ابو سعود
نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ،طلاق ثلاثہ،سی اے ا ے ،لاک ڈائون اوراب زرعی قوانین، وہ فیصلے اورقوانین ہیں جونہ صرف یہ کہ ملک وقوم کو اندھیرے میں رکھ کر کئے گئے بلکہ نہ چاہتے ہوئے زبردستی ان پرتھوپ دیئے گئے ۔ جن کی نہ ضرورت تھی اورنہ عوام کی طرف سے مانگ کی گئی تھی۔اس کے برعکس عوام کی طرف سے ان کی مخالفت اورواپس لینے کی مانگ کی گئی تو اس کی پرواہ نہیں کی گئی ۔ان کی ایک بھی بات نہیں سنی گئی اورہٹ دھرمی وتاناشاہی جیسا رویہ اختیار کیا گیا جیسے سرکار نے جو کہہ دیا یا کردیا ، وہی چلے گا اوراس پر کوئی نظرثانی نہیں ہوگی چاہے لوگوں کو نقصان ہو یا ملک کو ۔موجودہ سرکار میں اس طرح کے متنازعہ فیصلوں اورقوانین کی ایک سریز چلی آرہی ہے ۔ان کی جتنی مخالفت کی گئی سرکار نے اتنا ہی ضدی رویہ اختیار کیا۔
تین زرعی قوانین پر اس وقت ملک میں جو ہنگامے ہورہے ہیں ۔ کسان احتجاج ومظاہرے کررہے ہیں ۔راجدھانی دہلی میں آکر دھرنا دے رہے ہیں ۔اس میں ان کو کتنی پریشانی ہورہی ہے ، وہ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جس کووڈ ۔ 19 کوسرکار اس وقت سب سے بڑا خطرہ بتارہی ہے ، اس سے بھی بڑا خطرہ ان کے لئے زرعی قوانین ہیں جن کی واپسی تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے ، پھر بھی سرکار ان کی بات ماننے کو تیار نہیں ، کسان بھی جھکنے اور سرکار کی کوئی بات یا اپیل سننے کو تیار نہیں ہیں ۔ہٹ دھرمی دونوں طرف برابر ہے ۔ کسانوں کے لئے اپنے وجود کا سوال ہے تو سرکار کے لئے انااورسیاسی چندے کا جس کے لئے قوانین بنائے گئےہیں ۔سیدھی سی بات ہے کہ اگر کسانوں کے لئے یا ان کے حق میں قوانین بنائے جاتے تو ان سے صلاح ومشورہ کیا جاتا ، ان کو کھیتوں اوربازاروں میں کیا کیا پریشانیاںہوتی ہیں، ان سے ان ہی کی زبانی آگاہی حاصل کی جاتی ہے ، اگر کسانوں سے مشورہ نہیں کیا گیا تو کم از کم اس موضوع پر ماضی میں تشکیل دیئے گئے کمیشنوں خصوصاًسوامی ناتھن کمیشن یا بی جے پی کے لیڈروں کی طرف سے دیئے گئے بیانات اوراس کی ریاستی حکومتوں کی طرف سے مرکزی سرکار کو لکھے گئے خطوط کو سامنے رکھ لیا جاتا جن کو پیش کرکے اپوزیشن پارٹیاں اس وقت سرکار کو آئینہ دکھارہی ہیں ۔کیا وہ بیانات اورخطوط بھی جملے یا جھوٹ تھے جن کی یاددہانی پر توجہ نہیں دی جارہی ہے ؟پہلے اچھی طرح ہوم ورک کیا جاتا اورسب سے خصوصامتعلقہ طبقات سے مشورے کئے جاتے پھر قوانین بنائے جاتے تو آج جس طرح کے حالات ہیں ، وہ نہیں پیدا ہوتے ،لیکن وہ مقصد نہ پہلے تھا اورنہ اب ہے ۔ مشورہ تو کسی اورسے کیا گیا اوراس کےدوطرفہ فوائد کو سامنے رکھ کر قوانین بنادیئے گئے ۔
