مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ،وجھارکھنڈ)
دو حرف کا ایک چھوٹا سا لفظ دل، انسان کی ساری تگ ودو کا مرکز اور اعمال کا سر چشمہ ہے، یہ صالح رہتا ہے تو جسم سے اچھے اعمال کا صدور ہوتا ہے اور یہ بگڑگیا تو اعمال فساد وبگاڑ کے شکار ہو جاتے ہیں، گوشت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر خیر وشر کا مدار ہے اور صوفیاء کے یہاں اصل زندگی دل کی زندگی ہے اور زندگی عبارت اسی کے جینے سے ہے، اسی لیے شاعر نے کہا ہے کہ’’ زندگی زندہ دلی کا نام ہے، مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’دل زندہ تو نہ مر جائے کہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے‘‘۔
حدیث میں آتا ہے کہ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے، پھر اگر اس نے توبہ کے پانی سے اسے دھو دیا تو قلب صاف ہوجاتا ہے اور اس میں نیکیوں کی فصل لگنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے؛لیکن اگر تو بہ کی توفیق نہیں ہوئی تو گناہ کرتے کرتے دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے، اس مرحلہ میں جانے کے بعد نیکیوں کی توفیق نہیں ہوتی اور اسکے دل کان اور آنکھ پر مہر لگ جاتی ہے۔ اب اس کے پاس دل تو ہے؛ لیکن وہ سمجھتا نہیں؛ اس کے پاس آنکھ ہے لیکن دیکھتا نہیں ، اور اس کے پاس کان ہے، لیکن سنتانہیں، اس کی اس حالت کی وجہ سے اس کا دل پتھر کی طرح سخت ہو جاتا ہے ؛بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ، کیوں کہ پتھروں سے تو بسا اوقات چشمے پھوٹتے ہیں، اورنہریں جاری ہوتی ہیں، پانی نکل آتا ہے اور کبھی کبھی وہ خشیت الٰہی سے گر بھی پڑتے ہیں، لیکن یہ گوشت پوست کا انسان اس سے بھی گیا گزرا ہوجاتا ہے اور اس کے دل اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ، اس کی آنکھیں آنسو نہیں بہاتیں اور اس کے کان اچھی باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور بالآخر وہ اپنی زندگی کے دن مکمل کرکے قبر میں جاسوتا ہے اور آخرت میں ا س کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔
دل کو جن چیزوں سے سخت نقصان پہونچتا ہے ، ان میں عناد ، کبر ، حسد ،بغض ،نفاق اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دینا ہے، جس دل میں نفرت کی آگ جل رہی ہو ، اس میں محبت کے پودے نہیں لگا کرتے، یہی حال کبر کا ہے ، کبر کے ساتھ اللہ کی عظمت جمع نہیں ہو تی ، ہر حال میں اللہ کی بڑائی کا اقرار ہی دل کی دنیا بدل سکتی ہے، اسی لیے اللہ کے رسول صلی ا للہ علیہ وسلم نے تواضع اور انکساری کی ہدایت کی ، تواضع دل کا ہی عمل ہے، یہ عمل جتنا مکمل ہوگا اللہ اور اسکے رسول کے احکام وہدایت پر عمل کرنے کے لیے دل اسی قدر آمادہ وتیار ہوگا۔
دل کو صالح رخ دینے میں عفو ودر گذر ، تحمل وبرداشت اور حسد وکینہ سے پاک ہونے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ان اوصاف کے بغیر دل اس مقام ومرتبہ تک نہیں پہونچ سکتا ، جس کی امید ایک مؤمن سے کی جاتی ہے۔
اس لیے دل کو دل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے یہ آسانی سے نہیں بنتا ، لاکھ رگڑیں کھا کر دل ، دل بنتا ہے، بے راہ روی کے اس دور میں دل کی حفاظت بڑا کام ہے اور اس بڑے کام کے لیے سخت ریاضت اور’’ در د دل‘‘ کی ضرورت ہے ، بقول بہادر شاہ ظفر: درد دل کے واسطے ہی انسان کو پیدا کیا گیا ہے، جہاں تک طاعت وبندگی کا سوال ہے وہ تو اللہ کی ہر مخلوق کر رہی ہے اور انسان سے زیادہ پابندی سے کر رہی ہے۔
دل کو درست کرنے کے لئے اہل دل کی صحبت ومعیت ضروری ہے ، اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو تقویٰ اور صدیقین کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، دل میں محبت الٰہی اور خشیت خدا وندی پیدا کرنے کے لیے کسی ایسے کی صحبت میں رہنا چاہیے جو یہ آگ دل کی دنیا میں لگا سکے ، در اصل یہ آگ لگتی نہیں ، لگائی جاتی ہے، اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں یہ دولت وافرمقدار میں موجود ہو اوراسے اپنے ساتھ رہنے والے پر خرچ کا سلیقہ بھی آتا ہو ، بزرگوں کی خانقاہیں اور اہل اللہ کی گلیاں تجربہ سے ا س کام کے لیے ا نتہائی مفید ثابت ہوئی ہیں ، یہی وہ جگہ ہے جہاں سے وافر مقدار میں ’’دوائے دل‘‘ ملتی ہے، ضرورت تلاش کی ہے، جستجوکی ہے، صحیح اور فکر مند اہل اللہ کے دروازے پر پڑ ے رہنے کی ہے، میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے کہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ، وہ دوکان اپنی بڑھا گئے۔ تلاشیے ، شاید آپ کے قریب ہی کوئی دل کو صیقل کرنے والا موجود ہو۔