آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما شعبدے بازی کے ذریعہ سرخیوں میں کس طرح رہیں اس کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ چنانچہ مسلم مخالف لیڈر کے طور پر خود کو ثابت کرنے کی کوشش میں وہ اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ جس آئین کے نام پر حلف اٹھاکر وزارت اعلیٰ کی کرسی پر پہنچے ہیں اسی آئین کی روح اور کردار کو پامال کررہے ہیں۔جولائی میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف دو سطح پر محاذ کھولا ہے ۔ پہلے انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2041 تک آسام میں مسلمان اکثریت میں آجائیں گے۔اس کے بعد انہوں نے آسام میرج اینڈ ڈیورس ایکٹ کی جگہ نئے قانون کو متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔سوال یہ ہے آخر ہیمنت بسوا شرمامسلمانوں کے حوالے سے لگاتار سرخیوں میں کیوں رہنا چاہتے ہیں ؟
آسام مسلم میرج اینڈ ڈیورس ایکٹ کی جگہ جو نیا قانو ن آرہا ہے اس سے مسلمان کس طرح متاثر ہوں گے، یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ شرما یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ شادی کے نئے قوانین کے ذریعہ وہ آسام میں کم عمری کی شادی کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ان کے بقول کم عمری میں شادی کا رواج سب سے زیادہ مسلمانوں میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ دراصل یہ آسام میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی طرف پہلا قدم ہے اور بہت ہی جلد اترا کھنڈ کی طرح آسام میں بھی یکساں سول کوڈ بل اسمبلی میں لایا جائے گا۔’’ایک ملک ایک قانون‘‘ کی وکالت کرنے والی بی جے پی کا دہرا کردار اور ووٹ کی سیاست کابدترین اور کریہہ چہرہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ یکساں سول کوڈ سے ریاست کی 14,فیصد قبائلی آبادی کو باہر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
’’آسام مسلم میرج اینڈ ڈیورس ایکٹ‘‘ کو معطل کرنے کی سب سے بڑی جو وجہ بیان کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ اس ایکٹ میں کم عمری(اسلام میں لڑکی کی بلوغت کے بعد شادی کی اجازت ہے چوں کہ بھارت میں لڑکی کی شادی کیلئے کم سے کم 18سال کی عمر لازمی ہے۔18سال سے کم عمر کی شادی کو کم عمری سے تعبیر کیا جاتا ہے )کی شادی کی ممانعت ہے ۔اس لئے اس قدیم فرسودہ قانون کو ختم کیا جارہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر مقصد کم عمر ی کی شادی کو روکنا تھا تو اس قانون میں ترمیم کی جاسکتی تھی۔پورے قانون کو ختم کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔اس لئے حکومت کی نیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔اسی طرح 1935کے اس قانون میں شادی کے رجسٹریشن کو اختیاری قراردیا گیا تھا ۔یہ بھی ترمیم کے ذریعہ لازمی کیا جاسکتا ہے۔مگر آسام میں قاضی کا نظام ختم کئے جانے سے دیہی علاقوں کے باشندوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔افسرشاہی نظام نے رشوت خوری کا بازار گرم کردیا ہے۔غیر ضروری طور پر شادی کی راہ میں مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں۔ہیمنت بسوا شرما کی حکومت نے گزشتہ جون اور جولائی میں بڑے پیمانے پر کم عمر ی کی شادی کے خلاف مہم چلائی جس میں 4 ہزار افر کو گرفتار کیا گیا جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا آسام میں صرف مسلم کمیونیٹی میں ہی کم عمری کی شادی کا رواج ہے؟۔صحیح تصویر کو سمجھنے کے لئے آسام میں کم عمرمیں شادی سے متعلق فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ آسام میں کم عمری میں شادی کی مجموعی شرح کیا ہے ؟ علاوہ ازیں کیا کم عمری کی شادی سے نجات دلانے کے عزائم میں آسام کے تمام طبقات کو شامل کیا جارہا ہے؟ یہ بھی سوال اہم ہے کہ کم عمری میں شادیاں ہوتی ہی کیوں ہیں اور اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرماہیں ؟ اگر اس کا تدارک کئے بغیر صرف گرفتاریاں کی جاتی ہیں اور پوسکو جیسے سخت قوانین نافذ کئے جاتے ہیں تواس سے یہ سلسلہ نہیں رک سکتا ۔