شیئر کیجیے

آبادی اور وسعت رزق

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

            عالم انسانیت کے ہاں سب سے پہلے آبادی کی نعمت ورحمت کو اس وقت زحمت تصورکرلیاگیاجب مغربی سیکولر ماہر معاشیات ’’مالتھس‘‘نے یہ نظریہ پیش کیا کہ آبادی ایک دو چار آٹھ سولہ بتیس اور چونسٹھ کے حساب سے بڑھتی ہے جبکہ وسائل میں اضافہ ایک دو تین چار پانچ  چھ اور سات کے حساب سے ہوتا ہے۔اس نظریہ کے مطابق آبادی میں اضافہ وسائل پر بوجھ کا باعث بنتا ہے اور نئے آنے والے بچوں کوانکا حق نہیں مل پاتا۔اس طرح آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ شہروں میں جگہ کم پڑنے لگتی ہے، پہلے لوگ کھلے کھلے مکانوں میں رہتے ہیں، پھرکمروں میں اضافے سے مکان تنگ پڑنے لگتے ہیں اور آبادی میں اضافہ برقرار رہے تو دوسری اور تیسری منزلوں کی تعمیر سے گنجانیت میں اضافہ ہوتا ہے جو انسانی صحت اور انسانی نفسیات پر مضر اثرات کا باعث بنتا ہے۔آبادی میں اضافے سے جو وسائل چند لوگوں میں تقسیم ہونے تھے اب زیادہ میں تقسیم ہونے سے انکی فی کس شرح میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، قابل کاشت رقبہ اتنا ہی رہتا ہے اور بعض اوقات قدرتی آفات کے باعث فصلیں اتنا اناج فراہم نہیں کر پاتیں جو آبادی کو فی کس کے حساب سے سارا سال چاہیے ہوتا ہے چنانچہ بھوک اور غربت کے قبیح عناصر یہیں سے جنم لیتے ہیں۔ بھوک اور غربت سے مہنگائی جنم لیتی ہے اور جب تک تو آبادی کم ہوتی ہے لوگ ایک دوسرے کو جانتے بوجھتے ہیں، واقف کار ہوتے ہیں اور باہمی شناسائی موجود ہوتی ہے تو جرائم کا امکان کم سے کم تر ہوتا ہے۔لیکن آبادی بڑھ جانے سے نئے نئے لوگ بھرجاتے ہیں اور جہاں غربت،بھوک اور مہنگائی بھی ہو وہاں تب آبادسی کے اضافے سے جرائم جنم لیتے ہیں اور انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ بچوں کے بڑے ہونے سے انکی تعلیم و تربیت ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔آبادی بڑھنے کا اولین اثر بچوں کی تعداد میں اضافے کی صورت میں جنم لیتا ہے زیادہ بچوں کے لیے زیادہ تعلیمی ادارے اورزیادہ ماہر عملہ، زیادہ کتب،زیادہ لائبریریاں اور زیادہ تجربہ گاہیں اور انکا زیادہ سامان درکار ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ ہر جگہ میسر نہیں ہوتاجس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ بچے تو بہترین تعلیم و تربیت کے حصول کے بعد اچھے انسان بن جاتے ہیں جبکہ بہت سے بچے تعلیمی وسائل کی عدم فراہمی کے باعث تعلیم تربیت کے اعلی معیار سے محروم رہتے ہیں اورنتیجہ کے طورپر بعد میں معاشرے پر بوجھ بنتے ہیں اور جرائم بھی انہیں طرح کے بچوں کو اپنی طرف کشش کرتے ہیں جس سے معاشرے میں بدامنی،بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا دوردورہ ہوتاہے۔

            ان تمام مفروضوں سے آج کے سیکولرماہرین معاشیات یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آبادی میں زیادتی سے معیارزندگی میں پستی واقع ہو جاتی ہے اورسب انسانوں کو بہترین زندگی گزارنے کے اعلی مواقع میسر نہیں آتے۔ایک زمانے تک تو سیکولرماہرین معاشیات یہ بھی کہتے رہے کہ ماں کا اپنے بچے کو دودھ پلانا بیکارہے کیونکہ اسے اس طرح اسکے عوض میں رقم نہیں ملتی جبکہ کسی دوسرے کے بچے کو دودھ پلانا بہتر معاشی سرگرمی ہے کیونکہ اس طرح وہ چند سکے کما سکتی ہے اورباپ کا اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا بیکار ہے کیونکہ اسے اسکا عوض نہیں ملتاجبکہ دوسروں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا بہتر ہے کیونکہ اس طرح وہ فیس کما سکتا ہے۔’’مالتھس ‘‘کے اس نظریہ کو سب سے زیادہ پزیرائی یورپ میں میسر آئی اور حکومتوں نے،معاشروں نے اور افراد کے ہاں بھی اس نظریہ کو قبول عام عطا ہوااور اس پر اجتمائی عملدرآمد شروع کر دیاگیا۔یہ تاریخ کا تقریباََ وہی دور ہے جب سقوط غرناطہ کے بعد اسلامی تہذیب کے سائے لمبے ہوتے چلے جا رہے تھے اور یورپی تہذیب کا سورج اپنی پوری حدت اور شدت سے مغرب سے طلوع ہواچاہتاتھا۔

            قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بہت پہلے فرمادیاتھاکہ   وَ لَا تَقْتُلُوْ ٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلِاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا{۱۷:۳۱} وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہ‘ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآئَ سَبِیْلًا{۱۷:۳۲}ترجمہ:’’اوراپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو،ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطاہے۔اورزناکے قریب بھی نہ پھٹکووہ بہت برافعل اوربڑاہی براراستہ ہے۔‘‘اس آیت کاایک پس منظر یہ بھی ہے کہ کفارمکہ بھوک اور افلاس اور غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو پیداہونے سے قبل یا مابعد قتل کردیتے تھے تب اللہ تعالی نے یہ حکم صادر کیااور کہاکہ ہر ذی روح کے رزق کی ذمہ داری خالق کی ہے۔آج کاسیکولرازم بھی انسانیت کو کفارکاچھوڑاہواسبق یاددلا رہاہے۔اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًا{۷۷:۲۵} اَحْیَآئً وَّ اَمْوَاتًا{۷۷:۲۶} وَّ جَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسْقَیْنٰکُمْ مَآئً فُرَاتًا{۷۷:۲۷}ترجمہ’’کیاہم نے امین کو زندوں اور مردوں کے لیے کافی نہیں بنادیااوراس میں بلندوبالا پہاڑ جمادیے اورتمہیں میٹھاپانی پلایا‘‘۔چنانچہ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جیسے جیسے بنی آدم کی آبادی بڑھتی گئی ویسے ویسے وسائل رزق کو بھی ایڑھ لگتی گئی۔ایک حدیث مبارکہ کے مطابق بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتاہے کہ اس کارزق لکھ دیاجاتاہے اورگود میں آتے ہی ماں کے سینے سے دودھ کے چشمے ابلتے لگتے ہیں۔ کرہ ارض پر مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے لہلہاتے کھیت اور پھلوں اورمیوہ جات کے سبزے سے بھرے ہوئے پہاڑ اوران کے درمیان بہنے والے ندی نالے رزق کے وہ خزانے ہیں جو قدرت نے نسل انسانی کے لیے وافرمقدارمیں فراہم کر دیے ہیں۔ سمندروں میں اور جنگلات میں پرورش پانے والے جانور،ہواؤں میں تیرنے والے پرندوں کے غول کے غول خوراک کے لیے اور جڑی بوٹیوں میں چھپے ہوئے شفاکے خزینے وہ عطیات خداوندی میں جن کا شمار بھی انسان کے بس میں نہیں۔ ان کھلی نشانیوں کا فہم و ادراک رکھنے کے باوجود بھی جو لوگ ضبط تولید،خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی کم رکھنے کے خمارمیں مبتلا ہیں ان کی حقیقت پرقرآن مجیدکی یہ آیات صادق آتی ہیں کہ   اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ‘ ہَوٰہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَ قَلْبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ{۴۵:۲۳}ترجمہ’’کیاتم نے کبھی اس شخص کے حال پر غورکیاہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپناخدابنالیا،اللہ تعالی نے علم رکھنے کے باوجوداسے گمراہی میں پھینک دیااوراس کے دل اورکانوں پر مہر لگادی اوراس کی آنکھوں پرپردہ ڈال دیا،اللہ تعالے بعد اب کون ہے جواسے ہدایت دے،کیاتم لوگ سبق نہیں لیتے‘‘۔ہوس کے پجاری جو آنے والی نسلوں کو اپنی عیاشی وآوارگی کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ان پر قرآن مجیدکا یہ تبصرہ بھی برحق ہے کہ  وَ اتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ{۷:۱۷۵}   وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَ لَکِنَّہ‘ٓ اَخْلَدَ اِلٰی الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰہُ فَمَثَلُہ‘ کَمَثَلِ الْکَلْبِ اِنْ تَحْمِلَ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکُہُ یَلْہَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ{۷:۱۷۶}ترجمہ’’اے نبی ﷺان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کروجس کوہم نے اپنی آیات کاعلم عطاکیاتھا،مگروہ ان کی پابندی سے نکل بھاگااورآخرکارشیطان اس کے پیچھے پڑ گیایہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کررہا،اگرہم چاہتے تواسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطاکرتے،مگروہ توزمین کی طرف ہی جھک کررہ گیااوراپنی خواہش نفس کے پیچھے ہی پڑارہا،لہذااس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کروتب بھی زبان لٹکائے رکھے اور اسے چھوڑ دوتب بھی زبان لٹکائے رکھے،یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ‘‘۔

