بلڈوزر – ہندوتوا فسطائیت کی شرمناک علامت

 عبدالباری مسعود
ستمبر 2024

 اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ  بلڈوزر ریاستی جبر کی ایک بے رحم  علامت بن گیا ہے۔ راجستھان کے شہر اودے پور کی تازہ مثال لیں جہاں ملزم اسکولی لڑکے کے والد کرایہ دار تھے لیکن  بلڈوزر  ان کے کرایہ کے مکان پر چلادیا گیا ۔ الہ آباد ( پریاگ راج) میں بھی یہی دیکھنے میں آیا۔  ویلفیئر پارٹی کے لیڈر کا مکان  آنا فانا میں توڑ دیا گیا جو کہ ان کی بیوی کے نام پر تھا۔  مدھیہ پردیش کے قصبہ کھرگون میں  دونوں ہاتھوں سے محروم ایک شخص کی دکان کو بلڈوزر سے مہندم کردیا گیا۔ اس پر وہی جھوٹا الزام تھا کہ اس  نے پولیس پر سنگ باری میں حصہ لیا تھا۔

   چنانچہ   اودے پور کے آٹو رکشہ ڈرائیور راشد خان کا یہ سوال پوچھنا بالکل  واجب ہے کہ یہ کیسا انصاف ہے ؟ مکان میرا تھا اس کو محض اس وجہ سے گرادیا گیا کہ کرایہ دار کے لڑکے نے  مبینہ طور پر ایک  جرم کا ارتکاب کیا تھا؟ اگر جرم کسی اور نے کیا  تھا تو اس کی سزا مجھے کیوں دی گئی؟ اگر انتظامیہ یہ دعوی کرتی ہے کہ یہ مکان  غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا تو وہ اس واقعہ کے بعد کیوں حرکت میں آیا ؟  جسے محض ایک دن کے نوٹس پر  مہندم کردیا گیا۔ ایک مخصوص فرقہ کے مکانوں پر بلڈوزر چلانے کا یہ قابل مذموم غیر آئینی سلسلہ مودی حکومت کے دوسرے  دور میں شروع ہوا جس میں اب تک سینکڑوں خاندانوں کے آشیانوں کو ا جاڑ دیا گیا۔  بہر حا ل پانی جب سر سے اوپر آگیا تب سپریم کورٹ حرکت میں آیا ہے۔ ایسامعلوم ہوتا ہے ہجومی تشدد کے ساتھ ساتھ بلڈوزر ہندوتوا انتہا  پسندوں کے نزدیک مسلمانوں کو خاموش کرنے کا ایک اوزار بن گیا ہے۔ بی جے پی میں اس پر جشن منایا جاتا ہے اور  نوجوانوں  نے اپنے بازوؤں پر اس کا  ٹیٹو بھی  بنوایا ہے۔

بلڈوزر کا سب سے بدنام واقعہ 1992 میں اس وقت  پیش آیا جب ہندوتوا انتہا پسندوں نے ایودھیا میں مغل دور کی بابری مسجد کو اس بہانے مہندم کر دیا کہ یہ ایک پرانے ہندو مندر کی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد سے بی جے پی لیڈروں کی ایک بڑی تعداد  بلڈوزر کی حا می بن گئی ہے ۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کوبڑے فخر سے  ’’بلڈوزر بابا‘‘ بھی کہا جانے لگاہے۔  آشیانہ یا چھت کو دستور ہند میں بنیادی حق قر ار دیا گیا ہےدفعہ 21 میں اس کا تذکرہ ہے تاہم ایسا معلوم ہوتا  ہے کہ بی جے پی  آئین کی حکمرانی میں یقین نہیں رکھتی۔ سرکار ی طور پر کتنے مکانات منہدم کئے گئے اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اس بنیادی حق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم ہا وسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ دو سال میں دیڑھ لاکھ کچے پکے مکانات بلڈوزر کا شکار بنے جس کے نتیجے میں سات لاکھ نفوس  کے سروں پر سے چھت کا سایہ اٹھ گیا۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ شہریوں کے ساتھ اس ننگی جارحیت کے زیادہ تر واقعات بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں پیش آئے۔

    بہرحال یہ امید افزاء پہلو ہے کہ سپریم کورٹ اب اس پر حرکت میں آیا ہے۔  بلڈوزرکے غیر قانونی استعمال کے خلاف  متعدد عرضداشتوں ( پیٹیشن ) پر سماعت کرتے ہوئے  2ستمبر کو  جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشوناتھن پرمشتمل بنچ نے  بالکل واضح الفاظ میں  کہا کہ کسی  بھی  ملزم، حتی کہ  عدالت  سے مجرم قرار دئے گئے شخص کے مکان کو بھی بغیر لازمی قانونی

