ریاض احمد جسٹس
یہ قدیم زمانے کی بات ہے کسی ملک میں ایک رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا جو اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے بڑا مشہور تھا۔بادشاہ نے اپنے وزیروں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ اُسے ملک کے کونے کونے کی خبروں سے باخبر رکھا جائے تاکہ کوئی بھی غریب آدمی انصاف سے محروم نہ رہے۔
ایک دن بادشاہ کا وزیر سمندر کے کنارے کسی کام سے اپنے قافلے کے ساتھ گزر رہا تھا کہ اُس نے ایک بوڑھے آدمی کو سمندر کے کنارے کے ساتھ ساتھ دوڑتے اور یہ کہتے ہوئے سنا”میرا خزانہ سمندر کے اُس پار ہے“بوڑھا آدمی دوڑتا ہوا کبھی اس طرف آتا اور کبھی دوڑتا ہوا دوسری طرف جاتا۔
وزیر بوڑھے کی یہ بات سن کر بڑا حیران ہوا۔اس نے سوچا کیوں نہ اس بوڑھے آدمی کو پکڑ کر اُس کے خزانے کا پتہ معلوم کروں۔
وزیر نے اُس بوڑھے آدمی کو قید کر دیا اور بادشاہ کو اس بات سے بے خبر رکھا کئی دن گزرنے کے بعد بھی وزیر اُس بوڑھے آدمی سے خزانے کا پتہ نہ پوچھ سکا۔
وزیر نے سوچا تھا کہ میں بوڑھے آدمی کا بتایا ہوا خزانہ حاصل کرنے کے بعد ملک کا امیر ترین آدمی بن جاؤں گا مگر اُس کا خواب پورا نہ ہو سکا۔وزیر بوڑھے آدمی کو روز مارتا اور ایک ہی سوال پوچھتا کہ خزانہ کہاں ہے مگر بوڑھا ایک ہی جواب دیتا کہ ”میرا خزانہ سمندر کے اُس پار ہے“ وزیر بوڑھے کی روز ایک ہی بات سن کر تنگ آچکا تھا۔
وہ سمجھ گیا کہ بوڑھے کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے۔اگر کوئی خزانہ ہوتا تو یہ پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ سمندر کے کنارے زندگی بسر نہ کرتا۔یہ تو کوئی مجھے پاگل،دیوانہ لگتا ہے۔کیوں نہ میں اپنے دل کی میل کو صاف کرکے یہ ساری باتیں بادشاہ سلامت کو بتاؤں۔
ہو سکتا ہے یہ بوڑھا آدمی بادشاہ کو ہی خزانے کا پتہ بتا دے یا اُس کو پاگل سمجھ کر چھوڑ دے۔وزیر نے یہ سارا معاملہ بادشاہ سلامت کو بتایا۔
بادشاہ نے اپنے خادموں سے کہا اس بوڑھے آدمی کو صاف ستھرے کپڑے پہنا دوں اور کھانا کھلا کر میرے پاس لے آؤ پھر بادشاہ نے کہا ”بابا جی آپ کا خزانہ کہاں ہے؟“بوڑھے آدمی نے پھر وہی جواب دیا کہ میرا خزانہ سمندر کے اُس پار ہے۔
بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا کہ بوڑھا آدمی جہاں کہتا ہے اُسے وہاں لے جاؤ۔وزیر نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔اگلے دن صبح سویرے گھوڑے تیز رفتاری سے دوڑتے چلے جا رہے تھے۔پھر مختلف راستوں سے گزرنے کے بعد ایک جگہ زمین نرم ہونے کی وجہ بادشاہ کے وزیر کا گھوڑا زمین میں پھنستا چلا گیا۔
مجبوراً قافلے کو رات وہی قیام کرنا پڑا۔پھر اگلی صبح ہوتے ہی وہ اپنی منزل کی طرف چل پڑے سفر کئی دنوں تک جاری رہا۔جنگلوں سے نکل کر قافلے نے پہاڑوں کا رخ کیا۔
پھر سمندر پار کیا تو ایک تنگ سی پہاڑی راستے سے گزر کر قافلہ وہاں پہنچا تھا اس لئے گھوڑوں کو باہر رکنا پڑا پھر بوڑھا آدمی خوشی سے سب کو چھوڑ کر ایک غار کے اندر چلا گیا جہاں اُس نے اپنا خزانہ دبایا ہوا تھا۔
غار کے اندر جا کر بوڑھے آدمی نے قافلے والوں کو آواز دی۔آجاؤ میرے ساتھیو!۔۔۔خزانہ مل گیا ہے۔جب غار کے اندر آکر قافلے والوں نے پھٹی پرانی ڈھیر ساری کتابوں کو دیکھا تو وہ حیران ہو ئے کیا اُس بوڑھے آدمی کا یہ خزانہ ہے مگر قافلے والے کر بھی کیا سکتے تھے جب وزیر اور اُس کے ساتھی پھٹی پرانی کتابیں کو گھوڑوں پر لاد کر بادشاہ کے محل میں پہنچے تو بادشاہ بوڑھے آدمی کی پھٹی پرانی کتابیں دیکھ کر حیران رہ گیا اور دل میں سوچنے لگا کہ کیا بوڑھے آدمی کا خزانہ یہ پھٹی پرانی کتابیں ہی ہیں۔
مگر بادشاہ عقل مند تھا اس نے بوڑھا آدمی سے پوچھا۔۔۔بابا جی آپ ان کتابوں کی قیمت مجھ سے کیا لیں گے۔۔۔ بوڑھے آدمی نے جواب دیا۔۔۔میں یہ کتابیں کسی قیمت پر نہیں بیچوں گا کیوں کہ یہ کتابیں میرے بزرگوں نے اپنے بزرگوں سے لی تھیں ۔
بادشاہ بوڑھے آدمی کی بات سن کر بڑا حیران ہوا۔بادشاہ نے ایک مرتبہ پھر بوڑھے آدمی سے کہا۔۔آپ مجھ سے ان کتابوں کے بدلے میں آدھی بادشاہت لے لیں۔۔۔کیا آپ کو یہ سو دا منظور ہے؟۔۔۔بوڑھے آدمی نے پھر کتابیں دینے سے انکار کر دیا۔
بادشاہ نے بوڑھے آدمی کو ہر طرح سے آزما لیا۔بوڑھے آدمی نے آخر کار کہا کہ بادشاہ سلامت اگر آپ مجھے ساری بادشاہت بھی دے دیں تب بھی میں اپنے بزرگوں کی امانت آپ کو نہیں دوں گا۔بادشاہ بوڑھے کی بات سن کر بے حد خوش ہوا اور کہا کہ علم بہت بڑی دولت ہے بادشاہ نے بوڑھے آدمی کی شاگردی اختیار کرلی اور ایک عالم کا شاگرد کہلوانے میں فخر محسوس کیا۔بیشک درخت اپنے پھل سے اور انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے۔
٭٭٭
مگر بادشاہ عقل مند تھا اس نے بوڑھا آدمی سے پوچھا۔۔۔بابا جی آپ ان کتابوں کی قیمت مجھ سے کیا لیں گے۔۔۔ بوڑھے آدمی نے جواب دیا۔۔۔میں یہ کتابیں کسی قیمت پر نہیں بیچوں گا کیوں کہ یہ کتابیں میرے بزرگوں نے اپنے بزرگوں سے لی تھیں ۔