وقف بل 2024: حقائق اور غلط فہمیاں

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ستمبر 2024

وقف اسلام کی نظر میں

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان دنیا سے گزر جاتا ہے تو عمل کا ر شتہ اس سے کٹ جاتا ہے  سوائے تین صورتوں کے  یا تو وہ صالح اولاد کو چھوڑ کر جائے جو اس کے لئے دعاء کا اہتمام کرے  یا اس نے کوئی ایسا علمی کام چھوڑا ہو جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا رہے۔ خواہ یہ شاگردوں کی صورت میں ہو، تصنیفات کی صورت میں ہو یا تعلیمی اور اشاعتی اداروں کی صورت میں۔ تیسرے: صدقۂ جاریہ  یعنی انسان کوئی ایسی مادی چیز چھوڑ کر جائے  جس کا نفع لوگوں کو حاصل ہوتا رہے۔ جیسے کنواں کھدوائے، کوئی ایسی بلڈنگ بنا دے جس کا کرایہ فقراء پر صَرف ہو،مسجد تعمیر کر دے جس میں لوگ نماز پڑھتے رہیں۔ اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثہ الا من صدقۃ جاریۃ أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ (صحیح مسلم  کتاب الوصیۃ  باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ  حدیث نمبر:4310)

صدقۂ جاریہ کی صورت کو شریعت اسلامی میں ’’ وقف‘‘ کہتے ہیں۔ حدیث وسیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلا وقف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے تعمیر مسجد کی فکر فرمائی اور حضرت سہل وسہیل رضی اللہ عنہما کی زمین خریدکر مسجد کے لئے وقف کر دی۔ مسجد کے علاوہ انسانی خدمت کے لئے بھی وقف کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع فرمایا۔ مُخَیریق نامی صاحب نے اپنی اراضی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وصیت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے وقف فرما دیا (فتح الباری:5؍301) اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے اپنے سات باغات کو بنو ہاشم اور بنو مطلب پر وقف فرمایا تھا (سنن بیہقی:6؍16)

اکثر دولت مند اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی اپنی گنجائش اور صلاحیت کے مطابق وقف کیا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میٹھے پانی کا کنواں ’’ بئر رومہ‘‘ خریدا اور اسے مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا۔(صحیح البخاری باب مناقب عثمان بن عفانؓ )حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ایک باغ اللہ کے راستہ میں وقف فرما دیا  جس کا ذکر متعدد حدیثوں میں موجود ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف وقف قائم فرمایا؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں اس کے قواعد وضوابط بھی مقرر فرمائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خیبر کی زمین کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا ہو سکتا ہے کہ اصل شئی کو باقی رکھتے ہوئے اسی کی آمدنی کو صدقہ کر دو کہ اصل زمین نہ خرید وفروخت کی جائے  نہ اسے ہبہ کیا جائے اور نہ اس میں میراث جاری ہو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے فقراء، قرابت دار،  غلام،  مسافر اور مہمانوں کو اس کا مصرف قرار دیا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ متولی کو اس میں سے کھانے یا اپنے دوستوں کو کھلانے کی اجازت ہوگی لیکن ذخیرہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ (بخاری  کتاب الشروط  باب الشروط فی الوقف  مسلم  کتاب الوصیۃ  باب الوقف) یہ وضاحت بھی کر دی کہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما متولی ہوں گے اور ان کے بعد وہ شخص متولی ہوگا جو آلِ فاروقی میں سب سے بڑا ہو۔

