جس طرح چھوٹے بچے کے تصور کے ساتھ ماں کی گود کا تصور بھی لازمی طور پر آتا ہے اسی طرح وطن کے تصور کے ساتھ وہ گھر، وہ گلیاں اور اس علاقے کا تصور بھی لازماً آتا ہے جہاں انسان نے اپنی زندگی کے اہم لمحے بالخصوص بچپن گزارا ہو۔ انسان ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے بڑے سے بڑے عہدے پر پہنچ جائے ، فلک بوس عمارتوں اور محلوں میں راج کرے یا ہمالیہ کی چوٹیاں سرکرے، وطن کے ذکر سے عام طور پراس کا پورا بچپن سامنے آجاتا ہے اور وہ گھر اور گلیاں اپنی خستہ حالی اور بوسیدگی کے بعد بھی اس کو جذباتی بنادیتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی جذباتی وابستگی کا دائرہ کتنا بڑا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ علاقے اور شہر جن میں اس کا کبھی گزر بھی نہیں ہوا اور وہ ان کی تہذیب، زبان، جغرافیہ اور رہن سہن سے کوئی مطابقت نہیں پاتا لیکن وہ بھی اس کے ملکی حدود کے میں آتے ہیں، اس کے اندر وہی جذباتی کیفیت پیداکرتے ہیں یا کرسکتے ہیں؟اس مضمون میں اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔
فی زمانہ مسلمانان ہند جن مسائل سے دوچار ہیں ان میں سے ایک اہم مسئلہ فرقہ پرست تنظیموں اور افراد کی طرف سے وقتا فوقتا ملک کے تئیں ان کی وفاداری اورمحبت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانا بھی ہے۔ مسلمانوں کےد رمیان بھی یہ مسئلہ پچھلے تقریبا ایک صدی سے زیر بحث رہاہے کہ دین میں وطن کی کیا حیثیت ہے۔ قوم کسے کہتے ہیں اور قوم بننے کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ اور کیا پورے ملک کو وطن قرار دیا جاسکتا ہے؟اس مضمون میں ان سارے پہلوؤں کا احاطہ ممکن نہیں ہے لیکن مسلمانان ہند کا ملک سے تعلق کیا ہے اورکیا ہونا چاہیے ۔ ان کا دین اس سلسلہ میں کیا رہنمائی کرتا ہے اور فرقہ پرست عناصر مکر وفریب کے ذریعہ جس چیز کو پھیلارہے ہیں اس میں کتنی سچائی ہے، اس پر بات ضروری ہے۔
جہاں تک ملک سے محبت اور وفاداری کا سوال ہے تو یہ بات جگ ظاہر ہے کہ پچھلی ہزار سال سے زائد تاریخ میں مسلمانوں نے ہمیشہ اس خطہ ارضی کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے ہر ممکن جدوجہد اور ہرطرح کی قربانی دی ہے۔ چاہے وہ تعلیم و تعلم کی اشاعت ہو یا صنعت و حرفت کی ترویج کا معاملہ ہو، مختلف علوم و فنون اور کاریگری کے نمونے پور ے ملک کے گوشے گوشے میں آج بھی مسلم عہد حکمرانی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ انگریزوں کی شکل میں جب استبداد نے یہاں حملہ کیا اور اس پر قابض ہوگیا تو اس غلامی سے اس کو آزاد کرانے والوں میں مسلم عوام و خواص کی قربانیاں بہر صورت دوسروں سے ممتاز اور آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ اس سلسلے میں مسلمانان ہند کو کسی احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ایسے سوالوں کا جواب بھی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اسلام میں وطن کس کو کہاگیا ہے اور ملک سے محبت اور وفاداری کا اسلام میں جو بھی مقام ہو، ملک کی تاریخ کا تجزیہ کرنے کے لیے جو بھی معیار بنایا جائے، اس میں یہ بات واضح ہوکر سامنے آئے گی کہ ہر دور میں مسلمانوں نے اپنے خون پسینے سے ملک کو دیا زیادہ ہے اور لیا کم ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کی بحثوں میں اکثر خلط مبحث ہوجاتا ہے اور بات کہیں سے شروع ہوکر کہیں پہنچ جاتی ہے۔ سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ وطن کی تعریف کیا ہے؟ عام طور پر وطن کی محبت کے حوالے سے احادیث اور سیرت کے حوالے پور ے ملک پر چسپاں کردیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ موجودہ دور کے ملک (Nation-State) کا تصور بہت پرانا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ تین سو سال پرانا ہے۔