فلاح الدین فلاحی
ہندوستان میں فی زمانہ مدارس کے نصاب کونشانہ بنایا جا رہا ہے ۔سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے اس میں تبدیلی کا مطالبہ زور و شور سے ہوتا رہا ہے بلکہ اس سے قبل تویو پی اے سرکار نے مدارس کو قومی دھارے سے جوڑنے کے لئے کل ہند مدارس بورڈ بنانے کی بھی وکالت کر رہی تھی ۔موجودہ حکومت کی’نئی ایجوکیشن پالیسی میں بھی مدارس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
جب کہ ہمارے ملک میں ایک ایسی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے، جس کا مقصد معاشرتی انصاف، جمہوری اقدار، مساوات اور باہمی اعتماد کی بحالی کے ذریعہ معاشرتی تبدیلی ہو۔ تعلیم کےلئے ایک جامع نقطہ نظر اپنا کر ہی معاشرے میں ترقی، خوشی اور امن حاصل کیا جاسکتا ہے۔
آسام سرکار نے تو ملحقہ مدارس کو اسکول میں تبدیل کرنے کا اعلان تک کردیا ہے۔ جب مسلمانوں کی طرف سے اس کی پرزور مخالفت ہوئی تو دلیل یہ دی جارہی ہے کہ مدارس کا نصاب تعلیم پرانا ہے اس لئے اسے جدید ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لئےیہ کوشش کی جارہی ہیں تاکہ مدارس کو قومی دھارے سے منسلک کیا جائے ۔مسلمانوں ، علماء کرام اور دانشوروں نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا ۔
اب خود بعض مسلمانوں کی طرف سے مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کی بات گاہے بگاہے کی جانےلگی ہے ۔جس کے مختلف نقطۂ نظر ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ علم جس کے دم سے دنیا میں روشنی ہے اسے فرسودہ کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ اس نصاب میں کون سی کمی ہے جس کی بنیاد پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے ۔ یہی قرآن و احادیث ہیں جن پر غورو فکر کرنے کے بعد مسلمانوں نے ستاروں پر کمندیں ڈالنا سیکھا ،یہی قرآن ہے جس نے انسانوں کو آسمانوں اور سمندروں کی تسخیر کا اہل بنایا، نہیں تو یہ نادان انہیں خدا مان کر کنارے پران کی پرستش میں محو رہتے تھے ۔ اسلام نے انسانوں کو کائنات کی ہر چیز میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی۔ انسانوں کوانسانوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ غوروفکر اور تدبر وتفکر کے نتیجہ میں دنیا ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی یہاں تک پہنچ سکی ہے ۔یہ سب اسلام اور قرآن کی ہی دین ہے کہ اس نے دنیا کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں پہنچادیا، اتنی بڑی تعلیم اور مسائل کی کلید ہونے کے باوجود آج قرآن وحدیث اورفقہ کو نامکمل قرار دیا جا رہا ہے ۔اس میں ہم مسلمانوں کی غفلت کا دخل ہے ۔
یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اکثر مدارس نے بھی قرآن اور حدیث کو کماحقہٗ نصاب تعلیم میں شامل نہیں کیا ۔ حقیقت یہی ہے ۔ہم نے پڑھانا اور درس دینا تو سکھا دیا، خالص قرآن وحدیث کی کلاسیں تو شروع کیں، لیکن اس کے مضامین کی تدوین وتحقیق سے غافل رہے۔ حدیث کی ترتیب اور فقہ کی ترتیب میں ابواب کا خیال رکھا گیا ہے اور موضوع کے لحاظ سے ابواب کی تقسیم بھی کی گئی ہے، لیکن ویسی کتابیں تیار نہیں ہوسکی ہیں جن کی دنیا کوسخت ضرورت ہے ۔
