غزل

محمد افضل "افضل یوسف"، سیتاپور یوپی
جولائی 2024

آج تک جو نہ مرے اشک رواں تک پہنچے
غیر ممکن ہے کہ وہ درد نہاں تک پہنچے
ہائے طالب جو ہوئے کاکل خم دار کے ہم
دیکھیے آپ ہی خود اپنے زیاں تک پہنچے
یاد کرنے پہ تجھے ایسے بھی آتے ہیں خیال
آج تک جو نہ کبھی میرے گماں تک پہنچے
کاش ایسی ہو عطا قوت گفتار مجھے
میں یہاں سوچوں مری بات وہاں تک پہنچے
کوئے جاناں کے لئے ہی نہیں مخصوص رکھا
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
خوب دیتا ہے مجھے لطف سفر آپ کا وہ
بارہا فون پہ کہنا کہ کہاں تک پہنچے
راہ بھٹکی ہے مسرت مرے کوچے سے مگر
رنج دنیا کے سبھی میرے مکاں تک پہنچے
دیر سے ہی سہی پر دیکھ مرے نقش قدم
دشت میں قیس کے ہر ایک نشاں تک پہنچے
شاعری کا تو مجھے شوق نہیں تھا “افضلؔ”
ان کی نظروں سے گرے ہیں تو یہاں تک پہنچے

•••

محمد افضل “افضل یوسف”، سیتاپور یوپی