ابوسعود
بہار میں غیرمتوقع کامیابی کے بعد اب بی جے پی نے پڑوسی ریاست مغربی بنگال پر قبضہ کرنے کے لئے کمر کس لی ہے ۔اس کے لئے وہ گزشتہ دودہائی سے محنت کررہی ہے جس کا پھل اسے 2019 کے لوک سبھا انتخات میں اس وقت ملا جب اس نے لمبی چھلانگ لگاتے ہوئے ریاست میں پہچان بنائی ، اپنے وجود کو ثابت کیا، ریاست پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے اپنی پارلیمانی سیٹوں کی تعداد 2014 کی 2سے بڑھاتے ہوئے 18 کردی اورحکمراں آل انڈیا ترنمول کانگریس کو سخت ٹکردی جسے 42میں سے صرف 22سیٹیں ملیں ۔اسی الیکشن میں کمیونسٹ پارٹیوں کا صفایا ہوگیا اورکانگریس کو صرف 2سیٹوں پر قناعت کرنی پڑی ۔
تقریبا دودہائی کی محنت رنگ لانے اوراتنی بڑی کامیابی سے بی جے پی کے حوصلے کافی بڑھے ہوئے ہیں اورکیوں نہ بڑھیں ، جب اسے یہ کامیابی اپنے بل بوتے پر کسی اتحاد کے بغیر ملی ۔پارٹی نے ایک طرح سے اسی وقت حکمراں ترنمول کانگریس اورریاست کی وزیر اعلی ممتابنرجی کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی ۔کیونکہ بی جے پی کو صرف 18سیٹیں نہیں ملی تھیں بلکہ 40 فیصد ووٹ بھی ملے تھے ۔ اس طرح اسے ترنمول کانگریس سے صرف 4سیٹیں کم اور3فیصد ووٹ کم ملے تھے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس پارٹی کو کسی الیکشن میں حکمراں جماعت کے ساتھ سیدھی ٹکڑ میں نصف سیٹیں اور40فیصد ووٹ مل جائیں وہ اگلے الیکشن میں ریاست میں اقتدار کی دعویدار بن جاتی ہے اوراس وقت پارٹی یہی سوچ کر ریاست میں محنت کررہی ہے ۔پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں کے دورے ہورہے ہیں جو ریاست میں زمین پر کام کرنے والے لیڈروں کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اوروہاں جاکر آگے کی حکمت عملی تیار کرنے میں ان کی مدد بھی کرتے ہیں ۔
بی جے پی مغربی بنگال فتح کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہے ا س کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی کے جنرل سکریٹری اورمغربی بنگال کے امور کے انچارج کیلاش وجے ورگیہ مسلسل وہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں ۔ وہ ریاست سے باہر جاتے ہی نہیں ہیں ۔ ابھی بہار میں الیکشن ہوا تھا اورمدھیہ پردیش میں ضمنی اسمبلی انتخابات ہوئے تھے جہاں سے وہ تعلق رکھتے ہیں اورشیوراج سنگھ سرکار کی بہت بڑی آزمائش ہوئی تھی لیکن وجے ورگیہ کو ان دونوں انتخابات سے کوئی مطلب نہیں تھا ، وہ اپنے اسی ایک نکاتی ایجنڈے مغربی بنگال کو فتح کرنے پر کام کرتے رہے جس کی ذمہ داری پارٹی نے انہیں سونبی ہے ۔
کرناٹک اورشمال مشرق کی ریاستوں پر قبضہ کے بعد بی جے پی کے نشانے پر مغربی بنگال ، اڑیسہ ، تمل ناڈو ، آندھرا پردیش ، کیرلا اوروہ تلنگانہ ہے جہاں حال ہی میں اس نے حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی ۔ان تمام ریاستوں میں پارٹی کافی محنت کررہی ہے اورسنگھ پریوار کی مدد سے زمین پر کام کرکے لوگوں اورلیڈروں کو پارٹی سے جوڑ رہی ہے جو دیگر پارٹیاں نہیں کرتی ہیں ۔اسی لئے ان کے پیروں تلے سے زمین کھسکتی جارہی ہیں۔بی جے پی نے طویل مدتی پروگرام اورسوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پورے ملک میں کمل کو کھلایا ہے اورآج ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے جسے ٹکر دینے کی پوزیشن میں قومی سطح پر کوئی پارٹی نہیں ہے ، ریاستی اورعلاقائی سطح پر ضرورکوئی نہ کوئی پارٹی ہمیشہ رہی ہے اورآگے بھی رہے گی ۔
