آر ایس ایس – مسلم مذاکرات کیوں؟

مشتاق عامر
جون 2024

نوے کی دہائی کے اوائل میں چندر شیکھر چند ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بابری مسجد کا تنازع حل کرنے میں کافی سرگرمی دکھائی تھی۔ 1991میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وشو ہندو پریشد کے بنائے ہوئے رام جنم بھومی نیاس اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے درمیان میٹنگوں کے کئی دور چلے۔ اس طرح آر ایس ایس اورمسلمانوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے کی پہل ہوئی۔ گرچہ کئی راؤنڈ کی میٹنگوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا،تاہم آر ایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان راست مکالمہ کا دروازہ کھل گیا۔لیکن مسلم جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے اس میں کم ہی دل چسپی دکھائی گئی۔ 2002 میں آر ایس ایس نے ’’ راشٹروادی ‘‘ مسلمانوں پر مشتمل مسلم راشٹریہ منچ کی تشکیل کی۔آر ایس ایس پرچارک اندریش کمار کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس طرح آر ایس ایس مسلم معاشرے کی تہہ تک اپنی پہنچ بنانے میں کام یاب ہوگئی۔ مسلمانوں سے رشتہ استوار کرنے کے تعلق سے آر ایس ایس نے اپنے مشروط اور طے شدہ موقف کا اظہار کیا جب کہ سنگھ سے تعلقات بڑھانے میں بعض مسلم حلقوں اور افراد کی طرف سے جس اتاولے پن مظاہرہ کیا گیا اس میں نہ تو کوئی احتیاط تھی اور نہ ہی مستقبل کے خطرات سے آگاہی۔ سنگھ کے مسلم مخالف خفیہ منصوبوں سے بے خبرافراد اس بات کا پرچار کر رہے تھے کہ آر ایس ایس مسلم مخالف جماعت نہیں ہے، بلکہ دیش بھکت مسلمانوں کی اصل خیر خواہ ہے۔ بی جے پی سے وابستہ مسلم لیڈران مسلم راشٹریہ منچ کو مضبوط اور فعال بنانے کے آر ایس ایس کے منصوبوں کوعملی شکل دینے میں دل و جان سے لگے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آر ایس ایس سے تعلقات قائم کرنے میں عام مسلمانوں میں ابھی تک ہچکچاہٹ اور خدشات پائے جاتے ہیں۔

آرایس ایس اور مسلمانوں کے تعلقات کی وکالت کرنے والے گروہ کو مزید تقویت اس وقت ملی جب 2014 میں مودی حکومت نے مرکز میں اقتدار سنبھالا۔ یہ گروہ اب کھل کر سامنے آ گیا اور اس کی جھجک جاتی رہی۔ ان میں ایسے افراد کی خاصی تعداد تھی جو حکومت سے مراعات کی امید لگائے بیٹھے تھے۔اب مسلمانوں کو آر ایس ایس سے رشتے قائم کرنے یا دوسرے الفاظ میں کہیں تو اس کی بالا دستی قبول کرنے کے مشورے دیے جانے لگے۔ فوائد گنانے اور رشتے مضبوط کرنے کا یہ سلسلہ اب دراز ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان آر ایس ایس کی بالا دستی کیوں قبول کر یں؟ ایک آئینی اور جمہوری نظام سے ماوراء ایک ایسے مشرکانہ نظام کے سامنے سر تسلیم خم کیوں کردیں جس نے مسلمانوں کی نسل کشی کے منظم منصوبے بنا رکھے ہیں۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کی بنیاد ہی مسلم مخالف منصوبوں پر رکھی گئی ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سب سے بڑے نظریہ ساز اور دوسرے سر سنگھ چالک مادھو سدا شیو گولوالکر نے اپنی تحریروں اورعملی زندگی میں بدترین مسلم مخالف جذبات کا مظاہرہ کیا ہے۔ 1939 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب

We and Our Nationhood Defined میں انھوں نے ملک سے مسلمانوں کی شناخت مٹانے، ان کو غیر ملکی حملہ آور قرار دینے اور انھیں ہندو تہذیب میں ضم کرنے کا عملی منصوبہ پیش کیا ہے۔ گولولکر نے لکھا:

’’ وہ منحوس دن جب سے مسلمانوں نے اس سرزمین پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا، اس دن سے لے کر آج تک ہندو راشٹر تباہی پھیلانے والے مسلمانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے بہادری کے ساتھ لڑائی لڑ رہا ہے۔ لیکن یہ لڑائی ابھی جاری ہے۔ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ہمیں اس کا خوف ہے کہ اس کا انجام ہمارے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ہمارا نسلی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ شیر مرا نہیں تھا، بس سو رہا تھا۔ اب وہ خود کو جگا رہا ہے اور دنیا پھرسے ایک جاگے ہوئے ہندو راشٹرکے طاقتور ہاتھوں سے دشمنوں کے گھروندے کو نیست و نابود ہوتے ہوئے دیکھے گی‘‘ (ص46)

اسی کتاب میں گولوالکر نے مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا:

’’ہندوستھان میں بسنے والی غیر ملکی نسلوں کو لازمی طور سے ہندو تہذیب اپنالینی چاہیے۔ انھیں ہندو دھرم کا احترام اور اس پر عقیدہ رکھنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔ ہندو نسل اور تہذیب یعنی ہندو راشٹر کی توصیف کے علاوہ کسی اور خیال کو دل میں نہیں لانا چاہیے۔ ہندو نسل میں ضم ہونے کے لیے اپنی منفرد شناخت سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ اگر ان کو یہ سب منظور نہیں تو وہ بغیر کسی دعوے، کسی خصوصی اختیار، بغیر ترجیحی سلوک یہاں تک کہ کسی شہری حق کے بغیر یہاں رہ سکتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرنے کی چھوٹ بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ ہم ایک قدیم قوم ہیں۔ ہمیں ان غیر ملکیوں سے جو اپنی رہائش کے لیے ہمارے دیش میں گھس آئے ہیں،ان سے ایسے ہی نمٹنا چاہیے‘‘ (ص 85۔86)

صرف یہی نہیں اس طرح کی منافرتی اور تشدد پر اکسانے والی تحریروں سے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ جس کے مطابق ہندو راشٹر میں مسلمانوں کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر ہوگی۔

مندرجہ بالا اقتباسات سے جو نتیجے نکل کر سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں :

1۔ مسلمان غیر ملکی درانداز ہیں جنھیں ملک سے کھدیڑ دینا چاہیے۔

2۔مسلمانوں کو اکثریت کے رحم و کرم پر رہنا چاہیے۔

3۔مسلمانوں کو ہندو عقیدہ اور ہندو تہذیب کو اپنالینا چاہیے۔

4۔مسلمانوں کو ہندو تہذیب میں ضم ہو جانا چاہیے۔

5۔ان سے شہری حقوق چھین لینا چاہیے۔

6۔مسلمانوں کا نسلی طور پر صفایا کر دینا چاہیے۔

گولوالکر نے اپنی دوسری کتاب Bunch of Thoughts میں مسلمانوں کو ملک کے لیے سب سے بڑا اندرونی خطرہ

(Internal Threats)قرار دیا ہے۔ گولوالکر نے اپنی کتاب میں مسلم آبادی کو ’’ ٹائم بم ‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔ کتاب میں ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی ایجنٹ، ملک کی آبادی بڑھانے والا اور ملک دشمن قرار دیا گیا ہے۔گولکوالر نے اپنی پہلی کتاب کی طرح ہی اس میں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے عام اپیل کی ہے۔ (ص 233، دوسرا ایڈیشن، بنگلور،1980)

