لوک سبھا انتخابات کا مینڈیٹ

کم زور حکومت مضبوط اپوزیشن

عبدالباری مسعود
جون 2024

18ویں عام انتخابات کے نتائج کا مختلف زاویوں سے تجزیہ اور معنی و مطلب اخذ کیے جارہے ہیں لیکن اس کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ ملک فسطائیت کے پنجہ استبداد میں مکمل طور پر جانے سے بچ گیا ہے۔ نیز وزیر اعظم نریندر مودی کی ناقابل تسخیر ہونے کی بڑی کمال عیاری سے بنائی گئی امیج بھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ جن کا اس الیکشن میں 400 نشستیں جیتنے کا دعویٰ نہ صرف اوندھے منھ گرا بلکہ انھیں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت بھی نہ مل سکی اور ان کی تیسری میعا د کی حکومت کی بقا دو ’’موقع پرست ‘‘سیاست دانوں کے رحم و کرم پر منحصر ہو گئی۔ ان سب کے علاوہ نسلی تفوق کے نظریہ ہندتو کی بھی قلعی کھل گئی کہ منفی اور جذباتی نعرے دیر پا نہیں ہوتے۔ مزید براں یہ کہ اگر انتخابات کا انعقاد صاف و شفاف اور غیر جابندارانہ ماحول میں ہوتا تو انتخابی نتائج کی تصویر کچھ الگ ہی ہوتی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ انتخابات حزب اختلاف کی جماعتوں پر ہر طرح کے حملوں اور دباؤ، مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال، پیسے کی طاقت کے بڑے پیمانے پر استعمال ( خود الیکشن کمیشن نے دس کروڑ مالیت کی رقم اور جنس ضبط کی ہے)، مخصوص طبقات اور کارپوریٹ کے زیر تسلط مین اسٹریم میڈیا کی حکم ران جماعت کے تئیں کھلی جانب داری اور شرمناک پر و پیگنڈا جیسے عوامل کے پس منظر میں منعقد ہوئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ الیکشن کمیشن نے ہر سطح پر حکمراں جماعت کو فائدہ پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان تمام تر مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود 26 جماعتوں پرمشتمل انڈیا محاذ نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مودی کو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا وہ واقعی ایک تاریخی کارنامہ ہے۔

یہ باور کرایا گیا تھا کہ مودی کے لیے الیکشن جیتنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بہر حال اس کا سارا کریڈٹ ان لوگوں اور رضاکار تنظیموں کو جاتا ہے جو ان آمرانہ حملوں کے خلاف، نیز آئین، جمہوریت اور شہری حقوق کو بچانے کے لیے اپنے طور پر اٹھ کھڑے ہوئے۔

نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بالکل بجا کہا کہ ’’یہ ملک کے آئین کو بچانے کی لڑائی تھی اور اس میں فتح ملی اور عوام نے واضح پیغام دیا کہ وہ نہیں چاہتے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ ملک کو چلائیں‘‘۔

الیکشن کمیشن کے مطابق بی جے پی کو240اور اس کی اتحادی جماعتوں کوم53نشستیں ملی جب کہ انڈیا محاذ کو 234نشستیں اور بقیہ 16 نشستیں دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے حصہ میں آئیں۔ بی جے پی کی تحلیل شدہ ایوان زیریں یا لوک سبھا میں 303سیٹیں تھیں۔ کانگریس نے 2019 میں 52 کے مقابلے میں 99 سیٹیں حاصل کیں۔

یہ نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ مودی کی انتخابی مہم کس قدر ننگی فرقہ واریت، شرمناک بیانات اور زہر افشانی سے معمور تھی جو ہر اعتبار سے ضابطہ اخلاق اورعوامی نمائندگی قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔ مودی اور بی جے پی کے دیگر لیڈورں کی زہر افشانی کے خلاف اکیلے کانگریس نے 117شکایتیں الیکشن کمیشن میں درج کی تھیں لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اگر الیکشن کمیشن اپنے آئینی فرائض منصبی کو انجام دیتا تو مودی سمیت تمام وہ لیڈران جو انتخابی تقریروں میں مذہب کا استعمال کررہے تھے وہ الیکشن لڑنے کے لیے چھ سال تک

