عصمت دری سانحہ اور ممتا بنرجی کا سیاسی مستقبل

نوراللہ جاوید
ستمبر 2024

ممتا بنرجی کی سیاست اتار چڑھاؤاورجدو جہد سے بھر پورہے ۔1984میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ پہنچنے والی ممتا بنرجی بائیں محاذ حکومت کی سب سے بڑی نقاد بن کر ابھری تھی۔ اس کی وجہ سے انہیں سخت ترین مشکلات کا سامنابھی کرنا پڑا مگر انہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی عزم و حوصلہ کو قائم رکھا اور ہمت نہیں ہاری ۔اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی دھن اور مخالفین کے ہرایک حملوں کا جارحانہ انداز میں جواب دینے کی عادت کی وجہ سے وہ کانگریس کے ساتھ بھی نہیں چل سکیں اور پارٹی قیادت کے ساتھ اختلافات کے بعد انہوں نے کانگریس سے علاحدگی اختیار کی اور 1999میں ترنمول کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔ترنمول کانگریس کے قیام کے بعد سے ہی ممتا بنرجی نے بائیں محاذ کے طویل دور والی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے جارحانہ رویہ اختیار کیا ۔اس کے لیے  انہوں نے پہلے بی جے پی سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز نہیں کیا بلکہ بنگال کے سیاسی حلقے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ کانگریس کی تقسیم اور ترنمول کانگریس کا قیام بی جے پی اور آر ایس ایس کے طویل منصوبے کا ہی حصہ تھا۔ترنمول کانگریس ابتدائی سالوں میں بی جے پی کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑی رہی۔تاہم جلد ہی ممتا بنرجی کواحساس ہوگیا کہ وہ بی جے پی کے ساتھ چل کر بنگال کے اقتدار تک نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ 27,فیصد بنگال کی مسلم آبادی ان کے ساتھ نہیں آسکتی ہیں ۔چنانچہ انہوں نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑکر کانگریس کے ساتھ سفر کا آغاز کیا ۔ بایاں محاذ حکومت کو بنگال میں صنعت کاری مہم مخالفت تحریک، جسے سینگور و نندی گرام تحریک بھی کہاجاتا نے ممتا بنرجی کو زمین ہموار کرنے کا موقع فراہم کردیا۔اسی دور میں سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مسلمانوں کو بائیں محاذ سے دور کردیا اور وہ ترنمو ل کانگریس اور ممتا بنرجی کو متبادل سمجھنے لگے ۔طویل حکمرانی کے بعد 2011کے اسمبلی انتخابات میں بایاں محاذ مکمل طور پرشکست سے دوچار ہوگیا اور ممتا بنرجی کے وزیر اعلیٰ بننے کا خواب پورا ہوگیا۔2011میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے اب تک ممتا بنرجی کی جارحانہ سیاست باقی رہی اور انہوں نے اپنی حکومت پر کیے جانے والے ہر حملہ  کا جارحانہ طور پر ہی جواب دیا۔گزشتہ 14برسوں میں ان پر کئی گھوٹالوں کے الزامات لگے، ان کے کئی وزارجیل گئے ،پارٹی پر بدعنوانی، غنڈہ گردی اور سنڈیکٹ چلانے کے شدید الزامات بھی لگے۔اساتذہ تقرری گھوٹالے نے نوجوانوں کو مایوس تو ضرور کیا اس کے باوجود 2024کےلوک سبھا انتخاب میں 29 سیٹیں حاصل کرکے انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ بنگال کی مقبول ترین لیڈر ہیں ۔تاہم 9,اگست کو آرجی کار میڈیکل کالج و اسپتال میں جونیئر ڈاکٹر کی بہیمانہ عصمت دری اور قتل کے واقعے نے پہلی بار ترنمول کانگریس اور اس کی حکومت کو مکمل طور پر ہلادیا ہے۔ ایک ماہ گزر چکا ہے مگر نوجوان بالخصوص طلبہ  برادری مسلسل احتجاج کررہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ احتجاج میں شدت آتی جارہی ہے۔یہ پہلاموقع ہے کہ ممتا بنرجی احتجاج اور مظاہرین کے سامنے سینہ سپر ہونے کے بجائے خودسپردگی کرتی نظر آرہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد ممتا بنرجی کی حکومت کے خلاف اس قدر ناراضگی کیوں ہے؟ ترنمول کانگریس اس کا جارحانہ انداز میں جواب کیوں نہیں دے پارہی ہے ۔کیا ممتا بنرجی اپنی پارٹی لیڈران کو قابو میں نہیں کرپارہی ہیں؟

