ہر گزرتے وقت کے ساتھ مہاراشٹر میں بی جے پی اور اس کے حلیفوں کے لئے زمین تنگ ہوتی جارہی ہے ۔ دوریاستوں جموں کشمیر اور ہریانہ کے الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے دو روز قبل ریاستی بی جے پی کے کسی لیڈر نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ ریاستی الیکشن کے بعد مہاوکاس اگھاڑی کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا ۔ مذکورہ لیڈر نے بزعم خود ایسی بات کہی جو ان کی نظر میں بہت بڑی ہے ۔لیکن دوسری جانب وہ مہاراشٹر میں وقت پر انتخاب کرانے کی ہمت نہیں پیدا کرسکے ۔ اس پر این سی پی کے لیڈر شرد پوار نے طنز کیا کہ پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کا ڈھنڈورا پیٹنے والے تین ریاستوں میں بھی ایک ساتھ الیکشن نہیں کرا سکے۔
لوک سبھا الیکشن سے قبل ہی این ڈی اے کو یہ خدشات تھے کہ وہ مہاراشٹر میں بہت کچھ کھونے والے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بی جے پی نے ریاست کو اپنے خاص ٹارگیٹ میں رکھا ہوا ہے- وزیر اعظم کی بار بار آمد ہورہی ہے اور ہر بار کسی نہ کسی منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا جاتا ہے یا پھر کسی نئے منصوبہ کی شروعات کا اعلان ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود مہاراشٹر میں اس بار انہیں خاصا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ ریاستی اسمبلی میں ہزیمت سے بچنے کے لئے ایک تو یہاں کے انتخابی عمل کو ٹالا جارہا ہے اور دوسرے پی ایم کے طوفانی دورے شروع ہوچکے ہیں ۔ ہر دورہ پر کسی نہ کسی ترقیاتی منصوبہ کااعلان کیا جاتاہے ۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب وقت بی جے پی کا ساتھ نہیں دے رہا ہے اور ہر بار اپوزیشن کو کوئی نہ کوئی نیا شوشہ مل جاتا ہے جس سے کہ وہ بی جے پی کی مخلوط حکومت کو عوام کے سامنے بے نقاب کرسکے ۔مہاراشٹر اسمبلی الیکشن بی جے پی کے لئے ایک پریشان کن مرحلہ ہے جسے وہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ پار لگانے کی کوشش میں ہے ۔ ہوسکتا ہے اس بار پارٹی کی کشتی بیچ منجدھار میں ڈوب ہی جائے ۔ہم الیکشن کمیشن کے ذریعہ ریاستی الیکشن کا اعلان نہ کئے جانے کو اسی زمرے میں رکھتے ہیں۔
بی جے پی کی حالیہ بدقسمتی کا ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ سندھو درگ کے مالون میں آٹھ نو ماہ قبل وزیر اعظم نے شیو اجی کے جس مجسمہ کی نقاب کشائی کی تھی وہ ایک معمولی ہوا کے جھونکے میں زمین بوس ہوگیا اور اب اس کی وجہ سے حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے ۔ مجسمہ گرنے کی تصویر بڑی عبرت ناک ہے۔ کسی کی جانب سے اس ویڈیو پر پابندی کی بات بھی آئی تھی مگر وہ خوب وائرل ہورہا ہے ۔مجسمہ کے انہدام پر سیاست بھی خوب ہورہی ہے، جبکہ بی جے پی کی جانب سے اپیل کی گئی کہ اس پر سیاست نہ کی جائے مگر خود بی جے پی اس پر سیاست کررہی ہے- چنانچہ مالون کے قلعہ میں مجسمہ کے قریب این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کے حامیوں میں جوتم پیزار کی نوبت آگئی ۔ انڈیا اتحاد خصوصا شیو سینا (ادھو) کی جانب سے جوتے مارو تحریک شروع کرنے کا بھی اعلان ہوا ۔ غرض کہ اس معاملہ نے اپوزیشن کو حکمراں محاذ کے خلاف ایک موقع فراہم کردیا ہے، جس سے بی جے پی حواس باختہ ہے ۔
چھہتر ہزار کروڑ کے وادھوان بندر گاہ کی تعمیر کا افتتاح کرتے وقت وزیر اعظم نے شیواجی کے مجسمہ کے انہدام پر عوام سے معافی بھی مانگی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ سر جھکا کر اس کے لئے معافی مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شیواجی ان کے لئے دیوتا کی طرح ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی دیرینہ روش کے مطابق اپوزیشن کو بھی نشانہ بنایا- تاہم شیوا جی کے مجسمہ کا معاملہ اتنا چھوٹا نہیں ہے کہ وزیر اعظم یا ان کی پارٹی اس سے با آسانی بری الذمہ ہوسکے ۔ شیواجی کو مہاراشٹر میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ مجسمہ کے انہدام کو مراٹھوں کی جانب سے شیواجی کی توہین قرار دیا گیا تو کانگریس نے اسے بدعنوانی کی بدترین مثال کے طور پر پیش کیا اور وزیر اعظم کی معافی کو ایک ڈھونگ قرار دیا ۔مہاراشٹر میں اس وقت یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے حالانکہ ریاست پہلے ہی سے متعدد عوامی مسائل سے جوجھ رہی ہے ۔
خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ بھی مہاراشٹر میں ایک اہم مسئلہ ہے ۔ کولکاتا ریپ اور قتل کے منظر عام پر آنے کے بعد سے مہاراشٹر میں بھی اس طرح کے واقعات کا تسلسل دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ جس میں سب سے اہم بدلا پور اسکول کا معاملہ ہے جہاں تین اور چار سال کی دو معصوم بچیوں کو اسکول کے خاکروب نے ہوس کا نشانہ بنایا ۔ اس واقعہ کو بھی پولس نے دبانے کی پوری کوشش کی تھی تاہم یہ اس وقت منظر عام پر آگیا جب ایک خاتون رپورٹر نے اس کی رپورٹنگ کی، جس پر شندے گروپ کے سابق کارپوریٹر نے اس خاتون رپورٹر سے انتہائی گندی زبان میں پوچھا ’’کیا تمہارا ریپ ہوا ہے‘‘۔ اسی طرح پولس نے بھی پہلے رپورٹ درج نہیں کی جس پر عوام کا غصہ پھوٹ پڑا اور انہوں نے اسکول میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور اسٹاف کے ساتھ مارپیٹ تک کی نوبت بھی آگئی ۔ عوام اتنے مشتعل تھے کہ انہوں نے بدلا پور اسٹیشن پر ٹرین کو روک دیا ۔ گھنٹوں پولس کی مشقت اور سیاست دانوں کے سمجھانے بجھانے پر بھیڑ وہاں سے منتشر ہوئی ۔ اس ہنگامہ آرائی کے باوجود جب بچیوں کے والدین پولس اسٹیشن ایف آئی آر درج کرانے گئے تو انہیں تین گھنٹہ تک انتظار کرنا پڑا ۔ پولس سے تو آپ کسی انصاف یا کاروائی کی امید نہیں کرسکتے ۔ہر معاملہ میں عوام کو ہی پیش قدمی کرنی پڑتی ہے اس وقت تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
اس وقت مہاراشٹر میں مسائل کی فہرست میں شیواجی مجسمہ کے انہدام کا معاملہ اور خواتین کے تحفظ کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ مجسمہ سے حکومت کی جو سبکی ہونے تھی وہ ہو چکی ، مودی کے سر جھکا کر معافی مانگنے کا کوئی اثر ریاست کے عوام پر نہیں ہوا اور اپوزیشن اس معاملہ کو جتنا طول دے گی بی جے پی کا سر درد اتنا ہی بڑھے گا ۔ دوسرا اہم مسئلہ خواتین کی عفت و عصمت کے تحفظ کا مسئلہ ہے اور تواتر کے ساتھ آنے والی جرائم کی خبریں بھی عوام کو حکومت سے برگشتہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔اب ریاستی حکومت کے پاس ایک ہی راستہ باقی رہ گیاہے کہ کسی بھی طرح عوامی فلاح بہبود کے کاموں کی خوب خوب تشہیر کی جائے تاکہ نقصان کی بھرپائی ہوسکے ۔ خبر ہے کہ لاڈلی بہنا منصوبہ کے تحت لاکھوں خواتین کے اکائونٹ میں دو مہینہ کا تین ہزار روپیہ آچکا ہے اور بار بار یہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ جن کو نہیں ملا ہے ان کے اکائونٹ میں تین ماہ کا ساڑھے چار ہزار روپیہ جمع ہے۔ امید ہے کہ الیکشن کمیشن مہاراشٹر کے الیکشن کو اس وقت موخر کرتا رہے گا جب تک ریاستی حکومت اور وزیر اعظم کی جانب سے ریاست میں کامیابی کے لئے فول پروف بندوبست نہیں کرلیا جاتا ۔ فرقہ وارانہ خطوط پر ووٹوں کا ارتکاز بھی ناکام ہوچکا ہے ۔ کوشش تو بہت کی جارہی ہے لیکن مسلمانوں کے صبر و ضبط کے سبب فسادی ٹولہ کو مسلسل ناکامی کا منھ دیکھنا پڑ رہا ہے ۔
مگر عوامی رجحان ، جس کا اندازہ میدان میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بہت کچھ یا یوں کہہ لیں سب کچھ کرنے کے باوجود بھی بی جے پی اپنی جیت کو صد فیصد یقینی نہیں بتا سکتی ۔ کیوں کہ اب مودی میجک بھی باقی نہیں رہا اور تواتر کے ساتھ درج بالا وقعات کے رونما ہونے کی وجہ سے ماحول ان کے خلاف ہی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کب تک مہاراشٹر کے ریاستی الیکشن کو تیوہاروں کے بہانے ٹالنے کی کوشش کرتا ہے ۔