رفح پر اسرائیل کا وحشیانہ حملہ

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ توعنابی ہے

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی٭
جون 2024

مئی 2024کے آخری دن غزہ میں تقریبا37ہزارمعصوم اور نہتے فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل عام کے بعدجن میں 15ہزاربچے ہیں،اب اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے صدر جوبائڈن نے جنگ بندی کی نئی پیش کش کی ہے۔امریکی صدورمیں اِ س صدرکوخوداس کے ملک کے لوگوں نے ’’جینوسائڈجو‘‘کا خطاب دے رکھا ہے جو تاریخ میں اس کے لیے ایک لعنت بنے گا۔جنگ بندی کی یہ نئی پیش کش جوبائڈن نے بظاہراسرائیل کی آفرکہہ کرپیش کی اورکہاکہ’’ حماس کواِس ڈیل کوقبول کرلیناچاہیے تاکہ وہ جنگ ختم ہوسکے جس کی ابتداحماس نے کی تھی۔‘‘جنگ بندی کی اِس تجویزمیں تین مرحلوںمیں جنگ بندی ہوگی۔ پہلے مرحلہ میں جوتین ہفتوں تک محیط ہوسکتاہے،حماس زندہ بچے ہوئے اسرائیلی مغویوںمیں سے عورتوں اوربیماروں اورزخمیوں کوپہلے رہاکرے گا اورجومغوی مرگئے ہیں، ان کی نعشوں کواسرائیل کوسونپ دے گا،بدلے میں سینکڑوںفلسطینی قیدی رہاکیے جائیں گے اوررفح اورغزہ سے اسرائیلی فوج انخلاشروع کرے گی۔دوسرے مرحلہ میں بقیہ مغویوں کی رہائی عمل میں آئے گی اور اسرائیلی فوج مکمل طور پر غزہ سے نکل جائے گی۔ تیسرے مرحلہ میں غزہ کی آبادکاری شروع کی جائے گی جس میں عرب ممالک، امریکہ اوراقوام متحدہ مل کرحصہ لیں گے اور اس کے بعد ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں ہوں گی۔ امریکی صدرکے الفاظ میں :

“اب اس جنگ کوختم کیا جاناچاہیے۔” جوبائڈن کے اِس بیان پر اس کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ ؎

بہت دیرکی مہرباں آتے آتے

اِس پیش کش پرحماس نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے مگر جوبائڈن کے چہیتے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہونے اِس آفر(جوعیاری سے اسرائیلی آفر کہہ کر پیش کی گئی )کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ جنگ7،8مہینے اور جاری رہ سکتی ہے اورحماس کے خاتمہ تک اسرائیل اپنی فوجی کارروائی بند نہیں کرے گا۔فوجی کارروائی کے ذریعے ہی اسرائیل قیدیوں کوچھڑوائے گا۔اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل کوجس نے رفح پر حملہ نہ کرنے کا اپنے سب سے بڑے سرپرست امریکہ کا مشورہ بھی نہیں مانااُس جنگ بندیکے لیے کیسے راضی کیاجاسکے گا؟اوراس کے نہ ماننے کی صورت میں کیا اس کے خلاف بین الاقوامی براداری (اگروہ کہیں ہے ) کوئی ایکشن لے گی ؟