اس سے پہلے بھی بنگال کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے کئی بہیمانہ اور سفاکانہ واقعات رونماہو چکے ہیں۔ لیکن کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پراحتجاج نہیں ہوئے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام میں آتش فشاں پھوٹ پڑاہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کے پیچھے وجوہات کیا ہیں؟

یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ہیں۔ حتیٰ کہ اس ناگفتہ بہ صورت حال میں حکمران جماعت کے لیڈران بھی اسی سوال کے جواب کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ انہیں حیرت ہوتی ہے کہ چند ماہ قبل ہی لوک سبھا انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرنے والی پارٹی کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر غم و غصہ کیوں پھوٹ رہا ہے؟  بنگال کے کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس غصے کے پیچھے جو جذبات یا اشتعال ہے وہ ایک طویل عرصے سے دبا ہوا تھا۔غصے کے پیچھے عموماً ادھوری توقعات ہوتی ہیں۔ مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب وہ توقعات پوری نہیں ہوتیں اور اسی مایوسی سے غصہ یااشتعال جنم لیتا ہے۔

دراصل ممتا بنرجی کی جو شناخت تھی وہ جارحانہ سیاست کے ساتھ عوام کے لیے  کھڑا ہونے اور عوامی مفادات کی بات کرنے والے لیڈر کی تھی مگر 2011میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی عصمت دری جیسے سنگین واقعات میں ممتا حکومت اور ان کی پولس کا کردار ملزمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بجائے جرم کو چھپانے اور معاملے کی نوعیت کو کم کرنے والا رہا ہے۔خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں مغربی بنگال کے عوام نے دیکھا کہ ریاستی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران اور کبھی خود ممتا بنرجی نے’’معمولی واقعہ‘‘،  توکبھی معمول کا واقعہ تو کبھی سازش قرار دے کر عوامی مطالبات کا اثر کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پارک اسٹریٹ عصمت  دری کے واقعے میں متاثرہ کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا وہ دیر رات گئے باہر کیوں نکلی۔ کوتاہی برتنے والے افسران کے خلاف کارروائی کے بجائے تبادلے کے ذریعہ انعام دینے کی کوشش کی گئی۔احتجاجی ٹیچر ورون بسواس کا قتل، بمن گاچھی، کامدونی، گائی گھٹا، مدھیم گرام عمت دری کیس ، کانتھی کے احتجاجی نوجوانوں کا قتل۔ پولیس پر ایک کے بعد ایک الزام لگتے رہے کہ وہ مجرموں کی شناخت کرنے اور مناسب ٹرائل کے ذریعہ سزا کو یقینی بنانے کے بجائے مجرموں کوبچانے کی کوشش کررہی ہے ۔

سابقہ بائیں محاذ کی حکومت کےآخری دور میں بدعنوانی میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ تعلیم کے شعبے میں اہم عہدوں پر پارٹی کے پسندیدہ افراد کی تعیناتی ہونے لگی تھی۔ یہ رجحان دوسرے شعبوں میں بھی شروع ہوگیا مگر ترنمول کانگریس کی حکومت قائم ہونے کے بعداس طرح کی بدعنوانی پوری ریاست میں پھیل گئی۔ اوپر سے نیچے تک ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے اہلیت کا معیار غیر تحریری طور پر تبدیل ہوگیا۔مختلف دیگر’قابلیتیں’ تعلیمی قابلیت سے زیادہ اہم ہوگئیں۔ حقیقی تعلیمی قابلیت ہونے کے باوجود بھی ملازمت کے خواہش مند ہر جگہ محروم رہے۔ پڑھے لکھے نوجوان شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور حکمرانوں  پر سےان کا اعتماد اٹھنے لگا ہے۔