مخلوط حکومت کے دور میں علاقائی پارٹیاں قومی پارـٹیوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج رہی ہیں ۔ بی جے پی اب ’ایکلا چلو‘ کی پالیسی پر عمل کررہی ہے جب وہ خود ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے ۔ایک دور ایسا بھی تھا جب اس نے علاقائی پارٹیوں کے سہارے اوران کے ساتھ ریاستی یا قومی سطح پر اتحاد کرکے ملکی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔کانگریس اوردیگر ایک دوجماعتیں ہی ہوں گی جن کے ساتھ بی جے پی نے اتحاد کرکے الیکشن نہیں لڑا ہو۔شروع سے بی جے پی کی یہ حکمت عملی رہی کہ وہ حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے آگے بڑھی پھر ان ہی علاقائی پارٹیوں کی جڑیں کھوکھلی کرکے ریاست پر قبضہ کیا۔بیجو جنتادل،شیوسینا ، اکالی دل ، پی ڈی پی ، لوک جن شکتی اورتازہ تازہ بہار میں جنتادل متحدہ اور آسام میں اتحادی پارٹی بدلنا ہے ۔
بی جے پی سے جن پارٹیوں نے اتحاد کیا ، وہ کھوکھلی ہوئیں اوران کو نقصان پہنچا اورجب انہیں اس کا احساس ہوتاہے تواس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے پھر وہ سنبھلنا بھی چاہیں تو ممکن نہیں ہوتا ۔بیجو جنتادل نے اس چیز کو بہت پہلے بھانپ لیا تھاتو وہ آج تک اپنے بل بوتے پر اقتدارمیں ہے ، شیوسینا بہت بعد میں سمجھ پائی اوربڑی مشکل سے خود کو سنبھالا ، بہار میں ایک چراغ سے بی جے پی نے تین شکار کرلئے ،اسی سے جنتادل متحدہ کی لنکا جلائی ،اپنا گھر روشن کیا اورپھر چراغ کو بجھادیا ۔اس طرح بہار اسمبلی انتخابات نے دوپارٹیوں جنتادل متحدہ اورلوک جن شکتی پارٹی کے لئے وجود کا مسئلہ پیدا کردیا ۔سیاست میں جو محاورہ سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ،’’ کوئی ایسا سگا نہیں، جس کوہم نے ٹھگا نہیں‘‘ ، یہ بات سب سے زیادہ بی جے پی پر صادق آتی ہے ۔
ترنمول کانگریس بھی ان ہی پارٹیوں میں سے ایک ہے جو کبھی بی جے پی کی اتحادی پارٹی ہوا کرتی تھی اورمغربی بنگال میں بی جے پی کے قدم مضبوط کرنے میں ممتابنرجی کا بہت بڑا رول رہاہے ۔ترنمول کانگریس کے سہارے ہی بی جے پی نے ریاست میں اپنا کھاتہ کھولا اورپہچان بنائی اورآج اسی کے سامنے چیلنج بن کر کھڑی ہوگئی ۔جب ترنمول کانگریس نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا تو اس کے پیش نظر ضرور یہ بات تھی کہ وہ اس کے سہارے کمیونسٹوں کا مضبوط قلعہ کو منہدم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جو کانگریس میں رہ کریا اس کے ساتھ اتحاد کرکے ممکن نہیں تھا لیکن بی جے پی کے پیشن نظر صرف ریاست میں اپنی پہچان بنانا ، وجود کو ثابت کرنا اورمستقبل میں سب کے لئے چیلنج بننا تھا ۔