتا بلکہ اسے اور بھی فائدہ ممکن تھا۔ لیکن جیسا کہ عام طور پر مسلمانوں میں یہ مشہور ہے کہ انھیں صرف مسلمانوں کا ووٹ چاہیے مسلم لیڈر نہیں۔ مسلم لیڈر کے نام پر انھوں نے وفادار یا غلام ہی مسلمانوں پر مسلط کیے ہیں۔
مہاراشٹر الیکشن کا ایک اور اہم مضحکہ خیز پہلو یہ رہا کہ یہاں دھولیہ حلقہ انتخاب سے شیخ محمد زید بھی انتخابی میدان میں تھے جنھیں نو سو اکیاون ووٹ ملے۔ شیخ محمد زید ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کی جانب سے امیدوار تھے۔ جب کہ جماعت اسلامی ہند اور دیگر مسلم تنظیموں نے ذیلی تنظیموں کے ساتھ الیکشن کے دوران اور اس سے قبل غیر فرقہ پرست پارٹیوں کو ووٹ دینے کے لیے مہم چلائی جو یقینا کام یاب رہی۔ تاہم جب ہم مسلم نمائندگی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں تحفظات سے باہر نکل کر اس کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی کو ہرانے اور کسی کو روکنے کا بوجھ ہمیں اپنے کاندھوں سے اتار دینا چاہیے۔ اصل میں مسلمان ایک خوف کے سائے میں ہیں اور اسی خوف کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی قوت کومضبوط کرنے کے بجائے دوسروں کو طاقتور بنانے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ بہر حال یہ چند باتیں تو برسبیل تذکرہ ذہن میں آگئیں جسے قارئین تک پہنچانا ضروری تھا۔
مہاراشٹر میں کانگریس اور شرد پوار والی این سی پی کو فائدہ ہی فائدہ ہے جب کہ این سی پی کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی سے ہاتھ ملانے والے اجیت دادا پوار کو نقصان بھی ہوا اور ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ آج بھی بال ٹھاکرے سے زیادہ شرد پوار کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور دوسرے یہ کہ مہاراشٹر میں آج بھی کانگریس زمینی سطح پر اپنے وجود کا احساس کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ جیسا کہ شیو سینا میں بغاوت اور شندے گروپ کے ذریعے حکومت بنانے اور خود کو قانونی طور پر اصل شیو سینا قرار دینے کو عوام نے کلی طور مسترد نہیں کیا اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ بال ٹھاکرے کا نام اور پارٹی کا نشان انھوں نے استعمال کیا اس کی وجہ سے مراٹھی عوام کا ذہن منتشر ہوا اور اس کا کچھ فائدہ شندے گروپ کو ہوا ورنہ ’’پچاس کھوکھے ایکدم اوکے‘‘کے نعروں کے بعد ان کے ساتھ بھی عوام کا رویہ اجیت دادا پوار جیسا ہی ہوتا۔ واضح ہوکہ بی جے پی پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی کی خرید و فروخت کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کو عدم استحکام سے دوچار کررہی ہے۔ اس کا کھلا مظاہرہ دو سال قبل مہاراشٹر میں بھی ہوا اور کئی ریاستوں میں جہاں کانگریس کی حکومت بننا طے تھی بی جے پی نے سام دام دنڈ بھید کے ذریعے اپنی حکومت بنائی۔
دہائیوں پرانے انتخابی نشان پر ڈاکہ زنی اور اس میں عوامی اداروں کی شمولیت کے باوجود کسی پارٹی کا الیکشن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا صرف قابل تعریف نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی پہنچ عوام تک کس قدر ہے۔ ورنہ حکمراں محاذ نے تو اپنے مخالفین کو نیست و نابود کردینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ وہ ادارے جو ریاست کی ملکیت اور ذمہ داری ہوتے ہیں، جو ریاست کے نظم و نسق دیکھتے ہیں انھیں بھی مخالفین کو پست کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ کبھی ای ڈی اور سی بی آئی جیسے اداروں کی عوام کی نظر میں جو قدر تھی وہ آج بے قدر ہوگئےہیں تو محض اس لیے کہ مرکزی حکومت نے اس کا غلط استعمال کیا۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ بی جے پی اور اس کے سربراہ جو اپنے تکبر کے لیے معروف ہوچکے ہیں وہ آج بھی کسی ایسی شخصیت سے خوفزدہ رہتے ہیں جو عوام میں اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار کے خلاف کسی کارروائی کی جرات نہیں کی۔ بی جے پی کے ذریعے دو پارٹیوں میں بغاوت کے بعد انھیں بھی احساس تھا کہ انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جس کے خوف کی وجہ سے انھوں نے شہری انتظامیہ کے الیکشن نہیں کرائے۔ لیکن مسئلہ یہ کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ آج نہیں تو کل تو اس جمہوری طرز حکومت میں عوام کے سامنے جانے کی ضرورت پڑتی ہی ہے اور آج کی اکیسویں صدی کی اطلاعاتی تکنیک کے دور میں کسی کو زیادہ دنوں تک اندھیرے میں نہیں رکھ سکتے۔ آپ کا جھوٹ بھی زیادہ دنوں تک پردہ اخفا میں نہیں رہ سکتا۔ مہاراشٹر کا ریزلٹ مرکز میں حکمراں محاذ کے لیے ایک سبق ہے اگر وہ اس سے کچھ سیکھنا چاہے۔