مسلمان غور کریں کہ قرآن و حدیث کیا علوم سکھاناچاہتے ہیں ۔کیا دیگر مذاہب کی طرح محض طریقِ عباد ت یا اس سے بڑھ کر کچھ اور۔واقعہ یہ ہے کہ ان میں ہماری پوری زندگی کے لئے رہنمائی موجود ہے ۔ قرآن و حدیث میں ہم وہ مضامین پڑھتے ہیں جو دنیا میں زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے ۔ ان میں ہدایت دی گئی ہے کہ تجارت کس طرح کی جائے ،زراعت کے اصول کیا ہیں،حکمرانی کس طرح ہو ،فیصلے کن بنیادوں پر کئے جائیں۔ قرآن بار بار غور کرنے کے لیے کہتاہے کہ چاند ،تارے اور زمین کس طرح گردش کر رہے ہیں ؟،زمین کے اندر کیا ہے؟،سمندر کے اندر کیا ہے اور ہم اسے کیسے حاصل کریں ،ہوا کس طرح چلتی ہے ،بارش کس طرح ہوتی ہے ،اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں ؟،علاج و معالجہ کا طریقہ کیا ہو ،کیسے ہو ؟،گویا کہ قرآن و حدیث علم کا منبع ہیں۔ پھر ہم نے اِس علم سے دنیا کو متعارف کیوں نہیں کرایا ؟کیوں ہم نے اسے محض عبادت تک محدودکر لیا؟اسلام آیا تھا دنیا میںرب کا نظام قائم کرنے کے لئے۔ ایک ایسا نظام جو دنیا میں امن اور انصاف کی ضمانت ہو۔ اس کےمطابق زندگی گزارنے پر انعام کے طور پر جنت کا وعدہ ہے۔اس دنیا کو دارالامتحان کی حیثیت سے اللہ نے ہمیں عطا کیالیکن ہم نے صرف رسمی عبادت تک اپنے کومحدود کرلیا۔ یہ ظلم ہی نہیں نا انصافی بھی ہے ۔
اب ہمیں وہ کام کرنا ہے جوماضی میں نہیں کیاگیا ۔ دنیا میں مسلم حکمراں ہیں لیکن افسوس کہ انہوں نے قرآن و حدیث کو اسلامیات میں شمار کر کے لازمی مضامین کی حیثیت سے نصاب میں توشامل کیا، لیکن انسانوں کےخیالات ونظریات کو اصل اہمیت دی جو زمانے میں رائج ہیں ۔آدم اسمتھ کو بابائے معاشیات کی حیثیت دی اور ارسطو ،سقراط اور افلاطون کو ماہرین فلاسفہ تسلیم کیا ۔لیکن اپنے ہادی و رسول محمدﷺ کی تعلیمات کو محض ثواب حاصل کرنے کا وسیلہ بتایا ۔ڈارون ،کارل مارکس کو نظریہ ساز کی حیثیت دی لیکن انبیاء علیہم السلام کو ہادی کی حیثیت نہیں دی ہے ۔گویا کہ ہمارے پاس تمام علوم اور مضامین موجود ہونے کے باوجود ہم نے گمراہ انسانوں کو اپنا رہنما بنا لیا اور خدا اور رسول ﷺ کی تعلیمات کومحض ثواب حاصل کرنے کا صرف ذریعہ سمجھا ۔
اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے ہم جب کوئی مضمون لکھتے ہیں کسی عنوان کے تحت اظہار خیال کرتے ہیں توان ساری باتوں کو ذکر کرتے ہیں جو کسی نے لکھی ہوں۔ اس سے متعلق قرآن و حدیث میں نص موجود ہو یا اہل علم کا کوئی مقولہ یا اقوال ہو ،ہم ان تمام کو شامل کر تے ہیں اور اپنے مضمون مکمل کرتے ہیں ۔اسے پڑھ کر تمام ضروری باتیں سامنے آجاتی ہیں کہ قرآن اس سلسلے میں کیا کہتا ہے حدیث میں اللہ کے رسول ؐنے اس سلسلے میں کیا کہا اور کسی دانشور نے اس سلسلے میں کیا کہا ہے ۔
اسی طرز پر ہمارا نصاب تعلیم مرتب ہونا چاہئے۔سائنس کی کتابیں ہیں تو اس میں سائنس سے متعلق قرآنی آیات واحادیث کو یکجا بیان کرنا چاہئے پھربڑے سائنس دانوں کے فکر کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ اس طرح سائنس کی کتاب کو ترتیب دینا چاہئے۔ایک اور مثال زراعت کی ہے۔ا س سے متعلق آیات موجود ہیں اور حدیث میںہدایات ملتی ہیں۔فقہ میں باتیں ملتی ہیں پھر دنیا کے ماہرین نے جو تحقیق کی ہے ان کو شامل کر کے زراعت کی کتابیں ترتیب دی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح ہر شعبہ علم میں ہم قرآن کی آیات کو یکجا کر کے پیش کریں۔ تفسیر اور حدیث و فقیہ سے مدد لیں اور ماہرین کی فکر کو شامل کر کے جامع نصاب تعلیم مرتب کریں اس کے پڑھنے اور پڑھانے سے نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل ہوگی بلکہ اخلاقی تعلیم کامقصدبھی پورا ہوگا۔ساتھ ہی طلبہ میں آخرت کا تصور بھی مستحکم ہوگا۔ انہیں اپنے مقصد وجود سے آگہی ہوگی وہ ہر میدان میں آگے بڑھیں گے۔وہ ماہر ڈاکٹر، سائنس داں ،ماہر معاشیات اور ماہر سیاست داں بن کر دنیا میں خدمت انجام دے سکیں گے ۔