اوروہی ہوا وقتی طور پر ترنمول کانگریس کو فائدہ ہوا ۔ اس نے اتحاد کے سہارے نہ صرف ریاست میں کمیونسٹوں کا مضبوط قلعہ منہدم کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا بلکہ ان کا ایک طرح سے صفایا بھی کردیا۔ہوسکتا ہے کہ آگے حالات بدلیں تو ایک بارپھر ترنمول کانگریس اپنی ساکھ اورزمین بچانے کے لئے کانگریس اورکمیونسٹوں کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہوجائے کیونکہ اگر بی جے پی کی پیش قدمی جاری رہی تو ایسا ہوسکتا ہے اورسیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔سیاست کا یہی تو کمال ہے کہ کب دشمن دوست اوردوست دشمن بن جاتے ہیں ، کوئی نہیں جانتا اورسمجھتا۔
ترنمول کانگریس ریاست میں اگر چہ اقتدار میں ہے ۔ان کی مقبولیت کے قریب اب بھی بی جے پی کا کوئی لیڈر چاہے دلیپ گھوش ہوں یا مکل رائے نہیں ہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی ریاست میں اتنی مضبوط ہوچکی ہے اوراس کی گرفت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اوروہ اقتدار کی مضبوط دعودیدار بن گئی ہے ۔اس بات کو ترنمول کانگریس بھی سمجھ رہی ہے اوربی جے پی بھی ،سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ بھی سمجھ رہے ہیں ۔ تب ہی تو دونوں پارٹیوں کے کارکنان ولیڈران میں تشدد کی نئی لہر شروع ہوگئی ہے جو وہاں کی سیاست کی پرانی روایت رہی ہے ۔کارکنوں کو لڑایا جاتا ہے اوراس پر سیاسی روٹیاں سینکی جاتی ہیں ۔ بی جے پی کے صدر جگت پرکاش نڈا کے قافلہ پر مبینہ حملے پر جس طرح مرکزی حکومت اورممتاسرکار آمنے سامنے ہوئی ہیں اوردونوں اپنے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دبائو کی پالیسی پر عمل کررہی ہیں اس پر کسی کو حیرت نہیں ہے ۔
بی جے پی کے صدر پر مبینہ حملے کے بعد بی جے پی نے جس طرح لااینڈآرڈر کا مسئلہ اٹھایا ، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بیان دیا اوران کی وزارت نے ممتاسرکار اورگورنر سے رپورٹ طلب کی ۔اس پر گورنر نے تو حسب معمول اپنی رپورٹ بھیجنے اورممتاسرکار کے خلاف بیان دینے میں ذرا بھی دیر نہیں کی لیکن جس طرح ممتاسرکار نے رپورٹ بھیجنے ، کابینہ سکریٹری ، انسپکٹر جنرل آف پولیس کو مرکزی وزارت داخلہ کو جواب دینے کے لئے بھیجنے اورتین آئی پی ایس افسران کا ڈیپوٹیشن پر بھیجنے کاحکم ماننے سے انکار کیا ، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مرکزی سرکار ترنمول کانگریس سرکار کے سامنے زمین تنگ کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے ۔وہیں ممتا سرکار اپنے حدود میں رہتے ہوئے آنکھیں دکھارہی ہیں اورکسی بھی حال میں مرکز کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہے۔یہ رسہ کشی پہلے بھی ہوتی تھی لیکن اب الیکشن کے پیش نظر کچھ زیادہ ہی ہورہی ہے ۔