 کارروائی کے مہندم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ جسٹس گوائی نے کہاکہ ’’ کسی کا مکان کیسے مہندم کیا جاسکتا ہے  محض اس بنیاد پر کہ اس  پرکسی جرم کا الزام ہے؟‘‘  حتی کہ اگر وہ  مجرم ہے تو  تب بھی  انہدامی کارروائی نہیں  کی جاسکتی۔ جسٹس  وشوناتھن نے سوال کیا کہ  انہدامی کارروائی کے لیئے  رہنما خطوط کیوں نہیں وضع کیے گئے؟  ان کو تمام ریاستوں  میں نافذ کرنا چاہیئے اور ان کی تشہیر بھی ہونی چاہیے۔  دیرآید  درست آید کے مصداق عدالت کا  یہ تبصرہ  خوش آئند کہا جاسکتا ہے، جس  سے کہ

بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں  ’’بلڈوزر انصاف‘‘ کے بہانے ایک مخصوص فرقے کے خلاف جو ظلم و ستم ہورہا ہے وہ کچھ تھم سکتا ہے۔

دنیا  میں سوائے اسرائیل کے کسی اور ملک  میں اپنے ہی  شہریوں کے مکانات کو مہندم کرنے کی  ظالمانہ کارروائی  نہیں ہوتی تھی ۔ تاہم  ہندوستان میں اس طرح کے ظلم و جبر کا سلسلہ فسطائی جماعتوں کو سیاسی عروج حاصل ہونے کے بعد سے شروع ہوا

اور اب ہمارا ملک بھی اسرائیل کی صف میں آگیا۔ یہ جبر خاص طور پر ان ریاستوں میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو مکمل  طور پر نظر انداز کرکے  مکانوں کو اجاڑنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے تاکہ اس حکومت کے غلط کاموں اور پالیسیوں کے خلاف کوئی  صدائے احتجاج بلند کرنے کی ہمت  نہ کرسکے۔  جب کہ اس سراسر غیرقانونی و غیر آئینی قدم کے خلاف  عدلیہ اور انسانی حقوق کے  خود مختار  سرکاری ادارے  ( حقوق انسانی کمیشن ،  اقلیتی کمیشن  وغیرہ ) ایسی خاموشی اختیار کرچکے  ہیں  جیسے کچھ نہیں ہورہا ہے۔  مزید ستم بالائے ستم یہ کہ  ہندو ووٹ کھونے کے ڈر سے سیکولر ہونے کا دعوی کرنے والی  سیاسی پارٹیوں کا  ردعمل بھی یا تو مفقود ہے یا بہت  بودے قسم کا رہا ہے جس سے حکمراں جماعت کو مسلمانوں  کے  آشیانوں کو اجاڑنے کا ایک طرح کا لائسنس حاصل ہو گیا ہے۔ آج تک جتنے بھی مکانات گرائے گئے سوائے کمیونسٹ  لیڈروں کے کوئی  جائے وقوع پر نہیں پہنچا۔ احتجاج صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہا۔

 اس  امر میں دو رائے نہیں کہ جس طرح سے مسلمانوں کے مکانات اور ان کے اثاثہ جات کو مختلف بہانوں سے  مہندم کیا  جارہا ہے وہ  بھارت  کی تاریخ کا ایک بدترین سیاہ باب ہے اور  ملک کے سیکولر چہرہ پر ایک بد نما داغ ہے۔ جسٹس گوائی نے کہا کہ جرم ثابت ہونے کے بعد بھی کسی کا مکان منہدم نہیں کیا جاسکتا البتہ غیر مجاز تعمیرات کومنہدم کیا جاسکتا ہے۔ دہلی کی جہانگیرپوری ہو یا اترپردیش، مدھیہ پردیش، آسام، گجرات، راجستھان اور دیگر  بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں مسلم فرقہ کو  خصوصی طور پر  نشانہ بنایا گیا۔  مدھیہ  پردیش کے چھترپور علاقہ کے کانگریس لیڈر شہزاد علی کا محل نما مکان محض اس لئے منہد م کیا گیا کہ وہ اُن مسلم نوجوانوں کی قیادت کررہے تھے جو شان رسالت میں گستاخی کرنے والے مہاراشٹر کے مہاراج گری  کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ احتجاجیوں کی جانب سے پتھراؤ کا الزام عائد کرکے  پولیس نے شہزاد علی کو اصل ملزم قرار دیا اور ان کے مکان کو زمین دوز کردیا۔  تاہم  اس کے دفاع میں  ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ڈھنڈوری رتناکرجھا کا  بیان  ملک میں ہندتوا فسطائیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ اس کا  ویڈیو کلپ  کانگریس کے رہنما دگ وجئے سنگھ کے پاس  ہے  جس میں اسے  یہ  کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ ہر مسلمان  کے مکان کو منہدم کردے گا۔ یہاں مسلم نوجوانوں کی پریڈ کرائی گئی،ان سے زبردستی نعرے لگوائے گئے کہ ’’پولیس ہمارا باپ ہے‘‘۔ اُجین میں زنا بالجبر کے دو ملزموں کو گرفتار کیا گیا‘ اس میں ایک ہندو ہے اور ایک مسلمان لیکن بل ڈوزر چلا صرف مسلمان کے گھر پر اور ہندو مجرم پر خاموشی اختیار کرلی گئی۔

بلڈوزر کاروائی وہی لوگ کرواتے ہیں جو نفسیاتی مریض ہیں۔ انتقام کا جذبہ جن میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے ،جنہیں  یہ تاریخ پڑھائی گئی ہے کہ برصغیر پر مسلم اقتدار کے دور میں ہندووں پر بڑے مظالم ہوئے اور انہیں زبردستی مسلمان بنایا گیا۔

 چھتر پور میں انہدامی کارروائی پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے بی جے پی پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور شہریوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ بلڈوزر  قدرتی انصاف کی جگہ نہیں لے سکتا اور جرم  کا فیصلہ عدالتوں میں ہونا چاہیے نہ کہ ریاستی سرپرستی میں جبر کے ذریعہ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کا گھر گرانا اور ان کے خاندان کو بے گھر کرنا غیر انسانی اور غیر منصفانہ ہے۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں اقلیتوں کو بار بار نشانہ بنانا بہت پریشان کن ہے۔ اس طرح کی کارروائیاں کی قانون کی حکمرانی کے تحت چلنے والی حکومت میں  کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔

 تاہم کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی موہن یادو نے کہا کہ کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہے اور حکومت آئینی اصولوں کے مطابق کام کررہی ہے۔ موہن یادو کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے، لینڈ کنفلکٹ واچ  کی وکیل انمول گپتا نے کہا کہ بہت سے واقعات میں بلڈوزر کا استعمال عام طور پر قانون کی خلاف ورزی میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے دخل کرنے والوں کو پیشگی مطلع کرنا، بے دخلی یا مسمار کرنے کے لیے ایک قانونی شرط اور ہندوستانی آئین کے تحت ایک بنیادی حق ہے۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے گزشتہ سال  ستمبر میں نوح (ہریانہ) میں انہدامی کارروائی کو روکتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قدم نسلی تطہیر کے مترادف ہے ۔

 یہ افسوس کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے چھ سابق ججوں اور ملک کی دیگر ممتاز شخصیات کی جانب سے دائر درخواست کے بعد بھی عدلیہ حرکت میں نہیں آئی تھی ۔ درخواست میں یہ زور دیا گیا تھا کہ عدلیہ اس معاملے کا ازخود نوٹس لے، یہ بھی کہا گیا تھا  کہ ”مسماری اجتماعی ماورائے عدالت سزا کی ایک شکل ہے، جو ریاستی پالیسی سے منسوب اور غیر قانونی ہے۔”

انڈین پینل کوڈ، 1860، یعنی سیکشن 53 سے 75، عدلیہ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی ایسے جرم کے مرتکب پائے جانے والے شخص کو سزا دے جو کہ قانونی سزا ہو۔ تعزیرات کا قانون  کسی بھی حکومت  کو سزائیں دینے کا  اختیار نہیں  دیتا ۔لیکن ”مبینہ” خلاف ورزی کرنے والوں کی جائیدادوں کو اندھا دھند منہدم کرنے کی یہ مثالیں یقینی طور پر کسی خاص کمیونٹی کے  خلاف اجتماعی سزا  ہی کہی جاسکتی ہے ۔

   اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر حقوق  انسانی کی تنظیموں  نے  اس  کا نوٹس لیا اور حکومت کو سخت  تنقید کا نشانہ بنایا تاہم اس کا اس پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔

 معروف صحافی بھاشا سنگھ نے افکار ملی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم کمیونٹی کے خلاف بلڈوزر کا استعمال ”ہندو فاشسٹ اسٹیٹ” کا مظہر ہے کیونکہ جمہوریت کے چاروں ستون اسے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ چھتیس گڑھ کے سابق ڈی آئی جی وزیر انصاری نے کہا کہ  قانون کے بغیر انصاف ”ریاستی دہشت گردی اور ریاستی  فرقہ پرستی” کے سوا کچھ نہیں ہے ۔افکار ملی  کے ساتھ بات کرتے ہوئے انصاری نے کہا کہ ہندوستان ایک جمہوری اور فلاحی ریاست ہے نہ کہ پولیس ریاست یا آمریت۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہندوستان برباد ہو جائے گا اور کہیں کا نہیں رہے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 17 ستمبر کو عدالت اس معاملہ میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