            حیرانی ہے کہ یورپ کی سیکولرتہذیب نے انسان پر انسان ہی کی نسل کو بوجھ بنا دیا؟؟۔جنگل کے جانور بھی اپنی وحشت،سفاکی،درندگی اورتہذیب و تمدن و مدنیت سے بعد کے باوجودکم از کم اپنی نسل کے بارے میں اتنے خود غرض نہیں ہوتے۔ اپنی حیوانیت کی قبا میں مامتا کا پیمانہ توجانور کے ہاں بھی بھراہواہوتاہے۔تف ہے اس سیکولرانسان پرجس نے خود توجنم لے لیا لیکن اپنے آنے والی نسلوں کو حق زندگی دینے سے صرف ان قیاسات کذب کے باعث انکار کردیا کہ نئی نسل کی آمدسے اسکے وسائل میں کمی واقع ہوجائے گی،اسکا معیار زندگی پست ہو جائے گااور تعلیم و تربیت اور غذائی اجناس کا فقدان اسے دامن گیر ہوجائے گا۔جبکہ حقیقت اسکے باکل برعکس ہے۔’’مالتھس‘‘کا یہ نظر یہ آبا دی انسانی تاریخی حقیقتوں سے کھلا تضاد رکھتا ہے۔اس زمین کا سینہ کبھی بھی وسائل رزق کے باب میں تنگ نہیں ہوا،بلکہ مشاہدہ تو اس کے کلیۃ برعکس ہے کہ انسان جہاں کہیں بھی ہواس کامقدوررزق کشاں کشاں اس کے لبوں تک آن ٹہرتاہے۔یہ زمین و آسمان مل کر انسان کی پرورش کرتے ہیں۔ جب کبھی انسانی شامت اعمال سے زمین بنجرہونے لگتی ہے توآسمان سے گھٹائیں امڈتی چلی آتی ہیں اور مردہ زمین کو پھر آب حیات سے سیراب کردیتی ہیں اورانسانوں سمیت جانوروں کے بھی مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھتے ہیں کہ رب تعالی کی طرف سے ان کے لیے رزق کے دروازے پھر کھول دیے گئے ہیں۔

            آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر جبکہ انسانی آبادیوں سے شہر کے شہر بھرے پڑے ہیں، زمین نے اپنا سینہ چاک کرکے تو اپنے بے پناہ قیمتی وسائل  سے انسانوں کی جھولیاں بھر بھردی ہیں۔ یہاں تک کہ ماہرین ارضیات کہ رہے ہیں بے پناہ وسائل کے حصول کے بعد بھی اب تک زمین کی تہوں میں ایک فیصد وسائل کی کمی بھی نہیں ہوئی۔تیل، گیس،کوئلہ اور معدنیات سے بھرے ہوئے نہ معلوم کیسے کیسے خزینے اس زمین میں دفن ہیں جو آنے والی نسلوں کی امانت کے طور پر قدرت نے پہلے سے مہیا کر رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ سمندروں کے اندر بھی تیل کے ذخائر دریافت ہوئے اور آج حضرت انسان  سمندرکی گہرائیوں میں کارخانے لگاکرپانی سے تیل کو الگ کررہاہے تاکہ مشینی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاسکے۔سورج کی روشنی،ہوا کے زور اور پانی کی رفتارسے بجلی بناناتوعام سی بات ہے۔جب تک زمینی آبادی کم تھی تب تک یہ سارے انتظامات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے اور اللہ تعالی کے وعدوں کے مطابق ہرذی روح کی آمد وسائل و ذرائع رزق میں نت نئی جدتوں کاباعث بنتی چلی جاتی ہے۔آنے والے دنوں میں جب آبادی مزید زیادہ ہوگی تب کیسے کیسے اسباب رزق مہیاہو جائیں گے؟؟اس کاجواب آج کے انسانی احاطہ خیال میں نہیں آسکتا۔کیا یہ خدائی انتظام نہیں کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زمینوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی کتنا اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔ماضی کے بیل، کنواں اور انسان ایک قطعہ زمین سے جتنی فصل حاصل کرتے تھے آج مشینوں کی مدد سے پہلے سے کئی گنا زیادہ فصلوں کا حصول ممکن ہے۔

            آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی خالق کائنات اور رازق کائنات نے ایسے اسباب پیدا کر دیے ہیں کہ کوئی انسان اور ذی روح بھوکا پیاسا نہ رہے اب یہ انسانی معاشروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان وسائل کو توازن کے ساتھ اورعدل کے ساتھ آبادی میں تقسیم کریں۔ ماضی میں مرغی صرف امیر لوگ ہی تناول کیا کرتے تھے، دودھ کی بہتات سے شہر خالی تھے،تیل اور گھی ڈھونڈے نہیں ملتے تھے،مشروبات صرف اشرافیہ کے ہاں دستیاب تھے،چائے محض مریض کو ہی میسر ہوا کرتی تھی،چینی تو ایک خواب تھی اور لوگ شکر یا گڑپرہی پر اکتفا کرتے تھے۔ ’’مالتھس ‘‘کے نظریہ آبادی مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں مزید قلت وتعطل میں چلی جاتیں اورناپیدوعنقاہوجاتیں لیکن اسکے برعکس آج یہ تمام اشیاء پہلے سے کہیں زیادہ بہتات،کثرت اور وافر مقدار میں شہروں اور دوردراز علاقوں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں تک میں فراہم ہیں، بلکہ ان اشیاء کے بنانے والے ادارے مسلسل اشتہاربازی کے ذریعے عوام کو نفسیاتی طورپر مجبورکرتے ہیں کہ انہیں کی ساختہ اشیا خریدی جائیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ بڑے بڑے سیکولرممالک اضافی پیداوار دریابرد کر دیتے ہیں کہ بازارمیں آجانے سے مبادہ ان کے دام گرجائیں گے۔

            فن معاشیات جیسے جیسے ارتقائی منازل طے کرتا چلا جارہا ہے،ڈارون اورفرائڈکے نظریات کی طرح’’ایڈم سمتھ‘‘ اور’’مالتھس‘‘کے افکار بھی ناپختگی،ظن و تخمین اور اندازوں اور گمان اور ناقص خیالات کی گرد تلے دفن ہوتے چلے جارہے ہیں۔ انسانی نفسانی خواہشات، حوس نفس اورشائلاکی طرزفکروخودغرضی کو بھاری بھرکم الفاظ میں فلسفوں کی چادر اوڑھا کر تو زیادہ دیرتک زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔اس نظریے کے بعد ایک عرصہ تک اسکی پیروائی کی جاتی رہی لیکن پھر جب کارپرداران یورپ نے ماضی پر نگاہ دوڑائی تو سوائے نقصان کے کچھ نہ پایا،تب فرانس جیسا ملک اس بات پر مجبور ہوا اور حکومت فرانس نے اعلان کیاکہ جوخاتون سب سے زیادہ بچے پیدا کرے گی اسے سب سے بڑا سول قومی ایوارڈ دیا جائے گا۔روس کی حکومت نے اس طرح عوام سے کہا کہ شادی کے بعد ہسپتال میں آئیں اورصرف بچہ پیدا کرکے چلے جائیں اسکی پرورش، خوراک، علاج، تعلیم اور دیگر تمام ضروریات حکومت کی طرف سے پوری جائیں گی۔

            برطانیہ آج بھی خواتین کو زچگی سے بہت پہلے چھٹی دے دیتا ہے تاکہ وہ اپنا خیال رکھ سکیں اور اس دوران انہیں پوری تنخواہ اور دیگر مراعات بھی مکمل طور پر ملتی رہتی ہیں، اور اگر کوئی خاتون نجی محکمے میں ملازم ہواور اسکا محکمہ اسکو پوری تنخوااہ اور دیگر مراعات ادا نہ کرے تو حکومت برطانیہ اس خاتون کو مکمل ادائگی اپنی طرف سے کرتی ہے اور جس خاتون کی گود میں پانچ سال تک کا بچہ ہو اسے تمام سرکاری تفریح گاہوں میں ماں اور بچے کو مفت داخلہ کاموقع دیاجاتاہے حتی کہ سرکاری بسوں اور ریل گاڑیوں تک میں اس خاتون کے لیے جس کی گود میں پانچ سال تک کا بچہ ہو خصوصی رعایات حاصل ہوتی ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اکثرسیکولریورپی ممالک دیکھ رہے ہیں کہ اوسط عمر بڑھ جانے سے اورآبادی میں ہوشرباکمی ہوجانے سے آئندہ چندسالوں میں ہی عملی زندگی سے کنارہ کرنے والے بزرگوں کی کثرت ہوچکے گی اور کاروبارریاست سنبھالنے کے لیے نئی نسل کی دستیابی انتہائی ناکافی ہوگی تب یہ ممالک مجبور ہیں کہ خوشنما جنت کے جھانسے میں آئے ہوئے پڑھے لکھے باصلاحیت اورماہرفن نوجوانوں کو پوری دنیا سے درآمد کیا جائے یہ سلسلہ اب گزشتہ کچھ برسوں سے سرعت کے ساتھ جاری ہے۔

            اس سنگین اور جان لیوارازکو پاجانے کے بعدیورپ نے خیرخواہ کے روپ میں اس اجتماعی خودکشی کا راستہ ایشیائی ممالک کو سجھا دیا ہے،جس کا مقصد ان دوکے سوا کچھ نہیں کہ ان ممالک کو دفاعی طور پر کمزورکردیاجائے کیونکہ میدان وہی قوم مارسکتی ہے جس کے پاس مرنے کے لیے نوجوان موجود ہوں اورجس رفتار سے یورپ کی آبادی تیزی سے کمی کی جانب گامزن ہے کچھ بعید نہیں دنیا کی قومیں بہت آسانی سے یورپی زمینوں پر پیدل چل کر ہی قبضہ کرلیں اور دوسرا مقصدعریانی و فحاشی ہے،کیونکہ مذہب،معاشرت اور عزت و ناموس کا خوف جاتے رہنے کے بعدصرف پیٹ کے بوجھ کا خوف ہی وہ واحدخوف ہے جو زنا کے راستے میں رکاوٹ ہے،آبادی پر قدغن کے منصوبے کے تحت ضبط تولید کی ادویات و طرق انسانی معاشرے کو اس خوف سے بھی نجات دے دیں گے تو پھر ہوائے نفس کے پجاریوں کے ہاتھوں تباہی و بربادی اور اخلاقی گراوٹ کے راستے میں کونسی رکاوٹ باقی رہے گی؟

            حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والا کھانے کے لیے ایک منہ اور محنت کرنے کے لیے دو ہاتھ ساتھ لاتا ہے،اوراسکے ذہن میں قدرت نے جو خزانے رکھ چھوڑے ہیں انکا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ہرپیداہونے والامختلف صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے اور پھر یہ صلاحیتیں زمینی و انسانی وسائل کو کارآمد بنانے کے لیے خام مال کاکام دیتی ہیں۔ قدرت کا اپنا نظام ہے اورتاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب کبھی آبادی بڑھ بھی جاتی ہے تو زلزلے،طوفان، وبائیں اورقدرتی آفات سے قدرت خود اسے اپنے حساب سے متوازن کر دیتی ہے اورقدرت والے کو اپنے کاموں میں کسی کی شراکت قطعاََ بھی برداشت نہیں۔ پھرانسانوں کے پاس اسکا بہترین حل نئے شہروں کی آبادکاری ہے۔یورپ نے خودغرضی،نفسانیت اور جنسی لذتوں کو خوبصورت ناموں سے انسانیت میں متعارف کرایا ہے لیکن یہ محض دھوکے ہیں۔ جانوروں، پرندوں، حشرات الارض، جنگلات اور درختوں تک کی افزائش نسل پر بے پناہ سرمایا صرف کرنے والی سیکولریورپی تہذیب دوسری قوموں کو انسانوں کی نسل کشی پر مجبور کرتی ہے خواہ اس کے لیے اخلاق باختہ طریقے ہی کیوں نہ آزمائے جائیں کیونکہ مصر میں ہونے والی خواتین کانفرنس میں یہ قرارداد منظورکرائی گئی کہ آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ہم جنسیت کو عام کیا جائے۔الامان و والحفیظ۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا