عبدالباری مسعود
اس وقت ملک کو جس تیزی سے ’’ ہندتوا‘ کے خطوط پر استوار کرکے اس کے سیکولر کردار کو مسخ کیا جارہا ہے وہ عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اور یہ عمل مودی حکومت کے 2014میں بر سرا قتدار آنے کے بعد سے اچانک شروع نہیں ہوا ہے ۔ بلکہ اس پر بہت پہلے سے ایک منصوبہ بند اور غیر محسوس طریقہ سے عمل ہورہا ہے۔ اس میں سیاسی عاملہ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا بھی بڑا اہم رول ہے۔
انڈیا کو ’’ ہندو راشٹر ‘‘ یا صحیح معنوں میں ’’ برہمنی راشٹر‘‘ میں تبدیل کرنے کی جو کوششیں ماضی میں ہوئیں اور ہورہی ہیں۔ اس بارے میں مشہور و معروف وکیل اور آئینی ماہر ڈاکٹر ر اجیو دھون کا یہ گہرا تجزیہ ہے کہ عدلیہ نے بھی اس کے لئے راہیں ہموار کی ہیں۔ ان کے بقول سپریم کورٹ نے 1960کی دہائی سے جو فیصلے دینے شروع کئے ہیں ان سے اس تصور کو تقویت ملنے لگی کہ انڈیا بنیادی طور پر ایک ’’ ہندو ‘‘ ملک ہے جس کا اثر اب ــ’’ جارحانہ ہندو قوم پرستی ‘‘ کی شکل میںنظر آرہا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میںبطورخاص تین اہم مقدمات کا ذکر کیا کہ ان سے ’’ ہندو انے‘‘ ‘Hindu-isation’ کے عمل کی راہیں ہموار کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اور یہی فیصلے اجودھیا مقدمہ کے فیصلہ کا پیش خیمہ تھے ۔
ڈاکٹر دھون نے جنہوں نے انڈیا کی تاریخ میں انتہائی اہم مقدمات میں سے ایک یعنی بابری مسجد بنام رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں مسلم فریقوں کی پیروی کرکے خوب نیک نامی حاصل کی ،ایک ویب سائٹ ہف پوسٹ انڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ عدلیہ بھی ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی راہ ہموار کرتی رہی۔
اس حوالے سے دھون کے مطابق ’’میرے خیال میں اس سلسلہ میں پہلا فیصلہ 1966 میں آیا جو یگنا پور داس جی Yagnapur Das Ji کے نام سے مشہور ہے ۔جس میں جسٹس (پرہلا د بال اچاریہ) گجیندر گڈکر نے عندیہ دیا تھا کہ اس ملک کا ہر شہری ہندو ہے( یہ بات آر یس ایس کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے)۔ تاہم بہت سے فرقے اور طبقات ہیں جو یہ اصرار کرتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ جسٹس گجیندر گڈکر نے کہا کہ جو لوگ مندر میں جاتے ہیں وہ سب ہندو ہیں اس پر کوئی کلام نہیں اور اس مقدمہ کی حقیقت ہے ۔ لیکن جج موصوف نے کہا کہ ہمیں ہر ایک کو ہندو کے دائرہ میںرکھنے کے لئے ایک جامع تعریف اختیار کرنی چاہئے۔ اس تعریف کے تحت عیسائیوں اور مسلمانوں کے سوا ہر ایک (جین، بودھ مت کے ماننے والے ) سب ہندو ہیں ۔ دھون نے کہا کہ میرے خیال میں یہ ہند و راشٹر کی راہ ہموار کرنے کی جہت میں پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔
ان کے مطابق دوسرا فیصلہ 1995-1996 میں آیا ۔ اس مقدمہ کی پیروی رام جیٹھ ملانی نے کی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ’ہندوتوا‘ کوایک طرز زندگی قرار دیا۔ چیف جسٹس جے ایس ورما کی سربراہی میں تین ججوں کے بنچ نے فیصلہ سنایا کہ آپ اپنے مذہب کے نام پر اپیل کرسکتے ہیں مگر دوسروں کے مذہب کو نشانہ نہیں بنائیں ۔ اس فیصلہ کے عملی معنی یہ ہوئے کہ ہندو اپنے مذہب کی عظمت کے بارے میں جس حد تک چاہے جاسکتا ہے بشرط یہ کہ وہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مذہب کو برا بھلا نہ کہے ۔مگر کیا اس فیصلہ کا اطلاق سب مذاہب کے ماننے والوں پر ہوا ۔ تاہم انتخابی مہموں میں کیا ہوتا ہے،ہندو مہم غالب اور طاقتور ہوتی ہے۔