کیوں کہ کرناٹک میں کم عمری میں شادی کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں اس کے باوجود حالیہ برسوں میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پورے ملک بشمول آسام میں مسلمانوں میں لڑکیوں کی بلوغت کے بعد شادی کی روایت پائی جاتی ہے۔اس کے پیچھے سماجی اور معاشی عوامل کے ساتھ ساتھ مذہب بھی ایک بڑا عنصر ہے ۔اسلام میں لڑکیوں کی بلوغت کے بعد شادی کی اجازت ہے۔حالیہ برسوں میں جو سائنسی تحقیقات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق لڑکیوں کی شادی میں تاخیر سے بہت ساری طبی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں عصری علوم کے حصول کا جو رجحان پیدا ہوا ہے اس کی وجہ سے مسلم سماج میں بھی لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی جانے لگی ہے۔فیملی ہیلتھ سروے اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی سروے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ملک کے جن علاقوں میں کم عمری میں شادی زیادہ ہوتی ہیں اس کے پیچھے سماجی اور مقامی سہولیات کا بھی بڑا دخل ہے۔دیہی علاقوں میں اسکولوں کی عدم فراہمی اور معاشی پسماندگی کی وجہ سے والدین اپنے بچیوں کی کم عمری میں شادی کردیتے ہیں۔ چنانچہ ملک بھرمیں بشمول آسام مسلمانوں کی طرح دلت ، قبائلی ،پسماندہ طبقات اور ترقی سے محروم علاقوں میں کم عمری میں شادیاں زیاد ہوتی ہیں ۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق آسام میں 20سے 24 سال کی عمر کی ایک تہائی دیہی خواتین کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہو گئی تھی۔ جن میں سے 74 فیصد لڑکیوں کی دسویں تک کی تعلیم مکمل نہیں ہے۔رپورٹ کے مطابق ان علاقوں میں کم عمری میں شادیاں زیادہ ہوتی ہیں جہاں اسکول کم ہیں۔اعداد و شمار نے یہ بھی اشارہ کیا کہ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کی کمی آسام میں کم عمری کی شادی کی اعلی شرح کی ایک بڑی وجہ ہے۔ماہرین بتاتے ہیں کہ جب خواتین کی خواندگی اور افرادی قوت میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہوتا ہے اور بچوں اور زچگی کی شرح اموات میں کمی آتی ہے۔
انگریزی اخبار دکن ہیرالڈ نے 10 فروری 2023کے اداریے میں لکھاتھا کہ بچوں کی شادیوں کے خلاف آسام حکومت کا کریک ڈاؤن ایک سماجی مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف پولیس کی کارروائی ہے۔گزشتہ سال فروری میں کم عمری میں شادی کے خلاف مہم یہ کہہ کر شروع کی گئی تھی کہ آسام میں نوعمری میں حمل کی سب سے زیادہ شرح 16.8فیصد ہے ۔مگر جو گرفتاریاں ہوئیں اس میں 70 فیصد مسلم تھے۔دکن ہیرالڈ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر مقدمات مسلم اکثریتی اضلاع میں درج ہوئے ہیں، جو ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے درمیان، ایک اور کمیونٹی ہےجس میں سب سے زیادہ کم عمری میں شادیا ں ہوتی ہیں ان میں قبائلی، دلت اور چائے باغات میں کام کرنے والے لوگ ہیں۔ ریاست کی تقریباً 20 فیصد آبادی چائے باغات میں کام کرنے والوں میں بچپن کی شادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مگر گزشتہ ایک سالوں میں آسام حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔2019 میں ایک این جی او’ سینٹر فار ریسرچ اینڈ ایڈوکیسی فار چائلڈ رائٹس اینڈ پرسنز وتھ ڈس ایبلٹیز‘‘ کی ڈاکٹر پلاوی شرما نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ آسام کے سب سے زیادہ چائے کے باغات والے اضلاع میں 15-20 سال کی عمر کی 67 فیصد لڑکیاں شادی شدہ تھیں۔ انہوں نے لکھاکہ یہ جنسی استحصال اور نوعمر حمل کا باعث ہے۔ یہ سروے آسام کے ادلگوری ضلع میں کیا گیا تھا لیکن یہ ریاست میں چائے قبیلے کی کمیونٹی کی عمومی حالت کی نشاندہی کرتاہے۔ واضح ر ہے کہ چائے کے باغات میں نوعمروں کے درمیان بھاگ کر شادی والدین کی منظوری والی ’’سماجی شادی‘‘ سے زیادہ عام ہے۔