آج تک جو نہ مرے اشک رواں تک پہنچے
غیر ممکن ہے کہ وہ درد نہاں تک پہنچے
ہائے طالب جو ہوئے کاکل خم دار کے ہم
دیکھیے آپ ہی خود اپنے زیاں تک پہنچے
یاد کرنے پہ تجھے ایسے بھی آتے ہیں خیال
آج تک جو نہ کبھی میرے گماں تک پہنچے
کاش ایسی ہو عطا قوت گفتار مجھے
میں یہاں سوچوں مری بات وہاں تک پہنچے
کوئے جاناں کے لئے ہی نہیں مخصوص رکھا
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
خوب دیتا ہے مجھے لطف سفر آپ کا وہ
بارہا فون پہ کہنا کہ کہاں تک پہنچے
راہ بھٹکی ہے مسرت مرے کوچے سے مگر
رنج دنیا کے سبھی میرے مکاں تک پہنچے
دیر سے ہی سہی پر دیکھ مرے نقش قدم
دشت میں قیس کے ہر ایک نشاں تک پہنچے
شاعری کا تو مجھے شوق نہیں تھا “افضلؔ”
ان کی نظروں سے گرے ہیں تو یہاں تک پہنچے
•••
محمد افضل “افضل یوسف”، سیتاپور یوپی