عالمی طاقتوں اور ایران کے نمایندوں نے ایک بار پھر فریقین کے درمیان موجود جوہری معاہدے پر بات چیت کی ہے۔ اس حوالے سے بدھ کے روز ایک آن لائن اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین کے نمایندوں کے ساتھ ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے شرکت کی۔ جوہری معاہدے سے امریکی انخلا کے بعد ایران کی جانب سے کی گئیں خلاف ورزیاں ان مذاکرات میں زیربحث آئیں۔ یورپی ممالک نے ایران پر زور دیا کہ وہ جوہری معاہدے کی تمام شقوں کی پابندی کرے۔ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ ایرانی جوہری معاہدے میں امریکا دوبارہ شامل ہو سکتا ہے، لیکن فی الحال یہ معاہدہ ڈگمگا رہا ہے۔
یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے اس معاہدے کو دوبارہ کارآمد بنایا جائے۔ دوسری جانب ایران کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی ایلوٹ ابرامز کا کہنا ہے کہ واشنگٹن یہ نہیں چاہتا کہ دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست ایران جوہری ہتھیار حاصل کرے۔ بدھ کے روز دی ٹائمز آف اسرائیل جریدے کو دیے گئے بیان میں ابرامز کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک ایسے شدت پسند نظام کا سامنا ہے جو بین الاقوامی قانون کی پیروی نہیں کرتا۔ امریکی ایلچی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دیگر ذمے داران کی ایران اور اس کے جوہری معاہدے کے حوالے سے جو بائیڈن کی ٹیم کے ساتھ بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ایلوٹ ابرامز نے 25 نومبر کو ایران کے خلاف ایک بار پھر پابندیاں سخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ایغورکی جاسوسی کا متنازع سوفٹ ویئر
چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کی جاسوسی کے پیچھے تجارتی ویب سائٹ علی بابا کا ہاتھ ہونے کا انکشاف ہوگیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چینی کمپنی علی بابا نے اپنے صارفین کو چہرے سے پہچان لینے والے سافٹ وئیر تک رسائی دی ہے، جس کی مدد سے چین میں بسنے والے ایغور مسلمانوں کو پہنچانا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دیگر چینی کمپنیوں کے بعد اب علی بابا بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں برابر کا حصہ ڈال رہی ہے۔ علی بابا کی ویب سائٹ پر کلاؤڈ کمپیوٹنگ کاروبار میں دکھایا گیا کہ کس طرح صارفین سافٹ وئیر کو استعمال کر کے ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کو تصاویر اور وڈیوز میں چہرے کے نقوش سے پہچان سکتے ہیں۔
امریکا میں ویب سائٹس کی نگرانی و تحقیق کے ادارے آئی پی وی ایم کے مطابق رپورٹ سامنے آنے کے بعد علی بابا کی ویب سائٹس سے ایغوروں سے متعلق مواد ہٹادیا گیا۔نیویارک ٹائمز کے مطابق علی بابا کا سافٹ ویئر ایغوروں کو پہچان کر خودکار طریقے سے پولیس کو اطلاع کر دیتا ہے۔ ادھر رپورٹ کے حوالے سے علی بابا سے رابطہ کیا گیا، تاہم کمپنی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