بچوں میں ادبی و مذہبی لٹریچرکی اہمیت و افادیت جاگزیں کرنا ضروری

جنوری 2021

وسیم احمد

نسل نو کتابوں سے دور ہورہی ہے اور مطالعہ کرنے کا رجحان دم توڑ رہا ہے۔ ان حالات میں بچوں کے تخیل کو تحریک دینے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ماضی سے کہیں زیادہ ہے۔ انہیں لوک کہانیوں، مذہبی تواریخ ، علاقائی ثقافتوں پر مبنی کتابیں مطالعے کے لیے دینا چاہیے۔بک ریڈنگ کے مقابلے کروا کر اور لائبریریوں سے منسلک رہنے کی ترغیب دے کر کتابوں کی محبت پیدا کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔اس سے ان میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگا اور مذہبی کتابوں سے لگاؤ بڑھے گا۔خاص طور پروالدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مذہبی کتب اور احادیث کی چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں۔اس سے ان میں بچپن سے ہی ادبی ذوق کے ساتھ سیرت نبوی سے واقفیت ہوگی ۔ اس سلسلے میں والدین کی ذرا سی لاپرواہی بچے کے مستقبل کا رخ منفی سمت جانے والے راستوں کو آسان بنا سکتی ہے ۔ لہٰذا اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کیا پڑھ رہے ہیں ؟خاص طور پر جب اسمارٹ موبائل ان کے ہاتھوں میں ہو تو زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
انٹر نیٹ کی دنیا نے بچوں کو ادب اور مذہب سے بہت دور کردیا ہے ۔ایسے وقت میں بچے مذہبی اور ادبی لٹریچر کے بجائے غیر معیاری،مخرب اخلاق مضامین پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں شعور و احساس کی بیداری اور معاشرے کا ایک فعال اور ذمہ دار حصہ بننے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے اور ملک و قوم کی بھلائی کرنے کا جذبہ معدوم ہوجاتا ہے اور ایسے بچے دوسروں کی مدد کرنے کے احساسات سے عاری ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو ایسے منفی احساسات پیدا ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے ان میں مذہبی مطالعات کی رغبت پیدا کرنا والدین کی بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ مطالعات اردو کے ساتھ ہی دیگر زبانوں خاص طور پر انگریزی و ہندی میں کرنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ آگے چل کر غیر اردو داں طبقہ میں بالخصوص غیر مسلم میں اسلام کا بہترین ترجمان بن سکتے ہیں اور اسلام کے بارے میں جو منفی تاثرات پیدا ہورہے ہیں،ان کا تجزیہ کرکے اسلام کی بہترین نمائندگی کرسکتے ہیں۔
آج ہمارے ملک ہندوستان میں برادران وطن کا ایک بڑا طبقہ ہے جو قرآن سمجھنا چاہتا ہے ۔ ہماری نئی نسل یہ کام بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ بشرطیکہ ان پر خاص توجہ دی جائے اور بچپن سے ہی اس پہلو پر نظر رکھی جائے کہ وہ جن کتابوں کا مطالعہ کررہے ہیں وہ مذہبی نوعیت کی ہوں اور یہ کتابیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق ہوں۔اس طرح کی کتابیں متعدد ادارے شائع کرتے ہیں۔خاص طور پر جماعت اسلامی ہند کا شعبہ نشرو اشاعت متعدد کتابیں شائع کرچکا ہے جو بچوں کی دلچسپی اور صلاحیتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مختلف زبانوں میں ہیں ۔اس شعبہ نے قرآن کی تفسیر،’’ تفہیم القرآن‘‘ جو کہ مختلف زبانوں میں ہے ، ابھی حال ہی میں اس کی ہندی کی پانچویں جلد شائع کیا ہے ،اس کے مطالعے کا شوق دلانا چاہئے۔ اس ہندی ترجمے میں قرآنی پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے لئے کئی چیزوں کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ سورتوں کے ناموں کے ساتھ آسانی کے لئے ان کا نمبر بھی دیا گیا ہے ۔ ترجمے میں بھی آیتوں کا نمبر ڈال دیا گیا ہے۔ تفہیم میں مختلف موضوعات پر مبسوط مواد ہیں ۔ آیات کی تشریح کے علاوہ احادیث نبوی سے استدلال ، فقہی مباحث ، دیگر مذاہب کے عقائد کا تذکرہ اور نقد، سیرت نبوی کی تفصیلات ، جغرافیہ ، تاریخ وغیرہ سے بھی بحث ہے ۔ اس سلسلے میں امیرجماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن ہندی کی پانچویں جلد کے رسم اجراء کے ایک پروگرام میں اس بحث پر روشنی ڈالتے ہوے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ، ’’ اس وقت ہمارے ملک کی سخت ضرورت ہے کہ علاقائی زبان اور بطور خاص انگریزی و ہندی زبان میں ہمارا لٹریچر منتقل ہو، اس کام میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ اوریجنل کتابیں بھی ہندی میں لائی جائیں ۔‘‘
آج کے دور میں ہر شخص کی زبان پر یہ بات ہے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب ہے تعلیم میں پیچھے رہ جانا۔ تعلیم کا مطلب ہے ڈیجیٹل انقلاب میں پیش رفت، اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی انگریزی، ہندی و زبان و ادب سے آشنا کرانے کا عمل شروع کردیں۔ علامہ شبلی نعمانی کا ماننا تھا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے مدارس کے بچوں کو بھی عصر حاضر کی زبان سے واقف ہونا چاہے۔ مدرسوں میں جو عربی کی تعلیم دی جاتی ہے ، وہ کافی نہیں ہے ، عصر حاضر کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انگریزی کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسی نقطہ نظر کو آگے بڑھاتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ہندی کو اس سے جوڑ کر مذکورہ پروگرام میں یہ بات کہی تھی کہ ہندی ملک کی قومی زبان ہے اور ایک بڑا طبقہ قرآنی پیغام کا طلبگار ہے، لہٰذا بچوں میں ہندی لٹریچر کا ذوق پیدا کرکے یہ ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کہتے تھے کہ لوگ میری بات پر دھیان نہیں دیتے ۔ میں کہتا ہوں کہ تعزیرات ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ میں داخل ہونے چاہیے۔ ان علماء کرام کے کلام کو صرف مدارس کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ عصر حاضرکی تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں بچوں کا دوست کتابوں کو بنانا چاہیےاور کتابوں کے انتخاب میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔اس طرح بچے نہ صرف غیر معیاری کتب کے مطالعہ سے بچ سکتے ہیں بلکہ اچھی ادبی و مذہبی کتابیں پڑھ کر ملک و قوم کا بڑا سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ یہی بچے ہمارے کل کی امید ہیں۔

٭٭٭

آج کے دور میں ہر شخص کی زبان پر یہ بات ہے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب ہے تعلیم میں پیچھے رہ جانا۔ تعلیم کا مطلب ہے ڈیجیٹل انقلاب میں پیش رفت، اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی انگریزی، ہندی و زبان و ادب سے آشنا کرانے کا عمل شروع کردیں۔ علامہ شبلی نعمانی کا ماننا تھا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے مدارس کے بچوں کو بھی عصر حاضر کی زبان سے واقف ہونا چاہے۔ مدرسوں میں جو عربی کی تعلیم دی جاتی ہے ، وہ کافی نہیں ہے ، عصر حاضر کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انگریزی کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے ۔