پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو لگنے والے شدید دھچکے اور دو حلیف جماعتوں کی حمایت سے مرکز میں حکومت کے قیام کے پیش نظر ایسا خیال کیا جا رہا تھا کہ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور گزشتہ دس برسوں سے خطرات سے گھری ان کی زندگی میں کچھ نہ کچھ سکون کے لمحات ضرور آئیں گے۔ ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ حکومت کو حمایت دینے والی دونوں حلیف جماعتیں جنتا دل یو اور تیلگو دیسم اپنے ووٹ بینک کے تحفظ کے پیش نظر یہ برداشت نہیں کریں گی کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملے جاری رہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو ان کے اپنے سیاسی مفادات متاثر ہو جائیں گے۔ لیکن سیکولر طبقات کی یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ سلسلہ چار جون کو آنے والے نتائج کے فوراً بعد شروع ہو گیا تھا۔ حالانکہ دس برسوں سے ماحول میں جو گھٹن تھی اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صورت حال مکمل طور پر بدل گئی ہے اور اب خطرات کے تمام بادل چھٹ گئے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہندوتووادی جماعتوں اور عناصر کی جانب سے مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلیں وقتاً فوقتاً کی جاتی رہی ہیں۔ ان اپیلوں کا مسلمانوں کے روزگار اور تجارت پر منفی اثر پڑتا رہا ہے۔ ان کی معیشت کی کمر توڑنا ان عناصر کا پرانا اور پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے وقت ان کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دکانوں اور مکانوں کو بھی تباہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا مقصد ان کو مالی اعتبار سے کنگال بنا نا ہے۔ صرف غیر سرکاری طور پر نہیں بلکہ سرکاری طور پر بھی ان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی پالیسیاں بنائی گئیں جن کے نتیجے میں جو جو تجارت مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہی ہے وہ سب متاثر ہو ئیں اور تباہی کے دہانے پر پہنچ گئیں۔ گزشتہ دنوں کانوڑ یاترا میں کانوڑیوں میں کوئی کنفیوژن نہ پھیلے اس بہانے سے جو حکم جاری کیا گیا اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں کی تجارت پر ضرب لگائی جائے۔ اگر ہوٹلوں اور ڈھابوں اور دیگر دکانوں کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ وہ مسلمانوں کی ہیں تو اس ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو مسلمانوں سے سودا سلف لینے اور ان کے ساتھ تجارت کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ پہلے سے ہی عملاً ان کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ جو حکم صادر کیا گیا اس کا مقصد بھی ان کا بائیکاٹ کرنا تھا۔
لیکن اگر ہم چار جون کے فوراً بعد سے اب تک کے واقعات پر بھی نظر ڈالیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ مسلمانوں کی املاک اور ان پر حملوں اور ان کی لنچنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کانوڑ روٹ پر واقع ہوٹلوں اور ڈھابوں پر نام لکھنے اور کانوڑ یاتریوں میں موجود غیر سماجی عناصر کو چھوٹ دینے کا مقصد یہی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کی لنچنگ کے حالات پیدا کیے جائیں۔ بعض مقامات پر ایسے واقعات ہوتے ہوتے بچے ہیں۔ اترپردیش کا شہر مظفر نگر ایک حساس شہر ہے۔ وہاں 2013 میں بدترین فساد ہو چکا ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس وقت بہت سے مسلمانوں کو دربدر ہونا پڑا تھا جو ایک طویل عرصے تک کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ مظفرنگر کے راستے سے ہو کر گزرنے والے کانوڑ روٹ پر یوپی حکومت کا حکم بظاہر اسی لیے جاری ہوا تھا کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ادھر 26 جولائی کو شام کے وقت دہلی میرٹھ ایکسپریس وے پر کانوڑیوں نے ایک گاڑی کو روکا۔ ان کا الزام ہے کہ وہ رانگ سائڈ سے آرہی تھی اور اس نے کانوڑیوں کو ٹکر ماری جس سے ان کی کانوڑ ٹوٹ گئی۔ بس پھر کیا تھا وہ سب کار پر پل پڑے۔ اس میں چار مسلمان تھے۔ تین تو بھاگنے میں کامیاب ہو گئے مگر ایک کو جو کہ ساٹھ ستر سال کے باریش بزرگ تھے پکڑ لیا گیا۔ ان کی بری طرح پٹائی کی گئی۔ ان کے کپڑے پھاڑ دیے گئے۔ ان کی گاڑی میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ وہ تو ان کی قسمت اچھی تھی کہ جان بچ گئی ورنہ حالات بہت خراب تھے۔ کانوڑ یاترا کے دوران ایسے دیگر اور واقعات ہوئے جن میں اگر لوگ بھاگ نہ گئے ہوتے تو ان کی جان کے لالے پڑ جاتے۔
انتخابات کے بعد مسلمانوں کی ماب لنچنگ، ان کے ساتھ تشدد، مار پیٹ، گھروں کو نذر آتش کرنے اور سرکار کی جانب سے ان کے مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ ایسے واقعات کی فہرست انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا اور دیگر شخصیات کی تنظیم ’ایسو سی ایشن فار پروٹکشن آف سول رائٹس‘ (اے پی سی آر) اور صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹکٹ جرنلسٹس‘ (سی پی جے) نے تیار کی ہے۔ دونوں نے الگ الگ فہرست سازی کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح مابعد انتخابات مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سلسلہ چار جون کو نتائج آنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور اس میں عید الاضحیٰ کے بعد تیزی آگئی۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر مسلم دشمن شرپسندوں کو بیف کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سنہرا موقع مل گیا۔ اے پی سی آر کا کہنا ہے کہ چار جون سے جون کے اواخر تک ماب لنچنگ کی آٹھ، ہجومی تشدد کی چھ اور پولیس کی جانب سے مسلمانوں کے مکانوں کو مسمار کیے جانے کی بھی متعدد وراداتیں ہوئی ہیں۔
سی پی جے نے ایک طویل فہرست تیار کی ہے جس میں 14معاملات کا اندراج ہے۔ حالانکہ یہ فہرست کچھ پرانی ہے جس میں جولائی میں پیش آنے والے واقعات شامل نہیں ہیں۔ تاہم اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح بی جے پی کی شکست اور دو حلیف جماعتوں کی حمایت سے حکومت قائم ہونے کے باوجود حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے مطابق 22 جون کو گجرات کے 23 سالہ سلمان ووہرہ کو کرکٹ میچ کے د وران پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ چھتیس گڑھ کے رائے پورمیں سات جون کو تین مسلمانوں کو ہندوتووادیوں نے ظلم و جور کا نشانہ بنایا۔ متاثرین کے نام صدام قریشی، چاند میاں خان اور گڈو خان ہیں۔ ان کا تعلق اترپردیش کے سہارنپور ضلع سے ہے۔ 28 مئی سے جون کے آخر تک مبینہ طور پر گائے کی حفاظت کے نام پر دس واقعات ہوئے جن میں ہجوم نے مویشی لے جانے والے لوگوں پر حملہ کیا۔ایسے واقعات کئی ریاستوں میں ہوئے ہیں۔ اتر پردیش کے بلند شہر میں دو مسلمان بھائیوں کو ہجوم نے اس وقت بے دردی سے پیٹا جب وہ ایک دکان پر اشیاء کا تبادلہ کرنے گئے تھے۔
مرادآبادمیں 25 سالہ ڈاکٹر پر 30 جون کو ہجوم نے وحشیانہ حملہ کیا۔ حملہ اس وقت ہوا جب ڈاکٹر افتخار اپنے کلینک سے گھر لوٹ رہے تھے اور ایک پیٹرول پمپ پر پیٹرول لینے کے لیے رکے تھے۔ بارہ جون کی اولین ساعتوں میں مولانا اکرم نامی امام کو مراد آباد کے بھینسیا گاؤں میں نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ نو جون کو میرٹھ کے محمد عمر قریشی پر ہماچل پردیش کے بنگانہ قصبے میں ایک ہجوم نے حملہ کیا۔ بجرنگ دل، شیو سینا اور بی جے پی کے ارکان نے مبینہ طور پر اسے مارا پیٹا، اس کے پیسے چرائے، اور اسے جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔ قریشی کے مطابق حملہ اس لیے ہوا کہ وہ مسلمان ہے۔ مزید برآں، جب اس نے پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرانے کی کوشش کی تو پولیس نے انکار کردیا۔ اناؤ میں ایک ہندوتوا وادی ہجوم نے سات جون کو ایک کنٹینر پر بھینس کا گوشت مغربی بنگال سے ممبئی لے جانے پر زبردست ہنگامہ کیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ یہ گائے کا گوشت ہے۔ ہنگامہ آرائی کے بعد گوشت کا نمونہ جانچ کے لیے لیباریٹری بھجوایا گیا جس سے تصدیق ہوئی کہ یہ بھینس کا گوشت ہے۔
ایک صحافی میر فیصل کے مطابق مولانا شہاب الدین نامی ایک امام کو یکم جولائی کو جھارکھنڈ کے کوڈرما ضلع میں ایک ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ خوردھا، اڑیسہ میں عید الضحیٰ کو ایک ہجوم زبردستی ایک مسلمان کے گھر میں گھس گیا اور گھر کے فریج سے گوشت چھین کر اس پر قبضہ کر لیا۔ ہجوم جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے گھر میں داخل ہوا تھا۔ مغربی بنگال کے بیر بھوم کے نواپارہ میں عید کے بعد ایک اور معاملہ پیش آیا جہاں طوفان شیخ نامی ایک مسلمان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا۔ اسے ایک ہجوم نے گھیر لیا اور اس پر ایک مندر کے قریب گوشت پھینکنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد اس پر ہجوم نے حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ دی آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اسے ایک گھنٹے تک کھمبے سے بھی باندھا گیا جس کے بعد مقامی پولیس نے اسے بچا لیا اور اس کا طبی علاج کرایا۔ میدک میں بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب منہاج العلوم مدرسہ کی انتظامیہ نے بقر عید سے قبل قربانی کے لیے مویشی خریدے اور ایک ہجوم نے آکر مدرسہ پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ ہجوم نے اس اسپتال پر بھی حملہ کیا جہاں زخمیوں کا علاج کیا جا رہا تھا۔ حراست میں لیے گئے افراد میں بی جے پی میدک کے ضلع صدر گڈم سرینواس، بی جے پی میدک ٹاؤن کے صدر ایم نیام پرساد، بی جے وائی ایم کے صدر اور سات شامل ہیں۔ بہرحال یہ تو چند واقعات ہیں جن کا ذکر سی پی جے کی رپورٹ کے حوالے سے کیا گیا ہے ورنہ یہ فہرست بہت طویل ہے۔
دریں اثنا یہ ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے 25 جولائی کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں اس نے ہندوستان میں مسلمانوں اور قلیتوں پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون یو اے پی اے کا بے حد غلط استعمال ہو رہا ہے اور وہ استعمال پرامن انداز میں اپنے جمہوری حقوق کے استعمال کرنے والے مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے۔
مبصرین کا خیال تھا کہ انتخابات میں دھچکہ لگنے کے بعد بی جے پی خود احتسابی کرے گی اور اقلیتوں پر مظالم ڈھانے کے سلسلے میں اپنا رویہ تبدیل کرے گی۔ لیکن ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوپی حکومت کی جانب سے کانوڑ یاترا کے دوران جاری کیے جانے والے حکم کے پس پردہ وزیر اعلیٰ یوگی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی مبینہ کوششیں ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کی شکست کی تمام تر ذمہ داری یوگی پر ڈالنا چاہتے تھے تاکہ اسی بہانے ایک ماحول تیار ہو اور انھیں ہٹایا جا سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یوگی نے یہ چال چلی تاکہ خود کو سب سے بڑا ہندوتووادی ثابت کر سکیں اور ان کی کرسی بچی رہے۔ اگر ان کے حکم کے نتیجے میں مسلمانوں پر حملے ہوں گے تو ہندووں میں از خود یہ پیغام جائے گا کہ یوگی ان کے تحفظ کے تئیں سنجیدہ ہیں۔
بہرحال صرف اترپردیش ہی نہیں بلکہ بی جے پی اقتدار والی دیگر ریاستوں میں بھی مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں افسران پیش پیش ہیں۔ وہ حکومت کو خوش کرنے کے لیے اقلیتوں پر مظالم کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اس ملک میں اب ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ افسر شاہی حکومت کی خوشامد کو ہی اپنی ڈیوٹی سمجھنے لگی ہے اور افسران کی اکثریت سیاسی آقاؤں کو خوش کرکے انعامات حاصل کرنے میں یقین رکھنے لگی ہے۔ حالیہ واقعات بتاتے ہیں کہ بی جے پی جب تک اقتدار میں رہے گی مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ بند نہیں ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا یہ خیال غلط ثابت ہوا ہے کہ جنتا دل یو اور ٹی ڈی پی حکومت اور ہندوتووادی عناصر پر قابو پانے میں کامیاب رہیں گے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ان کو بھی اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں خواہ اس کے لیے انھیں عارضی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ شاید وہ بھی یہی سمجھتی ہیں کہ مسلمان اور دیگر اقلیتیں کہاں جائیں گی وہ ہمیں ہر حال میں ووٹ دیں گی۔ اس لیے ابھی اپنی ریاستوں کے لیے مرکز سے فوائد اٹھائے جائیں جب انتخابات کا موسم آئے گا تب دیکھا جائے گا۔ یوگی حکومت کے حکم کے خلاف جے ڈی یو، آر ایل ڈی اور ایل جے پی نے جو آواز اٹھائی تھی وہ بہت کمزور تھی اور محض رسم ادائیگی تھی۔ ورنہ اگر وہ اس حکم کو اور کانوڑ یاترا کے دوران ہونے والے تشدد کو غلط سمجھتے تو پرزور انداز میں احتجاج کرتے۔
بہرحال بی جے پی کی جو سیاسی بناوٹ ہے اس میں وہ مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف منافرانہ ماحول بنائے بغیر اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں بنا سکتی۔ وہ سمجھتی ہے کہ جب تک وہ ہندووں کو مسلمانوں کا ڈر دکھاتی رہے گی اور جب تک مسلمانوں کو دبانے کے اقدامات کرتی رہے گی اس وقت تک اس کی سیاست کامیاب رہے گی۔ لہٰذا اس نے نہ صرف یہ کہ حملہ آوروں کو چھوٹ دے رکھی ہے بلکہ وہ ایسے حالات بھی پیدا کرتی رہتی ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رہے اور ہندووں کی اکثریت خوش رہے۔