نا اہل قرار دیے جاتے جیسا کہ شیو سینا کے بانی آنجہانی بال ٹھاکرے کو یہ سزا ملی تھی۔

تقریباً نو ہفتوں تک چلنے والی انتخابی مہم میں جو ہندوستان کی انتخابی تاریخ میں انتہائی درجہ کی شرمناک مہم کے طور پر یاد رکھی جائے گی، مودی نے 206 انتخابی جلسوں سے خطاب کیا اور 71 اپنے ہمنوا چینلوں اور اخباری اداروں کو اسکرپٹ کے مطابق انٹرویو دیا۔ کانگریس کے صدر ملک ارجن کرگھے کے مطابق مودی نے اپنی تقریروں میں مندر۔مسجد بشمول اور منافرانہ موضوعات 421 مرتبہ، خود کا 758 مرتبہ، کانگریس کا 232، انڈیا اتحاد کا 573 بار تذکرہ کیا تاہم وہ ایک مرتبہ بھی کمر توڑ مہنگائی،بے روزگاری اور دیگرعوامی مسائل کو اپنی تقریروں میں زیر بحث نہیں لائے اور نہ ہی اپنی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگا۔

منگل سوتر، مٹن، مجرا، اور بابری تالا، مسلم ریزرویشن کوٹہ، بھینس جیسے الفاظ کی جیسے بارش ہو رہی تھی۔ کوئی تقریر مسلمانوں کے ذکر سے خالی نہیں تھی۔ انٹرویوز میں عجیب و غریب باتیں ہو رہی تھیں یہاں تک خود کو مافوق الفطرت تک قرار دینے میں انھیں کوئی تردد نہیں ہوا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی، متنازعہ تین طلاق قانون، سی اے اے، رام مندر ( شہید بابری مسجد پر تعمیر)، مسلم کوٹہ، اور دیگر مسلم مخالف اقدامات مودی اور شاہ کے کچھ کام نہیں آسکے۔

یو پی جیسے مضبوط گڑھ میں جو مودی کے اقتدار کا سر چشمہ تھا نامکمل رام مندر کے افتتاح کے باوجود بی جے پی کو بڑی زک اٹھانی پڑی۔ اگر مایاوتی کی بی ایس پی دورن خانہ اس کا ساتھ نہ دیتی تو بی جے پی کی حالت مزید ابتر ہوجاتی۔ نتائج کے تجزیہ سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ 16پارلیمانی حلقوں میں بی ایس پی کے امیدوار انڈیا اتحاد کے امیدواروں کی شکست کا موجب بنے جنھوں نے بی جے پی کے فاتح امیدواروں کے جیت کے فرق سے کہیں زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ مزید یہاں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں بھی ہوئیں لکھنو میں مقیم سیاسی مبصر پروفیسر روی کانت کے بقول چھ سات سیٹوں پر دھاندلی کی گئی۔ اس طرح یوپی میں اس کی موجودہ 35میں سے محض ایک درجن نشستیں رہ جاتیں جب کہ 2019 میں بی جے پی کو 62 اور 2014میں 71 نشستیں ملی تھیں۔ علاوہ ازیں مودی کے مہندر ناتھ سمیت تقریباً سات مرکزی وزیر ریاست سے ہار گئے۔ چندولی میں پانڈے، کھیری میں اجے کمار مصرا، موہن لال گنج میں کوشل کشور، فتح پور میں نرنجن جیوتی، امیٹھی میں اسمرتی ایرانی، مظفر نگر میں سنجیو کمار بالیان اور جالون میں بھانو پرتاپ سنگھ ورما شامل ہیں۔ وارانسی میں بھی مودی کی کام یابی 2019 کے مقابلے کافی پھیکی رہی۔ کانگریس کے امیدوار اجے رائے کو صرف 1.52 لاکھ ووٹوں سے شکست ہوئی جب کہ اس سے قبل مودی تقریباً 4.80 لاکھ ووٹوں کے فرق سے جیتے تھے۔ رام مندر کے افتتاح کے چار ماہ کے اندر فیض آباد کی اہم سیٹ پر پارٹی کو سخت جھٹکا لگا۔ پارٹی کے موجودہ ایم پی للو سنگھ کو سماج وادی پارٹی کے دلت امیدوار اودھیش پرساد نے شکست دے دی جو دستور تبدیل کرنے کی وکالت کر چکے تھے۔ للو سنگھ نے کہا ’’ہم آپکا ( رام للا) سمان نہیں بچا پائے۔ فیض آباد حلقہ میں ہی ایودھیا آتا ہے۔

