نام کتاب : جہاد کے احکام و آداب
مبصر : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
صفحات : 180
قیمت : 160 روپئے، مجلد – 200 روپئے
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، D 307، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، ، نئی دہلی -25
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اسلام کی کون سی اصطلاح یا حکم عالمی اور ملکی دونوں سطحوں پر سب سے زیادہ معتوب رہی ہے اور اس کے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو جواب ہوگا،’ جہاد‘ عالمی سطح پر اسے ظلم و تشدّد ، دہشت گردی ، انارکی اور قتل و غارت گری کا ہم معنیٰ بنادیا گیا ہے اور ملک میں تولو جہاد ، کورونا جہاد ، سِوِل سروسز جہاد اور نہ جانے کتنی قسمیں ایجاد کرلی گئی ہیں اور ان کے ذریعے مسلمانوں کومطعون کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔
تقریباً ایک صدی قبل مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے ’الجہاد فی الاسلام‘ کے نام سے ایک معرکہ آرا کتاب تصنیف کی تھی۔ اس کا غلغلہ عرصہ تک بلند رہا۔ بعد میں بدلتے ہوئے حالات میں اس موضوع کی مزید تنقیح و توضیح کی ضرورت محسوس کی گئی ، چنانچہ متعدد علمائے اسلام کی کتابیں شائع ہوئیں۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹرمشتاق احمد اور ڈاکٹر عمار خاں ناصر نے اس موضوع پر عمدہ تحقیقات پیش کی ہیں ۔ ہندوستان میں کئی برس قبل مولانا یحییٰ نعمانی کی کتاب ،’الجہاد‘ کے نام سے آئی تھی اور تھوڑا عرصہ قبل مولانا محمد عنایت اللہ سبحانی کی دو کتابیں ’جہاد اور روحِ جہاد‘ او ر ’جہاد اور آیاتِ جہاد‘کے نام سے آئی ہیں ۔اس موضوع پر عالمی شہرت کے حامل علامہ یوسف القرضاوی کی ،’فقہ الجہاد‘ بھی دو جلدوں میں کئی برس قبل منظرِ عام پر آئی تھی ۔کچھ اور کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ اب ایک نئی کتاب مولانا سید جلال الدین عمری ، صدر شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند کی ، احکامِ ہجرت وجہاد‘ کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔
مولانا عمری کی شہرت یوں تو اسلامی معاشرت کے موضوع پر ان کی تصانیف ’ عورت اسلامی معاشرہ میں‘ ،’مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ‘ ، ’اسلام کا عائلی نظام‘ ،’ عورت اور اسلام‘ ، ’مسلمان خواتین کی ذمے داریاں‘ ، ’بچے اور اسلام ‘، ’قرآن کا نظامِ خاندان اور مسلم پرسنل لا کے بعض مسائل ‘ سے ہے ، بعض اہم دینی پہلوؤں پر بھی ان کی تصانیف ہیں ، مثلاً معروف و منکر ، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور ، تجلیاتِ قرآن ،اوراقِ سیرت ، اسلام اور مشکلاتِ حیات ،وغیرہ ، لیکن ان کے قلم سے بعض عصری مسائل پر بھی اہم کتابیں نکلی ہیں ، مثلاً اسلام انسانی حقوق کا پاسباں ، کم زور اور مظلوم اسلام کے سایے میں ، صحت و مرض اسلامی تعلیمات ،غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق ، غیر اسلامی ریاست اور مسلمان ۔ جہاد کے موضوع پر مولانا نے 2001 سے لکھنا شروع کیا تھا ، 2004 تک اس کی قسطیں سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ میں شائع ہوتی رہیں ۔ بعد میں دیگرعلمی اور تحریکی مصروفیات کی وجہ سے وہ اسے مکمل نہ کرسکے۔ _ اپریل 2019 میں جماعت اسلامی ہند کی امارت سے سبکدوشی کے بعد انہیں کچھ فرصت ملی تو اس کو مکمل کرنے کا خیال آیا ، چنانچہ چھ ماہ کی محنت سے کچھ مباحث کا اضافہ کرکے یہ کتاب تیار کی۔ یہ 2019 کے اواخر ہی میں طباعت کے لیے تیار ہوگئی تھی ، لیکن بعض اسباب سے اس کیاشاعت اب ہوسکی ہے ۔
کتاب کی ابتدا میں ایک مضمون ہجرت پر ہے ، جس میں اس کی شرائط اور احکام زیرِ بحث آئے ہیں ۔ باقی کتاب جہاد پر ہے ۔ فاضل مصنف نے جہاد کے معنیٰ و مفہوم کی وضاحت کے بعد اس کی قسمیں (جہادِ نفس ، جہاد باللسان، جہاد بالمال ، جہادِ علمی اور جہاد بالسیف) بیان کی ہیں _۔ جہاد کی فضیلت پر آیات اور احادیث نقل کی ہیں ۔ ایک اہم بحث یہ کی ہے کہ جہاد کا تعلق اسلامی ریاست سے ہے اور یہ سربراہِ ریاست کے ماتحت ہی ہوگا۔ _ جہاد کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی ہے _ اس ضمن میں لکھا ہے کہ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ جہاد کفر کو مٹانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نےاظہارِ دین کا وعدہ کیا ہے۔ مصنف نے اس سے بحث کی ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ دین کااظہار اور غلبہ پہلے کیسے ہوا تھا اور آئندہ کیسے ہوگا؟ آگے جہاد کے بعض احکام پر روشنی ڈالی ہے ، مثلاً یہ کہ جہاد فرض ِکفایہ ہے ، جو کبھی فرضِ عین ہوجاتا ہے ۔ کب جہاد کے لیے نکلتے وقت والدین کی اجازت ضروری ہوتی ہے؟ مصنف نے ایک بحث یہ کی ہے کہ معذور پر جہاد فرض نہیں ہے ۔ کتاب کی یہ بحث بھی اہم ہے کہ غیر اسلامی ریاست میں جہاد نہیں ہے۔ آخر میں مولانا مودودی اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتابوں کا مختصر تعارف کرایا ہے۔
جہاد کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے ذریعے علمائے اسلام نے اس پر کیے جانے والےاعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نقطہ ہائے نظر میں بعض اختلافات ہیں ۔ بہر حال ان کتابوںسے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ مولانا جلال الدین عمری کی یہ کتاب اپنے بعض قیمتی مباحث کی وجہ سے اس موضوع پرایک عمدہ اضافہ ہے ۔ ٭٭٭
جہاد کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے ذریعے علمائے اسلام نے اس پر کیے جانے والےاعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نقطہ ہائے نظر میں بعض اختلافات ہیں ۔ بہر حال ان کتابوںسے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ مولانا جلال الدین عمری کی یہ کتاب اپنے بعض قیمتی مباحث کی وجہ سے اس موضوع پرایک عمدہ اضافہ ہے ۔