شاردا گھوٹالہ، ناردا اسٹنگ آپریشن ، اساتذہ بھرتی گھوٹالہ، خوراک گھوٹالہ ، مویشی اسمگلنگ اور کوئلہ گھوٹالہ اس طرح بدعنوانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس سے لوگوں کے ذہنوں میں آہستہ آہستہ عدم اطمینان کے بادل اٹھنےلگے ہیں۔ ریاست کے عوام نے دیکھا کہ حکمران جماعت کے اہم لیڈروں اور وزراء پر بدعنوانی کے الزامات لگے اور وہ جیل چلے گئے اور ابھی تک جیل میں ہیں۔ریاست کے لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ ریاستی انتظامیہ کے علاوہ مغربی بنگال کے کئی اضلاع میں سینئر لیڈروں کی سرپرستی میں متوازی انتظامیہ کام کررہی ہے۔کہیں شاجہاں شیخ، کہیں شبو ہزارہ، کہیں اتم سردار۔ کہیں جائنٹ سنگھ ، کہیں جہانگیراور کہیں انوبرتا منڈل جیسے افراد متوازی حکومت اور عدالت چلارہے ہیں ۔ان متوازی حکمرانوں کی سرگرمیوں کی کہانیاں نوآبادیاتی دور اور راجہ مہاراجوں کی آمریت کی یادد تازہ کرتی ہیں۔ تعلیم، معاشی حالات، انتظامی غیرجانبداری، سماجی، ثقافتی اور قدرتی ماحول اور اخلاقیات میں نمایاں گراوٹ کی وجہ سے مغربی بنگال کے شہری ایک طرح سے احساس کمتری کا شکار ہورہے تھے۔بنگال جس سے متعلق کہا جاتا تھا کہ ’’بنگال جو آج سوچتا ہے تو دنیا اس کو کل سوچے گی‘‘  مگر اب بنگال کی تعریف ہونے کے بجائے مذاق کا موضوع بن گیا ہے۔اس کے لیے  عوام حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کو ہی ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

حکمراں چاہے جو بھی اور کوئی بھی پارٹی ہو وہ  یہ سمجھنے لگتی ہے کہ عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے ۔جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو فوراً لوگوں کے ذہنوں میں ہلچل مچ جاتی ہے، ہنگامہ ہوتا ہے، میڈیا میں بہت کچھ لکھا جاتا ہے، ٹی وی پر بحثیں ہوتی ہیں ہے اور پھرکچھ دن بعد لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔میڈیا بھی کسی نئے واقعہ یا موضوع پر مصروف ہوجاتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو ان کی سوچ درست بھی ہے۔ ماضی کے کئی اہم واقعات کی یادیں رفتہ رفتہ مٹ چکی ہیں۔تقریباً ہر روز کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ ہماری یاداشت میں اس کا کتنا حصہ باقی ہے؟ زیادہ تر واقعات وقت گذرنے کے ساتھ بھلا دیئے گئے۔ ہو سکتا ہے کہ نوجوان خاتون ڈاکٹر ایک دن آہستہ آہستہ  یادوں سے غائب ہو جائے۔جس طرح ورون بسواس یا رضوان الرحمن یادوں سے کھوگئے۔ طلبہ  لیڈر انیس خان کا پولس انتظامیہ کے ہاتھوں قتل کو عوام نے فراموش کردیا۔ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے قائدین عوام کی ایسی یادداشت کے حوالے سے  بہت پراعتماد ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ چاہے وہ کچھ بھی کریں، لوگ آخرکار بھول جائیں گے۔ انہیں بھولنے کی صلاحیت کا اتنا یقین ہے کہ ایک المناک، ہولناک واقعے کے بعد بھی پر اعتماد ہوجاتے ہیں کہ ان کااقتدار محفوظ ہے ۔اس لیے انہیں شناخت شدہ سماج دشمن اور بدعنوان لیڈروں کو پناہ دینے میں کوئی دقت نہیں ہوتی ہے۔

ممتا بنرجی اور ان کی سیاسی جماعت بھی یہ گمان کررہی تھی کہ آرجی کار میڈیکل کالج میں جونیئر ڈاکٹر کا بہیمانہ قتل اور اس کے خلاف نوجوان ڈاکٹروں کا احتجاج وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور لوگ اس کو بھول جائیں گے ۔19ویں صدی کے نصف آخر میں انگلینڈ کے ایک نامور تاریخ دان اور سیاسی ماہر لارڈ ایکٹن نے کہا تھا کہ طاقت بدعنوانی کی طرف لے جاتی ہے اور مطلق طاقت مطلق بدعنوانی کو جنم دیتی ہے۔ عموماً طاقت میں اضافے کے ساتھ فرد میں اخلاقیات کا احساس بتدریج کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ طاقت تکبر کو جنم دیتی ہے۔ اسی غرور سے حکمراں انصاف اور ناانصافی کا احساس کھونے لگتے ہیں۔ نیکی اور بدی کا فرق دھندلا جاتا ہے۔ پھر کسی بھی شکل میں اقتدار کو برقرار رکھنا اور طاقت کے دائرہ کار کو بڑھانا ہی مقصد بن جاتاہے۔ طاقتوروں کا تکبر اختلاف رائے کو نظر انداز کرنے کی ذہنیت کو جنم دیتا ہے۔ ایمانداری، عدم تشدد، ہمدردی جیسے انسانی جذبات بے قدر اور غیر معتبر ہو جاتے ہیں۔ جمہوری اقدار، آئینی غیرجانبداری جیسی عظیم تر اصول اہمیت کھو دیتے ہیں۔