راجستھان میں بھی اسے خا صا خسارہ اٹھانا پڑا جہاں اس نے گذشتہ الیکشن تمام کی تمام 25 نشستیں حاصل کی تھیں۔ مغربی بنگال میں اس کی توسیع کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ اوڈیشہ بی جے پی کے اسکرپٹ کے مطابق چلا گیا جہاں اس نے پہلی بار اقتدار حاصل کیا اور لوک سبھا کی 21 میں سے 19 سیٹیں حاصل کیں۔ بہار میں کانگریس-آر جے ڈی کا اتحاد رائے دہندوں کو جوش دلانے میں ناکام رہا اور این ڈی اے اتحاد نے اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ مغربی بنگال میں، ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس نے 42 میں سے 29 نشستیں حاصل کیں جب کہ بی جے پی کی نشستیں 18سے گھٹ کر 12 اور کانگریس کو ایک نشست ملی۔

پچھلے دس برسوں میں کمنڈل کی سیاست کے ہاتھوں کئی نقصانات برداشت کرنے کے بعد منڈل کی سیاست کا احیا ہونے لگا ہے جو بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کا تریاق ہے۔ انڈیا اتحاد PDA کمیونٹیز (پسماندہ دلت اور اقلیتوں) کا ووٹ بڑے پیمانے پر حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔ ایس پی کی امیدواروں کی فہرست میں، سب سے پسماندہ ذاتوں کے ارکان، جیسے موریہ، نشاد، بند اور کشواہا، کا مناسب خیال رکھا گیا تھا۔ کرمیوں (پٹیلوں) کو تیرہ ٹکٹ دیے گئے۔ تاہم یادو خاندان کے صرف پانچ افراد اور چار مسلمانوں کو ٹکٹ ملا۔ ان حلقوں کو چھوڑ کر جہاں مایاوتی کی بی ایس پی نے جان بوجھ کر مسلم امیدواروں کو انڈیا بلاک کے امیدوار وں کے امکانات کو نقصان پہنچانے کے لیے کھڑا کیا جیسا کہ پیلی بھیت، جہاں جیتن پرساد جیت گئے اور امروہہ میں دانش علی کو شکست ہوئی۔ یہ دل چسپ بات ہے کہ یہاں تک کہ دلتوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے انڈیا اتحاد کو ووٹ دیا۔ سب سے واضح مثال ایودھیا کے فیض آباد کی ہے۔ اکھلیش نے پارٹی کے تجربہ کار اور پاسی اودھیش پرساد کو دو بار کے ایم پی اور راجپوت لیڈر للو سنگھ کے خلاف جنرل سیٹ پر کھڑا کیا۔ مایاوتی کے ہتھکنڈوں کے سامنے آنے کے بعد ایس پی کے لیے دلتوں کی حمایت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نتائج واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ جس طرح سے انھیں ٹکٹ دیا گیا اس کے پیچھے ایک دانستہ منصوبہ تھا، جس کا مقصد انڈیا بلاک کے امیدواروں کے امکانات کو شدید نقصان پہنچانا تھا۔ مایاوتی نے اپنے ہی بھتیجے اور وارث آکاش آنند کو الیکشن کے ابتدائی مراحل میں بی جے پی کے خلاف سخت تقریر کے بعد معطل کردیا تھا۔ کانگریس-سماج وادی پارٹی کے سماجی انصاف کے پلیٹ فارم نے بھی سب سے زیادہ پسماندہ، وسیع پیمانے پر بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کی پریشانی، آوارہ مویشیوں سے لاحق خطرہ، پیپر لیک اور بڑے لوگوں کی روز مرہ کے مسائل کو حل کرکے انتخابات میں ایک مثبت بیانیہ پیدا کیا۔ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر عدم مساوات، تشدد اور امتیازی سلوک پر بھی بات ہوئی۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نے آئین کے تحفظ کی ضمانت دی، جو عام شہریوں کے حقوق اور وقار کا ذریعہ ہے۔

پڑوسی ریاست بہار میں، 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے MY-BAAP اتحاد سے نمایاں طور پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود، انڈیا بلاک اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ ووٹوں میں اضافہ کے نتیجے میں فتح یا شکست کے مارجن کچھ کم ہوئے، لیکن یہ پھر بھی این ڈی اے کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ مجموعی طور پر جس اتحاد نے این ڈی اے کی تشکیل کی وہ زیادہ نمائندہ تھا، جس میں بی جے پی کی اعلیٰ ذات کی بنیاد، جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام مورچہ (سیکولر) اور چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کی قیادت میں دلت، اور او بی سی کا ایک اہم حصہ شامل تھا۔ ای بی سی، اور مہادلیت کی نمائندگی اپیندر کشواہا کی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور نتیش کمار کی جنتا دل (متحدہ) نے کی۔

نتیش کمار کا نقصان انڈیا بلاک کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا کیوں کہ این ڈی اے کا ذات پات پر مبنی سماجی اتحاد آر جے ڈی، کانگریس، بائیں بازو اور وی آئی پی کے لیے بہت مضبوط تھا۔ 2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ یہ 2014 میں بی جے پی کے زیرقیادت اتحاد کے تمام چار لوک سبھا سیٹوں پر جیت کے صرف ایک سال بعد ہوا ہے۔ تاہم تیجسوی یادو کی انتھک مہم کے نتیجے میں این ڈی اے کو 2019 کے انتخابات میں نو سیٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ جب کہ این ڈی اے، جس نے 2019 میں 39 میں کام یابی حاصل کی تھی اسے صرف 30 نشستیں ملیں۔

انڈیا اتحاد نے راجستھان میں بھی حیرت انگیز طور پر مضبوط کارکردگی دکھائی ہے، جہاں کانگریس نے بائیں بازو، بھارت آدیواسی پارٹی اور ہنومان بینیوال کی قیادت میں راشٹریہ لوک تانترک پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی مشترکہ کوششوں کی بدولت اپوزیشن نے ہریانہ میں بھی دس میں سے نصف سیٹیں جیت لیں۔ ان ریاستوں میں بی جے پی نے 2019 میں تمام سیٹ جیتی تھیں۔

ایک اور بڑی ریاست میں مہاراشٹر کے ووٹروں نے یہ فیصلہ کر کے مودی کو زبردست جھٹکا دیا کہ شرد پوار کی قیادت والی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، ادھو بالا صاحب ٹھاکرے کی شیو سینا اصلی ہے۔ اس طرح ریاست کے عوام نے مہاراشٹر کی قانون ساز اسمبلی اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کے فیصلوں کو مسترد کر دیا ہے۔یہ ڈینگ مارنے کے بعد کہ وہ لوک سبھا کی 48 میں سے 45 سیٹیں جیت لے گی، بی جے پی 21 سے گھٹ کر 10 سیٹوں پر آ گئی۔ اپوزیشن اتحاد مہا وکاس اگھاڑی (MVA) نے 30 سیٹیں حاصل کیں۔

مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کو 6 سیٹوں کا نقصان ہوا اس کی تعداد 18 سے کم ہو کر 12 ہو گئی جب کہ حکمراں ٹی ایم سی نے 29 سیٹیں جیتیں۔ پچھلے سال اقتدار میں آنے کے بعد کرناٹک میں کانگریس کے بہتر ہونے کی امید تھی لیکن توقعات غلط ثابت ہوئیں پارٹی نے 28 میں سے نو نشستیں حاصل کیں جب کہ بی جے پی کی تعداد 25 سے گھٹ کر 17 رہ گئی۔ کانگریس کی حکومت والی ایک اور ریاست ہماچل پردیش میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جہاں چاروں نشستیں بی جے پی کی جھولی میں گئیں۔ تلنگانہ کی 17 نشستوں میں بی جے پی نے پہلی مرتبہ آٹھ نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور اس میں سابقہ حکمراں جماعت بی آر ایس کا بڑا ہاتھ ہے، جس نے عین موقع پر اپنے ووٹ بی جے پی امیدواروں کے حق میں منتقل کر دیے۔ اڈیشہ جو ایک غرب ریاست ہے، میں پیسہ کی طاقت بہت کام آئی اور نوئین پٹنائیک کی بیس سالہ حکم رانی کا خاتمہ ہوا۔

تمل ناڈو میں انڈیا اتحاد نے پانڈیچری سیٹ سمیت تمام 40 سیٹیں جیت کر انتخابات میں کلین سویپ کیا۔ شمال مشرق میں کانگریس کی تعداد میں بہتری آئی ہے۔ آسام میں آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) 2009 کے بعد پہلی بار ڈھوبری اور کریم گنج سمیت مسلم اکثریتی نشستوں پر بھی کام یابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ڈھوبری میں کانگریس کے رقیب الحسین نے اے آئی یو ڈی ایف کے سربراہ بدرالدین اجمل کو 10 لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی۔

ہندتو تفوق کے علم بردار امیدوار نونیت رانا، مادھوی لتا اور سنجیو بالیان، جو نفرت پھیلانے کے لیے مشہور ہیں، مات کھا گئے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے اسدالدین اویسی حیدرآباد سے 3.3 لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے جیت گئے جنھوں نی بی جے پی کی مادھوی لتا کومپیلا کو شکست دی، جس نے پولنگ کے دن مسلم خواتین ووٹرز سے برقعہ اتارنے اور شناختی چیک کرنےکے لیے اپنے چہرے دکھانے کو کہا تھا۔

2024 کے انتخابات میں نئی لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی میں مزید کمی دیکھی گئی کیوں کہ صرف 24 مسلم امیدواروں نے جیت درج کی۔ 17ویں لوک سبھا میں ان کی تعداد 26 تھی۔ اتر پر دیش سے پانچ مسلم امیدوار کام یاب ہوئے ہیں۔ تقریباً 22 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے باوجود بہوجن سماج پارٹی کوئی بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی۔ کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے ملک بھر میں صرف 78 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔

کانگریس پارٹی نے خود اس الیکشن میں ملک بھر میں صرف 19 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔ سابق مرکزی وزیر رحمان خان کے بیٹے منصور علی خان بنگلور سنٹرل سیٹ سے بہت کم فرق سے الیکشن ہار گئے۔ جب کہ اورنگ آباد میں ایم آئی ایم کے ایم پی امتیاز جلیل شیو سینا (شندے) کے امیدوار سے ہار گئے۔ مہاراشٹر، کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں میں کافی آبادی ہونے کے باوجود، قومی مقننہ کے ایوان میں ان کی نمائندگی کے لیے اس بار کوئی مسلم رکن نہیں ہوگا جو کہ سیکولر پارٹیوں پر ایک داغ ہے۔