آسام کے وزیر اعلیٰ کی مسلم دشمنی کا نیا شکار

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے خلاف محاذ آرائی

نور اللہ جاوید
ستمبر 2024

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما سرخیوں میں رہنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ہیں ۔مگر وہ اپنے مثبت، فلاحی و ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کم بلکہ صفر  البتہ اپنے مسلم مخالف اقدامات کی وجہ سے زیادہ سرخیوں میں رہتے ہیں ۔شرما کے مسلم مخالف اقدامات کو عموماً’’ ہیڈنگ منجمنٹ‘‘کہہ کر نظر انداز کردیاجاتا ہے۔یا پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ہمنتا بسوا شرما کے ذہن و دماغ پر مسلمانوں کا خوف حاوی ہے۔ تاہم وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے وہ جس طرح سے لگاتارمسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مسلم دشمنی اور ’ہیڈنگ منجمنٹ ‘سے آگے کا معاملہ ہے۔اس کے پیچھے آر ایس ایس اور ہندتو وادی تنظیموں کی طویل منصوبہ بندی ہے۔  دراصل یہ ’’ڈی مسلمانائزیشن ‘‘ کا ایک گھناؤنا منصوبہ ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کا ادراک و احساس اب قومی میڈیا کو بھی ہونے لگا ہے۔

گزشتہ ہفتے ملک کے دو قومی اخبارات’ انڈین ایکسپریس ‘اور’ دی ہندو‘ نے ہمنتا بسوا شرما کے مسلم دشمنی بیانات پر نوٹس لیتے ہوئے اداریے تک لکھے ہیں اور بی جے پی  کی مرکزی قیادت اور وزیراعظم کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ وزارت اعلیٰ جیسے آئینی عہدہ پر فائز شخص کو بتائیں کہ انہوں نے جس آئین کے نام پر حلف لیا ہے وہ ذات، مذہب، زبان اور علاقہ سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔شرما جو کچھ کررہے ہیں وہ کسی بھی صورت میں آئینی اقدامات  نہیں ہیں ۔

 ہمنتا بسوا سرما یہ سب کیوں کررہے ہیں، اس کے پیچھے ان کا منشاء  کیا ہے، اسےسمجھنے کے لئے 80 کی دہائی کی آسو تحریک اور اس دور کی آر ایس ایس کی سرگرمیوں پرلکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوگا- آسو تحریک دراصل ایک لسانی تحریک تھی ۔مقامی آسامی آبادی کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش سے آنے والے بنگالیوں  کی وجہ سے ان کی تہذیب و ثقافت اور کلچر خطر ے میں ہے۔اس تحریک کی زد میں بنگالی ہندو اور مسلمان دونوں تھے ۔یہ چیز آر ایس ایس کو بے چین کردیتی تھی ۔آسو تحریک کے دوران اس نے کئی صحافیوں سے یہ سوال کئے کہ آخر اس تحریک میں بنگالی ہندو کیوں مارے جارہے ہیں ۔’’نیلی قتل عام‘‘اس تحریک کا بدترین لمحہ تھا اور چشم زدن میں 4ہزار کے قریب مسلمانوں کو قتل کردیا گیا ۔ نیلی قتل عام پر بہت کم لکھا گیا ہے، اس کی وجہ سے بہت سی حقائق سامنے نہیں آسکے۔ تاہم جو کچھ سامنے آیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ نیلی قتل عام ظاہری طور پر لسانی نفرت کا نتیجہ اور مسلمانوں کی انتخابات میں شرکت کو لے کر ناراضگی تھی۔مگر سوال یہ ہے کہ ہندو بنگالی بھی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو پھر آسامیوں نے صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ کیوں بنایا ۔اسی سوال میں جواب پوشیدہ ہے۔دراصل آر ایس ایس اور ہندوتو نواز تنظیمیں شمال مشرقی ریاستوں میں جاری خلفشارکو ہندو بنام مسلم یا پھر  ہندو بنام عیسائی بنانے کے لئے آزادی کے بعد سے ہی سرگرم ہیں۔ چاہے وہ آسام میں جاری خلفشار ہو یا پھر منی پور میں-  یہ سب آر ایس ایس کی اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ نیلی قتل عام بھی   آر ایس ایس اور ہندوتو عناصر کی کارفرمائی تھی۔

این آر سی کے فائنل لسٹ آر ایس ایس کے لئے ایک بڑ ا جھٹکا تھا۔ اسے یقین تھا این آرسی جگہ نہ پانے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہوگی مگر یہاں معاملہ الٹا ہوگیا-  19لاکھ افراد جنہیں این آر اسی میں جگہ نہیں ملی ان میں اکثریت بنگالی ہندوؤں کی تھی۔ اس کے تدارک کے لئے شہریت ترمیمی ایکٹ لایا گیا۔مگر اس کے خلاف بڑے پیمانے پر آسامی ہندو احتجاج کرنے لگے اور یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں ایک بار پھر آسام لسانی نسلی تعصب کی آگ میں نہ جھلس جائے۔ ہمنتا بسو شرما نے وعدہ کیا تھا کہ این آر سی میں جگہ نہیں پانے والے ایک بھی شخص کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت شہریت نہیں ملے گی۔مگر شرما کے وعدے اپنی جگہ اور مرکزی حکومت کی پالیسی اپنی جگہ۔ چنانچہ حال ہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت ایک بنگالی ہندو جس کا نام شہریت ترمیمی ایکٹ میں نہیں تھا کو شہریت مل گئی۔ یہ صورت حال