یونیسیف کی سربراہ ڈاکٹر مادھولیکا جوناتھن کی رپورٹ کے مطابق ریاست کے چند چائے والے اضلاع میں کم عمری کی شادی کی شرح قومی اوسط سے زیادہ ہے۔ جس میں ادلگوری (32فیصد)، شیواساگر میں 27.9فیصد ، جورہاٹ میں 24.9فیصد اور ڈبرو گڑھ میں 23فیصد اضلاع شامل ہیں۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہےکہ آسام میں کم عمری میں شادی ایک بڑا مسئلہ ضرور ہے مگر یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے ۔مگر مسلم دشمنی کے خوگر بن چکے ہیمنت بسو ا شرما یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔اگر وہ اس معاملے میں مخلص ہوتے تو اس کی سماجی ، معاشی اور اقتصادی وجوہات کے تدارک کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔مگر ان کے نزدیک گڈ گورننس مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنے کا نام ہے۔قومی میڈیا میں اپنے زہریلے بیانات کی وجہ سرخیوں میں رہنے والے شرما کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے۔
آسام ہرسال بدترین سیلاب کی زد میں رہتا ہے۔لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔آزادی کو 8 دہائی مکمل ہونے کو ہیں اس کے باوجود اس کا مستقل حل نہیں نکالا گیا ہے۔سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والوں کے درمیان مذہبی بنیاد پر کس طرح قہر ڈھایا جارہا ہے اس سے متعلق ہم نے افکار ملی کے گزشتہ شمارے میں اشارہ بھی کیا تھا۔ آسام میں آزادی سے قبل والے مسلم میرج ایکٹ کی منسوخی اور اس کی جگہ نئے قوانین کو لانے کا عمل مسلم دشمنی کے تسلسل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ قاضیوں کے نظام کو ختم کردینے کی وجہ سے دیہی علاقوں کے باشندوں کو ضلع ہیڈ کوارٹر پر شادی رجسٹریشن کے لئے ہفتوں چکر لگانے پڑتے ہیں۔
جہاں تک سوال آسام میں 2041 تک مسلمانوں کے اکثریت میں آنے کا دعویٰ ہے اس کے لئے دراندازی ایک بڑی وجہ قرار دینا زمینی حقائق کے برخلاف ہے۔ گوہاٹی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر عبد المنان کی کتاب ’’Infiltration :Genesis of Assam Movement‘‘ آسام میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کو دراندازی کی وجہ قرار دینے کے بیانیہ کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ پروفیسر عبدالمنان نے اپنی اس کتاب میں گزشتہ پچاس سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر آسام میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو وہ پیدائش کی شرح کی وجہ سے ہواہے۔انہوں نے پورے وثوق سے کہا ہے کہ اگر این آرسی کے عمل میں ادارہ جاتی تعصب سے کام نہیں لیا جاتا تو این آرسی کے ذریعہ باہر رہ جانے والے مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زائد نہیں ہوسکتی تھی۔ ان کے مطابق تقسیم پاکستان کے بعد بڑی تعداد میں بنگلہ دیش سے مسلمان آسام نہیں آئے ہیں ۔ آسام میں آباد بنگالی مسلمان کئی نسلوں سے رہتے ہیں ۔ان کے آباو اجداد کو دریائے برہم پترکے کنارے زرخیز زمین پر کاشت کاری کے لئے بنگال سے انگریزوں نے آباد کیا تھا۔ آسام میں آسامی بنام بنگالی تنازعہ نوآبادیاتی دور کا مرہون منت ہے۔ 1931میں آسام میں مردم شماری کے بعد انگریز سپرنڈنٹ ایس سی ملن نے اپنی رپورٹ میں لکھاتھا کہ زیادہ تر مسلمان مشرقی بنگال کے اضلاع سے آئے ہیں اس کی وجہ سے یہاں کی ڈیموگرافی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔اس رپورٹ کے بعد ہی آسام میں باہری اور مقامی کا تنازع شروع ہوا اور آزادی کے بعد اس میں شدت آگئی ۔اس کی وجہ سے 80 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر قتل عام بھی ہوا۔ نیلی قتل عام کا واقعہ آزاد بھارت کی تاریخ کا سب سے بدترین واقعہ ہے۔ 40 برس گزرجانے کے باوجود اس قتل عام میں ملوث کسی بھی فرد کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ اس دور میں ہی سنہا رپورٹ آئی جس میں کہا گیا تھا کہ آسام میں غیر قانونی تارکین وطن کی آبادی 4 کروڑ ہے۔ پروفیسر منان کہتے ہیں کہ اس رپورٹ پر خوب چرچا ہوئی۔ جب کہ حقیقت یہ تھی اس وقت آسام کی مجموعی آبادی ہی 3.4کروڑ افراد پر مشتمل تھی۔80 کی دہائی تک آسام میں جو اختلافات تھے وہ آسامی اور بنگالی کے درمیان تھے ۔مشہور صحافی شیکھر گپتا نے اپنی کتاب Assam : A Valley Divided میں آسام میں لسانی تنازعات کو مذہبی تنازع میں بدلنے کی آر ایس ایس کی کوششوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔آسام میں لسانی تنازعات کو مذہبی اختلافات میں تبدیل کرنے کی آر ایس ایس کی کوششیں اب کامیاب ہوچکی ہے- اس منصوبے کو مکمل طور پر ہیمنت بسوا شرما عملی جامہ پہنارہےہیں ۔