اس طرح یہ پہلا وقف تھا جس کے مصارف واضح کئے گئے۔ وقف کرنے والے کی طرف سے شرائط مقرر ہوئیں اور وقف کی تولیت کے سلسلہ میں صراحت کی گئی۔  چنانچہ شریعت اسلامی میں وقف  کے قوانین کی اصل بنیاد یہی وقف فاروقی ہے۔ اس کے بعد صحابہ کی جانب سے بہ کثرت وقف کا اہتمام کیا گیا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ جن صحابہ کو بھی مالی گنجائش تھی انھوں نے وقف کیا ہے: لم یکن أحد من أصحاب صلی الہ علیہ وسلم ذو مقدرۃ الا وقف‘‘ (المغنی لابن قدامہ: 8؍ 185) مشہور فقیہ علامہ ابن قدامہؒ نے  متعدد صحابہ کے اوقاف کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا مکان اپنے لڑکے پر وقف کر دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مروہ کے پاس واقع اپنی ایک زمین اپنے لڑکے پر وقف کی تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں گزر چکا ہے کہ انھوں نے بڑی قیمت ادا کر کے ایک  کنواں خرید کیا اور اسے وقف کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’ ینبع‘‘ میں ایک زمین وقف کی تھی۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ، مصر اور مدینہ میں اپنے مکانات وجائیداد اپنی اولاد پر وقف کیا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ ومصر میں اپنا گھر اپنی اولاد پر وقف کیا تھا۔ حضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’ وہط‘‘ نامی مقام کی اراضی اور مکہ کے مکان کو وقف علی الاولاد فرمایا تھا  ۔حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ ومدینہ کے مکانات کو وقف علی الاولاد کیا تھا۔ (المغنی: 8؍186)- اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ میں وقف کرنے کا عام ذوق تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ خود اپنی اولاد پر بھی وقف کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی باعث اجروثواب ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اولاد کو خوش حال ومستغنی چھوڑ کر جانا فقیر ومحتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف کے لئے جو شرائط مقرر کی تھیں ان سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وقف کی ہوئی چیزوں میں وقف کرنے والے کے منشاء کو خصوصی اہمیت حاصل ہے  یہ بھی معلوم ہوا کہ وقف کی ہوئی چیز سے وقف کنندہ کی شرط کے دائرہ میں رہتے ہوئے متولی بھی استفادہ کرسکتا ہے؛ البتہ وہ اسے فروخت نہیں کر سکتا  اور متولی چوں کہ خود وقف کرنے والا بھی ہو سکتا ہے؛ اس لئے یہی روایت اس بات کی دلیل ہے کہ خود وقف کرنے والا بھی وقف کی ہوئی چیز سے استفادہ کر سکتا ہے؛ البتہ مسجد کے سوا جو بھی وقف ہو اس کا آخری مصرف فقراء وحاجت مند ہوں گے  چاہے وقف کرنے والے نے اس کی صراحت کی ہو یا نہ کی ہو؛ کیوں کہ وقف کا اصل مقصد اجروثواب کا حصول ہے اور اجروثواب حاصل کرنے کا اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے لئے اس کا استعمال ہو یا اس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے۔

وقف پر نہ و قف کرنے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے نہ اس پر متولی کی ملکیت ہوتی ہے اور نہ اُن لوگوں کی جن کو اس سے نفع اٹھانے کا حق دیا گیا ہے؛ بلکہ وقف کے بارے میں شریعت اسلامی کا تصور یہ ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہوتی ہے۔ ھو حبسھا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ(درمختار مع الرد  کتاب الوقف: 3؍ 4 93) چوں کہ اسلام میں صرف عبادت ہی کارِ ثواب نہیں ہے؛ بلکہ انسانی خدمت بھی باعث اجروثواب ہے؛ اس لئے وقف کا دائرہ بہت وسیع ہے۔  جیسے فقراء کو نفع پہنچانے والی چیزوں کا وقف درست ہے۔ اسی طرح ایسا وقف بھی درست ہے  جس سے فقراء اور مال دار دونوں فائدہ اٹھا سکیں۔ یہاں تک کہ خود اپنی اولاد پر وقف  کرنا بھی درست ہے (دیکھیے: درمختار  فصل فیما یتعلق بوقف الاولاد:3؍ 604) ؛ چنانچہ مدارس، مساجد،  یتیم خانے،  غرباء کی امداد کے لئے قائم کئے ہوئے ادارے  دینی یا عصری تعلیم کے خیراتی ادارے، مریضوں کے علاج،  بیواؤں کی کفالت اور اس طرح کے مقاصد کے لئے قائم ہونے والے ادارے، جن کا مقصد تجارت کرنا اور کسی خاص فرد کے لئے مادی نفع حاصل کرنا نہ ہو  وہ سب کے سب اوقاف میں داخل ہیں۔