 آرایس ایس اور دائیں بازو والوں کے لئے فکر مندی کا باعث ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر لسانی نسل پرستی کی آگ ایک بار پھر بھڑگ گئی تو اس نے گزشتہ 9, برسوں میں میں مذہبی نسل پرستی کے نام پر جو نفرت پھیلائی ہے اس پر پانی پھر سکتا ہے۔ چنانچہ   شرما کو ہندو مسلم منافرت کے آزمودہ  کام پر لگادیا گیا اور وہ اپنی ڈیوٹی  انجام دے رہے ہیں ۔

اسی نفرت انگیز مہم کے تحت میگھالیہ میں واقع یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2013میں قائم ہونے والی یہ یونیورسٹی شمال مشرقی ریاستوں میں کافی تیزی سے ترقی کررہی ہے اور اس وقت شمالی مشرقی ریاستوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ یہ یونیورسٹی صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں ہے بلکہ وہ میگھالیہ اور آسام میں کئی فلاحی و ترقیاتی اسکیمیں بھی چلارہی ہیں ۔ یہ یونیورسٹی مکمل طور پر گرین کیمپس والی یونیورسٹی ہے۔نیگ سے اے گریٹ کا درجہ حاصل ہے اور اس کے علاوہ ملک کی 200 بہترین یونیورسٹیوں میں اس کو 13ویں پوزیشن حاصل ہے۔

گزشتہ مہینے جب شدید بارش کے بعد گوہاٹی شہر میں جگہ جگہ پانی جمع ہوگیا تو اپنی اس ناکامی کے لئے شرما نے الزام لگایا کہ چونکہ پہاڑ  کاٹ کر یونیورسٹی کی تعمیر کی جارہی ہے لہذا  پا نی گوہاٹی شہر میں بھر جاتا ہے۔انہوں نے سیلاب جہاد کی بات کرکے پورے معاملے کو فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی۔ مگر آسام کے عوام کو جب سرما کے الزامات پر یقین نہیں ہوا تو انہوں نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی آف سائنس و تکنالوجی، میگھالیہ  آسام کی تہذیب و ثقافت اور کلچر کو خراب کررہی ہے۔انہوں نے یونیورسٹی کے صدر دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی جانا گویا مکہ جانے کے مترادف ہے۔ مگر جب اس سے بھی کام نہیں بنا توسرما نے اعلان کیا کہ وہ جلد ہی وزارت قانون سے مشورہ کرکے یو ایس ٹی ایم کے سرٹیفکٹ کی آسام میں عدم قبولیت غور کریں گے۔

یونیورسٹی پر سیلاب جہاداور ثقافتی جہاد کے الزامات کا یونیورسٹی کے فیکلٹی اور طلبا پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر آسام میں ملازمت کے لئے یو ایس ٹی ایم کے سرٹیفکٹ کی عدم قبولیت کے اعلان نے طلبا کو مایوس کردیا اور اس کے اثر یونیورسٹی پرپڑنا لازمی تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ریاست یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے منظوری اور ریاستی حکومت کی منظوری کے بعد کسی یونیورسٹی کے سرٹیکفٹ رد کرسکتی ہے۔اگر یونیورسٹی قانونی اعتبار سے صحیح ہے اور اس کے پاس تمام لازمی سرٹیفکٹ ہیں تو پھر کیا اس طرح کے اعلانات غیر آئینی نہیں ہیں۔

یونیورسٹی کے بانی محبوب الحق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فیض یافتہ اور وادی براک کے ضلع کریم گنج کے باشندے ہیں ۔ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن کے تحت یہ یونیورسٹی کام کرتی ہے۔ فاؤنڈیشن کے تحت کئی اسکول اور خواتین کے کالج بھی آسام میں ہے ۔یوایس ٹی ایم کی کئی خصوصیات ہیں جس میں ایک خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کے کیمپس کو مقامی ہیروز چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔میگھالیہ کے کئی اہم شحصیات کے نام سے عمارتوں کو منسوب کیا گیا ہے۔ محبوب الحق نجی زندگی میں باشرع اور باعمل شخصیت کے حامل ہیں تاہم انہوں نے اپنے تعلیمی ادارے کے دروازے تمام طبقات کےلئے کھول دئے ہیں۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر جی ڈی شرما ہیں جو آف انڈین یونیورسٹیز (اے آئی یو)جیسے انتہائی موقر ادارہ کے صدر بھی ہیں۔پبلک ریلیشن افسر کے طور پر ڈاکٹر رانی داس خدمات انجام دے رہی ہیں۔اسی طرح فیکلٹی ممبران میں بھی تمام طبقات شامل ہیں ۔میگھالیہ ،آسام، منی پور، میزورم اور دیگر ریاستوں سے یہاں طلبا تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ اس یونیورسٹی نے اپنے سفر کا آغاز 6 طلبہ سے کیا تھا، 13برسوں بعد اب یہاں 6000 طلبا زیر تعلیم  ہیں ۔ہیمانتا بسو شرما نے ایک ایسے وقت میں یونیورسٹی کے خلاف محاذ آرائی شروع کی، جب داخلہ کا عمل جاری تھا ۔چنانچہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبا کی تعداد میں کمی آگئی۔