بہت ممکن ہے کہ اِس پیش کش سے امریکہ اپنے لاڈلے اورباؤلے پالتوکواس کے جرائم کی سزاسے بچاناچاہتا ہو۔ان سطورکے لکھے جانے تک سوشل میڈیاپر : All Eyes are on Rafahکاٹرینڈ ٹاپ کررہاہے۔غزہ کے جبالیہ علاقہ میں حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی فوجیوں کوبُری طرح رگیداہے اوران کووہاں سے نکل جانے پرمجبورکردیا۔اس کے علاوہ نتساریم اورتیل ابیب پر راکٹوں کی بارش کردی۔ جس سے بدحواس ہوکراسرائیل نے رفح میں پناہ گزیں خیموں پر میزائیل داغ دیے اور50 سے زیادہ بوڑھوں،عورتوں اوربچوں کو شہید کردیا۔ (اناللہ واناالیہ راجعون) اس واقعہ پر پوری دنیامیں شدیدردعمل ہوا۔آئرلینڈکے ایک رکن پارلیمنٹ نے خواہش ظاہرکی کہ وہ چاہتے ہیں کہ نتن یاہوبھی جہنم کی آگ میں جلے! ان شاء اللہ ان کی خواہش پوری ہوگی۔آج پوری دنیااسرائیل کی مذمت میں متفق ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نتن یاہواوراس کے وزیرجنگ یواف غالانت کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرناچاہتی ہے۔جب کہ ایک ہفتہ قبل ہی انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس نے اسرائیل سے فوری طورپر رفح پرحملے روک دینے کے لیے کہاتھا۔نہ صرف یہ کہ نتن یاہونے ICJکے اُس حکم نامے کوماننے سے انکارکردیابلکہ اس کے دودن بعدہی اس نے فلسطینی پناہ گزیں خیموں پر میزائل برسائے۔جب ساری دنیاسے مذمت کی صدائیں بلندہوئیں توقاتل وسفاک نتن یاہونے یہ کہہ کرپلہ جھاڑلیاکہ یہ حملہ غلطی سے ہوگیامگرفلسطینیوں کویہ قیمت تواداکرنی ہی ہے کیوں کہ یہ جنگ سات اکتوبرکواسرائیل پر بہیمانہ حملہ کرکے انھوں نے ہی شروع کی تھی۔جوبائڈن انتظامیہ نے بھی فورااسرائیل کے بیانیہ کوہی الاپناشروع کردیا۔وہائٹ ہاؤس کے ترجمانوں سے میڈیاوالوں نے جب رفح میں اسرائیل کے اِس قتل عام کے بارے میں سوال کیاتوانہوں نے پہلے تویہ کہاکہ اس حادثہ کی تحقیقات کی جارہی ہے اوراس کے چندگھنٹوں بعدہی وہی بولی بولنی شروع کردی جواسرائیل نے بولی تھی۔حالاں کہ اس سے پہلے یہی بائڈن اوراس کے ترجمان کہہ چکے تھے کہ رفح پر اسرائیل کا حملہ ان کے لیے Red Line ہے جس کوعبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مگراسرائیل کے عملاًحملہ کردینے کے بعداب وہائٹ ہاؤس کے ترجمان یہ کہ رہے ہیں کہ اسرائیل محدودکارروائی کررہاہے اوراس نے کوئی لائن کراس نہیں کی نہ فلسطینیوں کی کوئی نسل کشی کی ہے۔صرف یہی نہیں کہ سینہ زوری یہ کہ جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف آی سی جے میں جانابھی غلط ہے۔

واضح ہوکہ جس جنگ بندی کی پیش کش امریکہ اب کررہاہے تقریبااس سے ملتی جلتی پیش کش اِس سے پہلے بھی آچکی تھی اوراس کوخلاف توقع حماس نے اپنے اصل مطالبات سے تھوڑادستبردارہوکرتسلیم بھی کرلیاتھا،اُس وقت اسرائیل نے رفح پر حملہ نہیں کیاتھا۔مگرذاتی انا،شحصی سیاسی مفادکی خاطرجنگ جاری رکھنے کی ضدمیں خبیث وشیطان نتن یاہونے خوداپنی ہی پیش کش سے رجعت کرلی اوربظاہرامریکہ کے بھی لاکھ منع کرنے پررفح پر حملہ کردیا۔کیوں کہ جنگ جاری رکھنادائیں بازوکی اسرائیلی قیادت کے حق میں ہے اس میں چاہے اس کے مغویوں کی جان جاتی ہو،جائے۔تاہم فلسطینی مزاحمت کاروں نے تمام تربے سروسامانی کے باوصف عدیم المثال مزاحمت کی۔ متعدداسرائیلی فوجی جہنم رسیدکیے،ان کے خیمے اورتوپیں تباہ کیں اورکئی فوجیوں کومزیدقیدکرلیا۔اب امریکی صدرکی زبانی یہ پیش کش،ایک اہم فلسطینی رہ نمامصطفی برغوثی کے لفظوںمیں گویا’’دراصل امریکہ اوراسرائیل دونوں کی جانب سے بالواسطہ یہ اعتراف ہے کہ جنگ کے ذریعے وہ اپنے اعلان کردہ مقاصدحاصل نہیں کرسکتے ‘‘

اس جنگ کے دوران فلسطینیوں نے وہ مظالم سہے جن کودیکھ کرچنگیز وہلاکوکی روحیں بھی شرماجائیں۔مائیں اپنے جگرکے ٹکڑوں کے ’’ٹکڑے ‘‘بیگوںمیں سمیٹ رہی ہیں۔عورتوں اوربچوں کے کٹے پھٹے اورجلے ہوئے اعضاء اکیسویں صدی کی ’’مغربی روشن خیالی اورانسانی حقوق‘‘کااصل مکروہ چہرہ دنیاکے سامنے لارہے ہیں۔غزہ کے لوگ بھوکے پیاسے،دواوعلاج سے محروم،سرپرچھت نہ پاؤں تلے فرش پھربھی لبوں پر ’’الحمدللہ ‘‘کا ترانہ اورمجاہدین حماس سے کوئی شکوہ نہیں۔ وطن کے لیے مرمٹنے اوراقصی کی حرمت پر کٹ مرنے کا عزم اورجذبہ زندہ۔اللہ اکبر!