وقف بِل 2024 کیوں قابل قبول نہیں؟

1۔              وقف ایک اسلامی عبادت ہے اور وقف کی املاک مسلمانوں کی عطیہ کی ہوئی ہیں نہ کہ حکومت کی۔ اس لئے ظاہر ہے کہ اس کا نظم ونسق مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں ہونا چاہئے؛ کیوں کہ وہی اس کو اس کے تقاضوں کے مطابق انجام دے سکیں گے۔ لیکن اس بل میں وقف کے انتظام وانصرام میں مسلمانوں کی حصہ داری کو غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے۔  اول تو سنٹرل وقف کونسل وریاستی وقف بورڈ دونوں میں لازمی طور پر کم از کم دو غیر مسلم ارکان شامل کئے جائیں گے۔  دوسرے: پہلے وقف بورڈ کے چیف ایکزیٹیوٹر کے لئے مسلمان ہونا ضروری تھا  اب یہ شرط ختم کر دی گئی ہے اور پہلے وقف بورڈ کو مجاز کیا گیا تھا کہ وہ اس عہدہ کے لئے دو ناموں پر مشتمل ایک پینل کے نام پیش کرے؛ مگر اس بِل کے مطابق خود حکومت اپنی طرف سے چیف ایکزیٹیو آفیسر کا تقرر کرے گی۔

چنانچہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان تبدیلیوں کے بعد بطور رکن وبطور عہدہ دار وقف کونسل میں 13؍ غیر مسلم اور وقف بورڈ میں سات غیر مسلم شامل ہو سکتے ہیں۔  یہ مکمل طور پر دستور ہند کی دفعہ: 26؍ کے خلاف ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس کے بر عکس اترپردیش  یوپی  کیرالہ  کرناٹک اور تامل ناڈو وغیرہ میں ایسے قانون ہیں جن کے مطابق ہندو جائیدادوں کا انتظام صرف ہندو ہی کر سکتے ہیں۔ بہار اینڈومنٹ ایکٹ کے تحت تین بورڈ قائم ہیں  ؛ہندو اینڈومنٹ بورڈ ، شوتمبر اینڈومنٹ بورڈ اور ڈگمبر جین اینڈومنٹ بورڈ۔  ان بورڈوں کے اراکین لازمی طور پر ہندو ہی ہوں گے ۔ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے اراکین بھی لازمی طور پر سکھ مذہب سے ہوں گے- ظاہر ہے جب وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت ہوگی اور اس کا ذمہ دار بھی ایک غیر مسلم ہوگا تو کیسے امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ وقف کے مفادات کے تحفظ کا حق ادا کریں گے۔

2۔               اس بل کے مطابق وقف جائیدادیں بڑی حد تک حکومت کے اختیار میں چلی جائیں گی اور وقف بورڈ بے اختیار ہو کر رہ جائے گا۔ وقف بورڈ کو وقف کے رجسٹریشن کا اختیار بھی نہیں رہے گا۔  رجسٹریشن کی درخواست آنے پر وہ اس کو کلکٹر کے سامنے پیش کرے گا اور کلکٹر اس درخواست کے درست ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔ اگر کلکٹر کے خیال میں یہ جائیداد کلی یا جزوی طور پر متنازعہ ہے یا سرکاری ہے  تو اس کو بطور وقف رجسٹر نہیں کیا جائے گا۔ اگر وقف جائیداد پر سرکاری قبضہ ہے تو اسے وقف نہیں مانا جائے گا۔  کلکٹر کو اختیار ہوگا کہ وہ اسے طے کرے اور اگر کلکٹر اس کے سرکاری ہونے کی رائے دیتا ہے  تو کلکٹر کی رائے پر عمل ہوگا اور اگر کلکٹر اس پر کوئی رائے نہیں دے تو اس جائیداد کو وقف تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ وقف ٹریبونل  کو کسی جائیداد کے وقف رجسٹرڈ کرنے کا جو اختیار تھا اسے ختم کر دیا جائے گا۔ آڈیٹر کے انتخاب کا فیصلہ بھی حکومت کی طرف سے ہوگا اور مرکزی حکومت کے طریقہ کار کے مطابق ہی آڈٹ شائع ہوگی مرکزی حکومت ہی طے کرے گی کہ وقف کی آمدنی سے بیوہ اور مطلقہ کے تعاون کا کیا طریقہ ہو۔