برہم پترا کی معاون ندیاں (اور آسام میں بہت سے دوسرے چھوٹے بڑے دریا) زمین کے وسیع خطوں پر بہتی ہوئی راستہ بدل لیتی ہیں ۔ یہ جغرافیائی عمل آسام میں برسوں سے جاری ہے۔ اس طرح بے گھر ہونے والے لوگ اکثر دوسرے کنارے پر عارضی دیہات بناتے ہیں اور آخر کار انہیں کسی دوسرے ضلع میں لے جایا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے زمین دی جاتی ہے۔ ان دیہاتیوں میں سے بہت سے بنگالی ہندو اور مسلمان ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے کہ اپنی ہی ریاست میں ہزاروں افراد پناہ گزیں ہوجاتے ہیں ۔حالیہ برسوں میں ہیمنت بسوا شرما نے ان معصوموں کوبھی نہیں بخشا ہے۔
اسی طرح 1984 میں نیلی قتل عام سے لے کر 1993 میں کوکراجھار-بونگائی گاؤں تک تشدد کی وجہ سے ایک بڑی تعداد اندرون ریاست پناہ گزین بن گئی۔ جو کچھ عرصے کے لیے کیمپوں میں رہنے کے بعد آہستہ آہستہ دوسرے حصوں میں دوبارہ آباد ہو جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ ان کے کیمپوں کو بارڈر پولیس کی طرف سے ایک نوٹس کے ذریعے بے دردی سے اجاڑ دیا جاتا ہے ۔گوہاٹی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ اکھل رنجن دتہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے مختلف نسلی گروہوں جیسے بوڈو اور چائے کے باغات کی کمیونٹیز کو ایک ساتھ لانے، ان کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے اور انہیں متحد کرنے کے طویل مدتی منصوبہ پر ’’پختہ انداز‘‘ میں کام کیا۔
جہاں تک آبادی میں اضافے کا سوال ہے تو آسام اور بنگال واحد ریاستیں نہیں ہیں جہاں آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اتر پردیش اور بہار جیسی شمالی ہندوستانی ریاستیں، جن کی بنگلہ دیش سے کوئی سرحد نہیں ملتی، میں آبادی میں بالترتیب 3.31 گنا اور 3.57 گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ مدھیہ پردیش، جس کی کسی بھی ملک سے کوئی سرحد نہیں ملتی، میں 3.89 گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔پروفیسر عبدالمنان بتاتے ہیں کہ اگرآسام کے مسلمانوں میں شرح پیدائش زیادہ ہےتواس کی بڑی وجہ مسلمانوں کی غربت ہے۔ جن علاقوں میں غربت زیادہ ہے ان علاقوںمیں شرح پیدائش زیادہ ہے ۔ آسام کے دو اضلاع دھوبری اور جور ہاٹ کی مثال پیش کرتے ہونے انہوں نے لکھا کہ جورہاٹ میں شرح خواندگی70فیصدسے زائد ہے اور وہاں شرح پیدائش کم ہے جب کہ دھوبری میں محض 55فیصد شرح خواندگی ہے وہاں شرح پیدا ئش زیادہ ہے۔پروفیسر عبد المنان یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسا صرف مسلمانوں میں نہیں ہے بلکہ آسام کے شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب میں مسلمانوں سے زائد شرح پیدا ئش ہے۔ وہ اس بات کی نشاندہ کرتے ہیں کہ آسام کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بنیادی سہولیات اسکول ، کالج اور طبی مراکز انتہائی کم ہیں ۔جن اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے کہ ان حلقوں کا ایک منظم مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں 0-6 سال کی عمر کے بچوں کی نمایاں تعداد ہے، یعنی بچے جو کہ آبادی کے قدرتی اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مزید ان کا کہنا ہے کہ آبادی میں یہ اضافہ غربت اور اس کے نتیجے میں مسلم کمیونٹی میں کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، جنوبی سلمارہ میں مسلمانوں کی 24 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے، جن کی عمریں 0 سے 6 سال تک ہیں۔