فلسطینیوں کویقین کامل ہے کہ اُن کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ الجزیرہ کے سابق ڈائرکٹروضاح خنفرنے ’’طوفان الاقصیٰ اورمابعداثرات ‘‘کانفرس (جس کا اہتما م حال ہی میں دوحہ قطرمیں الجزیرہ نے کیاتھا)کے ایک پینل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اب عالم پیرمررہاہے،وہ World Order (نظام عالم )جس نے اسرائیل کوجنم دیاتھابوڑھاہورہاہے اورخودبھی سمٹ اورسکڑرہاہے۔ اُس کی جگہ نئی حقیقتیں لیں گی اوران نئی حقیقتوں کانقیب بن کرطوفان الاقصیٰ ابھراہے، کام یابی مزاحمت کے قدم چومے گی ‘‘

قارئین یادکرلیں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے خودفرانسیسی صدرمیکروں نے ایک کانفرنس سے خطاب میں اس خدشہ کااظہارکیاتھاکہ ’’اگرہم نے جلدہی فعال اقدامات نہ کیے تویورپ مرجائے گا‘‘

ایک اہم عرب اسکالر،مفکراورتجزیہ نگاردکتورمختارشنقیطی نے اس سوال کے جواب میں کہ فلسطینی مزاحمت کوکام یاب ہونے میں اتنی دیرکیوں لگ رہی رہے کہا: ’’انقلابات اُس وقت جلدکام یاب ہوتے ہیں جب ان کے ماحول اوراطراف میں ان کے لیے ہمدردی،قومی تعاون کی فضا،اورسرکاری وعوامی سپورٹ بیس موجودہو۔انھوں نے مثال میں الجزائراورافغانستان کے جہادکوپیش کیاکہ الجزائرکی آزادی کی جنگ میں تمام عرب ملکوںاورساری دنیاکا تعاون شامل تھاجبکہ افغانستان میں بعض عرب ملکوں اورپاکستان کے فعال رول نے کام یابی میں اہم کرداراداکیا۔مگرموجودہ حالات میں فلسطینی مزاحمت کواپنے اطراف میں تعاون (یعنی سرکاری سطح پر )کے بجائے ایک Hostileماحول ملاہواہے۔جواُس کی کام یابی میں تاخیرکا باعث بن رہاہے۔‘‘ظاہرہے کہ ان کا صاف اشارہ مصر،اردن،امارات اورسعودی عرب کی اسرائیل سے رشتے بحال کرنے کی کوششوں اوراس سلسلے میں مکمل طورپر امریکی پوزیشن اختیارکرنے کی پالیسی کی طرف تھا۔یہ سب حکومتیں ابھی تک سائکس پیکومعاہدے کے شدیدحصارمیں قیدہیں۔اورحماس اوردوسری مزاحمتی تنظیموں کواپنی کرسی کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔کیوں کہ امریکی تھینک ٹینٹ انھیں یہی سمجھاتے آرہے ہیں۔

اس میں استثناء قطرکی چھوٹی سی ریاست کا ہے جونہ صرف حماس کی قیادت کا میزبان ہے بلکہ دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کرفلسطینیوں اوراسرائیل کے درمیان ثالثی کا کرداربھی اداکررہاہے۔اوراس سے بھی بڑااُس کا مزاحمت کے لیے تعاون نیم سرکاری الجزیرہ چینل ہے۔جونہ صرف مزاحمت کی تواناآوازبنابلکہ اُس نے غزہ کی تباہی اورغزہ کے معصوموں کے قتل عام کی داستان عالم عرب اورعالم غرب کے ایک ایک گھرمیں پہنچادی۔ اس کی رپورٹنگ سے برافروختہ ہوکراسرائیل نے اس پر پابندی لگادی ہے۔ یادرہے کہ کئی عرب ممالک میں اس پر پہلے سے ہی پابندی عائدہے۔ اس سے پہلے یہ ہوتاتھاکہ مغربی میڈیامکمل بلیک آوٹ کرجاتاتھایاادھوری اورغلط خبریں دیتاتھا۔جس کی وجہ سے مغرب کے عام انسان کوکبھی پتہ ہی نہیں چل پاتاتھاکہ مسئلہ کیاہے۔ اوروہ بے خبری میں مظلوم فلسطینیوں کوہی ’’دہشت گرد‘‘اورموردالزام ٹھہراتاتھا۔مغربی میڈیاآج بھی یہی کررہاہے مگرالجزیرہ نے آج اُن سب چینلوں کوبے نقاب کردیاہے۔اب ان پر صہیونیوں کے علاوہ کوئی اعتبارنہیں کرتا۔یہ مغربی حکومتوں کا ’’گودی ‘‘میڈیاکس طرح حقائق کومسخ کرتاہے اس کی ایک چھوٹی سی جھلک یہ ہے کہ جس دن اسرائیل نے رفح میں خیموں پرمیزائل برسائے اور55 لوگوں کوزندہ جلادیا۔اس کی خبربی بی سی نے یوں دیBig Explosion in Rafah,(رفح میں ایک بڑادھماکہ ) یہ دھماکا کس نے کیا؟کیسے ہوااس سب کوگول کردیاگیا۔

