مودی سرکار اپنی تیسری ٹرم میں کمزور ہونے کے باوجود اپنے تخریبی ایجنڈے پر مسلسل گامزن ہے۔ سب سے پہلے اس نے سرکاری ملازمین پر ملازمت میں رہتے ہوئے ان کی آر ایس ایس میں شمولیت پر لگی پابندی کو ہٹادیا۔ اب کوئی بھی سرکاری ملازم علی الاعلان آر ایس ایس کے فسطائی اور فرقہ پرست ایجنڈے پر گامزن رہتے ہوئے اپنے عہدے پر نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ اس کی آبیاری بھی کرتا رہے گا۔ اس فیصلہ کے مضمرات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
مسلمان اس حکومت کا مرغوب ترین ایجنڈا ہیں۔ 2024 کا پورا پارلیمانی الیکشن مسٹر مودی کی پارٹی نے مسلم نفرت پر ہی لڑا تھا۔ مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو پر تو گزشتہ 10 سالوں سے برابر اور پے در پے حملے ہوہی رہے تھے ، اب ان کے دین و ایمان، ان کی شناخت، ان کے پرسنل لا اور ان کے عصری و دینی تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس طویل اور دراز ہوتے سلسلہ کی اگلی کڑی کے طور پر حال ہی میں پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کیا گیا۔ بظاہر اس کا مقصد بڑا پاک اور لوگوں کو متاثر کرنے والا بتایا جارہا ہے۔ کہا گیا کہ کام کاج میں شفافیت اور مسلم سماج کے کمزور اور ضرورت مند افراد کو فائدہ پہنچانا پیش نظر ہے۔ لیکن مجوزہ تمام ترمیمات حکو مت کی بدنیتی اور ناپاک عزائم و ارادوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
اس بل میں وقف ایکٹ کو کمزور کرنے، وقف املاک پر قبضے کی راہ ہموار کرنے، وقف بورڈ وں کی حیثیت گھٹانے، وقف ٹریبونل اور سروے کمشنروں کے اختیارات کلکٹر وں اور پٹواریوں کو منتقل کرنے کے علاوہ کئی ایسی ترمیمات لائی گئی ہیں جس سے کہ وقف ایکٹ کی معنویت اور افادیت ہی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بور ڈوں کے ممبران میں اضافہ کے علاوہ ان کی نوعیت و حیثیت ہی بدلی جارہی ہے۔ یعنی اس میں غیر مسلموں کی شرکت کے لئے بھی راستہ ہموار کیا گیاہے۔ یہان تک کہ ممبران پارلیمنٹ، اسمبلی ممبران اور بار کونسل کے اراکین کے لئے بھی اب مسلمان ہونے کی شرط باقی نہیں رہے گی۔ جب کہ مندروں، مٹھوں، عیسائیوں اور سکھوں کے اوقاف و مذہبی اداروں کی انتظامیہ میں دوسرے مذہب بلکہ بعض جگہ تو دوسری کاسٹ کا بھی کوئی شخص پر نہیں مارسکتا۔ ایک مضحکہ خیز ترمیم یہ بھی ہے کہ واقف کے لئے پانچ سال تک باعمل مسلمان ہونا ضروری ہوگا۔ یعنی جو شرط شریعت نے نہیں لگائی وہ اب حکومت لگانا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کسی کے باعمل مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ کون دے گا۔ موجودہ ترمیمی ایکٹ غیر مسلموں سے وقف کرنے کا حق بھی چھین لیتاہے۔ اسی طرح بطور استعمال (Waqf by User) کو مجوزہ بل میں سے ہی نکال دیا گیا ہے۔ یعنی اگر کوئی مسجد، کوئی قبرستان یا کوئی درگاہ چاہے برسوں سے استعمال میں کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ وقف بورڈ میں بطور وقف رجسٹرڈ نہیں ہے تو اس پر قبضہ کی راہ آسان ہو جائے گی۔
مجوزہ ترمیمی ایکٹ میں خواتین، پس ماندہ مسلمانوں اور شیعہ، بوہرہ اور آغا خانیوں کے لئے بھی سیٹیں مختص کی گئی ہیں حالانکہ دوسری طرف بوہرہ اور آغا خانی طبقہ کے لئے الگ سے وقف بورڈ بنانے کا اعلان بھی ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ(1995) میں نہ تو خواتین اور نہ ہی پس ماندہ طبقات کی نمائندگی پر کوئی پابندی ہے بلکہ کئی وقف بورڈوں میں خواتین اور پس ماندہ مسلمان بھی وقف بورڈوں کے ممبر ہیں ۔ دراصل یہ شوشہ اس لئے چھوڑا گیا تا کہ مسلمانوں کے اندر دراڑ پیدا کی جاسکے۔ ویسے بھی حکومت نے مسلمانوں کے اندر اپنے کچھ زرخرید تو پیدا ہی کرلئے ہیں جو پریس کانفرنسیں کرکر کے اور گودی میڈیا کے چینلوں اپنے آقاؤں کے سر میں سر ملاکر اس سازش کے کل پرزےبن رہے ہیں۔ ملت کو ان آستین کے سانپوں سی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