دراصل بی جے پی کی کوشش ہے کہ اسمبلی الیکشن کے بعد کیا اس سے پہلے ہی ریاست میں ترنمول کانگریس کی حکومت ختم ہوجائے اورصدرراج لگ جائے یعنی چور دروازے سے بی جے پی کی حکومت میں وہاں اسمبلی انتخابات ہوں جو ممتا بنرجی کسی بھی حال نہیں ہونے دیں گی۔صدر راج لگانے کے لئے ٹھوس بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے صرف گورنر کی رپورٹ کافی نہیں ہے ، وہ بھی ایسے گورنر کی رپورٹ جو بھیجتے ہی رہتے ہیں ۔ وہ اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے اورریاستی حکومت سے تعلقات خوشگوار رکھنے کے بجائے ہمیشہ اس کے خلاف ہی رہتے ہیں ۔ اسی لئے ریاستی سرکار سے زیادہ راج بھون کے رول پر انگلیاں اٹھتی ہیں ۔
ممتاسرکار کی پریشانی یہ ہے اسے بیک وقت دوطرفہ لڑائی لڑنی پڑرہی ہے ۔ حکومت کی سطح پر مرکز اورراج بھون سے اورزمین پر بی جے پی کے لیڈروں اورکارکنان سے ۔آگے اس سے بھی بڑاچیلنج ممتا سرکار کے سامنے آنے والا ہے جب بی جے پی فرقہ پرستی کی سیاست کو ہوا دے گی جس کا آغاز این آرسی کے تعلق سے پارٹی کے لیڈروں کے بیانات سے ہوچکا ہے ۔بی جے پی یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ مغربی بنگال بہت حساس ریاست ہے ۔وہاں ہندو۔ مسلم کارڈ کھیلنے کے لئے زمین بھی تیار ہے بس اس کو مہم کی شکل دینا باقی ہے ۔آسام کی طرح وہاں بھی بنگلہ دیشی دراندازی ، این آرسی ، این پی آر اورسی اے اے کے ایشوز کے ذریعہ ماحوال کو خراب کیا جاسکتا ہے اورسماج کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرکے اقتدارپر قبضہ کے لئے ضروری ووٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔لوک سبھا انتخابات میں وہ 40 فیصد ووٹ حاصل کرچکی ہے ۔ تھوڑا ووٹ حاصل کرلے یا مخالف ووٹوں کو تقسیم کرادے تو ایک اوربڑی ریاست پر قبضہ کا اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات اوراسمبلی انتخابات کے ایشوز الگ الگ ہوتے ہیں اورضروری نہیں ہے کہ جو لوک سبھا الیکشن میں جیتے وہ اسمبلی الیکشن میں بھی جیت جائے یا اس کے برعکس لیکن کچھ نہ کچھ عکس ایک الیکشن کا دوسرے الیکشن پر ضرور نظر آتا ہے اوراس کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔بی جے پی کے آج جو حوصلے بلند ہیں اورریاست کے اقتدار پر قبضہ کا خواب دیکھ رہی ہے ، وہ لوک سبھا الیکشن میں زبردست کامیابی کا ہی اثر ہے ۔ممتا بنرجی کو بھی کہیں نہ کہیں اس کا ڈرتو ہوگاہی ۔یہ بات تو وہ بھی اچھی طرح سمھتی ہے کہ اگرچہ اسمبلی میں اسے دوتہائی اکثریت حاصل ہے اورجس بایاں محاذ سے اس نے اقتدار چھینا تھا وہ اب مقابلہ میں کہیں بھی نہیں ہے بلکہ اسے اپنے وجود کو برقراررکھنے کے لئے خود ہی کسی اورپارٹی کے سہارے یا اس کے ساتھ اتحاد کی ضرورت پڑرہی ہے لیکن بی جے پی بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آگئی ہے۔2016کے اسمبلی انتخابات سے اب تک حالات بہت کچھ بدل چکے ہیں اوراس کا ایک نمونہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں دیکھنے کو مل چکا ہے ۔
