یو پی میں بی جے پی کی شکست

کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے لیے نئے امکانات روشن

مشتاق عامر
جون 2024

’’اب کی بار چار سو پار ‘‘ اور مودی کی گارنٹی جیسے نعروں پر سماج وادی پارٹی نے بی جے پی کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے۔ یو پی کی 80 سیٹوں میں سے 37 سیٹوں پر سماج وادی پارٹی نے شاندار کام یابی حاصل کی ہے۔ اس جیت کے ساتھ ہی سماج وادی پارٹی یو پی میں پہلے نمبر کی پارٹی بن گئی ہے۔ لوک سبھا میں سماج وادی پارٹی، بی جے پی اور کانگریس کے بعد ملک کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بھی بن گئی ہے۔ یو پی میں بی جے پی کو 33 اور کانگریس کو 6 سیٹوں پر کام یابی حاصل ہوئی ہے۔ ایکزٹ پول میں یوپی کی80 سیٹوں میں سے 70 سیٹیں بی جے پی کے کھاتے میں جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لیکن نتائج کے حتمی اعلان کے بعد صرف 33 سیٹیں ہی بی جے پی کو مل پائیں ہیں۔اکھلیش یادو کی سیاسی حکمت عملی اور راہل گاندھی کا جارحانہ پرچار نریندر مودی اور امت شاہ کی سیاست پر بھاری پڑ گیا۔

اس صورت حال کا اب سیدھا اثر مرکز میں بننے والے حکومت پر پڑے گا۔ اس بار سماج وادی پارٹی نے پچھلے اسمبلی چناؤ میں ہونے والی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کیا۔ٹکٹ کی تقسیم سے لے کر امیدواروں کے نتخاب میں پارٹی نے سنجیدہ سیاسی سوجھ بوچھ کا مظاہرہ کیا۔ گذشتہ اسمبلی انتخاب میں اکھلیش یادونے پورا فوکس سوشل میڈیا پرپرچار میں کیا تھا۔لیکن اس بار کے لوک سبھا چناؤ میں سپا نے زمینی سطح پر کام کیا۔ اس کے لیے پارٹی نے نہ صرف کافی پہلے تیاری شروع کر دی تھی بلکہ اپنے کارکنان کو چناؤ میں درپیش مشکلات اور حکومتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی تربیت کا بھی اہتمام کیا تھا۔

الیکشن کے نتیجوں نے بی جے پی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یو پی میں بی جے پی کی ہار یوگی آدتیہ ناتھ کی ہار مانی جا ررہی ہے۔ ریاست میں آر ایس ایس، بی جے پی کے علاوہ یوگی آدتیہ ناتھ کی اپنی تنظیم ’’ ہندو یوا واہنی ‘‘ ایک متوازی سیاسی قوت مانی جاتی ہے۔ ہندو یوا واہنی کے ہزاروں کارکنان یوگی آدتیہ ناتھ سے مذہبی اور جذباتی طور سے وابستہ ہیں۔ مشرقی یو پی میں ہندو یوا واہنی کے ہی دم خم پر یوگی آدتیہ ناتھ کی سیاسی قوت کا دارو مدار ہے۔یہی یوگی آدتیہ ناتھ کا ہراول دستہ بھی ہے۔ ریاست کی مشینری پر سخت کنٹرول اور زمینی سطح کی سیاسی قوت کے باجود یوگی آدتیہ ناتھ صر ف 33 سیٹوں پر ہی کام یابی حاصل کر پائے ہیں۔ جب کہ 2014 میں بی جے پی نے 71 سیٹوں پر اور 2019 میں 62 سیٹیوں پر کام یابی درج کرائی تھی۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بی جے پی کی لوک سبھا سیٹیں لگاتار کم ہوتی رہی ہیں۔اب جب کہ بی جے پی یو ری ر یاست میں ایک بڑے سیاسی نقصان سے دو چار ہے،یوگی آدتیہ ناتھ کے سیاسی مستقل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں پہلے سے ہی یوگی آدتیہ ناتھ کے تعلقات نریندر مودی اور امت شاہ سے کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔ چوں کہ یوگی خود ہندوتو کا ایک بڑا چہرہ ہیں اور اپنی تنظیم ہندو یوا واہنی کے سربراہ ہیں ایسے میں بی جے پی ان پر براہ راست ہاتھ ڈالنے سے ہچکچا رہی تھی۔ اس کے علاوہ یوگی کو آر ایس ایس کاآشیر واد حاصل رہا ہے۔لیکن اب سیاسی صورت یکسر مختلف ہو گئی ہے۔

لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو جو خسارہ ہوا ہے اس کی بھرپائی مشکل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس نے یوگی آدتیہ ناتھ کی پوزیشن کو کافی کم زور کر دیا ہے۔ بی جے پی میں یوگی مخالف لابی کافی پہلے سے ہی سرگرم ہے۔ اس کو ابھی تک کوئی موقع نہیں ملا تھا۔ چناؤ کے نتائج کے بعد اس لابی کو قابومیں رکھ پانا یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے اب خاصہ مشکل ہوگا۔ کیوں کہ یہی وہ لابی ہے جس نے یوگی آدتیہ ناتھ کو یو پی کا وزیر اعلیٰ بنانے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اس وقت آر ایس ایس نے اس مخالفت کو دبا دیا تھا۔ یوگی مخالف لابی کو نریندر مودی اور امت شاہ کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔دوسری جانب سماج وادی پارٹی کی غیر معمولی جیت سے یوگی حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ابھی تک یوگی حکومت کسی کی بھی پروا کیے بغیر من مانے طریقے سے ہندوتو کے ایجنڈا پر اپنی حکومت چلا رہی تھی۔

اس جیت نے سماج وادی پارٹی کے کارکنان میں بھی ایک نیا جوش بھر دیا ہے۔ سپا کو کانگریس کا ساتھ مل جانے سے یو پی کے سیاسی حالات میں بنیادی تبدیلی محسوس کی جانے لگی ہے۔ اس تبدیلی کو مزید ہوا دینے کے لیے یوگی سے ناراض طبقہ پہلے سے تیار بیٹھا ہوا ہے۔ اس بیانیہ کو تقویت اس وقت اور مل گئی جب اروند کیجری وال نے چناؤ ختم ہونے کے بعد یوگی کو ہٹانے کی پیشین گوئی کر دی۔

اس بار کے لوک سبھا چناؤ میں یو پی میں کانگریس کو غیر معمولی نہیں بلکہ کسی حد تک تاریخی کام یابی حاصل ہوئی ہے۔ ایک زمانے میں کانگریس کا گڑھ کہے جانے والے یو پی میں کاپارٹی کا سیاسی صفایا ہو گیا تھا۔ گذشتہ لوک سبھا چناؤ میں صرف رائے بریلی کی سیٹ کانگریس کے پاس بچی تھی۔ اس بار کے چناؤ میں سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کی کانگریس نے 6 سیٹیں حاصل کیں ہیں۔ سب سے حیرت انگیز کام یابی اس کو الہ آباد سے حاصل ہوئی۔ الہ آباد سیٹ پرچالیس سال بعد کانگریس کی واپسی ہوئی ہے۔ 1984 میں فلم اسٹار امیتابھ بچن کانگریس کے ٹکٹ پر الہ آباد سیٹ سے کام یاب ہوئے تھے۔ لیکن اس کے بعد کانگریس کے ہاتھ سے الہ آباد سیٹ نکل گئی۔ الہ آباد شروع سے ہی وی آئی پی پارلیمانی حلقہ رہا ہے۔ اس بار سابق مرکزی وزیر ریوتی رمن سنگھ کے بیٹے اجول رمن سنگھ کانگریس کے ٹکٹ پر کام یاب ہوئے ہیں۔ کئی دوسرے معنوں میں بھی الہ آباد کانگریس کے لیے کافی اہم ہے۔ الہ آباد نہرو خاندان کا آبائی شہر ہے۔ یہ چار وزرائے اعظم کا شہر بھی رہا ہے۔ جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، لال بہادر شاستری،وی پی سنگھ کا تعلق الہ آباد سے تھا۔چار دہائیوں کے بعد الہ آباد میں کانگریس کی واپسی نے پارٹی کے کارکنان میں نیا جوش بھر دیا ہے۔

یو پی اسمبلی الیکشن میں سماج وادی پارٹی اور کانگریس بی جے پی کو ایک بڑا چیلنج دینے کی تیاری میں دکھائی دے رہی ہیں۔ سپا پارلیمنٹ میں تیسری سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری ہے۔آنے والا وقت سماجوادی پارٹی کے لیے نئے سیاسی امکانات لانے والا ہوگا۔ برسوں سے سیاسی حاشیہ پر پڑی سماج وادی پارٹی اب قومی سطح پر اپنی سیاسی موجودگی درج کرانے جا رہی ہے۔ اگر کانگریس کے ساتھ اس کے رشتے ٹھیک رہے تو ایک مضبوط اور اثر دار حزب اختلاف لوک سبھا میں موجود ہوگی۔ ایسے میں نریندر مودی حکومت پر لگام کسنے کے لیے جمہوری طاقتیں اپنا آئینی کردار نبھا سکیں گی۔

لوک سبھا الیکشن میں سب سے قابل ذکر اور چونکانے والی بات یہ رہی کہ رام مند کی پران پرتسٹھا کا سیاسی فائدہ بی جے پی کو نہیں مل پایا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود ایودھیا ( فیض آباد ) کی سیٹ بی جے پی ہار گئی۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بی جے پی اپنی مسلم مخالف پالیسی سے دست بردار ہو گئی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کا معاملہ رام مندر کی تحریک کی طرزپر چلانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ یہ دونوں معاملے الہ آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت الہ آباد ہائی کورٹ پہلے ہی دے چکی ہے۔ ابھی تک پس پردہ بی جے پی ان معاملوں کو چلا رہی تھی۔ لیکن کئی محاذ پر مات کھانے کے بعد بی جے پی ایک بار پھر مسلم مخالف ایجنڈا کا ہی سہارا لے گی۔ اس کی جھلک پی ایم نریندر مودی کی الیکشنی مہم میں ہونے والی مسلم مخالف تقریروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ بی جے پی ان معاملوں کو نئے طریقوں سے ہوا دینے کی کوشش کرے گی۔

حسب روایت اس بار بھی یو پی میں سماج وادی پارٹی اور کانگریس کی جیت میں مسلم ووٹروں نے اپنا کلیدی رول ادا کیا ہے۔ ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب بیس فیصد سے زیادہ ہے۔سخت گرمی کے با وجود مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ لیکن سماج وادی پارٹی یا کانگریس نے اپنے بیانوں میں ایک بار بھی اس کا اعتراف نہیں کیا ۔ پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نے سماج کے تمام طبقوں کا نام لے کر ان کا شکریہ ادا کیا لیکن اقلیت یا مسلمان لفظ ان کے بیان سے غائب تھا۔

سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ سے جیتنے والے چار مسلم امیدواروں میں کیرانہ سے اقرا حسن،غازی پور سے افضال انصاری،سنبھل سے ضیا الرحمان برق اور رام پور سے محب اللہ ندوی شامل ہیں۔ کانگریس کے ٹکٹ پر صرف ایک مسلم امیدوار سہارنپور سے عمران مسعود نے جیت حاصل کی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو 80 سیٹوں میں سے صرف پانچ مسلمان ہی لوک سبھا پہنچ پائے ہیں۔ ان امیدواروں میں محب اللہ ندوی ایسے امید وار ہیں جو ایک بڑے دینی تعلیمی ادارے دار العلوم ندوۃ العلما، لکھنؤ سے فارغ التحصیل ہیں۔محب اللہ ندوی سماج وادی پارٹی کا نسبتاً نیا چہرہ ہیں اور زمینی سطح کے سیاسی کارکن سمجھے جاتے ہیں ۔

سیاسی حلقوں میں یہ فقرہ مشہور ہے کہ مرکز میں اقتدار کا راستہ یو پی سے ہوکر جاتا ہے۔ اس کا احساس خود راہل گاندھی کو بھی ہے۔ نتائج کے بعداپنی پہلی پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نے یو پی کے عوام کاخصوصی شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ’’ یو پی کے عوام نے کمال کر دکھا دیا۔ انھوں نے اپنے بہترین سیاسی شعور کا ثبوت دیا۔ یو پی کے عوام نے آئین پر خطرے کو محسوس کر لیا اور انھوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے اس کو بچانے کوشش کی ‘‘۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ جس پارٹی کے پاس یو پی کی سب سے زیادہ لوک سبھاسیٹیں ہوتی تھیں اسی کااقتدار مرکز میں ہوا کرتا تھا۔ یو پی کی 80 سیٹوں پر سے بی جے پی نے اپنی بر تری کھو دی ہے۔ یہ برتری اب سماج وادی پارٹی کو حاصل ہے۔ لوک سبھا کا یہ چناؤ کانگریس اور سماج وادی پارٹی دونوں کے لیے نئی امیدیں لے کر آیا ہے۔