غرض کہ وقف کا انتظام اور اس سے متعلق بنیادی فیصلے حکومت کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور کلکٹر،جو ظاہر ہے کہ حکومت کا نمائندہ ہوگا وہ تمام امور کا فیصلہ کرے گا تو کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ جہاں کسی زمین کے بارے میں نزاع وقف بورڈ اور حکومت کے درمیان ہو اس میں وقف کے حق میں انصاف فراہم ہو اور کلکٹر وقف کے منشاء سے آزاد ہو کر انصاف پر مبنی فیصلہ کرے۔

3۔              وقف ٹریبونل  کو بھی کمزور اور بے اثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ کسی اور ٹریبونل  کو بھی وقف ٹریبونل  قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب اس میں تین کے بجائے دو ارکان ہوں گے۔  وقف ٹریبونل میں ایک ایسے رکن کے تقرر کو ختم کر دیا گیا ہے جس کو قانون شریعت کا علم ہو اور ریاستی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج اور ریٹائرڈ آفسروں کو وقف ٹریبونل کا چیئرمین اور رکن مقرر کرے۔

غرض کہ پہلے تو ٹریبونل کے اختیار کم کئے گئے اور کلکٹر کو ایک با اختیار عہدہ دار بنا کر اس میں شامل کیا گیا۔  دوسرے ٹریبونل کی ہیئت ترکیبی کو بھی تبدیل کردیا گیا۔  وقف ایک شرعی عمل ہے؛ لیکن اس کے لئے قانون شریعت سے واقف ایک رکن کی شرط بھی ختم کر دی گئی۔

4۔               وقف برائے استعمال وقف قانون کا ایک بنیادی اصول ہے اور وقف ایکٹ 1995, میں اس کو تسلیم کیا گیا ہے۔  اُس ایکٹ میں یہ درج ہے کہ اگر طویل عرصے سے کوئی جائیداد بطور مسجد  درگاہ یا قبرستان کے استعمال میں ہے اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لئے ہے تو اس کو وقف جائیداد تسلیم کیا جائے گا۔ اس بِل کے ذریعہ ’’ وقف برائے استعمال‘‘ کو ختم کر دیا گیا ہے  ۔اس سے مسجدوں اور دیگر اوقاف پر فرقہ وارانہ دعوے اور اختلافات بڑھیں گے  جو مسجد  درگاہ یا قبرستان صدیوں سے اس مقصد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں  اگر مال گزاری ریکارڈ میں ان کا بہ حیثیت وقف اندراج نہیں ہے تو اس پر مقدمہ بازی شروع ہو جائے گی اور ریاستی حکام اس پر ناجائز قبضہ کر لیں گے۔

5۔              بِل میں تحریر ہے کہ جو شخص گزشتہ کم سے کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہو صرف وہی وقف قائم کرسکتا ہے۔اس دفعہ کی رُو سے وہ جائیدادیں جو کسی غیر مسلم نے وقف کے لئے عطیہ کی ہوں اور بطور مسجد  قبرستان اور مسافر خانہ استعمال ہو رہی ہوں گی وقف سے نکل جائیں گی۔

اول تو پانچ سال کی قید بے معنیٰ ہے۔  اسلام کی نظر میں جس شخص نے آج اسلام قبول کیا ہو  اس میں اور جس نے پچاس سال پہلے اسلام قبول کیا ہو  دونوں میں عبادت کی انجام دہی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔  جیسے ایک شخص پر مسلمان ہوتے ہی نماز پڑھنا اور روزے رکھنا واجب ہے  اسی طرح وہ وقف کرنے کا بھی مجاز ہے؛ اس لئے یہ قطعاَ بے معنیٰ شرط ہے۔