وقف امینڈمینٹ بل پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سخت مخالفت ، این ڈی اے کے بعض حلیفوں کے تحفظ اور آل انڈیامسلم پرسنل لا بور ڈ اور مسلم جماعتوں کے سخت رویہ کی وجہ سے یہ بل سردست جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ کمیٹی میں بی جے پی ممبران کی اکثریت کی بناء پر کوئی بھی معقول بات مانی نہیں جائے گی بلکہ لیپا پوتی کرکےاسے یہ کہہ کر پارلیمنٹ میں دوبارہ پیش کردیا جائے گا کہ اس پر سب کی سہمتی ہوگئی ہے۔ اس وقت امت کا حال یہ ہوگا کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیان چگ گئی کھیت۔
ہمارا خیال ہے کہ اب مسلم پرسنل لا بورڈ ، تمام مسلم جماعتوں اور مسلمانوں کی ہر چھوٹی بڑی تنظیم و شخصیت کو وقف ترمیمی بل کی مکروہ سازش کے خلاف پوری طاقت اور قوت سے صف آراء ہوجانا چاہیے۔ مسئلہ صرف ایک دو املاک کا نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں پھیلی ہزاروں ایکڑ پر مبنی وقف املاک زد میں ہیں، جنہیں ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے اللہ کے لئے اور امت مسلمہ کی دینی، ملی اور فلاحی ضرورت کے لئے وقف کیا تھا ۔ یہ حکومت کی عطا کردہ یا کسی سے جبراً اور غیر قانونی طور پر حاصل کردہ املاک نہیں ہیں۔ ویسے بھی ہم دیکھ رہے ہیں کس طرح عدالتی جبر کے ذریعہ بابری مسجد ہم سے چھین لی گئی اور اب عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی موجودگی کے باوجود عدالتیں من مانے فیصلے دے رہی ہیں۔ گیان واپی مسجد ہو یا متھرا کی شاہی عید گاہ یا پھر بھوج شالہ مسجد ہو یا لکھنو کی ٹیلہ والی مسجد یا پھر ہگلی کی عید گاہ سب پر ظالم گدھوں کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ پھر اس کے علاوہ سینکڑوں ایکڑ کی وہ املاک بھی ہیں جس پر خود حکومتوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
بس اب ایک ہی راستہ ہے وہ ہے عوامی احتجاج کا راستہ۔ جمہوریت میں اصل آواز اور اصل دباؤ عوام ہی کا ہوتا ہے۔ ماضی میں شاہ بانو کا معاملہ ہو یا حال کی سی اے اے CAA مخالف تحریک یہ عوامی سیلاب ہی تھا جس نے حکومت کے پسینے چھڑا دئے تھے۔ اپوزیشن پارٹیاں بھی یہی زبان سمجھتی ہیں۔ منت سماجت اور اپیلوں کو وہ ہماری کمزوری اور بے بسی سمجھتی ہیں اور اسے خاطر میں نہیں لاتیں۔ اگر خدانخواستہ ملت کے ارباب حل وعقد، دینی و ملی جماعتیں بیانات، پریس کانفرنسوں، یاداشتوں، اپیلوں اور ملاقاتوں سے آگے کچھ اور کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو پھر ملت کے نوجوانوں اور عامتہ المسلمین کو اپنے بل بوتے پر ازخود ملک کے طول و عرض میں ایک عوامی تحریک کھڑی کرنی چاہیے، جیسا کہ انہوں نے ابھی حال میں اینٹی سی اے اے تحریک میں دکھایا ہے۔ یاد رکھئے اگر ملت اس ظالمانہ بل کے خلاف کھڑی ہوگئی تو پھر دیگر اقلیتیں، دلت، ادی باسی اور تمام محروم و مظلوم طبقات آپ کے شانہ بشانہ ہوں گے جس کا مشاہدہ ہم نے سی اے اے مخالف تحریک میں کیا ہے۔ پھر ایک ہی نہیں ہر مسئلہ ان شاءاللہ حل ہوگا۔ بنگلہ دیش کی طلبا تحریک کی اثر پذیری کو ہم ابھی ابھی دیکھا ہے۔ لہذا
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا