ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس
گزشتہ کئی ایام سے دہلی کے مختلف بارڈر س پر پنجاب،ہریانہ،یوپی اور راجستھان کے کسان ہزاروں کی تعداد میں سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا احتجاج ان زرعی قوانین کے خلاف اور ان کی واپسی کے مطالبہ کو لے کر ہے جو مودی حکومت نے کرونا وائرس کی اس مہلک وبا کے دوران آناًفاناًلوک سبھا سے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اور راجیہ سبھا سے جوڑ توڑ اور دھاندلی کی بنیاد پر منظور کروائے تھے۔ مودی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے فائدے کے لئے ہیں۔ اس کے برعکس کسانوں کا متحدہ موقف ہے کہ یہ تینوں قوانین کسان مخالف اور سرمایہ داروں(کارپوریٹس)کے مفاد میں بنائے گئے ہیں۔ کسان تنظیموں کے ساتھ مرکزی حکومت کی اب تک کئی راؤنڈ کی میٹنگیں ہوچکی ہیں لیکن نتیجہ ندارد۔ دونوں ہی اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم ان قوانین میں ترمیمات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایم ایس پی( فصلوں کے کم ازکم دام) پر بھی بات ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت تینوں قوانین کو واپس لے اور ایم ایس پی کو قانونی درجہ دے، اس سے کم پر کوئی بات نہیں ہوسکتی یا پھر ان قوانین پر جمہوری انداز میں دوبارہ بحث ہو۔
کسی بھی پائیدار اور شمولیاتی جمہوریت میں سماج کے کسی طبقہ یا گروہ کے مفاد میں جب بھی کوئی قانون سازی ہوتی ہے تو پہلے ان تمام لوگوں سے جو اس کے دائرے میں آتے ہیں براہ راست یا بالواسطہ ڈائیلاگ اور گفتگو کی جاتی ہے اور ان سے مشورے مانگے جاتے ہیں۔ لیکن گزشتہ کئی معاملوں میں قانون سازی کرتے وقت مودی حکومت صرف اپنی من مانی کررہی ہے اور پارلیمانی جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے، چاہے وہ تین طلاق سے متعلق قانون ہو یا دفعہ 370 کی منسوخی، مزدوروں سے متعلق قانوں سازی ہو یا شہریت ترمیمی قانون یا پھر کسانوں سے متعلق یہ تین زرعی قوانین۔ یہاں تک کہ حزب مخالف کے اس مطالبہ کو بھی ٹھکرادیا گیا کہ انھیں اسٹینڈنگ کمیٹی ( لوک سبھا) یا سلیکٹ کمیٹی ( راجیہ سبھا) کے حوالہ کیا جائے تاکہ پہلے وہاں اس قانون کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو ہوسکے۔ اس کے بعد پھر پارلیمنٹ میں بحث ہو۔ تاہم اسٹینڈنگ کمیٹی اور سلیکٹ کمیٹی تو دور کی بات حکومت تو پارلیمنٹ میں بھی اس پر بحث کے لئے تیار نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے ان قوانین پر جتنی بھی گفتگو ہوگی ان کا بودا اور لچر پن ، ان کا قانونی سقم اور کارپوریٹ ( سرمایہ داروں ) کا مفاد کھل کر سامنے آجائے گا۔ویسے بھی ہمارے ملک کے کسان متعدد امور و مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ کبھی فطرت کی مار ان پر پڑتی ہے اور ان کی کھڑی فصلیں برباد ہو جاتیں تو کبھی جب اچھی فصل ہوتی تو اتنے دام بھی نہیں ملتے جتنا کہ اس کو پیدا کرنے پر خرچ ہوجاتا ۔ اس سلسلے میں سوامی ناتھن کمیشن نے زرعی سیکٹر اور کسانوں کے مفاد میں متعدد سفارشات کر رکھی ہیں لیکن وہ سرکار کی فائلوں میں دھول چاٹ رہی ہیں۔ جب کسان مجبور اً فصلیں بوتے وقت بینک سے جو قرض سود پر لیتا ہے وہ بھی وقت پر ادا نہیں کر پاتا اور اس پر سود ہے کہ لگاتار بڑھتا رہتا ہے۔ ہرسال مہاراشٹرا، گجرات اور متعدد دیگر صوبوں میں ہزاروں کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ملک کی 70 فیصد آبادی گاؤں اور دیہاتوں میں رہتی ہے اور ان کا آبائی پیشہ کھیتی باڑی ہی ہے۔ لیکن دیہی علاقوں کی ترقی اور بہبود پر سرکاروں کی کبھی کوئی توجہ نہیں رہی۔ تمام ترقیاتی منصوبوں کا محور و مرکز میٹرو اور بڑے شہروں تک ہی محدود رہتاہے۔ یہاں تک کہ جو چیزیں کسان پیدا کرتے ہیں ان کی بھی پروسیسنگ اور دیگر امور شہروں میں ہی انجام پاتے ہیں۔ کاٹن ملس ہوں یا آئل ملس، جوٹ کی پروسیسنگ ہو یا سبزی اور پھلوں سے بننے والی دیگر مصنوعات کے لئے شہروں کا ہی رخ کیا جاتا ہے۔نتیجہ کے طور پر ہر سال بڑی تعداد میں مزدور پیشہ طبقہ شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوتا ہے ، جہاں وہ بڑی کس مپرسی کی حالت میں زندگی گزارتا ہے اور اکثر پولس و انتظامیہ کے جبر و تشدد کا شکار ہوتا ہے۔اس طرح گاؤں میں رہنے والے افراد کو تعلیم کی غرض سے بھی شہروں ہی کا رخ کرنا پڑتا ہے، اس لئے کہ نہ وہاں تعلیم کا اچھا نظم ہوتا ہے اور نہ ہی اعلی تعلیم کا حصول ممکن ہے۔ان زرعی قوانین کا اثر صرف کسانوں پر ہی نہیں پڑے گا کہ وہ اپنی پیداوار کو فروخت کرنے کے لئے بڑے سرمایہ داروں کے ہتھے چڑھ جائیں گے بلکہ ان قوانین سے عام لوگ بھی متاثر ہوںگے، اس لئے کہ ان میں سے ان تحفظات تک کو ختم کر دیا گیا جو ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کو روکنے کا سبب بنی تھیں۔ اب کارپوریٹ نہ صرف اونے پونے داموں پر سبزی پھل اور اناج خریدیں گے بلکہ ان کی ذخیرہ اندوزی کرکے اس وقت مارکیٹ میں لائیں گے جب قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہوں گی۔ لہذا ان قوانین سے نہ صرف چھوٹا اور درمیانی طبقہ کا کسان مارا جائے گا بلکہ عوام الناس بھی ضروری اشیاء کی خرید و فروخت سے مہنگائی کے باعث محروم ہوجائیں گے۔سردی کی سرد اور یخ بستہ راتوں میں سڑکوں پر کھلے آسمانوں کے نیچے ہزاروں مرد و خواتین، بزرگ اور نوجوان صرف اپنی لڑائی ہی نہیں لڑرہے ہیں بلکہ وہ ہم سب ہندوستانیوں کی لڑائی بھی لڑرہے ہیں۔ لہذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم نہ صرف ان کی حمایت کریں بلکہ ان کی ہر طرح سے مدد بھی کریں۔
٭٭٭
کسی بھی پائیدار اور شمولیاتی جمہوریت میں سماج کے کسی طبقہ یا گروہ کے مفاد میں جب بھی کوئی قانون سازی ہوتی ہے تو پہلے ان تمام لوگوں سے جو اس کے دائرے میں آتے ہیں براہ راست یا بالواسطہ ڈائیلاگ اور گفتگو کی جاتی ہے اور ان سے مشورے مانگے جاتے ہیں۔ لیکن گزشتہ کئی معاملوں میں قانون سازی کرتے وقت مودی حکومت صرف اپنی من مانی کررہی ہے اور پارلیمانی جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے، چاہے وہ تین طلاق سے متعلق قانون ہو یا دفعہ 370 کی منسوخی، مزدوروں سے متعلق قانوں سازی ہو یا شہریت ترمیمی قانون یا پھر کسانوں سے متعلق یہ تین زرعی قوانین۔ یہاں تک کہ حزب مخالف کے اس مطالبہ کو بھی ٹھکرادیا گیا کہ انھیں اسٹینڈنگ کمیٹی ( لوک سبھا) یا سلیکٹ کمیٹی ( راجیہ سبھا) کے حوالہ کیا جائے تاکہ پہلے وہاں اس قانون کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو ہوسکے۔