جمہوریت کی بنیادی شرائط میں سے ایک لازمی اور اہم شرط اظہار خیال کی آزادی بھی ہے۔ خواہ عوام ہوں، سول سوسائٹی ہو، انسانی حقوق کے کارکن ہوں، عدلیہ ہو، این جی اوز ہوں یا پھر میڈیا ہو۔ سب کو اظہار خیال کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ اگر کسی جمہوری ملک میں یہ آزادی متاثر ہوتی ہے یا حکومت کی جانب سے اس کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کا فقدان ہے یا جمہوری قدروں کو پامال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کی اس کوشش کے خلاف اس ملک کے تمام طبقات کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور اپنی اس آزادی کا تحفظ کرنا چاہیے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور حکومتوں کی طرف سے بارہا یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ یہاں جمہوریت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ دوسرے ملکوں کی سرکردہ شخصیات کی جانب سے بھی ہندوستانی جمہوریت کی ستائش کی جاتی ہے۔ جمہوریت کے استحکام کا ہی یہ اثر ہے کہ یہاں کبھی مارشل لا نہیں لگا۔ کبھی کسی فوجی سربراہ نے منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں تمام آئینی و جمہوری اداروں کو آزادی حاصل رہی ہے، ان پر کبھی قدغن لگانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ البتہ ایک بار سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سیاسی مقاصد کی حصولیابی کی خاطر ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اور عوام کے جمہوری و آئینی حقوق کو سلب کر لیا اور اظہار خیال کی آزادی چھین لی تھی، لیکن اس کے نتیجے میں ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد کسی بھی حکمراں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بڑے فخر کے ساتھ بار بار اس بیان کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہندوستان مدر آف ڈیموکریسی ہے یعنی وہ جمہوریت کی ماں ہے۔ لیکن اس حکومت کا عمل جمہوریت کی جڑوں کو کم زور کرنے اور جمہوری و آئینی اداروں کو غیر مستحکم کرکے ان پر قبضہ کرنے کا ہے۔ 2014 کے بعد سے ہی جمہوریت کے ایک لازمی تقاضے یعنی اظہار خیال کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بلکہ اب یہ کوششیں زیادہ تیز ہو گئی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ یہاں اظہار خیال کی آزادی پر پہرہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس کے خلاف ملک کے دانش وروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے تو آوازیں بلند ہی کی جاتی ہیں غیر ملکی ادارے بھی اس پر اظہار تشویش کر رہے ہیں۔
اظہار خیال کی آزادی پر پہرے کی تازہ ترین مثال کانگریس کے سینئر رہ نما، سابق صدر اور رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کے خلاف گجرات کی ایک مقامی عدالت کا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت انھیں دو سال کی سزا سنائی گئی اور اگلے ہی روز لوک سبھا نے ان کی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔ قارئین کو معلوم ہے کہ یہ فیصلہ 2019 کی ان کی ایک تقریر پر سنایا گیا ہے جس میں انھوں نے مودی کنیت کے حوالے سے ایک بیان دیا تھا۔ اس فیصلے سے قبل جب انھوں نے پارلیمنٹ میں گوتم اڈانی کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے اور ان سے وزیر اعظم نریندر مودی کے رشتوں پر سوال پوچھنا شروع کیا تو ان کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ جب وہ پارلیمنٹ میں بولنے کی کوشش کر تے تو ان کا مائک بند کر دیا جاتا تھا۔ جب اپوزیشن ارکان نے ایوان میں راہل گاندھی کو بولنے دو کا نعرہ لگایا تو لوک سبھا کا مائک ہی سولہ منٹ تک بند کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر کہا جاتا ہے اور وہاں ہر رکن کو اپنی با ت کہنے کی آزادی حاصل ہے۔ اور یہ آزادی پارلیمانی جمہوریت کا لازمی جز ہے۔ لیکن جب بھی حزب اختلاف کے ارکان نے حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں پر سوال اٹھانے کی کوشش کی تو ان کو بولنے نہیں دیا گیا۔
