اس مضمون کاتعلق ظاہر ہے کہ مخصوص طور سے مسلمانوں سے ہے، یعنی مسلمانوں کے لیے‘ تکثیری سماج میں رہنے کے تقاضے اور حدود کیا ہیں،اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چناں چہ سب سے پہلے یہ وضاحت ہونی چاہیے کہ‘ تکثیری سماج ’ کا مطلب کیا ہے؟
تکثیری سماج
تکثیری سماج اردو میں پلورل سوسائٹی(Plural Society) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پلورل سوسائٹی کی اصطلاح سماجیات اور سیاسیات میں ایک نئی اصطلاح ہے۔ ۲۰ویں صدی کی آخری دہائیوں میں اس اصطلاح کا تعارف اور خال خال استعمال شروع ہوا اور اکیسویں صدی میں یہ اصطلاح عام طور سے استعمال ہونے لگی۔ناروے کے فریڈرک بارتھ اور جے ایس فرنی وال کو اس اصطلاح کا خالق کہا جاتا ہے، جنھوں نے اپنے ایک مقالے میں پہلی بار اس اصطلاح کا استعمال کیا۔ اس اصطلاح کا ابتدائی تصور منڈی اور کاروبار سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی یہ بات کہ الگ الگ مذہبی، ثقافتی اور نسلی شناخت رکھنے والے معاشرے کاروباری لین دین کے لیے مارکیٹ میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور آپسی سودے کرتے ہیں، جن کے لیے ایک ایسے میکانزم کی ضرورت ہے جس کے تحت ملنے جلنے اور لین دین کے اس عمل کو کچھ ضابطوں اور ڈسپلن کا پابند کیا جائے،(آکسفورڈ ریفرینس)۔ پھر اس تصور کو نو آبادیاتی ممالک میں بسنے والے مختلف النوع معاشروں کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا اور اب ان تمام سیاسی اکائیوں کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہے جہاں الگ الگ مذہبی و ثقافتی شناخت رکھنے والے گروہ اپنی جداگانہ شناخت کو بنائے رکھتے ہوئے مشترک معاملات کو کسی اصول یا ضابطے کے تحت برتتے ہیں۔تکثیری سماج کے پہلو بہ پہلو ایک اور اصطلاح‘‘ کثیر ثقافتی سماج’’ (Muliticultural Society) کی استعمال ہوتی ہے۔ یہ ذرا پہلے کی اصطلاح ہے جو ابتداء میں یوروپ اور امریکہ میں رائج ہوئی اور اس کا تصور ایک ایسے سماج سے ہے جس میں الگ الگ ثقافتی، نسلی، قومی یا مذہبی شناخت رکھنے والے افراد مل جل کر ایک سماج بناتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس اصطلاح میں الگ الگ شناختوں کے کسی مشترک قومی شناخت میں ضم ہوجانے کا تصور پنہاں ہے۔ لیکن شناخت اور وجود کے تحفظ کی فکرکی وجہ سے‘ کثیر ثقافتی سماج’ کی جگہ اب‘ تکثیری سماج’ کی اصطلاح پر زور دیا جاتا ہے۔
تکثیری سماج اور مسلمان
ا س طرح سے جو نئی نئی اصطلاحات وضع ہوتی رہتی ہیں ان کی اپنی ایک مخصوص تعریف ہوتی ہے اور الگ الگ زمان و مکان ہوتا ہے۔ پھر ان کے پس منظر اور مخصوص تصور کے لحاظ سے ان کے لیے مخصوص قواعد اور اصول بھی بنائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو ان تمام حالات سے سابقہ پیش آتا ہے اس لیے مسلمانوں کے مفکرین اس بات کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دینی کردار اور تاریخی مزاج کو ان نئے نئے خاکوں میں کیسے فٹ کیا جائے۔ چناں چہ یہ سوال بھی اسی فکر کا حصہ ہے کہ تکثیری سماج میں رہنے کے لیے مسلمانوں کے اوپر کیا تقاضے عائد ہوتے ہیں اور ان کی حدود کیا ہیں۔
اس طرح کے سوالات سے گریز کرنا تو مناسب نہیں ہے، اور ان امور پر بحث کرنا ایک دانش ورانہ عمل ہے لیکن ان نئے نئے خاکوں کو معیار بناکر سامنے رکھنا صحیح نہیں ہے۔ یعنی یہ بات کہ دنیا میں چلنے والا ہر نیا سکہ مسلمانوں کے لیے فکر وعمل کا ایک معیار بن جائے اور اس کے مطابق مسلمانوں کو ڈھالنے کے لیے غور کیا جانے لگے۔ کیوں کہ یہ اختراعات انسانی اختراعات ہیں اور ان کے پیچھے وحی الٰہی کی رہ نمائی نہیں ہے۔ خود انسانی فکرو نظر کے اعتبار سے بھی یہ خالصتاً انسانی فلاح و بہبود کے جذبے سے بروئے کار نہیں آتی ہیںبلکہ ان کے پیچھے نظریاتی اور قومی مفادات کارفرماہوتے ہیں اور ایک مخصوص ذہنیت اس کے لیے معیار مطلوب ہوتی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے پاس وحی کی روشنی اور رہ نمائی ہے اور اس روشنی ورہ نمائی میں چلنا اوردنیا کو چلانے کی کوشش کرنا مسلمانوں پر واجب بھی ہے اوراسی میں مسلمانوں اور باقی انسانی سماج کی فلاح و بہبود بھی مضمر ہے۔
مسلمانوں کو وحی الٰہی سے جو روشنی اور رہ نمائی ملتی ہے وہ اتنی جامع ہے کہ ہر طرح کے حالات کے لیے اس روشنی میں مسلمان اپناطرز عمل اور لائحہ عمل بناسکتے ہیں۔ چناں چہ اس موضوع پر اس طرح سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان جس طرح کے سیاسی نظام میں رہ رہے ہیں اور ان کے اطراف جو مختلف طرح کے لوگ بستے اوررہتے ہیں ان کے ساتھ مسلمان دین کی رہ نمائی میں کس طرح کا معاملہ رکھیں۔ احوال و کوائف کو اگر غیر اسلامی دنیا تکثیری سماج کہتی ہے تو ہمارے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم بھی تکثیری سماج کو اپنے لیے ایک معیار اور قدر بنالیں اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کو اپنے اوپر لازم کریں۔ نہیں بلکہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا جس چیز کو تکثیری سماج کہہ رہی ہے اسے اسلام کی تاریخ اور تعبیر میں کس طرح دیکھا اور برتا گیا ہے۔
تکثیری سماج کاتصور اور اسلام کا موقف
تکثیریت یا تکثیری سماج کا بنیادی تصور متعدد قسم کی سماجی اکائیوں کی موجودگی کو باور کرنا ہے۔ اسے انسانی سماج کا تنوع بھی کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر ہم اسلام کی اپروچ کو دیکھیں توہمیں بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ قرآن و سنت میں اس کی واضح تصریحات ملیں گی۔ سب سے پہلے قرآن ہی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دنیا کے سارے انسان اسلام قبول نہیں کریں گے۔ ‘‘اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی گروہ بناسکتا تھا، مگر اب وہ مختلف طریقوں پر ہی چلتے رہیں گے’’ (ہود: ۱۱۸)؛ ‘‘اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو) تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنادیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے گم راہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھادیتا ہے۔۔۔’’(النحل: ۹۳)َ۔
پھر قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ایمان اور اسلام قبول کرنے کے لیے کوئی جبر نہیں ہے، ہر آدمی اس کے لیے آزاد ہے کہ وہ چاہے تو اللہ ورسول پر ایمان لائے اور ہدایت کو اپنائے، اور چاہے تو نہ لائے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے،اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہوگا۔ (البقرہ: ۲۵۵)
اس کے بعد اس سوال کا نمبر آتا ہے کہ جب اہل ایمان اور ان کی جماعت دنیا میں غیر مسلم فرقوں اور گروہوں کے ساتھ رہے گی تو ان کے ساتھ کس طرح سے پیش آئے؟ اس سلسلے میں قرآن کا سب سے پہلا رہ نما اصول یہ ہے کہ وقولو ا للناس حسنا: لوگوں سے بھلی بات کہو (البقرہ: ۸۴)، یعنی ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرو، ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کرو، غلط بات نہ کہو، پریشان نہ کرو، ڈراؤ دھمکاؤ نہیں اور کوئی نقصان مت پہنچاؤ۔ یہ ہدایت اگرچہ بنی اسرائیل کو دی گئی تھی لیکن اہل ایمان کے لیے یہ ایک عام ہدایت اور دائمی اصول ہے۔امت محمد یہ سے اللہ تعالیٰ نے بطور خاص یہ ارشاد فرمایا ہے کہ‘‘ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتاجو تم سے دین کے معاملے میں نہیں لڑتے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالتے ’’(الممتحنہ: ۸)
اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے لوگوں یا لامذہب لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے، انسانی اخوت کے تعلق کو برتنے، عدل و انصاف پر مبنی معاملات کرنے اور مروت و احسان کا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن کی ان ہدایات کا عملی نمونہ ہمیں اللہ کے رسول ﷺ کے اسوہ حسنہ میں، نیز آپ ﷺ کے ارشادات میں ملتا ہے۔ آ پ ﷺ نے حجۃ الوداع کے مشہور خطبے میںجب مسلمانوں کے مجمع کو خطاب فرمایا تو‘ اے انسانو!’ کہہ کر مخاطب کیا، اور یہ بھی فرمایا کہ ‘‘اے انسانو! اللہ کا ارشاد ہے: ‘اے انسانو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے۔ ۔۔۔’’ نیز یہ بھی فرمایا کہ‘‘ انسان سارے ہی آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ ۔۔۔ ’’ حالاں کہ اسی خطبے میں آپ ؐ نے مسلمانوں کے لیے مخصوص طور سے فرمایا کہ ‘‘ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے’’،تاہم ابنائے آدم ہونے کے لحاظ سے بھی سارے انسان ایک دوسرے کے بھائی ہی ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں کے ساتھ جو ایمان نہیں لائے تھے، یا نہیں لارہے تھے، ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کے ساتھ اجنبیت، بے گانگی یاتنفر کا سلوک نہیں کیا۔ نبوت کی ۲۳ سالہ زندگی میں آپ کو ایسے بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا جو ایمان نہیں لائے تھے، لیکن آپ سے کوئی دشمنی نہیں رکھتے تھے اور کوئی نقصان آپ کو نہیں پہنچاتے تھے، ایسے لوگوں سے آپؐ نے لین دین کے بھی معاملات کیے ہیں، ان سے مدد اور خدمت بھی لی ہے، ان کے ساتھ معاہدے بھی کیے ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے جب مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کرلی تو اس میں غیر مسلموں کے وجود کو بھی تسلیم کیا گیا، انھیں اپنے مذہب اور عقیدے پر قائم رہتے ہوئے پرامن طریقے سے رہنے کی آزادی تھی۔ بعد میں جب اسلامی ریاست کی توسیع ہوتی گئی اور اسلام کی عمل داری عرب کے باہر بھی دوردراز تک قائم ہوگئی تو اس میں طویل عرصے تک اکثریت غیر مسلم عوام کی رہی جو دھیرے دھیرے از خود مسلمان ہوتے گئے اور بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے پچھلے عقیدوں پر قائم رہے لیکن انھوں نے امن کے ساتھ رہنا منظور کیا تو رہنے سہنے، نسلی سلسلے کو فروغ دینے اور زندگی کے جملہ معاملات کو برتنے کے حقوق بطور شہری کے انھیں بھی اسی طرح حاصل رہے جس طرح مسلمانوں کو حاصل تھے۔ یہ سلسلہ مسلمانوں کی عالم گیر سیاسی برتری کے آخری دور یعنی خلافت عثمانیہ کے خاتمے تک اسی طرح جاری رہا۔ خلافت عثمانیہ کے ماتحت مختلف ملکوں میں غیر مسلم فرقے عزت و آزادی کی زندگی گذارتے تھے۔ بلکہ اپنے اپنے وطن میں سیاسی جبر یا ظلم وستم سے پریشان لوگ سلطنت عثمانیہ کی عمل داری میں آکر پناہ بھی لیتے تھے۔ یہودیوں کے بارے یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ یوروپ کے ملکوںمیں جب وہ ستائے گئے اور باہر نکالے گئے تو انھیں مسلمانوں کی عمل دار ی کے علاوہ کہیں پناہ نہ ملی۔ ہندستان کی بات کریں تو یہاں بھی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلم بادشاہوں کے طویل دور حکم رانی میںغیر مسلم اکثریت نے پورے اطمینان اور تحفظ کے ساتھ زندگی گزاری اور سماجی سطح پر وہ مسلمانوں کے ساتھ شیر و شکر ہوکر جیتے رہے۔
تکثیری سماج میں مسلمانوں کا مطلوبہ رویہ
مختصر یہ کہ مسلمانوں کے لیے‘‘ تکثیری سماج’’ میں رہنے کا تجربہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ غیر مسلم اقوام یا افراد کے ساتھ ربط و تعلق اور برتاؤ کے لیے بھی مسلمانوں کو کسی نئی رہ نمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن وسنت کی رہ نمائی جو کل تھی وہ آج بھی ہے، ضرورت بس یہ ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ دینی تربیت ہو اورزندگی کے تمام معاملات میں ان کے طرز عمل کو اسلامی اخلاقیات کے مطابق بنانے کی کوشش کی جائے۔ غیر مسلم افراد یا اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے سلوک کے لیے اسلامی اخلاقیات کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے عقیدے اور دین کا پہلو اور دوسرا ہے انسانی افعال اور معاملات کا پہلو۔ اسی طرح اس کے دو رخ ہیں ایک ہے اثبات اور دوسرا ہے نفی، یعنی یہ کرنا چاہیے یہ نہیں کرنا چاہیے۔
انسانی افعال اور معاملات میں زندگی کے فطری معاملات آتے ہیں۔ یعنی ملناجلنا، معاملات کرنا، کاروبار اور ملازمت،پیسوں یا چیزوں کا لین دین، سفر اور آنا جانا، ہوٹلوں میں ٹہرنا، ریستورانوں میں کھانا پینا، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں ایک ہی طرح کی فطرت کے ساتھ شروع سے آج تک چلی آرہی ہیں۔ دین نے نہ تو غیر مسلموں کے ساتھ ملنے جلنے سے روکا ہے، نہ ان کے ساتھ کاروبار کرنے سے روکا ہے، نہ ان سے دنیاوی فائدہ لینے یا انھیں دنیاوی فائدہ دینے سے روکا ہے (مثلاً علاج معالجہ وغیرہ)، نہ کسی کو اچھوت سمجھنے کی تعلیم دی ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھنے سے بچا جائے۔ اس طرح اسلام نے مسلمانوں کو جو کچھ سکھایا ہے وہ مسلمانوں کی عام ذہنیت کا حصہ ہے اور ان کے عمل میں عام طور سے رائج ہے۔ مسلمان حضر اور سفر میں ہرجگہ اور ہروقت غیر مسلموں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ بازاروں میں ان کے ساتھ کاروبار کررہے ہیں، کاروباروں میں شرکت کررہے ہیں، اسپتالوں میں ان سے علاج کرارہے ہیں، ان کے ہوٹلوں میں ٹہرتے ہیں، کھاتے پیتے بھی ہیں۔ دفتروں اور اسکول و کالجوں میں ان کے ساتھ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مسلموں سے بے تکلفی کے ساتھ میل جو ل کی یہ کیفیت تو اب فی الواقع اس حد تک پہنچ چکی ہے،جہاں تک اسے نہیں ہونا چاہیے تھاکیوں اس سے ان کا اپنا اسلامی امتیاز متاثر ہورہا ہے اور ان کے اندر غیر مسلموں کے طور طریقے فروغ پارہے ہیں۔
غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کو یہ سارے معاملات انجام دیتے ہوئے جس بات کاخیال رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ یہ سارا میل جول اور تعامل اسلامی اخلاقیات کا پابندہو۔ یعنی وہ اپنے معاملات کھرے رکھیں، نہ کسی کو دھوکہ دیں، نہ کسی کونقصان پہنچائیں،نہ وعدہ خلافی کریں، نہ بدعہدی کریں، نہ کسی کا حق ماریں،نہ کسی پر جبر اور ظلم کریں۔ اس طرح کی ساری چیزیں جو ملکی قانون کی رو سے بھی جرم ہیں، ایک مسلمان کے لیے اس کے دین کی رو سے حرام اور گناہ ہیں۔ اس کے آگے احسان اور حسن سلوک کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ عدل کرو، احسان کرو،قرابت داروں کو دو،۔ ۔۔۔۔(سورہ نحل : آیت ۹۰)۔ یہ عدل و احسان کا حکم سبھی کے ساتھ ہے، اور قرابت داروں کا مطلب اصل میں رشتے داروں سے ہے لیکن قرابت داروں میں ان لوگوں کو بھی شامل سمجھا جاسکتا ہے جن سے قریب کا تعلق ہو۔ چاہے یہ پڑوس کے لحاظ سے ہو، کاروبار کے لحاظ سے ہو، یا اسکول ودفتروغیرہ میں قائم ہونے والے تعلقات کی وجہ سے ہو۔اس طرح کے قریبی لوگوں سے آپسی تحائف کا لین دین کیا جاسکتا ہے۔ ان کی غیر مذہبی تقریب میں شریک ہوا جاسکتا ہے۔ جیسے شادی کا موقع ہو، کسی کے پاس ہونے کا موقع ہو، کوئی سروس لگنے کا موقع ہووغیرہ، جس کا تعلق مذہب اور عقیدے سے نہ ہو۔ لیکن ان تقریبات میں شریک ہونے کی بھی شرط ہے۔ اپنے اسلامی اخلاق کا، اپنے عقیدے اور ایمان کا، حرام وحلال کا پوری شدت سے خیال رکھنا۔ اگر آپ ان کی تقریب میں شریک ہورہے ہیں تو ان کے لیے لازم ہے کہ وہ آپ کے لیے الگ نشست کا انتظام کریں، جہا ںنہ تو کوئی مذہبی رسم انجام دی جارہی ہو، نہ دھارمک منتروں اور گیتوں کی آواز آرہی ہو، نہ کوئی فحش منظر آرائی ہو۔ آپ کے لیے حلال کھانے کا نظم ہو، اورشراب یا شراب نوشی میں استعمال ہونے والے برتن بھی وہاں ہر گز نہ ہوں۔ ان سب چیزوں کی پابندی ان کو اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح آپ ان کو اپنے یہاں بلاتے وقت گائے کا گوشت نہیں کھلاتے اور ان کی پسند کا خیا ل رکھتے ہوئے ان کے لیے الگ پورشن میں خصوصی کھانوں کا نظم کرتے ہیں۔ یہ سارا اہتمام اگر ہو تو غیر مسلموں کی نجی یا گھریلو تقریبات میں شریک ہوکر ان سے اپنے تعلقات کو برتا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، کسی غم یا نقصان کے موقع پر بھی ہم دردی کا اظہار کرنا چاہیے۔ ضرورت ہو تو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ان پر کوئی ناگہانی آئے تو ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ یہ ساری باتیں حسن سلوک کا حصہ ہیں۔