زرعی قوانین کے پس پشت سرکارکی بدنیتی اسی وقت سامنے آگئی تھی جب مطالبات کے بغیر ہی ایسے قوانین بنادئے گئے۔حالانکہ ان کی کوئی جلدی نہیں تھی اورنہ کوئی آفت آرہی تھی، پھر بھی کورونا اورلاک ڈائون کے دوران چور دروازے سے یعنی آرڈیننس کی صورت میں انہیں نافذ کیا گیا اور زبردستی پارلیامنٹ خصوصا راجیہ سبھامیں ان بلوں کو پاس کرایا گیا ۔ پارلیامنٹ میں بحث کی صرف رسم ادا کی گئی ورنہ بحث کے دوران پیش کی گئیں تجاویزپر توجہ دی جاتی یا اتنے اہم بلوں کو غوروخوض کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا جاتا ۔اس بات سے سرکار بھی انکار نہیں کرسکتی کہ جتنی جلد بازی کا مظاہرہ اس نے کیا ، اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ایسے میں ان قوانین کو غلط اوربدنیتی پر مبنی کیوں نہیں کہا جائے؟ کتنی تشویش کی بات ہے کہ آج وہ لوگ اورمرکزی وزرا جنہوں نے کبھی کھیتوں میں قدم نہیں رکھا اوریہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کھیتی کس طرح کی جاتی ہے پھر کسان اناج کس طرح فروخت کرتے ہیں خود کو زراعت کا ماہر بتاکر زرعی قوانین کو صحیح بتارہے ہیں اورجو کسان دن رات کھیتوں میں رہتے ہیں ،فصلیں اگاکر ان کو بیچتے ہیں اورزراعت ان کے لئے روزگار اورپیشہ ہے ، اسی سے ان کی زندگی چلتی ہے ، ان کو اوران کی مانگ کو غلط بتارہے ہیں ۔ اس سے زیادہ بے شرمی کی بات یہ ہے کہ جو کسان زرعی قوانین کے خلاف احتجاج ومظاہرہ کررہے ہیں اورجن سے سرکار بات چیت کررہی ہے، ان کو مرکزی وریاستی وزرا اوربی جے پی کے لیڈر کبھی خالصتاتی تو کبھی دہشت گرد ، کبھی نکسلی تو کبھی دوسروں کے اشارے پر ناچنے والے کہہ رہے ہیں یعنی ایک طرف سرکار کسانوںسے بات چیت کررہی ہے اور دوسری طرف انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ہے ۔کسان زرعی قوانین کے خلاف تین چار ہفتوں سے احتجاح نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ اسی وقت سے احتجاج کررہے ہیں جب انہیں آرڈیننس کی شکل میں نافذ کیا گیا تھا ۔شروع میں وہ مقامی سطح پر احتجاج کررہے تھے اب قومی سطح پر اوردہلی آکر احتجاج کرنے پر مجبورہیں لیکن سرکار کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ آرڈیننس کی تیاری اوربلوں کی کابینہ یا پارلیامنٹ سے منظوری کے بیچ میں ایک بار بھی احتجاج کرنے والے کسانوں سے بات چیت نہیں کی گئی۔زرعی قوانین کی منظوری اور نفاذ کا پوراکھیل منصوبہ بند طریقے چند دنوں کے اندر ہی کھیلا گیا ۔
’’کسان نہیں سن رہے رہیں‘‘،’’ کسان نہیں سمجھ رہے ہیں ‘‘ ،’’ کسان نہیں مان رہے ہیں‘‘،’’ کسان کسی اورکے اشارے پر ناچ رہے ہیں‘‘ ،’’ ان کو بیرون ملک سے یا دہشت گرد تنظیموں سے مدد وحمایت حاصل ہورہی ہے ‘‘،’’ اپوزیشن پارٹیاں کسانوں کو گمراہ کررہی ہیں ۔‘‘ یہ صرف سرکار کی طرف کرائے جانے والے پروپیگنڈے ہیں جو سرکار اوربی جے پی کے لیڈرنیز ان کے اشارے پر گودی میڈیا کے لوگ کررہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سرکار نہیں سن رہی ہے ، نہیں مان رہی ہے ،وہ صنعت کاروں کے اشارے پر کام کررہی ہے ،کسانوں کے درد کو نہیں سمجھ رہی ہے اوراپنی بدنامی پر پردہ ڈالنے کے لئے کسانوں کو بدنام کرارہی ہے ۔سرکار سوچ رہی ہے کہ دیگر طبقات کی طرح کسانوں کوبھی بیوقوف بنادے گی یا ڈرادھمکاکر ان کا منھ بند کرادے گی ۔ چندہ داتائوں یعنی صنعت کاروں یا سرمایہ داروں کو زراعت سے فائدہ نہیں ہوا تو وہ الیکشن لڑنے کے لئے چندہ کیسے دیں گے ؟پرکھوں کی بنائی ہوئی کمپنیاں اور عمارتیں پرائیوٹائزیشن کے نام پر گروی رکھی جا چکی ہیں یا بیچی جا چکی ہیں۔ اب سرکار اورصنعت کاروں کی بری نظرکسان اوران کے کھیتوں پر ہے جن کو بیچنے کا انتظام ان زرعی قوانین میں کیا گیا ہے۔کسان تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی اورکے کہنے پر احتجاج نہیں کررہے ہیں، بلکہ انہوں نے خود زرعی قوانین کا اچھی طرح مطالعہ کیا ہے وران کو سمجھ کر ہی احتجاج ومظاہر ہ کرنے کے لئے سڑکوں پر اترےہیں ۔
سرکار اگر کسانوں کی پریشانیوںاور درپیش مسائل کے حل کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو 14اکتوبر سے بات چیت ہورہی ہے ۔کسان کیا چاہتے ہیں ، انہوں نے تحریری شکل میں دے رکھا ہے،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کسانوں نے زرعی قوانین کو اچھی طرح پڑھا اور سمجھاہے ، سرکار کیا چاہتی ہے ، وہ بھی بات چیت کے ذریعہ کسانوں کے سامنے آچکا ہے ۔جو بات چیت ہوتی ہے وہ یونہی نہیں ہوتی ، اس سے پہلے دونوں فریق ہوم ورک کرتے ہیں ۔جہاں کسان بات چیت سے پہلے میٹنگ کرکے اپنا ایجنڈا طے کرتے ہیں پھر ان کا 40رکنی وفد اسی کے اردگرد بات چیت کرتاہے ، وہیں سرکار کے نمائندے بھی کسانوں کے ساتھ بات چیت سے قبل کبھی مرکزی وزراء کے گروپ تو کبھی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کرتے ہیں ۔سرکار نے کسانوں سے تحریری شکل میں ان کے مطالبات لے لئے لیکن کسان سرکار سے یقین دہانیوں کو تحریری یا قانونی شکل میں دینے کی بات کرتے ہیں تو سرکار تیار نہیں ہوتی ۔
ابھی تک جو بات چیت ہوئی ہے اس میں سرکارنے جو اشارے دیئے ۔ان سے ایک بات تو سمجھ میں آگئی کہ سرکار قوانین واپس نہیں لے گی ۔ اسی طرح ایم ایس پی کی گارنٹی قانون میں نہیں دے گی ۔رہی بات ترمیم کی تو معمولی ترمیم کے اشارے کی خبریں آرہی ہیں بلکہ اب تو یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ قوانین تو وہی رہیں گے ، ان میں کچھ اوراضافہ کرنا چاہتے ہیں تو کسان بتائیں جبکہ کسان صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ زرعی قوانین کی واپسی یا تنسیخ سے کم انہیں کچھ بھی منظور نہیں ہے۔ کسانوں کی تحریک پر 8دسمبر کو بھارت بند کریاگیا ، 14دسمبر کوکسانوں نے بھوک ہڑتال کی ،اڈانی وامبانی کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیااور زرعی قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔جیسے جیسے ہتھکنڈے سرکار کسانوں کے احتجاج کو ناکام بنانے کے لئے اختیار کررہی ہے ، کسان بھی جوابی ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں ۔کسانوں اورسرکار کے درمیان جیسے ’توڈال ڈال میں پات پات ‘ کا کھیل چل رہا ہے ۔
کسانوں کو ملک ہی کیا بیرون ملک سے حمایت ھاصل ہورہی ہے ۔کناڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹرڈو نے بیان دیا ، اقوام متحدہ سکریٹری جنرل انتونیو گٹریس کا بیان آیا ۔ امریکہ اوربرطانیہ میں وہاں کے ممبران پارلیامنٹ نے آواز اٹھائی ۔کتنے کھلاڑیوں نے اپنے ایوارڈاورہزاروں ریٹائرڈ فوجیوں نے اپنے میڈل واپس کرنے کا اعلان کیا لیکن سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔اس دوران سرکار کی طرف سے فِکّی کے پروگرام میں صنعت کاروں کو زراعت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی گئی۔کسانوں کے ساتھ بات چیت کرنے والے وزراء بیانات دینے لگے کہ کسانوں کی تحریک نکسلی اورلیفٹ کی پارٹیاں چلارہی ہیں ۔سرکار کو اس سے بھی الرجی ہے کہ عوام ،سیاسی پارٹیاں اورلیڈران کسانوں کی حمایت کیوں کررہے ہیں ؟ سرکار چاہتی ہے کہ پورا ملک کسانوں کو تنہا ان کے حال پر چھوڑ دے تاکہ وہ تھک ہار کر خود خاموش ہوجائیں اوراپنی تحریک بند کردیں جو کسان اورملک کے لوگ کبھی نہیں ہونے دیں گے ۔کسان، جن کی محنت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے غلے اور دیگر اشیائے خوردنی سے ملک بھر کے عوام فائدہ اٹھاتے ہیں تو لوگ ان کے ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہوں گے ؟
کسانوں کی تحریک اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے اورسرکار نے اپنی ہٹ دھرمی اس حد تک بڑھادی ہے کہ اب آرپار کی لڑائی کے الفاظ ہی استعمال کئے جائیں گے ۔ابھی تک سرکار اورکسانوں کے درمیان ہر دور کی بات چیت اگرچہ بے نتیجہ رہی لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ دونوں ابھی بھی پرامید ہیں کہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا اس لئے بات چیت کی کسرت بند نہیں ہوگی اوردونوں کی جدوجہد اورکوششیں جاری رہیں گی لیکن ان کاکوئی نتیجہ نکلے گا کہ نہیں ،یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔سرکار کی کوشش معمولی سمجھوتے کی ہے جبکہ کسان قوانین کی واپسی چاہتے جوسرکارشاید ہی کرے اسی لئے ایک طرف وہ مظاہرین کو بات چیت میں الجھا رہی ہے اوردوسری طرف کسانوں میں پھوٹ ڈالنے ،ان کے خلاف اورسرکار کی حمایت میں دوسری ریاستوں کے کسانوں کو گمراہ کرکے کھڑا کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے ۔ اتراکھنڈ کے کسانوں سے مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کی اورگجرات کے کسانوں سے وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقاتوں اوراترپردیش میں کسانوں کے ایک گروپ کی طرف سے یہ آواز اٹھانا کہ ہم بھی کسان ہیں ، ہم سے بھی بات چیت کی جائے ۔ یہ سب پھوٹ ڈالنے کی کوششیں ہی ہیں ۔جب ایک طرف کسان ملک میں خودکشی کررہے ہیں اوردوسری طرف وزیراعظم کے جلسہ میں کسان سے یہ کہلوا دینا کہ ہم کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوگئی تو ایسے لوگوں کو ملک میں کھڑا کردینا کوئی مشکل نہیں جو خود کو مظاہرین کی طرح کسان بتاکرزرعی قوانین کی حمایت کریں ، کوئی بعید نہیں ہے اس ملک میں انگریز حکومت سے لے کر اب تک ہر دور میں ایسے لوگ ملتے رہے ہیں جنہوں نے لالچ میں یا مراعات کے لئے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کام کیا اورایسے ہی لوگوں کی تلاش میں اس وقت مرکزی حکومت ہے ۔ آج بی جے پی کے چھوٹے سے لے کر بڑے لیڈروں تک اوراس کی ریاستی حکومتوں سے لے کر مرکزی حکومت تک ہر کوئی ایک ہی بات دہرارہا ہے کہ کسانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے یا وہ گمراہ ہورہے ہیں اس کا مطلب اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوسکتا کہ سرکار کسانوں کی بات ماننے کو تیار نہیں ہے اوران کو ناکام بنانے یا ان کو بدنام کرنے کے لئے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے لیکن کسان بھی پوری تیاری کرکے دہلی آئے ہیں اوروہ لمبی تحریک کا ذہن بناچکے ہیں اوریہی چیز سرکار کے لئے پریشانی کا باعث ہے ۔اسی لئے کہا جارہا ہے کہ کسانوں کی تحریک کچھ نہ کچھ ضروررنگ لائے گی چاہے وہ قوانین میں ترمیم ہو یا کچھ تحریری گارنٹی ۔
آج ضرورت ہے کسانوں کے مسائل حل کرنے کی ۔ کون نہیں جانتا کہ ملک کے 90فیصد کسان بدحالی کے شکار ہیں ۔زراعت کے اخراجات بڑھتے جارہے ہیں ،وہ جو کھیتی کرتے ہیں یا فصلیں اگاتے ہیں ، ان پر ایک تو موسم کی مار پڑتی رہتی ہے جس سے اکثروبیشتر ان کی فصلیں برباد ہوجاتی ہیں ، جو تھوڑی بہت ہوتی ہیں ، بازار میں ان کی صحیح قیمت نہیں ملتی ۔وہ قرض لے لے کر کھیتی کرتے ہیں اورمقروض ہورہے ہیں ۔ قرض کا بوجھ بڑھنے پر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ ان کی خودکشی کی خبریں برابرآتی رہتی ہیں ۔اب توزراعت کی نجکاری کی خرابیاں بھی سامنے آچکیں ۔ ملک کے کتنی چینی ملوں کو پرائیوٹ ہاٹھوں میں دیا گیا جہاں کسان گنا لے جاتے ہیں تو ان کوحساب اورپیسہ نہیں ملتا جو سرکار اچھی طرح جانتی ہے ۔ اس کے لئے کسان برابر احتجاج کرتے رہتے ہیں اورسیاسی پارٹیاںاورحکومتیں وعدوں ویقین دہانیوں سے زیادہ کچھ نہیں کرتیں ۔پھر دیگر فصلوں کی فروخت کی نجکاری اورکٹٹریکٹ کھیتی جس کا انتظام نئے زرعی قوانین میں کیا گیا ہے ، اس کاحساب ملنے کی امید کسان کیسے کرسکتے ہیں؟وہ زمین ان مسائل کو دیکھ رہے جن کا وہ سامنا کرتے ہیں اورسرکارجھوٹے وعدوں اوریقین دہانیوں سے کا م چلارہی ہے ۔
کسانوں نے اڈانی اورامبانی کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا جواعلان کیا ہے اس کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں ۔وہ اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ان زرعی قوانین کے پیچھے صنعت کاروں کا ہی ہاتھ ہے جوجلد ہی ملک میں کسانوں کے اناج خریدنے کے لئے منڈیاں بنائیں گے ،اسٹور کھولیں گے اوران سے کنٹریکٹ کھیتی کراکے مجبور کریں گے کہ وہ ان ہی سے اپنے اناج کم قیمت پر فروخت کریں ۔اسٹاک کے لئے ان کے گودام بھی جلدہی پورے ملک میں بنیں گے ۔کسانوں کی لڑائی آسان نہیں ہے ۔ ایک طرف وہ سرکار سے لڑرہے ہیں تو دوسری طرف صنعت کاروں سے لیکن اگر ان کا حوصلہ برقرار رہا اور اپنے لوگوں نے دھوکہ نہیں دیا تو ان کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی اوران کے تمام نہیں تو دوچار مطالبات بھی مان لئے جاتے ہیں تو ان کے لئے فائدے کاہی سودا ہوگا اور کہا جاسکتاہے کہ ان کی کوششیں کامیاب ہوگئیں ۔زرعی قوانین میں کسانوں کے پاس کھونے کے لئے بہت کچھ ہے سرکار کے پاس کچھ نہیں ہے ۔
سرکار تو بس آنکھوں میں دھول جھونک کر سماج کے ہر طبقہ کو باری بار ی سے مجبور ولاچار بناکر اپنا کام نکالنے کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے ۔ جس میں اس کی حکمت عملی بہت حدتک کامیاب بھی رہی ہے ۔سماج میں خواندگی ، شعور اوربیداری کی کمی کاپورا فائدہ سرکار اٹھارہی ہے ۔سرکارکے اقدامات سے یکے بعد دیگرے سماج کے ہرطبقہ بلکہ ہر فرد کو معاشی طور پر نقصان ہورہا ہے لیکن وہ سمجھ نہیں پارہے ہیں ۔بربادعام آدمی یا چھوٹے موٹے کاروباری ہورہے ہیں اورخزانے چنندہ صنعت کاروں کےبھر رہے ہیں ،جن کی بدولت سرکار الیکشن میں بے تحاشا خرچ کرتی ہے ۔ جس لاک ڈائون ، نوٹ بندی اورجی ایس ٹی سے پورا ملک ہل گیا ، جی ڈی پی منفی میں چلی گئی ۔ کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ، اس میں چند صنعت کاروں کی آمدنی کیسے بڑھتی چلی گئی ؟ ملک کے مٹھی بھر لوگوں اورمظاہرین کسانوں کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے لیکن اکثریت ابھی بھی اسے نہیں سمجھ رہی ہے یا سمجھ کر بھی شعور وبیداری کی کمی وجہ سے پھر فرقہ پرستی کی سیاست کا شکار ہے ۔کسانوں کی تحریک ملک کے ہر فرد کی تحریک ہونی چاہئے ۔ کسان بھی ہارماننے والے نہیں ہیں ۔وہ لوگوں کو بھی سمجھاکر چھوڑیں گے اورسرکار کو ایسے فیصلوں سے روکیں گے ۔
٭٭٭
سرکار تو بس آنکھوں میں دھول جھونک کر سماج کے ہر طبقہ کو باری بار ی سے مجبور ولاچار بناکر اپنا کام نکالنے کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے ۔ جس میں اس کی حکمت عملی بہت حدتک کامیاب بھی رہی ہے ۔سماج میں خواندگی ، شعور اوربیداری کی کمی کاپورا فائدہ سرکار اٹھارہی ہے ۔سرکارکے اقدامات سے یکے بعد دیگرے سماج کے ہرطبقہ بلکہ ہر فرد کو معاشی طور پر نقصان ہورہا ہے لیکن وہ سمجھ نہیں پارہے ہیں ۔بربادعام آدمی یا چھوٹے موٹے کاروباری ہورہے ہیں اورخزانے چنندہ صنعت کاروں کےبھر رہے ہیں ،جن کی بدولت سرکار الیکشن میں بے تحاشا خرچ کرتی ہے ۔ جس لاک ڈائون ، نوٹ بندی اورجی ایس ٹی سے پورا ملک ہل گیا ، جی ڈی پی منفی میں چلی گئی ۔ کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ، اس میں چند صنعت کاروں کی آمدنی کیسے بڑھتی چلی گئی ؟ ملک کے مٹھی بھر لوگوں اورمظاہرین کسانوں کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے لیکن اکثریت ابھی بھی اسے نہیں سمجھ رہی ہے یا سمجھ کر بھی شعور وبیداری کی کمی وجہ سے پھر فرقہ پرستی کی سیاست کا شکار ہے ۔