دوسرے: ہندوستان میں بہت سے مسلمان بادشاہوں، نوابوں اور زمینداروں نے اپنی غیر مسلم رعایا کے لئے وقف کیا ہے۔  اسی طرح بہت سے ہندو راجاؤں اور حکمرانوں نے اپنی مسلمان رعایا کے لئے مسجدوں اور قبرستانوں وغیرہ پر وقف  کیا ہے۔ اس دفعہ کی رو سے غیر مسلموں کے یہ عطیہ جات وقف کے دائرے سے باہر نکل جائیں گے اور بہت سے اوقاف متنازع بن جائیں گے۔

یوں تو یہ پورا کا پورا قانون ہی وقف کو ہڑپ کرنے اور مسلمانوں کی املاک پر ناجائز سرکاری قبضہ کی نیت سے بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؛ لیکن ذیل میں چند اہم نکات ہیں  جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ پوری قوت کے ساتھ اس بِل کو واپس لینے کا مطالبہ کریں۔

بعض پروپیگنڈے

موجودہ وقف ایکٹ پر فرقہ پرستوں کی طرف سے کچھ اعتراضات کئے جاتے ہیں  جن میں بعض تو محض پروپیگنڈہ ہیں  اور بعض غلط فہمی پر مبنی ہیں:

1۔              ’’وقف بورڈ کو کسی بھی جائیداد پر دعویٰ کرنے کے مطلق اختیارات دئیے گئے ہیں  یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں وقف جائیدادیں تقریباََ چھ6؍ لاکھ ایکڑ پر محیط ہیں اوروقف بورڈ ملک کے تیسرے سب سے بڑے زمین کے مالک ہیں‘‘

اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سات لاکھ ستر ہزار گاؤں ہیں۔  اگر مان لیا جائے کہ ان میں سے نصف تعداد میں کم یا زیادہ مسلمان بھی بستے ہیں تو ایسے گاؤں کی تعداد تین لاکھ پچاس ہزار ہوتی ہے۔ مسلمان جہاں بھی آباد ہونے ہیں  وہاں کم از کم ایک قبرستان، عیدگاہ اور نماز کے لئے مسجد ہوتی ہے- اگر قبرستان اور عید گاہ کے لئے ایک ایک ایکڑ اور مسجد کے لئے نصف ایکڑ یعنی اوسطاََ ڈھائی ایکڑ فی آبادی زمین فرض کی جائے تو اس کی مقدار تو نو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو ایکڑ زمین ہونی چاہئے جیسا کہ ہندو بھائیوں کے یہاں مندر، مٹھ، شمشان گھاٹ ہوتے ہیں- اگر اس حساب سے دیکھیں تو چھ لاکھ ایکڑ زمین کوئی بڑا رقبہ نہیں ہے اور پھر یہ املاک سرکار کی دی ہوئی نہیں ہے، بلکہ خود مسلمانوں کی ہیں۔

2۔               ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ: حکومت ہر 10, سال میں تمام وقف جائیدادوں کا سروے کرے- اس سروے کے اخراجات ٹیکس کے پیسے سے پورے کیے جاتے ہیں۔اکثریتی برادری کو یہ اخراجات کیوں برداشت کرنا چاہئے۔

                    ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ ایک طبقہ کی ضرورت پر اسی طبقہ کی رقم خرچ ہو۔  برادران وطن کی مذہبی تقریبات پر  یاتراؤں اور میلوں پر بہت بڑی رقم خرچ ہوتی ہے اور اس رقم میں ملک کے تمام شہریوں کا ٹیکس بالواسطہ شامل ہوتا ہے۔  یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے بڑے ٹیکس دہندگان میں اچھی خاصی تعداد میں مسلمان تجار بھی شامل ہیں۔ اور آج تو پانی کی ایک بوتل بھی لی جائے تو اس میں بھی ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ ان اخراجات میں مسلمانوں کے ٹیکس کی رقم بھی شامل ہوتی ہے؛ اس لئے یہ اعتراض قطعاَ بے جا اور غلط ہے۔