اس عصمت دری اور قتل کے واقعے کے بعدبھی ریاستی انتظامیہ میں طاقت اور تکبر کی جھلک صاف نظرآئی ۔ پہلے قتل کو خودکشی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، والدین کو تین گھنٹے تک اندھیرے میں رکھا گیا اور جلد بازی میں پوسٹ مارٹم مکمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل سندیپ گھوش جو بذات خود طاقت کا محور بن چکے تھے، نے سوال کھڑا کردیا کہ رات میں جونیئر ڈاکٹر کو سیمینار ہال میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔غیر حساس رویہ ، حکمراں جماعت کے غیر ذمہ دارانہ تبصرے اور خواتین کا تاریخی احتجاج ’’ری کلیم دی نائٹ ‘‘ کے موقع پر  14 اگست کی رات آر جی کار میڈیکل کالج اسپتال پر مجرمانہ حملہ اور پھر ثبوت کو تباہ کرنے کی کوشش۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمراں جماعت نے متکبرحکمرانوں کے انجام کو فراموش کردیا ہے۔

چند ماہ قبل تک یہ کہاجاتا تھا ممتا بنرجی کی اصل طاقت ریاست میں کنیا شری اور لکشمی بھنڈار جیسی اسکیمیں ہیں جس سے براہ راست خواتین کو فائدہ ہواہے۔ یہ درست بھی ہے کہ ان منصوبوں کے نتیجے میں خواتین کو بہت حدتک فائدہ ہوا ہے۔ مگر اس طرح مالیاتی اسکیموں سے ریاست کی خواتین کس قدر خودکفیل اور بااختیار ہوئی ہیں اور کیا روز مرہ کی زندگی میں وہ معاشی طور پر محفوظ ہیں؟۔ یہی وجہ ہے کہ اب خواتین رقم واپس کرنے کی بات کررہی ہیں ۔حکمراں جماعت کے لیڈروں نے شروع میں کہا کہ ’’ری کلیم دی نائٹ‘‘ صرف شہری اشرافیہ تک محدود ہے مگر اب شہروں سے نکل کر احتجاج گاؤں تک پہنچ رہا ہے۔

بی جے پی پر مذہب اور پولرائزیشن کی سیاست کے لیے سخت تنقید کرنے والی ممتا بنرجی اب خود اسی راہ پر گامز ن ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے 43 ہزار درگا پوجا کمیٹیوں کو پوجا کے لیے  گرانٹ دے چکی ہیں۔ پہلے یہ گرانٹ 25, ہزار سے شروع ہوئی اور اب اضافہ ہوکر 85, ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اگلے سال 2025کے لیے  پہلے ہی سے اعلان کردیا گیا ہے کہ اب ایک لاکھ روپے کی گرانٹ دی جائے گی۔کیا سرکاری خزانے کا استعمال مذہبی رسوم کے لیے درست ہے؟ ممتا بنرجی کا یہ سیکولرازم ہے۔وہ سرکاری خزانے سے بنگال کے سیاحتی شہر دیگھا میں عالیشان مندر کی تعمیر کرارہی ہیں ۔ مگر اب درگا پوجا کمیٹیاں حکومت کے گرانٹ کو واپس کررہی  ہیں۔

کہاجاتا ہے کہ ’’جب کوئی فنکار حکمران طبقہ کے قریب ہو جاتا ہے، تو وہ احتجاج کی طاقت کھو دیتا ہے‘‘۔ گزشتہ بائیں محاذ کے دور حکومت میں ہی  بندھو مترا (ڈرامہ نگاری کے لیے)، گریش گھوش (ہدایت کے لیے) اور شمبھو مترا (اداکاری کے لیے) کے نام سے فن کاروں کو نوازنے اور ان کے ذریعہ عوامی حمایت حاصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔بہت سی دوسری چیزوں کی طرح یہ بھی ’’ سوویت ہینگ اوور‘‘ تھا۔ممتا بنرجی نے بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد اس روایت کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیا اور انہوں نے نہ صرف ایوارڈ کے نام پر  رقم سے نوازا بلکہ بڑی تعداد میں ایسے افراد کو قانون سازاداروں میں بھی بھیجا۔جس کا واحد مقصد فن کار ،جس کی آواز مضبوط اور توانا ہوتی ہے اورعوام میں توجہ سے سنی جاتی ہے، کو خاموش کرنا چنانچہ جب ری کلیم دی نائٹ میں بنگال کے فن کاروں نے شرکت کی تو حکمراں جماعت کے لیڈر جو تکبر میں مبتلا تھے ، طعنے دینے لگے کہ اگر انہیں تکلیف ہوئی ہے تو وہ ایوارڈ واپس کیوں نہیں کردیتے ۔اس لمحے نے فنکاروں کو جھنجھوڑدیا جس کے بعد بنگال میں بھی ایوارڈ واپسی کا سلسلہ  شروع ہوچکا ہے۔ایک کے بعد ایک اداکار و فن کار ایوارڈ واپس کررہے ہیں ۔ایوارڈ واپس کرنے والے ایک فن کار کہتے ہیں کہ یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ پارک اسٹریٹ میں عصمت دری، کامدونی میں عصمت دری اور قتل، حکمراں پارٹی کے لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات اور سندیش کھالی میں ہونے والے واقعات کے بعد2017 اور 2023 میں ایوارڈ قبول کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ ’’اگر میں اس وقت نہیں بولا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اب بھی نہیں بول سکتا۔بنگلہ زبان میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’ جب ثقافت کی گھڑی پلٹتی ہے تو ہوا چلتی ہے‘‘

گرچہ سیاسی جماعتیں اس  حادثے پر سیاست کرکے اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن عوامی احتجاج ابھی  جاری ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان جو بڑی تعداد میں اس احتجاج کا حصہ ہیں، سیاسی جماعتیں چاہے بی جے پی ہو یا سی پی آئی ایم یا پھر ترنمول کانگریس، سب  کی چالوں  کو ناکام بنارہے ہیں ۔ 14 اگست کی رات کلکتہ اور بنگال کے دیگر علاقوں میں سڑکوں پر جو ہجوم نظر آیا وہ دراصل بے اعتمادی، مایوسی اور غصے کے مشترکہ جذبات کا عکاس تھا ۔وہ تمام غصہ جوان کے لاشعور کا حصہ بن چکا تھا وہ شعورمیں واپس آرہا ہے۔ کلکتہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بے مثال ہے۔ احتجاج کی یہ وہی لہر ہے جسے سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس نے نیشنل کیتھرسس قرار دیا تھا ۔ مصنف میلان کنڈیرا نے کہا تھا کہ ’’طاقت کے خلاف انسان کی جدوجہد دراصل فراموشی کے خلاف یادوں کی جدوجہد ہوتی ہے‘‘۔ہم نہیں جانتے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، لیکن اس دور کے کچھ الفاظ اور واقعات زمان و مکان کی حدود کو عبور کر کے ہماری یادوں میں انمٹ الفاظ کی طرح رہ جائیں گے۔ گزشتہ دنوں انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف میں کلکتہ شہر سے متصل ہوڑہ کے ایک اسکول تراسوندری بالیکا ودیا بھون کی ہیڈ مسٹریس مونالیسا میتی کا ایک بیان شائع ہوا تھا جس میں احتجاجی طلبہ  سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میں آپ کو بتانے آئی ہوں کہ اپنے حقوق کے لیے ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں ورنہ آپ کو کبھی اپنے حقوق نہیں ملیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’اگر ریاست ٹوٹتی ہے تو اٹھارہ سال سے کم عمر کے فرد کو بھی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔خواتین کے ایک گروپ نے کون نگر محلے میں درگا پوجا کے لیے سرکاری گرانٹ واپس کرنے کا اعلان کرتے ہوئے  کہا کہ جب ناانصافی معمول بن جائے تو احتجاج فرض بن جاتا ہے۔ اس طرح غیر مسلح طلبہ  اور نوجوانوں  کے احتجاج میں بار بار گاندھی واپس آرہے ہیں اور شاہین باغ تحریک کی بھی یاد تازہ ہورہی ہے۔

مگر اس پورے سیاسی منظرنامہ کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ریاست کی 30,فیصد مسلم آبادی اس پوری ہنگامہ آرائی سے لاتعلق بنی ہوئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ بنگال میں کچھ ہوہی نہیں رہا ہے۔ کنارہ کشی، اجتماعی مسائل سے چشم پوشی والے رویے نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس بدگمانی کو مزید تقویت پہنچائی کہ مسلمان  ایک خودغرض اور اپنے مسائل میں محصور رہ جانے والی ہی کمیونٹی ہے۔ جب کہ ریاستی جبر میں طلبہ  انیس خان، صدیق ہلدار اور آئے دن غیر مقیم مسلم بنگالی مزدوروں کی لاشیں مسلم دشمن نفرت کی بھینٹ چڑھنے کی وجہ سے ہریانہ اور دیگر ریاستوں سے آتی رہتی ہیں ۔