پریس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ باقی تین ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں۔ لیکن جب سے یہ حکومت آئی ہے پریس کی آزادی کو بھی محدود کر دیا گیا ہے بلکہ بعض مبصرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ پریس کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ اگر ہم موجودہ قومی میڈیا کا جائزہ لیں تو اس الزام میں بڑی حد تک صداقت نظر آتی ہے۔ پرنٹ میڈیا پھر بھی غنیمت ہے۔ حالاں کہ وہاں بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر بڑی حد تک پابندی ہے اور جو ایڈیٹر آواز بلند کی جرأت کرتے رہے ہیں ان کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ تاہم پرنٹ میڈیا میں اب بھی یہ جرأت کسی حد تک باقی ہے کہ وہ حکومت کے غلط فیصلوں پر تنقید کر سکے۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا پر اس قدر دباؤ ڈالا گیا کہ اس نے حکومت کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ تقریباً تمام نیوز چینل حکومت کے ترجمان بن گئے ہیں۔ نیوز چینلوں پر بھی جس ایڈیٹر یا صحافی نے حکومت سے سوال پوچھنے کی کوشش کی اس کی ملازمت ختم کر دی گئی۔ اس کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اس طرح نیوز چینلوں کی آزادی کو سلب کر لیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اب حکومت سے سوال پوچھنے کی جرأت نہیں کر پاتے بلکہ وہ اپوزیشن سے سوال کرنے لگے ہیں۔
اپنے صحافتی فرائض کی ایمانداری سے انجام دہی کرنے والے صحافیوں کے خلاف پولیس بڑی تیزی سے کارروائی کرتی ہے۔ اس وقت کئی صحافی جیلوں میں بند ہیں۔ ان کے خلاف انتہائی وحشت ناک قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے۔ یہ قانون دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنایاگیا تھا۔ لیکن اب حکومت اور پولیس جس کے خلاف چاہتی ہے اس قانون کا اطلاق کر دیتی ہے۔ یعنی وہ ایک طرح سے ان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کے صحافیوں اور یو ٹیوب چینل چلانے والے صحافیوں کو بھی بولنے کی مکمل آزادی نہیں ہے۔ ابھی گذشتہ دنوں یو پی کی ایک وزیر سے سوال پوچھنے پر ایک یو ٹیوب چینل کے نوعمر صحافی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کی متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ اگر کسی صحافی نے کسی مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف رپورٹ لکھی گئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔
حکومت نے جب شہریت کے قانون میں امتیازی انداز میں ترمیم کی اور مسلمانوں کی شہریت کو ہدف بنانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے آواز بلند کی اور پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا۔ طلبہ کے اظہار خیال کی آزادی پر بھی حملہ کیا گیا اور متعدد اسٹوڈنٹس کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان پر یو اے پی اے لگا دیا گیا جس کی وجہ سے ان کی ضمانتیں تک منظور نہیں ہو رہی ہیں۔ نوجوان ملک کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ملک کے مستقبل سے کھیلا جا رہا ہے۔ آج کئی طلبہ کو جن میں جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد اور شرجیل امام سرفہرست ہیں، قید و بند کی صعوبتوں میں جکڑ کر ان کا مستقبل تاریک کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے دستور کے ذریعے دی گئی اظہار خیال کی آزادی کے حق کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں سے بھی بولنے کی آزادی چھینی جا رہی ہے۔ جس نے بھی آواز بلند کی اس کے خلاف کارروائی کی گئی۔ حکومت نے انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کے وسائل پر حملہ کیا۔ متعدد تنظیموں اور این جی اوز کے ایف سی آر اے کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا تاکہ وہ غیر ملکی حکومتوں اور اداروں سے کوئی مالی معاونت حاصل نہ کر سکیں۔ کئی تنظیموں کے خلاف مرکزی ایجنسیوں نے جانچ شروع کر دی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی بدترین مثال بھیما کورے گاؤں میں ہونے والے تشدد کے لیے انسانی حقوق کے کئی کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دینا ہے۔ ایک بزرگ کارکن عیسائی مبلغ فادر اسٹن سوامی کی تو حراست کے دوران اسپتال میں موت ہو گئی۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ ان لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا بلکہ ان کی زندگی کو انتہائی مشکل بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔ اسٹن سوامی کو رعشہ کا مرض لاحق تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہاتھ سے مشروب نہیں پی سکتے۔ اس کے لیے انھوں نے اسٹرا یا پینے والے پائپ کا مطالبہ کیا تو انھیں پائپ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ بالآخر انھیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ایک بزرگ کو ایک معمولی شے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ اسی طرح ایک اور ملزم گوتم نولکھا کا چشمہ جیل میں کہیں کھو گیا، ان کی اہلیہ نے ان کے لیے چشمہ بھیجا مگر انتظامیہ نے ان کو چشمہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کو بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ ان لوگوں کے خلاف یہ کارروائی اسی لیے کی گئی کہ انھوں نے اظہار خیال کی آزادی کے اپنے حق کا استعمال کیا تھا۔
اپوزیشن رہ نماؤں کے بولنے کی آزادی کو بھی چھینا جا رہا ہے۔ اگر کسی اپوزیشن لیڈر نے حکومت یا حکمراں جماعت کے خلاف کوئی بیان دیا یا ان کی کسی بدعنوانی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تو اس کی فائل کھول دی گئی اور اس کے پیچھے مرکزی ایجنسیوں کو لگا دیا گیا۔ گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران درجنوں اپوزیشن رہ نماؤں کے خلاف ایجنسیوں نے کارروائی کی اور اب بھی یہ کارروائی جاری ہے۔ کانگریس رہ نما راہل گاندھی اور ان کی والدہ سونیا گاندھی کے خلاف ای ڈی کی کارروائی کو بھی بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران سری نگر میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان سے ایسی کئی خواتین ملی ہیں جو کہتی ہیں کہ اب بھی ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ ان کے اس بیان کے ڈیڑھ ماہ کے بعد دہلی پولیس نوٹس لے کر ان کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ اپوزیشن رہ نماؤں کے خلاف اس قسم کی کارروائیوں کی بھرمار ہے۔
وہ تو شکر ہے کہ عدلیہ ابھی کسی حد تک آزاد ہے اور متاثرین کو وہاں سے انصاف مل رہا ہے۔ حالاں کہ اس کو بھی اپنے زیر اثر لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالتوں میں ججوں کا تقرر سپریم کورٹ کی ایک کمیٹی کرتی ہے جسے کا لجیم کہتے ہیں۔ حکومت اس نظام کو ختم کرنا چاہتی ہے اور ججوں کا تقرر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ اس کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے اورموجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس کے خلاف اور عدلیہ کو دبانے یا عوام کے اظہار خیال کی آزادی کو چھیننے کے خلاف سخت موقف اختیار کر رکھا ہے جس کی وجہ سے حکومت کی دال نہیں گل رہی ہے۔ لیکن سابق وزیر قانون کرن رجیجو اپنے بیانات سے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر تے رہے ہیں۔ جب کچھ سابق ججوں نے حکومت کے آمرانہ رویے کے خلاف بیان دیا اور اظہار رائے کی آزادی کے حق میں آواز بلند کی تو انھوں نے یہاں تک الزام لگا دیا کہ کچھ جج حضرات بھارت مخالف گینگ کا حصہ ہیں۔ اب یہ فیشن بن گیا ہے کہ اگر کوئی شخص حکومت کے فیصلوں پر تنقید کرتا ہے تو اسے ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص وزیر اعظم پر نکتہ چینی کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ ملک کے خلاف بول رہا ہے، ملک کو بدنام کر رہا ہے، وہ ملک کا دشمن اور غدار ہے۔
گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران اظہار خیال کی آزادی کو جس طرح چھیننے کی کوشش کی گئی اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اور یہ کوشش اس وزیر اعظم کے دور حکومت میں ہو رہی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہوئے نہیں تھکتا کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے، مدر آف ڈیموکریسی ہے۔ کوئی بھی حکومت جب عوامی طاقت سے ڈر جاتی ہے تو عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اس قسم کے ہتھکنڈے اختیار کرنے لگتی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت بھی خوف زدہ ہے اسی لیے وہ عوام کے ان جمہوری حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو آئین نے انھیں دیے ہیں۔ اگر ہندوستان واقعی مدر آف ڈیموکریسی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اظہار خیال کی آزادی کو فوری طور پر بحال کرے او رجو لوگ محض بولنے کی پاداش میں جیلوں میں بند ہیں انھیں رہا کیا جائے اور جن کے خلاف کارروائی چل رہی ہے ان کو اس کارروائی سے نجات دی جائے۔