یہ ساری باتیں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیمیں گذشتہ سو برسوں سے دہراتی چلی آ رہی ہیں۔ ان مذموم عزائم کا عملی مظاہرہ سی اے اے اور این آر سی کی شکل میں سامنے آ چکاہے۔ پورے ملک میں مسلم مخالف منافرت اور تشدد کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں لیکن مسلمانوں کے بعض مفاد پرست اور بے ضمیر افراد اور تنظیموں کی طرف سے آر ایس ایس سے رشتے قائم کرنے کی حمایت کی جا رہی ہے۔ یہ دھیان رہنا چاہیے کہ آر ایس ایس پرقطعی بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔مسلمانوں کودھوکہ دینے کی اس کی طویل روایت رہی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آرایس ایس سے وابستہ تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔ ان تنظیموں کے پاس مسلم نسل کشی کا پورا منصوبہ ہے۔ آر ایس ایس نے آج تک وی ڈی ساورکر اور گولوالکر کے مسلم مخالف منصوبوں سے سرمو انحراف نہیں کیا ہے۔ بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان منصوبوں میں مزید شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

اس وقت ملک کا مسلمان ایک بڑے اجتماعی قتل عام کے خطرات سے دو چار ہے۔ان خدشات کا اظہار عالمی سطح پر بھی کئی بار کیا جا چکا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی تنظیم مسلمانوں کے قتل و غارت گری کا پورامنصوبہ رکھتی ہو اور کچھ مسلمان اس کی بالا دستی قبول کر نے کی وکالت کریں۔ یہ تو غلامی کی بدترین شکل ہوگی۔ اگر ان حالات میں بھی کوئی جماعت،تنظیم یاادارہ

آر ایس ایس سے کوئی معاملہ طے کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کی جواب دہی مسلم سماج کے سامنے کرنی ہوگی۔ جو افراد ماضی میں اپنے ذاتی مفاد یا مراعات کے حصول کے لیے آر ایس ایس کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، ملت کو ان سے ہوشیار رہنے کی اشدضرورت ہے۔ اس ملک میں آر ایس ایس ایک حقیقت ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات سے بھی انکار نہیں ہے کہ ان کے ساتھ ممکنہ طور سے افہام و تفہیم کا رشتہ قائم ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آر ایس ایس سے کن بنیادوں پر بات چیت ہوگی؟ کیا وہ گولوالکر اور ساورکر کے پر تشدد نظریے سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہے۔ کیا اس بات اعلان کرنے کو تیار ہے کہ اس طرح کے نظریات غیر انسانی اور غیر قانونی ہیں۔ مسلمانوں میں وہ کون سے افراد یا تنظیمیں ہیں جو ملت کی نمائندگی کرتے ہوئے توازن کے اصول پر اور اعتمادکے ساتھ آر ایس ایس سے بات کرسکیں۔ تعلقات کے حامی افراد یا تنظیموں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آرایس ایس نے کبھی خود سے مسلمانوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا ہے۔یہ مسلمان ہی ہیں جو بھاگ بھاگ کے اس کے در دولت پر حاضری دیتے اور ذلیل و خوار ہو کر واپس آتے ہیں۔ آر ایس ایس نے جب بھی مسلمانوں سے تعلقات بنانے کی بات کہی تو بین السطور ہندو سنسکرتی میں انضمام کی بنیاد پر کہی یعنی مسلمانوں کو محکوم بنانے کے جس فارمولہ کا خاکہ گولوالکر نے اپنی کتابوں میں پیش کیا ہے۔