3۔              یہ بھی تأثر دیا جا رہا ہے کہ وقف کی جائیداد کا فیصلہ یک طرفہ طور پر وقف ٹریبونل کر دیتا ہے اور کسی بھی جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وقف کی جائیداد پر کوئی شخص ادارہ یا سرکار قابض ہو تو اس میں کیس چلتے ہیں، فریقین اپنا ثبوت پیش کرتے ہیں اس کی روشنی میں ٹریبونل فیصلہ کرتا ہے۔اگر فیصلہ پر کوئی ایک فریق مطمئن نہیں ہو تو وہ ہائی کورٹ جا سکتا ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مطمئن نہ ہو تو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ وقف ٹریبونل  کی مدد سے وقف بورڈ جائیداد کو وقف قرار دیتا ہے، جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔

4۔               یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وقف ایکٹ کے سیکشن 83کے تحت وقف ٹریبونل  کو شریعت کے مطابق چلایا جاتا ہے، ایک غیر مسلم کو اسلامی قانون کے تحت چلائے جانے والے ٹریبونل سے انصاف حاصل کرنے پر مجبور کیوں جا رہا ہے؟

                    حقیقت یہ ہے کہ وقف ٹریبونل حکومت کے مقرر کئے ہوئے ایک قانونی ماہر اور ایک احکام شریعت کے ماہر پر مشتمل ہوتا ہے۔  جو مسائل بورڈ کے زیر تولیت اوقاف کے استعمال سے متعلق شرعی نوعیت کے ہوتے ہیں  ان کو شریعت کے مطابق حل کیا جاتا ہے ۔ مثلاَیہ بات کہ ایک زمین مسجد پر وقف ہے  کیا اس کی زائد آمدنی قبرستان پر یا تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے؟ اس کے لئے شریعت کے معتبر ماہرین کی رائے سے فیصلہ ہوگا  اور دوسرے مسائل جیسے وقف بورڈ اور کسی مسلم یا غیر مسلم فریق کے درمیان تنازعہ ہے تو ان کو قانون ملکی کے مطابق فیصل کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وقف ٹریبونل غیر مسلم فریق پر شریعت کے قانون کو لاگو کرتا ہے۔

5۔              ایک بات بار بار کہی جارہی ہے کہ’’ تمل ناڈو کے تروچندرائی میں ایک مکمل ہندو آبادی والا گاؤں جس میں 1500؍ سال سے زیادہ پرانا ایک ہندو مندر ہے کو وقف جائیداد قرار دے دیا گیا ہے‘‘۔…یہ خبر جس طرح چلائی جا رہی ہے  وہ صحیح نہیں ہے۔  یہ اراضی چھ سو ایکڑ پر مشتمل ہے  اور تمل ناڈو وقف بورڈ کے بیان کے مطابق یہ زبانی وقف ہے  جو چھ سو سال پہلے وقف کیا گیا تھا اور جس مندر کو پندرہ سو سال پہلے کا بتایا جا رہاہے  وہ سو سال سے کچھ عرصہ پہلے کا ہے۔ یہاں پانچ سو تا چھ سو مکانات کی ایک آبادی بس گئی ہے  جو زیادہ تک غیر مسلموں بھائیوں پر مشتمل ہے۔  وقف بورڈ نے اپنے ریکارڈ کی بنیاد پر بیان دیا تھا۔ لیکن اس نے معاملہ کو حکومت کے حوالہ کر دیا ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کر دے  اسے منظور ہوگا- اس پہلو کا سچائی کے ساتھ ذکر نہیں کیا جا تا۔

      معترضین بار بار یہ بات اٹھاتے ہیں کہ موجودہ قانونِ وقف’’وقف بورڈ‘‘ کو کسی بھی زمین پر دعویٰ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وقف بورڈ کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے؟ اور کیا صرف وقف بورڈ کے کسی دعویٰ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی صاحب ِحق پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ کس زمین پر اپنا حق پیش کر سکتا ہے اور کس پر نہیں؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی شخص دعویٰ کرے تو قابل قبول ثبوت کے بغیر دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا  اور مقدمہ قبول کرنے کے بعد بھی جب تک کوئی بات ثبوت وشہادت سے ثابت نہ ہو جائے  اس دعویٰ پر مہر نہیں لگائی جاتی ہے اور اس دعویٰ کا نفاذ نہیں ہوتا ہے، اس لئے یہ صرف پروپیگنڈہ ہے۔