آٹھ مہینے سے غزہ کے لوگ اکیسویں صدی میں اسرائیل کے برپاکردہ ’’کربلا‘‘سے گزررہے ہیں۔قافلہ ٔحسینی کی طرح حکم رانوں اورعوام دونوں کی سطح پر امت مسلمہ نے ان کوخاک وخون میں تڑپنے کے لیے تنہاچھوڑدیاہے۔عرب ملکوں سے جوآوازیں اٹھیں وہ اتنی کم زورتھیں کہ بالکل غیرمؤثرہوکررہ گئیں۔ایسے میں خداتعالی ٰ نے جنوبی افریقہ کوکھڑاکردیاجس نے غزہ کے لوگوں کا قانونی کیس لڑا۔تاریخ میں پہلی باراسرائیل کوکسی نے کٹگھرے میں کھڑاکرنے کی جرأت کی۔ صہینیوں کے زرخریدکئی امریکی سینیٹروں نے ICJکے نتن یاہوکے خلاف گرفتار ی کا وارنٹ جاری کرنے کی صورت میں ججوں پر پابندی لگانے اوران پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔

امریکہ اوریوروپ خودصہیونیوں کے غلام ہیں۔وہ دوغلی بولی بولتے ہیں اورہمیشہ دوہرے معیاراپناتے ہیں مگرحدیث رسول : ان اللہ لیؤید ہذالدین بالرجل الفاجر(متفق علیہ)(یعنی خدااپناکام فاجر شخص سے بھی لے لیتاہے )کے مصداق خودمغرب کی یونیورسٹیوںمیں نوجوان طلبہ وطالبات اوراساتذہ اورحقوق انسانی کے کارکن غزہ کی جنگ لڑنے،مغرب کے چھوٹے بڑے شہروںمیں اوراپنی یونیورسٹیوں،کالجوں اوراسکولوںمیں نکل آئے۔ ان کوہزاروں کی تعدادمیں گرفتاربھی کیاگیا،ان کاکیریربھی داؤں پرلگامگراصولوں کی پروانہیں کی۔ کولمبیا،ہارورڈ،مشی گن،لندن پیرس کہاں کہاں انھوں نے صہیونی بیانیہ کوللکارااورصیہونیت کے گماشتوں کوننگااورخوف زدہ کردیا۔آج بھی امریکی شہرڈیٹرائٹ میں دنیابھرسے اورخاص کرمغربی ممالک سے تین ہزاراسٹوڈینٹ،انسانی حقوق کے کارکن اورسول سوسائٹی کے نمائندے (زیادہ ترغیرمسلم )فلسطین کانفرنس کررہے ہیں اورآزادی ٔفلسطین کی اس عالمی عوامی تحریک کا آئندہ کا پلان طے کرنے کے لیے باہمی مشاورت کررہے ہیں۔غزہ کے شہیدوں کا خون رنگ لارہاہے اوردنیابھرمیں سامراج مخالف تحریک شروع ہونے کوہے۔لیکن یہ بھی ریکارڈ میں رہناچاہیے کہ اِن یونیورسٹیوںمیں سرکاری خرچ پر پڑھنے والے عرب ملکوں کے طلبہ وطالبات اِن مظاہروںمیں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ صرف فلسطینی ڈائسپورابہت متحرک رہایااسلام پسندطلبہ یابائیں بازو کی جانب میلان رکھنے والے لوگ۔

سیاسی واخلاقی طورپر فلسطینی کازکوایک بڑھت یہ ملی کہ دنیاکے اب تک چارملکوں نے فلسطین کومکمل آزادریاست کی حیثیت سے تسلیم کرلیاہے۔انھوں نے امریکی دھمکیوںمیں آنے سے انکارکردیااورامریکی آشیربادسے اسرائیل کی اِس کوشش کوکہ فلسطین کا نام ونشان دنیاکے نقشہ سے مٹادیاجائے،ناکام بنادیا۔پھرتاریخ میں لکھاجائے گاکہ جب غیرمسلم ممالک فلسطین کوایک آزادومستقل مملکت کے طورپرتسلیم کررہے تھے مسلم ملکوںمیں سے کسی ایک کوبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کرفلسطین کوایک آزادریاست تسلیم کرلیتے !

٭ رسرچ ایسوسی ایٹ ادارہ تہذب الاخلاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

ای میل : [email protected]