مغربی بنگال میں مسلم آبادی 25فیصد سے زیادہ ہے یعنی ہر چوتھا ووٹر مسلم ہے ۔مسلمان وہاں ہر الیکشن میں فیصلہ کن رول ادا کرتے رہے ہیں ۔ جب تک مسلمان کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ رہے، کمیونسٹ پارٹیاں جتتی رہیں لیکن جیسے ہی وہ ترنمول کانگریس سے جڑے ممتابنرجی اقتدار میں آگئیں ۔اس وقت بھی ممتابنرجی کا بہت بڑا ووٹ بینک مسلم آبادی ہی ہے ۔بی جے پی اپنی سیاست کا محور بھی اسی مسلم آبادی کوبنا رہی ہے۔ ممتابنرجی جتنی مثبت سیاست کریں گی بی جے پی اتنی ہی منفی سیاست کرکے لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کرے گی۔ممتاسرکار کو کمیونسٹوں اورکانگریس کے اتحاد سے اتنا خطرہ نہیں ہے ۔ان کی زمین کھسک چکی ہے اورایک دوسرے کے ووٹ بھی ٹرانسفر نہیں ہوتے ۔ہوسکتاہے کہ اس اتحاد کی بدولت وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن اس کا امکان بہت کم ہیں کہ وہ کنگ میکر بن جائیں ۔ اصلی لڑائی مسلم اکثریتی حلقوں میں ہوگی جن کی تعداد 125بتائی جاتی ہے ۔ پچھلے اسمبلی انتخابات میں ان میں سے 90سیٹیں ترنمول کانگریس کو ملی تھیں جبکہ اس سے پہلے 2011کے اسمبلی انتخابات میں وہ 95 سیٹوں پر جیتی تھی لیکن اب حالات کافی بدل چکے ہیں۔
بہاراسمبلی انتخابات میں پانچ مسلم اکثریتی سیٹوں پر کامیابی سے حوصلہ پاکر اسدالدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحادالمسلمین نے اب مغربی بنگال میں بھی پرچم لہرانے اوروہاں 70 امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ بہار میں پارٹی کے صرف 20امیدوار انتخابی میدان میں تھے جن میں سے پانچ کامیاب ہوئے اب اگرمغربی بنگال میں 70امیدوار کھڑے ہوئے تو بڑے پیمانے پر نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔پارٹی نے بڑی ہوشیاری سے ایک طرف جہاں اپنے امیدواروں کی تعداد بتادی وہیں ترنمول کانگریس کی طرف اتحاد کا ہاتھ بھی بڑھادیا تاکہ اتحاد کی بات آئے یا ہو تو زیادہ سے زیادہ سیٹوں کے لئے دبائو ڈال سکے ۔ممتابنرجی نے ابھی تک اویسی کے اعلان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے حالانکہ پارٹی کے دوسرے لیڈروں نے ضرور کہا ہے کہ ریاست میں مجلس کاکوئی وجود نہیں ہے ۔
بنگال میں مجلس اتحاد المسلمین کا داخلہ بی جے پی کا کام آسان کر سکتا ہے۔ بی جے پی علی الاعلان ایک کٹر ہندو پارٹی ہے، اگر اس کے سامنے کوئی مبینہ کٹر مسلم پارٹی آجائے تو اس کا ڈر دکھا کر وہ بہ آسانی دوسری پارٹیوں کو جانے والے سیکولر ووٹوں کو اپنے حق میں موڑ سکتی ہے۔ اگر مجلس کا اتحاد ترنمول کانگریس کے ساتھ نہیں ہوتا ہے اورمسلم اکثریتی حلقوں سے کچھ اورپارٹیوں سے یا آزاد مسلم امیدوار بڑی تعداد میں کھڑے ہوتے ہیں تو اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوگا اورنقصان ترنمول کانگریس کو۔مسلم ووٹوں کو متحد رکھنے کی جتنی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے اتنی ہی ترنمول کانگریس کی ہے ۔بی جے پی نے اپنا کھیل شروع کردیا ہے بلکہ بہت پہلے سے کھیل رہی ہے اب ممتابنرجی کی باری ہے کہ وہ 90-95سیٹیں مسلم اکثریتی حلقوں سے حاصل کرتی تھیں،انہیں کس طرح برقرار رکھتی ہیں۔اگروہ اس میں کامیاب ہوگئی تو ان کی حکومت بچ جائے گی ورنہ یہی مسلم حلقے بی جے پی کو اقتدار کی دہلیز پر پہنچادیں گے ۔مسلم ووٹ متحد رہے تو وہ جس کو ووٹ دیتے ہیں ، وہ پارٹی کامیاب ہوتی ہے لیکن اگر وہ تقسیم ہوئے تو ضائع ہوجاتے ہیں اوراس صورت میں بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں ۔
