یو پی – یوگی کا سیاسی مستقبل؟

مشتاق عامر
جولائی 2024

پارلیمانی انتخابات کے بعد یو پی کے سیاسی گلیاروں میں ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اب تک یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی ہار کا ٹھیکرا یوگی آدتیہ ناتھ کے سر پھوڑدیا جائے گا ۔لیکن بظاہر ابھی تک ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ۔البتہ بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ تاثر ضرور دیا جا رہا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی پوزیشن اب ویسی نہیں رہی جیسی پارلیمانی انتخابات سے پہلے تھی۔ اس کی ایک جھلک وزیر اعظم نریندر مودی کے بنارس دورے کے موقع پر دکھائی دی۔ بنارس سے تیسری بار الیکشن جیتنے کے بعد پی ایم مودی نے بنارس کا دورہ کیا ۔ مودی کے دوش بہ دوش چلنے والے یوگی آدتیہ ناتھ اس بار مودی کے پیچھے چلتے دکھائی دیئے۔ یعنی مودی اور یوگی میں وہ قربت نہیں دکھائی دی جو اس پہلے کے عوامی دوروں کے مواقعوں پر نظر آیا کرتی تھی۔باس سے کئی طرح کے مطلب نکالے جا رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے بعد یوگی اور مودی کے درمیان دوریاں بڑھی ہیں۔ چونکہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یوگی کو وزیر اعلیٰ بنائے رکھنا چاہتا ہے اس لیے مودی ان کے خلاف کھل کر کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں یو پی کابینہ کی میٹنگ میں نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریا نے شر کت نہیں کی تھی۔ کابینہ کی اس میٹنگ میں پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی خراب کارکردگی اور اس کی شکست کا جائزہ لینا تھا۔ اس میٹنگ میں ٹرانسفر پالیسی سمیت 41؍ ترقیاتی اور مالیاتی منصوبوں کو منظوری ملنی تھی۔ کیشو پرساد موریا کی عدم موجودگی میں تمام تجاویز پاس کر دی گئیں۔ کیشو پرساد موریا کو پی ایم مودی کا قریبی مانا جاتا ہے ۔ کیشو پرساد موریا کی یہ قربت گجرات کے مسلم کش فسادات کے وقت سے ہے ۔ اس وقت کیشو پرساد موریا وشو ہندو پریشد کاشی پرانت سے وابستہ تھے ۔ موریا کو ریاستی بی جے پی میں او بی سی کا سب سے بڑا چہرہ مانا جاتا ہے۔ 2017 کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی ملی غیر معمولی کامیابی میں کیشو پرساد موریا کا کردار اہم رہا ہے۔ اس جیت کے بعد کیشو پرساد موریا وزیر اعلیٰ کی کرسی کے سب سے مضبوط دعویدار تھے۔ خود کیشو پرساد موریا نے بطور وزیر اعلیٰ اپنی دعویداری پیش کی تھی۔ لیکن ڈرامائی طورسے اچانک یوگی آدتیہ ناتھ کے نام کا اعلان کر دیا گیا ۔کیوں کہ آر ایس ایس کی پہلی پسند یوگی آدتیہ ناتھ تھے ۔ ایسے میں کیشو پر سادموریا کو نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر اکتفا کرنا پڑا۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کو ملی شکست نے یوگی کی پوزیشن کو بظاہر کمزور کر دیا ہے ۔ کیشو پرساد موریا ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے زور لگائے ہوئے ہیں۔ اس خاموش رسہ کشی میں ہر قدم بڑی احتیاط سے اٹھائے
جا رہے ہیں ۔ یوگی اور مودی ایک دوسرے کے قد اور طاقت سے بخوبی واقف ہیں ۔مودی کے ہاتھوں میں مرکزی اقتدار کی طاقت ہے تو یوگی آدتیہ ناتھ کے پاس گورکھناتھ مٹھ کی سربراہی، ہندو جاگرن منچ اور ہندو یوا واہنی کی افرادی قوت موجود ہے۔ یہ قوت ایسی ہے کہ بی جے پی کو بھی چیلنج کر سکتی ہے ۔ان قوتوں نے ایک طرح سے یوگی آدتیہ ناتھ کو سیاسی طور سے خود مختار بنا دیا ہے ۔ یو پی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی اپنی بنائی ہوئی سیاسی بساط ہے جس پر وہ خودکھیلتے آئے ہیں ۔ایسے میں اگر آرا ایس ایس بھی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے تو بھی یوگی کی مذہبی ، سیاسی اور افرادی قوت اپنی جگہ برقراررہے گی ۔شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ان پر ہاتھ ڈالنے سے ہچکچا رہی ہے۔ یوگی اگر اقتدار چھوڑیں گے تو اپنی مرضی سے۔ ان کو اعتماد میں لیکر ہی یو پی کے اقتدار میں کوئی بڑی تبدیلی کی جا سکتی ہے ۔یوگی مرکز کے دباؤ میں آکر اقتدار چھوڑ دیں گے، اس کی امید کم ہی نظر آ رہی ہے۔ یوں بھی یوگی کے اقتدار پر جمے رہنے کی سب سے بڑی وجہ ان کا مسلم مخالف کردار ہے ۔
تمام تر اندرونی دشواریوں کے با وجود یوگی آدتیہ ناتھ پورے شد و مد کے ساتھ اپنے مسلم مخالف ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں ۔ در حقیقت یوگی کی اصل شناخت بھی یہی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ بی جے پی کے خلاف تو جا سکتے ہیں لیکن اپنے مسلم مخالف ایجنڈا سے دستبردا ر نہیں ہو سکتے ۔پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعدبھی یوگی حکومت کی مسلم مخالف مہم میں کوئی کمی نظر نہیں آئی ہے ۔ لکھنؤ میں لگ بھگ 24؍ ایکڑ کے رقبے پر آباد اکبر نگر بستی کو بلڈوزروں سے مسمار کر دیا گیا۔ اس کاروائی میں تقریباً بار ہ سو مکانوں اور دکانوں کو ڈھا دیا گیا ہے ۔ ککریل ندی کے کنارے اکبر نگر میں بسے لوگ گذشتہ کئی دہائیوں سے رہ رہے تھے ۔یوگی حکومت نے اکبر نگر کو غیر قانونی قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم دیا تھا ۔اکبر نگر کے باشندوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن ان کو اعلیٰ عدالتوں بھی سے کوئی راحت نہیں ملی۔ اب اس جگہ پر’’ ریورفرنٹ‘‘ تعمیر کیا جائے گا ۔گرچہ لکھنؤ ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے معاضے کے طور پر پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مکان دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ تاہم اکبر نگر سے بے گھر ہونے والے بیشتر افراد مکانوں سے محروم ہو گئے ہیں ۔
یوگی آ دتیہ ناتھ اس وقت دو محاذوں پر کام کر رہے ہیں ایک طرف اپنے مسلم مخالف رویوں میں کوئی لچک لانے کو تیار نہیں دکھائی دیتے تو دوسری طرف پارٹی اور مرکزی حکومت کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ الیکشن میں بی جے پی کی شکست کو لے کر وہ کافی سنجیدہ ہیں ۔اس کے لیے یوگی پارلیمانی انتخابات میں ہارنے والے امیدواروں سے لگاتار ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔ اس ملاقات میں وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بی جے پی کی شکست کی کیا وجوہات رہی ہیں۔اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ پارٹی کے لیے زمینی سطح پر کام کرنے والے کارکنان کی ناراضگی کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ یوگی ذاتی طور سے جن لوگوں ملاقات کرچکے ہیں ان میں بدایوں کی سابق ایم پی سنگھ مترا موریا ، سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے صدر اور کابینہ وزیر اوم پر کاش راج بھر، سابق ایم پی ریتا بہوگنا جوشی اور الہ آباد سے الیکشن ہارنے والے بی جے پی کے امیدوار نیرج ترپاٹھی کا نام قابل ذکر ہے۔نیرج ترپاٹھی سابق گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی کے بیٹے ہیں۔بنیرج ترپاٹھی کی جیت کو لے کر بی جے پی کافی پر امید تھی ۔لیکن ان سب ملاقاتوں میں رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجا بھیا کی پارٹی جن ستا دل کے جنرل سکریٹری شیلندر کمار سے یوگی کی ملاقات سیاسی حلقوں میں کئی زاویوں سے اہم مانی جا رہی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ راجا بھیا نے مشرقی یو پی کی کئی سیٹوں پر بی جے پی کو شکست دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس ملاقات کے یہ بھی معنی نکالے جا رہے ہیں کہ یوگی سے ناراض چل رہے راجا بھیا کو پارٹی میں لانے کی کوشش کی جائے تاکہ اسمبلی الیکشن میں ممکنہ نقصانات سے بچا جا سکے ۔ ان ملاقاتوں کے ذریعے بھی یوگی آدتیہ ناتھ یو پی کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ آنے والا وقت ان کے لیے مشکلوں بھرا ہو سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے ابھی سے اپنے لیے متوازی سیاسی راہ بنانی شروع کر دی ہے ۔
کہنے کو تو یو پی میں دو عدد نائب وزرائے اعلیٰ بھی ہیں لیکن انتظامی اور حکومتی سطح پر ان کا کردار بہت محدود ہے۔ مہاراشٹر کے
برعکس یہاں ان وزراء اعلیٰ کے اختیارات برائے نام ہیں ۔بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یو پی میں یوگی آدتیہ ناتھ بی جے پی کو کمزور اور خود کو مضبوط رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔اس بات کا احساس پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی ہے۔ اس وقت بی جے پی یوگی کو ہٹا کر پارٹی کو نئے بحران میں ڈالنے کی ہمت نہیں کر پار رہی ہے ۔خطرات کے با وجود اگر پارٹی کی اعلیٰ قیادت یوگی آدتیہ ناتھ کو ہٹانے کا فیصلہ کر ہی لیتی ہے تو اس کو پہلے دو باتوں کی تیار ی کر لینی ہوگی ۔ ایک یہ کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا متبادل پہلے سے تیار رکھنا ہوگا جو اس بحران سے نبرد آزما ہو سکے۔ اور یہ کہ وہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ کے حامیوں کے رد عمل کا سامنا کر سکے۔ اس لیے یوگی آدتیہ ناتھ کو اعتماد میں لیئے بغیر اعلیٰ قیادت ان کو ہٹانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔
یہاں ایک بات اور قابل غور ہے کہ پارٹی کے ایک بڑے دھڑے کا آج بھی یہ ماننا ہے کہ یوگی کی کٹر مسلم مخالف شبیہ سے پارٹی کو کافی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس طبقے کے افراد کی یہ بھی دلیل ہے کہ لوک سبھا کا الیکشن مودی کے نام پر لڑا گیا تھا یوگی کے چہرے پر نہیں۔ یو پی الیکشن پرچار میں بھی یوگی کو کوئی خاص جگہ نہیں دی گئی تھی۔ اس کا بھی منفی اثر پڑا ہے۔ اگر یو پی میں پارلیمانی انتخابات یوگی کے چہرے پر لڑا گیا ہوتا تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔ اس وقت یو پی بی جے پی کی اندرونی رسہ کشی مودی بنام یوگی کی ہو گئی ہے۔ یوگی حکومت کی اب تک کی پالیسی مرکز کا دباؤکو قبول نہ کرنے کی رہی ہے۔ اگر یوگی کی مرضی کے خلاف اعلیٰ قیادت کوئی قدم اٹھاتی ہے تو اس کے نتائج پارٹی میں اندرونی انتشار کے شکل میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔ اس ٹکراؤ سے آر ایس ایس اور مودی کی قیادت والی حکومت حتی الامکان بچنے کی کوشش کرے گی۔
آخر میں ان تمام باتوں سے ا لگ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ آ ر ایس ایس کے لیے مقصد اہم ہے، افراد نہیں ۔مرکزی حکومت ہو یارستی حکومت،اس کی قسمت کا فیصلہ آرا یس ایس ہی کو کرنا ہوتا ہے ۔ عوامی سطح پرجو چیز نظر آتی ہے بعض اوقات اس کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ کی نہیں ہوتی ۔ملک اور ریاستوں میں ایک مسلم مخالف سیاسی نظام آر ایس ایس کی اولین ترجیح ہے ۔اس کے لیے افراد نہیں مقاصد اہمیت رکھتے ہیں ۔خواہ وہ افراد کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں ۔

•••

مشتاق عامر

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.