یونیورسٹی کے چانسلر محبو ب الحق کہتے ہیں کہ سرما نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ USTM کے طلباء کو آسام میں سرکاری ملازمتوں سے روکا جا سکتا ہے۔ اس لئے خدشہ ہے کہ اس سال کا اندراج  ہدف سے کم رہ جائے گا۔ ان کے بیان کے بعدہم نے اپنے جاری داخلوں میں زبردست کمی دیکھی ہے۔ اگرچہ داخلے ابھی جاری ہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ اس سال کم از کم 1,000طلبا کی کمی ہوسکتی ہے۔ ہمارے زیادہ تر طلباء آسام سے ہی آتے ہیں کیونکہ یہ شمال مشرقی خطے کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ آسام کے دیہی علاقوں کے طلباء سوچیں گے کہ اگر وہ سرکاری ملازمتوں کے لیے نااہل سمجھے گئے تو وہ اپنی ڈگریوں کا کیا کریں گے۔

یو ایس ٹی ایم نے گزشتہ برس اپنے 50, پروگرواموں میں 2002سے زائد طلبا کا داخلہ لیا تھا ۔ نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک (این آئی آر ایف) کی درجہ بندی میں اپنی بہترکارکردگی کے بعدیونیورسٹی کو امید تھی کہ اس سال کم سے کم 3000سے زائد طلبا داخلہ لیں گے ۔شروع میں داخلے جس رفتار سے ہو رہے تھے، ہم ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کافی پراعتماد تھے۔ لیکن اندراج کی شرح اچانک کم ہوگئی۔کسی کسی دن تو ایک بھی طالب علم داخلہ کیلئے نہیں آتا ۔تاہم ہمیں امید ہے کہ داخلہ کے عمل میں تیز ی آئے گی۔

 وزیر اعلیٰ  آسام نے ابھی  چند دن قبل یہ اعلان کیا کہ اپریل 2025 تک 35,000 عہدوں پر تقرری کی جائے گی ۔ایک طرف تقرری کا اعلان تو دوسری طرف یو ایس ٹی ایم کے فارغ التحصیل طلبا کو نااہل قرار دینے کی کوشش سے یونیورسٹی کے متاثر ہونے کا امکانات بڑھنا لازمی تھا ۔یونیورسٹی میں ’’پے بیک پالیسی ‘‘ہے جس کے تحت ان طلباء کی فیس واپس کر دی جاتی ہے جو مسابقتی امتحانات پاس کرتے ہیں اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔اس سے زیادہ سے زیادہ طلباء کو ہر سال ان امتحانات میں بیٹھنے کی ترغیب ملتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ابھی  یونیورسٹی کی پریشانی کم نہیں ہوئی ہے۔ میگھالیہ میں جو حکومت ہے گرچہ اس کا رویہ یونیورسٹی کے تئیں معاندانہ نہیں ہے مگر وہ بی جے پی کی حلیف جماعت ہے اور چھوٹی ریاست ہونے کی وجہ سے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت میگھالیہ کے حکمرانوں کو اپنے دباوٴ میں رکھتی ہے ۔یونیورسٹی میں تعمیرات کو لے کر میگھالیہ حکومت کا رویہ اب تک صاف تھا مگر اب آسام کے دباؤ میں تعمیرات کا جائزہ لینے کےلئے مشترکہ کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ آخر ہمنتا بسو ا شرما جو بذات خود کئی مرتبہ یونیورسٹی کے پروگراموں میں شریک ہوچکے ہیں ، انہوں نے اچانک یونیورسٹی کے خلاف مورچہ کیوں کھول دیا ؟ کیا شرما کی ناراضگی کی وجہ صرف یہ ہے کہ یونیورسٹی کے پانی کی وجہ سے گوہاٹی میں سیلاب آجاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق بھی ڈی مسلمانائزیشن کی پالیسی سے ہے ۔ہندتو گروپ ہر اس ادارے کے خلاف ہے جسے مسلمان یا  دیگر اقلیتی طبقات چلاتے ہیں ۔ایس یوٹی ایم کے خلاف محاذ آرائی بھی اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ہمنتا بسوا شرما نے اب مچھلی کے مسلم تاجروں کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے اور  شہریوں سے مسلم تاجروں کی مچھلی نہیں کھانے کی اپیل کررہے  ہیں ۔اس سے قبل مسلم سبزی تاجروں کے خلاف بھی وہ اس طرح کا بیان دے چکے ہیں ۔اجمل فاؤنڈیشن پر میڈیکل جہاد کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس ذہنیت کا کوئی علاج ہے  یا پھر خاموشی سے ظلم سہتے رہنا ہی مقدر میں  ہے۔