اس سے پہلے ملکی حد بندیوں اور اتنے سارے سفری دستاویزات و شرائط سے دنیا یکسر نابلد تھی۔ یہ فطری بات ہے کہ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے،جہاں اس کا بچپن گزرتا ہے، جہاں وہ کھیل کود کر بڑا ہوتا ہے یا جہاں اس نے عمر کا ایک بڑا حصہ گزاراہوتا ہے۔ اس علاقے کے مکانات، کھلیاں، کھیت، پہاڑ، جنگل، ریت و رواج، مخصوص کھانے، بولی اور کپڑے ہر چیز سے محبت ایک فطر ی جذبہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت میں بھی اس طرح کے کئی واقعات ملتے ہیں جب آپ نے اپنے وطن سے محبت کا اظہار کیا۔ مثال کے طور پر جب آپ ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت فرمایا کہ تو سب سے زیادہ پاکیزہ شہر ہے اور میرے لیے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر میری قومی مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں کبھی یہاں سے نہیں جاتا۔
لیکن یہی فطری لگاؤ اور انسیت ایک ایسے شہر، گاؤں، قصبے یا علاقے کے لیے کیسے ہوسکتے ہی جو سینکڑوں میل دور ہو۔ جہاں کی زبان ، بولی ، کھانے کی پسندو دیگر طرز زندگی مختلف ہو اور فرد مطلق نہ کبھی وہاں گیا ہوں اور نہ ہی اس کا کوئی دوست یا رشتہ دار وہاں مقیم ہو۔ اس کو اس مثال سے بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے جس کا رقبہ تقریبا نو لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کے مشرق میں ہمارا ملک ہندوستان ہے۔ مغرب میں افغانستان اور ایران اور شمال مشرق میں اس کی سرحدیں چین سے لگتی ہیں۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن کئی ریاستوں کی اپنی علاقائی زبانیں ہیں جو وہاں سرکاری طور پر بھی رائج ہیں۔ مثلا َ خیبر پختونخواہ صوبہ میں پشتو زبان کا چلن زیادہ ہے۔ وہاں کا موسم بھی اسلام آباد اور لاہور سے الگ ہے۔ کھانا پینا اور رہن سہن بھی مختلف ہے۔اب اگر اس صوبہ کے ایک شہری سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس کے گھر سے 500 کلومیٹر دور لاہور جہاں کی زبان پنچابی ہے، موسم گرم ہے اور کھانے، پینے اور رہن سہن سب میں فرق ہے، سے وہ ویسا ہی انس رکھے تو کیا یہ ممکن ہے؟ چاہے اس نے کبھی پنجاب کا سفر بھی نہ کیا ہو۔ اس کا کوئی دوست یا رشتہ دار بھی وہاں موجود نہ ہو۔
اب آئیے تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ وہی شخص اپنی زبان، رہن سہن، تہذیب وغیرہ میں اپنے گھر سے محض کچھ کلومیٹر دور سے کافی مماثلت پاتا ہو۔ لیکن وہ شہر پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان کی سرحد کے اندر آتا ہو۔ وہ وہاں متعد د بار جاچکا ہو۔ اس کے دوست، احباب اور رشتہ دار بھی وہاں موجود ہوں۔ وطنیت اور وطن پرستی کے موجودہ تقاضے اس سے مطالبہ کریں گے کہ وہ پنجاب ، جہاں سے فطری طور پر اس کی انسیت نہ کے برابر ہے سے محبت کرے اورصوبہ کنڑ جہاں سے بہر طور اس کی فطری انسیت ہے، سے نفرت کرے یا کم ازمحبت نہ کرے۔ کیا ایسی وطن پرستی کی کوئی عقلی توجیح کی جاسکتی ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ اس کو پنجاب جانے کے لیے بہت کم دستاویز کی ضرورت ہوگی اورصوبہ کنڑ جانے کے لیے کچھ زیادہ دستاویز کی ضرورت پڑے گی، کی بنا پر اسے اپنی محبت اورلگاؤ کو طے کرنا چاہیے؟