لیکن ہم نے تعلیم میں بٹوارے کو تسلیم کر لیا، سیاست پڑھ لی لیکن اسلامی سیاست کیا ہے اس کا کوئی ذکر کتاب سیاست میں موجود نہیں ۔یہ تو ادھوری تعلیم ہوئی ۔آج جو انگلی اٹھائی جا رہی ہے وہ ہماری اسی غفلت کا نتیجہ ہے ورنہ دنیا کو تاریکی سے نکالنے والی تعلیم پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی بلکہ اسے پڑھنے پر سب مجبور ہوتے ۔آج ہر کو ئی یہ کہتا ہے کہ تعلیم تو حاصل کر لی لیکن طلباءاخلاق سے عاری ہیں جذبہ خدمت خلق تو ہے ہی نہیں ۔اس لئے کہ ہم نے سیاست میں پی ایچ ڈی تو کر لی لیکن اسلامی سیاست کیا ہے اس سے واقفیت حاصل نہیں کی ۔ اس طرح کا ہمارا نصاب تعلیم ہے ہی نہیں ۔ہم نے جغرافیہ تو پڑھ لیا لیکن قرآن نے تعمیر عالم کا جو نقشہ بتایا ہے اس کو سمجھا ہی نہیں،ہم بی بی اے اور ایم بی اے توہوگئے لیکن قرآن نے جو تجارت کے اصول متعین کئے ہیں اس سے واقفیت حاصل ہوئی ہی نہیں ۔اس طرح ہماری تعلیم ادھوری تعلیم ہے جس کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے ۔
سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں اسلامی تحریکات موجود ہیں اور۵۶ مسلم ممالک بھی ہیں۔ عموماً تنظیموں اورحکومتوںنے یہ کام نہیں کیا البتہ جماعت اسلامی ہند نے مختصر مدت میںپیش رفت کی ہے۔ ثانوی درجہ تک کا نصاب تعلیم جو قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے موجود ہے ۔بعض کتابیں یہ ہیں: ’’آئینۂ تاریخ‘‘، ’’ہماری دنیا‘‘، ’’ہماری پوتھی‘‘،’’ساہتیہ سومن‘‘ ، ’’ساہیتہ پربھا‘‘، ’’ ہماری کتاب‘‘ ، ’’تعمیری ادب‘‘، ’’نظم و نثر ‘‘، ’’منہاج العربیہ‘‘ ،اسلامی فکر کی’’ رسالہ دینیات‘‘ ،’’ ریاضی‘‘وغیرہ ۔ اس طرح جماعت اسلامی ہند نے تعلیم کے مسئلے کو سمجھا اور اپنے اداروں کے لئے نصاب ترتیب دیا ۔آج ثانوی درجہ تک کی نصاب کی یہ کتابیں موجود ہیں اور پڑھائی جا رہی ہیں۔ بچوں کی پڑھائی کا معیار کسی بھی شکل میں قومی معیار سے الگ نہیں ہے ۔ یہ نصاب تعلیم اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ موجودہ دور کے تمام مضامین کو شامل کرتے ہوئے اسلامی تعلیم کو جگہ دی گئی ہے ۔اسی کی دنیا کو ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے یہ کام شروع کیا ہے۔ اور کامیاب نصاب کی حیثیت سے سیکڑوں تعلیم گاہوں میں یہ کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں ۔اس کے لئے باضابطہ جماعت اسلامی ہندنے روز اوّل سے ہی شعبہ تعلیم قائم کر رکھا ہے جس میں ماہرین تعلیم کی خدمات لی جاتی ہیں اور نئے نئے تجربات کی روشنی میں نصاب تعلیم میں ترمیم و اضافہ کا کام جاری ہے ۔
مسلم ممالک کو اِس جانب توجہ دینی چاہیےتھی تاکہ آج ہر علم اور نصاب میں اسلامی جھلک ملتی ،دنیا ہمارے نصاب تعلیم پر فخر کرتی اور قرآن وحدیث عملاً دنیا میں نافذ ہو جاتے ،لیکن افسوس کہ مسلم حکمرانوں نے اس جانب توجہ نہیں کی ہے۔ آج ہمارے مدارس کے نظام تعلیم کو فرسودہ قرار دیا جا رہا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔اس کی تلافی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مکتبہ فکر اور تمام مسالک کے اہلِ علم مل کر نصاب تعلیم کو مر تب کرنے کی جانب پیش رفت کریں ۔
یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اکثر مدارس نے بھی قرآن اور حدیث کو کماحقہٗ نصاب تعلیم میں شامل نہیں کیا ۔ حقیقت یہی ہے ۔ہم نے پڑھانا اور درس دینا تو سکھا دیا، خالص قرآن وحدیث کی کلاسیں تو شروع کیں، لیکن اس کے مضامین کی تدوین وتحقیق سے غافل رہے۔ حدیث کی ترتیب اور فقہ کی ترتیب میں ابواب کا خیال رکھا گیا ہے اور موضوع کے لحاظ سے ابواب کی تقسیم بھی کی گئی ہے، لیکن ویسی کتابیں تیار نہیں ہوسکی ہیں جن کی دنیا کوسخت ضرورت ہے ۔