تاہم 1996 میں انتخابی مہم میں مذہب کے نام پر اپیل کے مقدمہ ڈاکٹر رمیش یشونت پربھو بنام پربھاکر کاشی ناتھ کنٹے کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ نے 2017 میں ابھی رام سنگھ بنام سی ڈی کوماچین مقدمہ کا فیصلہ دیتے ہوئے الٹ دیا ۔ چار اور تین ججوں کی اکثریت سے دئےگئے اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن میں مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنےکی اجازت نہیں دی جاسکتی مگر ایک اقلیتی اختلافی نوٹ لکھا گیا جس کی تشریح سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے مذہب کی بنیاد پر اپیل کرسکتے ہیں۔
اسکے بعد اگلا فیصلہ بابری مسجد کا آیا ۔ ڈاکٹر دھون نے کہا کہ مسلمانوں نے مسجد پر 1858 سے اپنا قبضہ ثابت کردیا کیوں کہ برطانوی حکومت نے یہاں زمین بطور عطیات دی تھیں۔ تاہم تمام شواہد کے برخلا ف یہ فیصلہ صادر کیا گیا کہ یہ مسجد 1858 سے ہندوؤں کے قبضہ میں تھی اس لئے انہیں یہاں پوجا کرنے کا حق ہے۔ حالانکہ 1886 کے فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ مسجد مسلمانوں کی ملکیت ہے ۔ ہندو فریق کو اپنی ملکیت ثابت کرنے کو بالکل نہیںکہا گیا۔ جبکہ 1886 کے فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وہ ( ہندو) مسجد کے مالک نہیں ہیں ۔ (اجودھیا کا فیصلہ) سپریم کورٹ کی تاریخ کا سب سے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز فیصلہ ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان چار دہائیوں میں آپ نے صرف تین مقدموں کا ذکر کیا۔ تو وہ گویا ہوئے کہ عدالتوں میں اس نوع کے فیصلے ہوتے رہے ہیں جس میں عدالتوں نے ہمیشہ ہندازم کی چھاپ کا خیال رکھا۔ پہلا فیصلہ مہایانا ہندو مذہب کا ہے۔ دوسرا الیکشن میں مذہب کے بنیاد پر اپیل سے متعلق ہے۔ جب آپ 2002کے گجرات فسادات سے متعلق مقدمات کے فیصلوں پر نگاہ ڈالیں گے تو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ہمدردی کا عنصر نظر آتا ہے مگر عدالت نے سوائے قانون کے اہم نکات کے مسلمانوں کی بالکل حمایت نہیں کی۔ جب فیصلوں میں کسی تحریک کو شامل کیا جاتا ہے تو وہ جارحانہ قوم پرستی کی طرف رخ کرتی ہے۔
ہندو خطوط پر استوار کرنے کی یہ تبدیلیاں اسی انداز میں واقع ہوتی رہیں ۔ یہ ابتدا میں ہلکی نوعیت کی تھی اور پھر یہ توانا ہوتی گئی ۔ رتھ یاترا اور بابری مسجد کی وجہ سے یہ طاقتور سے طاقتور ہوتی چلی گئی اور سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) کی منظوری کے بعد طاقتور ترین بن گئی۔ ہندو بنیاد پرستی ہمیشہ موجود رہی مگر اس کے توانا بن جانے کے بعد وہ جارحانہ شکل اختیار کر گئی ۔
بطور مثال سابق چیف جسٹس (رمیش چندر) لاہوٹی (2004-2005) سبکدوش ہونے سے پہلے اس بات کے لئے بڑے فکر مند تھے کہ گایوںکا ذبیحہ بند کیا جائے۔ چنانچہ وہ 1958 کے پانچ ججوں کی بنچ کے فیصلہ کو الٹنا چاہتے تھے ۔ ریٹائر ہونے سے کچھ دن پہلے ہی چیف جسٹس لاہوٹی نے اچانک ہی اس معاملہ کو از خود سماعت کرکے فیصلہ سنایا کہ گائے واقعی ایک مقدس جانور ہے اور ہمیں اسے ذبح نہیں کرنا چاہئے۔ (خیال رہے 1958 میں محمد حنیف قریشی و دیگر بنام حکومت بہار میں پانچ ججوں کی ایک بینچ نے گائے کے ذبیحہ پر مکمل پابندی کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے اسے ’’ بیکار‘‘ ہوچکی گایوں تک محدود کردیا۔ تاہم 2005 میں، سپریم کورٹ کی سات رکنی بینچ نے حکومت گجرات بنام مرزا پور موٹی قریشی قصاب مقدمہ میں گائے کے ذبیحہ پر مکمل پابندی کے حق میں فیصلہ دیا تھا ۔ اس فیصلہ کا یہ مشہور جملہ ہے کہ ’’گوبر کی قیمت مشہور ہیرے کوہ نورسے بھی زیادہ ہے‘‘۔
ملک میں ہندو پرستی کے حوالے سے صرف اجودھیا کا معاملہ ہی نہیں تھا بلکہ بہت کچھ ہورہا تھا ۔ گائے کی مہم ، تبدیلی مذہب کی مہم ، جارحانہ ہندوقوم پرستی وغیرہ یہ سب مہمات اقلیتوں کے خلاف مختلف سطحوں پر جارہی ہیں۔ سی اے اے کا معاملہ لیں اس کے خلاف متعدد عرضیاں سپریم کورٹ میں دائر ہیں ۔ عدالت چاہتی تو آسانی سے اس ترمیم شدہ قانون کو اسٹے دی سکتی تھی کیونکہ ابھی تک اس کا اطلاق عمل میں نہیں آیا ۔ اس کے برخلاف جب وزیراعظم وی پی سنگھ کی حکومت نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے حکم جاری کیا تو عدالت نے فوراً اس پر اسٹے دے دیا۔ کشمیر کے معاملے میں بھی عدالت کا رویہ قابل غور ہے یہاں تک کہ حبس بیجا اور حقوق انسانی سے متعلق عرضیوں پر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ۔
آزادی کے بعد مسلمانوں کو اس ملک میں جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا کرناپڑا۔ ان کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کی تہ سے یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے اس میں بعض عدالتی فیصلوں کا بڑا دخل ہے ۔ بطور مثال شاہ بانو مقدمہ کا فیصلہ لیں اسے نظیر بناکر برہمنیت کی علمبرارد طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک شر انگیز مہم شرو ع کردی حالانکہ یہ معاملہ سراسر مسلم فرقہ کاایک داخلی معاملہ تھا اس سے عملاً کسی کاکوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔
دیگر عدالتوں فیصلوں میں بابری مسجد کا فیصلہ ، طلاق ثلاثہ فیصلہ جس کا مقدمہ سپریم کورٹ نے از خود قائم کیا، آسام میں شہریت کا مسئلہ کو الجھانے اور سنگین بنانے میں عدالت کے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ ( غیر قانونی تارکین وطن کا پتہ لگانے کے قانون) کو ختم کر نے کے فیصلہ کو بڑا رول ہے، اس فیصلہ میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ بھی قابل تشویش ہے ۔ اسی طرح عدالت کا باربار یکساں سول کوڈ کی گردان کرنا جبکہ بڑے بڑے سنگین مسائل سے صرف نظر کرنا وغیرہ ۔ یہ حقائق کس طرف اشارہ کرتے ہیں انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
جمہوری نظام کے چار اہم ستون میں عدلیہ بھی شامل ہے جسے آئین اور حقوق انسانی کا محافظ کہا جاتا ہے۔ تاہم ملک میں عدالتیں جس نہج پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں ان کے اس رویہ پرانگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ خود عدالت کے بر سرکا ر چار سینئر ترین ججوں نے جن میں سے ایک بعد میں چیف جسٹس بھی بنے، جنوری 2018 میں ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے کہا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سب کچھ ٹھیک نہیں اور جمہوریت کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اور بے نظیر پریس کانفرنس تھی ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ تازہ مثال مشہور وکیل پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ کی ہے جن کے دو ٹوئیٹ پر سپریم کورٹ نے ازخود مقدمہ چلایا ۔ جبکہ غیرمعمولی اہمیت والے مقدمات کی سماعت کے لئے عدالت کے پاس وقت نہیں ہے۔ایسے ہی امور کی طرف پرشانت بھوشن نے اپنے ٹوئٹ میں توجہ دلائی تھی مگر وہ توہن عدالت کے قصوار قرار دیئے گئے۔