ایسی متعد مثالیں ہر ملک اور علاقے میں مل جائیں گی۔ ہندوستان کے شمالی علاقے جو نیپال کی سرحد پر واقع ہیں، سے لوگوں کا نیپال آنا جانا، تجارت، رشتہ داری عام بات ہے۔ ان کا نیپال کے ان سرحدی اضلاع سے جو لگاؤ ہوگا کیا اس کا موازنہ کیرالہ یا گوا سے کیا جاسکتا ہے؟ یہی حال ہے ہندوستان بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں کا ہے۔یہی حا ل ہندوستان اور پاکستان، ہندوستان و سری لنکا اور کسی حد تک ہندوستان اور چین کے سرحدی علاقوں کا بھی ہے۔ یہ ایک فطری لگاؤ ہے جو درج بالا مختلف وجوہات یا مشترک چیزوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا اصل وطن وہی اور اس کے آس پاس کا علاقہ ہے جہاں انسان زندگی کی ایک مدت گزارچکا ہے اور وہاں کے تہذیبی عناصر سے اس کا قلبی لگاؤ ہے۔ اس کا موازنہ اس کے اپنے ہی ملک کے ایک دور راز علاقہ یا شہر سے نہیں کیا جاسکتا ۔اس لگاؤ کو ملکوں کی خارجہ پالیسی اور ان کے مابین تنازعات سے جوڑنا بھی مناسب نہیں ہے۔ الا یہ کہ اس مخصوص خطہ کا مذکورہ پالیسی یا تنازعہ سے راست تعلق ہو۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مکمل طور پر طے شدہ سرحدو ں کی بنیاد پر نیشن اسٹیٹ کا تصور بہت پرانا نہیں ہے۔ تہذیبیں، زبانیں اور ان کے برتنے اور بولنے والے لوگ زیادہ پرانے ہیں۔ موجودہ نظام میں دنیا کے سارے علاقے کسی نہ کسی ملک میں آتے ہیں۔ یہاں تک کہ سمندر کا بھی غالب حصہ کسی نہ کسی ملک کے اقتدار اعلیٰ کے تحت مانا جاتا ہے۔ لہذا کوئی انسان کہیں بھی رہے ۔ اس کا رنگ، نسل، زبان اور مذہب چاہے کچھ بھی ہو ، و ہ کسی ملک کا باشندہ قرار پائے گا۔ اب اس حوالے سے اس کا رویہ اس ملک اور اس کے نظام کے تئیں کیسا ہونا چاہیے اور اسلام اس بارے میں کیا رہنمائی کرتا ہے؟ اس حوالے سے اسلامی تعلیمات واضح ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی ملک کو ملک بننے کے لیے انسانوں کی ایک قابل ذکر تعداد کا ہونا لازمی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ان انسانوں تک اپنی سکت بھر اللہ کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرے۔ اسلام نے جن انسانی حقوق کا تذکرہ کیا ہے وہ ان حقوق کو بدرجہ اتم ادا کرنے والا بنے۔ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا رویہ رکھے ۔ ان کے دکھ درد کو بانٹے اور امن و امان کے لیے کوشاں ہو۔
چوں کہ اسلام نے زندگی کے ہر پہلو سے متعلق احکام دیئے ہیں لہذا ہوسکتا ہے کہ ملک کے کچھ قوانین اور پالیساں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں۔ بندہ مومن کی ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ زندگی کے ہر ہر پہلو پر وہ اسلام پر عمل پیرا ہو۔ علماء اور فقہاء نے مختلف اعمال اور قوانین کی درجہ بندی کی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان قوانین اور پالیسوں پر عمل کرنے سے اعراض کرے جو اسلام سے راست طور پر ٹکراتے ہوں اور ان کو بدل کر بہتر قوانین اور پالیساں لاگو کرانے کے لیے حتیٰ الامکان کوشش کرے۔ کچھ ایسے قوانین یا پالیساں ہوسکتی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری اور مجبوری ہو ۔ اگر وہ اسلامی احکامات سے راست طور پر نہیں ٹکراتے تو ان پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی دیگر تفاصیل علماء نے کتابوں میں بیان کی ہیں۔ لیکن اس کا عمومی رویہ وہاں کے لوگوں کے بارے میں یہی ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے حتی الامکان کوشش کرتا رہے۔ اس حوالے سے عام طور پر مسلمانوں کا رویہ قابل تعریف ہی رہا ہے۔ کورونا کی وبا اور دیگر حادثات کے وقت دنیا نے دیکھا کہ عام مسلمانوں نے بلا اختلاف مذہب و ملت جس طرح انسانیت کی خدمت کی اس کی نظیر بہ مشکل ہی مل سکتی ہے ۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ آخراس وفاداری اور محبت کو ثابت کیسے کیا جائے؟ اس کے اظہار کا کیا طریقہ ہوگا؟ یا وہ کون سے پیرا میٹر ہوں گے جن کی بنیاد پر یہ طے کیا جاسکتا ہو کہ فلاں کو اپنے ملک سے کس درجہ محبت ہے۔ اور اس کو طے کرنے کا کس کو حق حاصل ہے۔ظاہر ہے محبت اور وفاداری کا اظہار انسان کے برتاؤ سے ہی ہوتا ہے، الفاظ کی رٹ لگانے سے نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج جو لوگ ملک سے محبت اور وفاداری کا دم بھرتے نہیں چوکتے، ان کی تاریخ یہ رہی ہے کہ انہوں نے ملک پر قابض انگریزوں کی حمایت کی تھی۔اس کے علاوہ بدعنوانی اور بڑے بڑے کرپشن کے معاملات میں کتنے مسلمان ملوث ہیں؟ کتنے مسلمان ملک سے قرض لے کر فرار ہوئے ہیں؟ اور جو لوگ ایسے کاموں میں ملوث رہے ہیں ان کا تعلق کس جماعت اور فرقے سے ہے؟
ہاں اگر کسی کی محبت اور اس سے وفاداری انسان کو ایسا بنا دے کہ صحیح اور غلط، حق اور ناحق کی تمیز ہی اٹھ جائے تو نہ تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ انسانی فطرت اس کو تسلیم کرتی ہے۔ مثلا اگر کوئی شخص یہ طے کرلے کہ اس کا بھائی چاہے کچھ بھی کہے یا کوئی بھی کام کرے وہ ہمیشہ اس کی حمایت کرے گا تو اس کا بدیہی نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ بسا اوقات غلط باتوں اور کاموں کا بھی حامی قرار پائے گا۔ ملک کی محبت اور وفاداری کا راگ الاپنے والے بعض دفعہ مسلمانوں سے اسی قسم کا مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ چوں کہ ملک کی حکومت نے لیا ہے لہذا صرف اسی کو صحیح قرار دیا جائے۔ ظاہر ہے اس طرح کی کوئی بھی بات عقل کے صریح خلاف ہے اور عقل وسمجھ رکھنے والا کو ئی بھی شخص جو عصبیت سے پاک ہو ایسا نہیں کرسکتا ہے۔ کم ازکم حق کو حق اور غلط کو غلط سمجھنا اور کہنا انسان کو انسان کہلائے جانے کے ضروری ہے۔
موجودہ نیشن اسٹیٹ میں وطن کا مقام یہ ہے کہ اس کے سربرآوردہ لوگوں کی طرف سے جو بھی فیصلہ ہوں اس کی حمایت کی جائے۔ اس کی جے جے کار کی جائے اورعملا اسی کو صحیح اور غلط کا معیار بنالیا جائے۔ کسی نزاعی صورت حال میں اپنے ملک کی حمایت بہرحال فرض اور ضروری ہے، چاہے اس کے اقدام غلط ہی کیوں نہ ہوں، دوسرے ممالک کی مخالفت ضروری ہے، چاہے وہ صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے کہ ہندو مذہب میں ملک کو دیوتا کی طرح پوجنے کا تصور پایا جاتا ہے۔ فی زمانہ ہندوستان کے نقشہ کو بھارت ماتا کی دیوی کی مورتی کی شکل دے کر اس کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔اور بعض حلقوں کا مسلمانوں سے بھی یہی مطالبہ ہے کہ وہ بھی اپنے ملک کے حوالے سے انہیں جذبات کا اظہار کریں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان تو کجا عقل و سمجھ رکھنے والا کوئی عام انسان بھی محبت ونفرت اور حمایت و مخالفت کے لیے ایسی کسی شرط کو وجہ جواز نہیں بناسکتا ۔ انتہاپسند تنظیموں کے لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام میں حق وناحق کا تصور بہت واضح ہے اور ایک ادنی مسلمان بھی اگر کسی بات کو غلط سمجھتا ہے تو اس کو محض اس لیےصحیح ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا کہ اس کے ملک کے بہت سارے لوگ ایسا ہی کہتے ہیں اور حکومت کی منشا بھی یہی ہے۔
اس حوالے سے ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم خود شکوک وشبہات سے اپنے ذہن کو صاف کریں۔ تاریخی حقائق اور موجودہ اعداد وشمار کی روشنی میں خود آگے بڑھ کر سوال کریں۔ دفاعی انداز میں احساس کمتری کے ساتھ ہمیشہ جواب دیتے رہنا کسی بھی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ یہ بات اس وقت زیادہ اہم ہوجاتی ہے جب سوال کرنے والوں کی منشاصرف اورصرف معاملات کو الجھانا ہو نہ کہ کوئی مثبت، مفید اور صحت مند بحث و تمحیص سے کسی مسئلہ کو حل کرنا۔