نہال صغیر
دوسرے مرحلے کے انتخابی عمل کے بعد بھی مہاراشٹر میں یہ بات صحافیوں اور سیاسی پنڈتوں کے درمیان گفتگو کا موضوع بنی ہوئی ہے کہ اصلی، نقلی یا غدار و وفادار کی بحث میں عوام کس کی جانب ہیں ۔ 26؍ اپریل کو دوسرے مرحلے میں مہاراشٹر کے ودربھ علاقے کی آٹھ سیٹوں کے لئے انتخابی عمل پورا ہوا۔
مہاراشٹر میں کئی عوامی مسائل ہیں لیکن پورے الیکشن مہم میں شاید ہی کبھی اس پر گفتگو ہوئی ہو۔ مہاراشٹر میں سب سے بڑا مسئلہ مقروض کسانوں کا ہے جس کی وجہ سے وہ آئے دن خود کشی کرتے رہتے ہیں۔ سیاست داں ان سے ہمدردی جتاتے ہیں راحتی پیکج کا اعلان ہوتا ہے لیکن کسانوں کے مسائل کا سد باب نہیں ہوپاتا۔ اس کے علاوہ یہاں خشک سالی کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ خشک سالی کے مسئلہ سے نپٹنے کے لئے سابق شیو سینا – بی جے پی حکومت میں جل یکت شیوار نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا جو بعد ازان تنازعات میں گھر گیا اور یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ مہاراشٹر کے کئی علاقوں میں جو تباہ کن سیلاب آیا تھا اس کی وجہ دیویندر فڑنویس کا یہی جل یکت شیوار پروگرام تھا ۔
ایک اور المناک مسئلہ یہاں کے گنا مزدوروں کا ہے جن میں خواتین کی اکثریت ہے ۔مزدور خواتین کے بارے میں کئی سال قبل یہ رپورٹ آچکی ہے کہ وہ مزدوری پانے کے لئے اپنی نسوانیت سے پیچھا چھڑانے پر مجبور ہیں ۔تاہم ہر جگہ مرکزی ایشو ہی چھائے رہے۔
حالانکہ مرکزی ایشو میں بھی جس طرح بی جے پی نے فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش کی اسے ابھی تک تو مہاراشٹر کے عوام نے نظر انداز ہی کیا ہے ۔ چونکہ یہ پارلیمانی انتخاب ہے شاید اس وجہ سے مقامی ایشو کے تعلق سے کوئی آواز سنائی نہیں دی رہی ہے۔ لیکن ایسا بھی کیا معاملہ ہے کہ مقامی ایشو بالکل ہی منظر نامے سے غائب ہوجائیں ۔اس کی کوئی تو خاص وجہ ہونی چاہئے اور میری نظر میں یہ خاص وجہ اصلی نقلی اور غدار وفادار کی بحث ہے ۔
اس بار مہاراشٹر میں الیکشن کا اصل موضوع اصلی نقلی اور غدار وفادارہے ۔الزامات اور جوابی الزام کا بازار گرچہ فی الحال سننے میں نہیں آرہا ہے جیسا کہ کچھ ماہ قبل تک تھا لیکن عوامی طور پر گفتگو کا موضوع یہی ہے ۔ قانونی حیثیت سے اصل این سی پی اجیت پوار والی ہے اور اصل شیو سینا وزیر اعلیٰ شندے والی۔اصلی این سی پی کے دعویدار اجیت پوار گروپ کے کل ہند جنرل سکریٹری اور مائنارٹی ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین ایڈووکیٹ جلال الدین کا دعویٰ ہے کہ وہ ہی اصلی این سی پی ہیں کیوں کہ قانونی طور پر انہیں ہی اصلی قرار دیا گیاہے ۔ان سے یہ پوچھنے پر کہ اگر عوام نے شرد پوار والے گروپ کے حق میں رائے دی تو وہ کیا کہیں گے ۔ اس پر وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس باون ایم ایل ایز ہیں اور اس کے علاوہ گرام پنچایت والے الیکشن میں ہمارے گروپ کو ہی زیادہ سیٹیں ملی تھیں ۔ لیکن مراٹھی روزنامہ لوک مت ( Lokmat) کے صحافی ضمیر قاضی کہتے ہیں کہ پنچایت کے الیکشن کو یہاں موضوع بحث لانا سراسر غلط ہے، وہاں مقامی مسائل اور مقامی چہرے کے تحت انتخاب ہوتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اجیت پوار والا گروپ خواہ کچھ بھی کہہ لے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام میں ان کی بغاوت اور بی جے پی سے مل کر حکومت بنانے کے عمل کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے اور اس کا اثر یقینی طور پر جاری پارلیمانی الیکشن کے نتائج پر پڑے گا ۔ ضمیر قاضی کا کہنا ہے کہ عوام اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتے کہ انہوں نے جس کو منتخب کیا ہے وہ ان سے غداری کرتے ہوئے اپنے مفاد کی خاطر دوسری نظریاتی پارٹی میں ضم ہوجائے ۔
شرد پوار کی ملکی سیاست میں ایک پہچان ہونے کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر میں بھی ایک خاص حیثیت ہے اور ان کی اسی پہچان کی وجہ سے شاید ان پر ابھی تک ای ڈی اور دیگر ایجنسیوں کو ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی ہے ۔ قارئین کو یاد ہی ہوگا کہ کوئی دو تین سال قبل جب ای ڈی کے ذریعہ انہیں نوٹس ملا تھا اور اس پر شرد پوار نے خود ای ڈی کے دفتر میں حاضری دینے کا ارادہ کیا تھا تو سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے اور ای ڈی کے افسران نے بڑی مشکلوں سے انہیں دفتر آنے سے روکا تھا ۔ ورنہ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے اشارے پر ای ڈی جہاں چاہتی ہے منھ اٹھائے چل پڑتی ہے ۔ اس لئے شرد پوار کے اثرات سے کوئی محض اس لئے انکار کرتا ہے کہ اس کے ساتھ باون ایم ایل ایز ہیں یا ایک سال قبل گرام پنچایت کے الیکشن میں اسے زیادہ سیٹیں ملی تھی تو یہ احمقوں کے جنت میں رہنے جیسا ہے ۔ ہمیشہ زمینی حقائق پر نظر رکھنا چاہئے اسی کے مطابق عمل کرنا یا بیان دینا چاہئے ۔ اسی طرح ای ڈی ( ED) کا شکار ادھو ٹھاکرے کے قریبی سنجے رائوت اور دیگر لوگ ہوئے مگر ادھو ٹھاکرے یا آدتیہ ٹھاکرے کے خلاف کارروائی کی ہمت نہیں ہوئی۔
شرد پوار کی طرح ادھو ٹھاکرے کا ذاتی طور پر کوئی بڑا سیاسی امیج نہیں ہے لیکن ان کے والد بال ٹھاکرے کی سیاست انہیں وراثت میں ملی ہے ۔لیکن انہوں نے والد کے جارحانہ ہندوتوا سیاست کی جگہ ایک سلجھے ہوئے مدبرانہ سیاست داں کے طور پر اپنی امیج بنائی ہے۔ ان کا اصل رخ اس وقت عوام کے لئے مرکز توجہ بنا جب انہوں نے کوویڈ لاک ڈائون کے درمیان اور طلبہ تحریک وغیرہ میں ایسے حکمراں کا رویہ اپنایا جو عوام دوست اور فتنہ و فساد سے دور ہو اور جسے یہاں کے عوام نے قبول کیا ہے ۔ بی جے پی نے انہیں ہندوتوا کے جارحانہ رخ کی طرف موڑنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوپائی ۔اسی ناکامی نے بی جے پی کو شیو سینا میں بغاوت کروانے پر اکسایا ۔ بغاوت کی اور بھی کئی وجوہات ہیں جن ایک ایسی وجہ بھی ہے جو زبان زد عام ہے اور وہ ہے مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال سے کسی کو