لیکن، غیر مسلموں کے مذہبی تیوہاروں پر انھیں مباک باد دینا، ان کے لیے استقبالیہ بینر لگانا، تیوہار کی مناسبت سے ہونے والی کسی تقریب میں شریک ہونا وغیرہ وہ عمل ہے جوعقیدے کے بھی خلاف ہے اور احکامات کی خلاف ورزی بھی ہے۔ دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اسلام کا موجودہ کلمہ‘ لا الہ الا اللہ، محمد الرسول اللہ’ ہے۔ یعنی اللہ کے الہ ہونے کے ساتھ ساتھ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کااقرار کرنا اور عملاً اس کو قبول کرلینا۔ اس کے علاوہ جتنے بھی مذاہب اور عقیدے ہیں چاہے وہ فلسفیانہ طور سے توحید کی تائید کرتے ہوں یا شرک کی وکالت کرتے ہوں، ان کا سلسلہ چاہے معلوم انبیا سے ہو یا نامعلوم ہستیوں سے عقیدت پر مبنی ہوں، سب کے سب باطل ہیں۔اللہ کا فرمان ہے ومن یّبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یّقبل منہ : ‘‘جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ ۔۔’’ (آل عمران: ۸۵)۔ مومنوں کی ایک صفت اللہ نے یہ بتائی ہے کہ‘‘ وہ جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے’’ (سورہ فرقان: ۷۲)۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ‘‘ اس کے دومطلب ہیں۔ ایک یہ کہ کسی جھوٹی بات کی گواہی نہیں دیتے اور کسی ایسی چیز کو واقعہ اور حقیقت قرار نہیں دیتے جس کے واقعہ اور حقیقت ہونے کا انھیں علم نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتے، اس کے تماشائی نہیں بنتے، اس کو دیکھنے کا قصد نہیں کرتے۔ اس دوسرے مطلب کے لحاظ سے جھوٹ کا لفظ باطل اور شرک کے ہم معنیٰ ہے۔’’ (تفہیم القرآن، تفسیر سورہ فرقان، ہاشیہ نمبر ۸۹)۔ مقبول عام اور متفق علیہ عالمِ قدیم علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر ماثور میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں ‘‘۔۔۔لغو اور باطل باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، گانا نہیں سنتے، مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے، بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے،۔ ۔۔’’۔ یہاں ابن کثیر نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ ‘‘حضور ﷺ نے فرمایا کیا میں تمھیں سب سے بڑا گناہ بتادوں؟ تین دفعہ آپ ؐ نے یہی فرمایا۔ صحابہ ؓ نے کہا ہاں یا رسول اللہ ؐ۔ آپ ؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، اس وقت تک آپ ؐ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے، اب اس سے الگ ہوکر فرمانے لگے سنو!‘اور جھوٹی بات کہنا’،سنو!‘اورجھوٹی گواہی دینا’، اسے بار بار فرماتے رہے۔ ’’ اس کے آگے ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ‘‘مراد یہ ہے کہ جھوٹ کے پا س نہیں جاتے، اسی لیے آگے بیان ہوا کہ واذا مرو بالغو مرو کراما یعنی اگراتفاقاً گزر ہوجائے تو وہ اس میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے، منھ پھیرے مڑ جاتے ہیں۔’’ (تفسیر ابن کثیر اردو، مطبوعہ اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی؛ جلد ۴، صفحہ ۲۳)
چناں چہ یہ علما حق کا متفق علیہ موقف ہے اور مسلمانوں کا اس پر متواتر عمل ہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تیوہاروں میں شرکت منع ہے اور ان کے مذہبی عقائد سے وابستہ موقعوں پرمبارکباد دینا غلط ہے، یہ باطل کی تائید و تعظیم کے مترادف ہے۔ متعدد قرآنی آیات کی تشریح سے اور رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی عمومی صحبت سے بچنا چاہیے۔ ان کے ساتھ ایسے گھریلو تعلقات سے پرہیز کرناچاہئے جیسے مسلمانوں کے درمیان آپس میں ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ دین کی عام تعلیم تو یوں بھی صحبت بد سے بچنے کی اور مومنین و صالحین کے ساتھ رہنے کی ہے۔