ترنمول کانگریس کے پاس ریاستی حکومت ہے تو بی جے پی کے پاس مرکزی سرکار ۔ ظاہر سی بات ہے کہ دونوں ہی انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی پوری کرشش کریں گی ۔وہاں تشدد کی نئی لہر کے بعد جس طرح بی جے پی کے سینئر لیڈراورالیکشن کمیشن کے دورے ہورہے ہیں۔ترنمول کانگریس کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں ۔اسے کئی محاذوں پر لڑنا پڑسکتا ہے ۔لااینڈآرڈر کوقابومیں رکھنا سب سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے ۔ الیکشن میں ترنمول کانگریس کو نہ صرف بی جے پی سے مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ مجلس اتحاد المسلمین اورکانگریس وکمیونسٹ اتحاد بھی اس کے سامنے چیلنج بنیں گے ۔ جتنی زیادہ پارٹیاں اورامیدوار میدان میں ہوں گے بی جے پی کو اتنا ہی فائدہ ہوگا ۔اس لئے بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے اورفیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔زیادہ وقت نہیں ہے ، اگلے سال اپریل اورمئی میں انتخابات ہوں گے ۔
پچھلے اسمبلی انتخابات میں 90مسلم اکثریتی حلقوں میں کامیابی سے ترنمول نے 295 رکنی اسمبلی میں اپنی سیٹوں کی تعداد 211تک پہنچادی لیکن اس بار حالات بدل گئے ۔ 2011کے اسمبلی انتخابات میں صفر اور2016 کے اسمبلی انتخابات میں صرف 3سیٹیں جیتنے والی بی جے پی 2019کے لوک سبھا انتخابات 42 میں سے 18سیٹیں جیت کر خطرے کی گھنٹی بجاچکی ہے ۔بس ریاستی اقتدار پر قبضہ کرنا باقی ہے ۔ترنمول کانگریس کی معمولی غلطی اس پر بھاری پڑسکتی ہے اوربی جے پی اسی کوشش میں ہے ۔آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس اپنی حکومت بچانے اور بی جے پی اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوں گی کہ نہیں ابھی کچھ نہیں ہوسکتا لیکن وہاں جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں ، کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ بہارکے انتخابات جس طرح ہوئے اوروہاں کے نتائج جیسے آئے ، مغربی بنگال میں بھی وہ کھیل دہرایا جاسکتا ہے۔
٭٭٭
بی جے پی سے جن پارٹیوں نے اتحاد کیا ، وہ کھوکھلی ہوئیں اوران کو نقصان پہنچا اورجب انہیں اس کا احساس ہوتاہے تواس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے پھر وہ سنبھلنا بھی چاہیں تو ممکن نہیں ہوتا ۔بیجو جنتادل نے اس چیز کو بہت پہلے بھانپ لیا تھاتو وہ آج تک اپنے بل بوتے پر اقتدارمیں ہے ، شیوسینا بہت بعد میں سمجھ پائی اوربڑی مشکل سے خود کو سنبھالا ، بہار میں ایک چراغ سے بی جے پی نے تین شکار کرلئے ،اسی سے جنتادل متحدہ کی لنکا جلائی ،اپنا گھر روشن کیا اورپھر چراغ کو بجھادیا ۔اس طرح بہار اسمبلی انتخابات نے دوپارٹیوں جنتادل متحدہ اورلوک جن شکتی پارٹی کے لئے وجود کا مسئلہ پیدا کردیا ۔سیاست میں جو محاورہ سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ،’’ کوئی ایسا سگا نہیں، جس کوہم نے ٹھگا نہیں‘‘ ، یہ بات سب سے زیادہ بی جے پی پر صادق آتی ہے ۔