مجبو رکرنا ۔ بہر حال شیو سینا یا ادھو ٹھاکرے سے بغاوت کوعوام نے تحسین کی نظر سے دیکھنے کی بجائے انہوں نے غداروں کو پہچاننے کی کوشش کی ہے ۔ ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہی ان کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے بھی عوام خصوصی طور پر نوجوانوں میں مقبول ہیں ۔ یہ باتیں ہوا میں نہیں کی جارہی ہے بلکہ یہ زمینی صورتحال ہے جس نے بی جے پی کو پریشان کرکھا ہے ۔ اس نے این سی پی اور شیو سینا میں تخریب کاری کرکے یہ سوچ لیا تھا کہ اس کیلئے راہیں آسان ہوجائیں گی لیکن اس کی غلط فہمی دور ہوگئی اور یہ واضح ہوگیا کہ اس نے سیاسی طور سے بہت بڑی غلطی کی ہے ۔
ریاست مہاراشٹر میں مراٹھا ریزرویشن نےبھی ادھر کچھ عرصہ سے بی جے پی کے بنے بنائے کھیل کو کافی بگاڑا ہے ۔ مرہٹوں کی طرف سے کھلے عام بی جے پی اور اس کے حلیفوں کو ووٹ نہ دینے کی اپیل کی گئی ہے ۔ الیکشن مہم کے دوران کئی جگہوں سے ایسی خبریں آئی ہیں جو بی جے پی کے لئے یقیناً فکرمندی کا باعث تھیں ۔ بی جے پی کے امیدواروں اور ان کے لئے مہم چلانے والوں کو کئی مقامات پر گائوں اور محلوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا ۔اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے تئیں عوام میں ناراضگی کس حد تک ہے۔ اب یہ بات بھی عوام کے ذہنوں میں پیوست ہوگئی ہے کہ بی جے پی ریزرویشن مخالف ہے اور اس نے ہی مراٹھا ریزرویشن کی تحریک چلانے والے جرانگے پاٹل کے خلاف سازشیں کیں اور مرہٹہ ریزرویشن کی مخالفت میں اہم کردار ہے ۔ دوسرے شیو سینا اور این سی پی میں بغاوت کا ذمہ دار بھی عوام بی جے پی کو ہی مانتے ہیں ۔حالانکہ بہت کوشش کی گئی کہ بی جے پی اپنے دامن سے یہ داغ دھو ڈالے مگر عوام کے ذہنوں کو نہیں بدلا جاسکا ۔ عوام کے ذہنوں میں فرقہ وارانہ سوچ نہ آنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں رام مندر یا مودی کی سحر انگیزی کو عوام نے قبول ہی نہیں کیا ہے ۔ ویسے بھی آر ایس ایس اپنی تمام تر موجودگی اور سرگرمیوں کے باوجود ہندو مسلم فرقہ واریت کو بڑے پیمانے پر مہاراشٹر میں پھیلانے میں ناکام رہی ہے – اس کی بڑی وجہ یہاں کے عوام کی کشادہ دلی ہے اور اس کشادہ دلی میں اہم کردار یہاں سے ذات پات اور عدم مساوات کے خلاف اٹھنے والی تحریک ہے ۔ ایسا لگتا ہے گویا بی جے پی جس نے شیو سینا سے اتحاد کرکے مہاراشٹر میں جو اپنا قدم جمایا تھا اب اس کے اکھڑنے کی شروعات ہو چکی ہے ۔ اصل و نقلی اور غدار و وفادار کی لڑائی میں فسادی ٹولہ کو بھی اب ناقابل تلافی نقصان اٹھانے کا اشارہ مل چکا ہے ۔