ہندستانی سماج میں مسلمانوں کی مصلحت
موجودہ ہندستانی سماج کی ترکیب، جسے آج کل کچھ مسلم دانش ور‘‘ تکثیری سماج’’ قرار دے کر، اسے آئیڈیل سمجھ کر اور اسے ایک معیار بناکر مسلمانوں کو اس کے مطابق اپنے طرز عمل کو ڈھالنے کی ترغیب دے رہے ہیں، وہ ایک ایسا سماج ہے جس میں مسلمانوں کو بہت احتیاط، شعور اور حساسیت کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کااصل سرمایہ حیات ا ن کا ایمان ہے اورایمان پر مبنی اسلامی اصول و اخلاق والی زندگی جینا ان پر فرض ہے۔ اسی ایمان و اسلام کا تقاضامسلمانوں سے یہ بھی ہے کہ وہ ایمان و اسلام کی تبلیغ کریں۔ یعنی غیر مسلموں کو ایمان و اسلام کی طرف دعوت دیں۔ چناں چہ اس دعوتی شعور کے ساتھ بھی مسلمانوں کو غیر مسلموں سے روابط رکھنا چاہئیں، لیکن دعوتی روابط کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ داعی مسلمان مدعو افراد کے مذہبی شعائرکی تعظیم کو اپنے اوپر لازم کریں۔ جیسا کہ بعض لوگ مندروں کی صفائی کرتے ہوئے دیکھے گئے اور کہنے لگے کہ یہ دعوت کے مقصد سے کررہے ہیں۔ اسی طرح مذہبی جلوسوں اور یاتراؤوں کے دوران استقبالیہ اسٹال لگانا، سبیل لگانا، خوش آمدید کہنا جیسے کام دعوتی کام نہیں ہیں۔ مدعو قوم کے جاہلانہ عقائد ونظریات کی اسلامی عقائد کے اعتبار سے تاویل کرنا بھی دعوت نہیں بلکہ باطل کی تائیدکرنا ہے۔ اور یہ سارے کام مسلمانوں پرحرام ہیں۔ہندستان کے موجودہ سیاسی حالات ‘‘تکثیری سماج’’ کے مبینہ اصول و قواعدکے برخلاف ایک اکثریت نواز ملک (Majoritarian State) کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اکثریتی فرقے کی مذہبی اور ثقافتی قیادت مسلمانوں کو اپنے اندر جذب اور ضم کرنے کی پالیسی پر کار بند ہے۔ اس لحاظ سے بھی مسلمانوں کو یہ تلقین کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے دین اور ثقافت کی حفاظت کریں اور اپنی ملی شناخت کا ہر وقت لحاظ رکھیں۔
ایک مسلمان کو اگر چہ سب سے تعلق رکھنا اور لین دین کرنا چاہیے، اور غیر مسلموں کو بھی انسانی اخوت کے جذبے سے برتنا چاہیے، تاہم مسلمانوں کو یہ تعلیم دینے کی بھی ضرورت ہے کہ ایک مسلمان پر پہلا حق اپنے مسلمان بھائی کا ہے۔ اس لیے خریدوفروخت اور خدمات وغیرہ کے معاملے میں اپنے مسلمان بھائی کو ترجیح دیا کریں، اور کھانے پینے کی چیزیں خریدنے میں بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک مسلمان کا ہاتھ پاک ہے، اس کی بنائی ہوئی چیز میں حرام چیز کی ملاوٹ کاامکان کم ہے اوراس کے عمل میں بسم اللہ کی برکت شامل ہے۔ خاص طور سے نماز کی پابندی کرنے والا مسلمان، اپنے اعمال کی کوتاہیوں سے قطع نظر، اللہ سے تعلق رکھتا ہے اور یہ تعلق ہر مسلمان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی بات ہے۔
قرآن میں کم سے کم تین جگہ مسلمانوں کو واضح میں الفاظ یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ منکرین حق کو، اللہ کے باغیوں یا دشمنوں کو، یہودیوں، عیسائیوں یا مشرکوں کواپنا ولی (یعنی سرپرست، نگراں، کفیل، دوست وغیرہ) نہ بنائیں۔ اس حوالے سے بھی ملت اسلامیہ ہند کے رہبروںاور قائدوں کواپنے عمل کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اپنی سیاسی روش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