اب تک اس کا جو طریقہ رہا ہے اس کے مطابق سنگھ مسلمانوں سے بات چیت کا صرف ڈھونگ رچاتی ہے۔ اس معاملے میں جو مسلمان پہلے سے ہی آر ایس ایس کے ایجنٹ کے بطور کام کر رہے ہیں انھیں کو اس پر لگایا جا تا رہا ہے۔میرے خیال سے اگر بقائے باہمی کے اصول کے تحت آر ایس ایس سے کوئی بات ہو سکتی ہے تو وہ برابری اور وقار کی بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کو آرایس ایس کے دباؤ میں بالکل نہیں آنا چاہیے۔ اس کی نفسیاتی مرعوبیت سے آزاد ہونے لیے ایک طویل لیکن موثرحکمت عملی اپنانی پڑےگی۔ اس کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہوگا کہ نئی نسل کو اس دباؤ سے بچایا جائے۔ برائے نام سرکاری نوکریوں، چھوٹے موٹے پرائیوٹ جاب، کارپوریٹ گروپس،تعلیمی اداروں، عوامی مقامات، سفر اور دینی فرائض کی بجاآوری میں مسلم نوجوانوں کو آر ایس ایس کے پر تشدد نسلی امتیازات کا سامنا ہے۔ نوجوان نسل کے سامنے سب سے بڑا چیلنج آر ایس ایس کاوہ دباؤ ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے۔

مسلم حلقوں میں یہ بات بڑی سادہ لوحی کے ساتھ بار بار دہرائی جاتی ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ تمام ہندوؤں کی آواز نہیں ہے بلکہ یہ بنیاد پرست ہندوؤں کی ایک قلیل تعداد ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ آر ایس ایس کے تعلق سے اکثریتی سماج کے اندر نرم گوشہ ایک زمانے سے موجود رہاہے۔واقعہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کو دیکھنے کاایک ’’ہندو نظریہ‘‘ کافی پہلے سے موجود ہے جو کہ مسلم موقف سے بالکل مختلف اور حیران کن ہے۔ایک فرق کو ہمیشہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ہندوؤں کے خلاف نہیں بنایا گیا ہے۔ بلکہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کا نشانہ مسلمان اور عیسائی ہی ہیں۔

آر ایس ایس کا جنم مسلم دشمنی کے بطن سے ہوا ہے۔ اس نے روزانہ کی بنیاد پر مسلم مخالف ایجنڈا کو آگے بڑھایاہے۔قومی یکجہتی، ہندو مسلم بھائی چارہ اور گنگا جمنی تہذیب کی باتیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور مفاد پرست دانش ور طبقے کی طرف سے بار بار کہی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا بیانیہ بلکہ مفروضہ ہے جو مسلمانوں کے دماغ میں دانستہ طور سے پیوست کیا جاتاہے۔ تاکہ مسلمانوں کے خلاف برتے جانے والے نسلی تعصبات کا احساس پیدا نہ ہونے پائے۔

ہندوستانی سیاست میں یہ کلیہ یاد رکھنا چاہیے کہ استثناء کو چھوڑ کر لگ بھگ تمام سیاسی پارٹیاں آر ایس ایس کے تعلق سے سیاسی منافقت کا شکارہیں۔ کانگریس نے اس ملک کو ایک سیاسی نظام دیا، اسی سیاسی نظام کے دائرے میں سبھی سیاسی پارٹیاں اپنا کام کرتی ہیں۔اس سیاسی نظام میں آر ایس ایس کا ایک کلیدی

کر دار ہے جس سے انحراف کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں کرسکتی۔ سب سے پہلے مسلمانوں کو یہاں کے سیاسی نظام میں اپنے مقام اور درجے کو سمجھنا ہوگا۔ حقیقت سے آنکھ چرانے سے کوئی فائدہ نہیں۔راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ یہی چاہتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اس کی بالا دستی قبول کرلیں باالفاظ دیگر وہ ہندو تہذیب میں ضم ہو جائیں۔ مسلمان نماز تو پڑھیں،روزہ بھی رکھیں، تہوار بھی منائیں۔ لیکن یہ سب ان کی شرطوں پر اور ہندو راشٹر کی چھتر چھایا میں ہو۔ اسلامی شناخت کا کوئی عملی مظاہرہ عوامی مقامات پر نہ ہونے پائے۔مسلمانوں میں جو عناصر آر ایس ایس سے تعلقات قائم کرنے کی وکالت کرتے ہیں ان کو پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ باہمی اعتماد اور با وقار تعلقات دو برابر کے لوگوں میں قائم ہوتے ہیں۔ آر ایس ایس مسلمانوں کو برابری کا درجہ دینے کو ہر گز تیار نہیں ہے۔ جو نام نہاد مسلمان مسلم راشٹریہ منچ سے وابستہ ہیں ان کی حالت اورکردار کو دیکھ کر اس صورت حال کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

بنیادی سوال یہی ہے کہ مسلمانوں پر شرطیں عائد کرنے والی  آر ایس ایس کون ہوتی ہے؟ اس مفروضے کو ہر سطح پر چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آر ایس ایس اپنی سو سالہ تاریخ میں آج اس مقام پر ہے کہ وہ سیاسی،سماجی، مذہبی،تعلیمی، معاشی، عدالتی اور عسکری نظام میں خطرناک حد تک نفوذ کر چکی ہے۔ وہ یا تو اپنی تمام مخالف قوتوں کو زیر کر چکی ہے یا انھیں مجہول بنا چکی ہے۔ ملک میں اب کوئی بھی سیاسی تبدیلی مسلمانوں کے خلاف بننے والے ماحول پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکے گی۔حکومت میں سیاسی پارٹیوں کی تبدیلی آر ایس ایس کے منصوبوں پرکبھی اثر انداز نہیں ہوتی۔ حکومت چاہے کسی پارٹی کی ہو آر ایس ایس کا مسلم مخالف ایجنڈا کام یابی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔کوئی بھی حکومت اس میں رخنہ ڈالنے کی ہمت نہیں کرسکتی۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اس وقت آر ایس ایس پورے ملک میں مسلمانوں کی ثقافتی نسل کشی (Cultural Genocide)کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جورفتہ رفتہ جسمانی نسل کشی کی طرف لے جاتاہے۔ اس کی آخری منزل ہندو دھرم میں انضمام یا اجتماعی ارتداد ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو اجتماعی طور سے مشرکانہ قوم پرستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ان میں بعض سادہ لوح (لیکن بیشتر مفاد پرست اور شاطر لوگ) مسلم راشٹریہ منچ کا ہراول دستہ بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرناچاہیے ؟

1۔ سب سے پہلے اس چیلنج کوسمجھیں اور اس کا ادراک حاصل کریں۔

2۔دینی اور عصری تعلیمی اداروں کو مضبوط، فعال اور معیاری بنائیں۔

3۔محلوں اور کالونیوں میں بچوں کے لیے دینی مکاتب ضرور قائم کریں۔

4۔مساجد کو سماجی اورتعلیمی امور کے لیے کثیر المقاصد بنائیں۔

5۔مشرکانہ راشٹر واد کے نتائج سے لوگوں کو باخبر کریں۔

6۔لوگوں کے دلوں سے خوف،مایوسی اورارتداد کا اثر دور کرنے کے لیے کام کریں۔

۷۔یہ سارے کام اجتماعی اور انفرادی دونوں سطحوں پرکئے جا سکتے ہیں

یہ ملک علانیہ طور سے ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے۔یہاں بسنے والے ہر فرقے، ذات اور نسل کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر یہاں کی اقلیتیں بالخصوص مسلمان ہندوستانی سماج کا نا قابل تقسیم حصہ ہیں۔ اسے کسی بھی حالت میں آر ایس ایس کی مشرکانہ بالا دستی قبول نہیں کرنی چاہیے۔بالا دستی تو چھوڑیئے اسے یہ بھی قبول نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی تنظیم سے معذرت خواہانہ رشتہ رکھیں جو اس کوصفحہ ہستی سے مٹا دینے کے منصوبے پرعمل پیرا ہے۔ یہ ہر مسلمان کا ایک اصولی موقف ہونا چاہیے۔ ورنہ

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات