اٹھارہویں پار لیمان کے انتخا ب کے لیے تقریباً 77 دنوں تک جاری رہی مہم 30, مئی کو اختتام پذیر ہوئی۔ تاہم یہ انتخابی مہم تا ریخ میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی۔ جن کی مہم نے جھوٹ، دروغ گوئی، زہر افشانی، حقائق کو مسخ کرنے، ڈرانے دھمکانے، اور ملک کی دوسری بڑی مذہبی اکثریت کو نشانہ بنانے کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ یہ مہم اس قدرنچلی سطح پر چلائی گئی اورسفلہ پن سےمعمورتھی کہ تمام مہذب شہری الامان الحفیظ کہنے پر مجبور ہو اٹھے۔
خود کو بھگوان کا اوتار قرار دینے والے وزیراعظم نے پوری مسلم آبادی کو جو اس سیکولر جمہوریہ کے جائز شہری ہیں، گھس پیٹھئے ( درانداز) اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے قراردیا، جس نے گجرات میں سرکاری سرپرستی میں کرائے گئے 2002کے نسل کش فسادات کے دوران اور بعد میں دیے ان ناخو شگوار و نا زیبا بیانات کو تازہ کردیا۔ موصوف نے بحیثیت وزیراعلی گجرات مسلمانوں پر ہم پانچ،ہمارے پچیس، بچہ پیدا کرنے والی فیکٹریاں اور کتے کا بچہ کار کے نیچے کچل جائے وغیرہ جیسی پھبتیاں کسی تھیں۔
مودی کی موجودہ سیاسی لغت میں پانچ نئے الفاظ کا اضافہ ہوا، جو اتفاق سے میم کے حرف سے ہی شروع ہوتے ہیں یعنی مٹن،مچھلی،مغل،منگل سوتر اور مجرا۔ صرف مدرسہ اس کی زد میں آنے سے بچ گیا، بلاشبہ لفظ مسلم تو پہلے ہی سے موجود ہے۔ پھر دو معصوم بھینسوں کا بھی ذکر ہوا کہ انھیں کانگریس چھین کر ایک بھینس مسلمانوں کو دے دے گی۔ پھر وہ انڈی ( انڈیا محاذ) جماعت اور شہزادے کی بھی گردان کرتے رہے تاکہ مسلمانوں کی طرف اس کی نسبت جائے۔ مضحکہ خیز الزامات کا سلسلہ یہیں پر نہیں رکا، ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے ریزرویشن کے بارے میں یہ لغو دعوی کیا گیا کہ کانگریس اسے چھین کرمسلمانوں کو دے گی۔
رائے دہی کے پہلے مرحلہ کے بعد سے ساتویں اور آخری مرحلہ تک مودی اور ان کے پارٹی لیڈران مسلم ریزرویشن کی بین بجاتے رہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ بھی ایک ایسی جماعت کی زبان سے جس کی سرشت میں ریزرویشن کی مخالفت شامل ہے۔ جو کہ اس کی پالیسی اور ہندتو نظریہ کا ایک لازمی جز ہے۔ ریزرویشن کے خلاف آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہ نماؤں بشمول موہن بھگوت کے بیانات ریکارڈ پرموجود ہیں۔
نویں دہائی کی ابتداء میں ریزرویشن کے خلاف ہنگامہ آرائی کو کون بھول سکتا ہے جب وی پی سنگھ کی حکومت نے 1990, میں
او بی سی کا کوٹہ منڈل کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں دس سے بڑھاکر 27 فی صد کردیا تھا۔ اس فیصلہ کی مخالفت میں سب سے پہلے بی جے پی اور آر ایس ایس میدان میں کود پڑے تھے۔ بی جے پی نے جو وی پی سنگھ حکومت کی حمایت کر رہی تھی نہ صرف آناً فاناً اپنی حمایت واپس لے لی بلکہ ایل کے اڈاونی فوراً اپنا خونی رتھ لے کر یاترا پرنکل گئے۔ مخالفت ریزرویشن کی کرنی تھی لیکن یاترا نکالی تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے نام پر۔ یہ یاترا جہاں جہاں سے گزری ایک خونی لکیر کھینچتی چلی گئی۔ آر ایس ایس اور بی جے پی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ ریزر ویشن (یعنی پسماندہ ہندو طبقات ) کی علانیہ طور پر مخالفت کرتی۔ اس لیے اس کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ یہ مہم جسے کمنڈل بنام منڈل کا نام دیا گیا، دسمبر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت پر منتج ہوئی۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ اگر منڈل سفارشات پرعمل نہیں ہوتا تو اجودھیا میں واقع تاریخی بابری مسجد محفوظ رہتی۔ اس مہم کے ویلن گذشتہ دس برسوں سے جس یاس و حسرت کی زندگی گزار رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔اور ان کو اس حالت میں پہنچانے کا ذمہ دار بھی وہ شخص ہے جو اس کا سب بڑا محسن تھا۔ گجرات کے خونریز فسادات کے بعد موصوف کی کرسی انھی (اڈوانی) کی بدولت بچی تھی آج وہ ملک کے سب سے بڑے منصب پر شہ نشین ہے۔ یعنی محسن ہی محسِن کش بنا۔
اپنی انتخابی جلسوں میں مودی نے یہ الزام تواتر سے لگایا تھا کہ متعدد ریاستوں نے مسلم طبقہ کو سرکاری ملازمتوں اورتعلیمی اداروں میں مذہبی بنیاد پر ریزر ویشن یا تحفظات فراہم کیے ہیں۔ واضح رہے جنوب کی ریاستوں کرناٹک، آندھر پردیش، تلنگانہ، کیرالا، تمل ناڈو اورمغربی بنگال میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ کوٹہ مقرر ہے، جو چار فیصد سے لے کر دس فی صد تک ہے۔ جب کہ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی کی مخلوط حکومت نے 2014 میں مراہٹوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا علیحدہ کوٹہ مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا، جسے بامبے ہائی کورٹ نے ابتداء میں رد کردیا تھا تاہم بعد ازاں عدالت نے مسلمانوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں پانچ فی صد کوٹہ ناٖفذ کرنے کو جائز قرار دیا۔ اس وقت تک دیوندر فڑنویس کے زیر قیادت بی جے پی اور شیو سینا کی حکومت برسر اقتدار آچکی تھی۔ ظاہر ہے اس حکومت سے کسی مثبت قدم کی توقع رکھنا وہ بھی مسلم فرقہ کے لیے کار عبث تھا۔
مسلم فرقہ کی مجمو عی پسماندگی کے پیش نظر جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں وزیراعظم کی بااختیار کمیٹی نے دبے لفظوں میں اور جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن نے واضح طور پر دس فی صد ریز رویشن دینے کی سفارش کی تھی۔ اس کی روشنی میں 2013 میں کانگریس نے او بی سی کے سینٹرل کوٹہ میں چار یا پانچ فیصد کا مسلمانوں کے لیے ذیلی کوٹہ مقرر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن فرقہ پرستوں کی زبردست مخالفت کے سامنے اس نے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ پھر اتر پردیش میں 2012کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر سماج وادی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں ریاست میں مسلمانوں کی فیصد آبادی کے لحاظ سے کوٹہ مقررکرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ کاغذی وعدہ ثابت ہوا۔ اسی طرح جب 2014میں تلنگانہ میں کے سی آر کی تلنگانہ راشٹر سمیتی یا ٹی آر ایس نے حکومت میں آنے کے بعد چار فی صد کوٹہ کو مسلم آبادی کے مطابق 12فی صد کرنے کا وعدہ کیا لیکن دس سال تک حکومت میں ر ہنے کے باوجود یہ وعدہ بھی وعدہ فردا ہی ثابت ہوا۔
ملک میں ریزرویشن کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج جو ریزویشن سسٹم نافذ العمل ہے وہ دراصل 1933 میں رائج کیا گیا تھا جب برطانوی وزیر اعظم رمسے میکڈونالڈ (Ramsay Macdonald )نے 1932 میں ہوئی گول میز کانفرنس کے فیصلہ کے مطابق مسلمانوں،سکھوں، دلتوں، انڈین عیسائیوں اور اینگلو انڈین کو کمیونل ایوارڈ دینے کا علان کیا تھا۔ تاہم د ستور ساز اسمبلی میں بڑی چالاکی اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے مسلم ریزر ویشن کو ختم کر دیا گیا۔ اس وقت کے مسلم ارکان کو جن میں بیگم اعزاز رسول اور تجمل حسین شامل تھے اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اپنی وفات سے قبل بیگم اعزاز رسول نے اس معاملہ پر مسلمانوں سے معذرت بھی کرلی تھی کہ اس سے مسلمان بڑی حد تک سیاسی طور پر معذور ہوگئے ہیں آج جو صورت حال ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔
یہ صحیح ہے کہ دوستور ہند میں مذہب کی بنیاد پر ریزر ویشن دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔لیکن بڑی چالاکی کے ساتھ شیڈول کاسٹ کے ریزر ویشن کو جو دستور کی دفعہ 341کے تحت دیا گیا ہے مذہبی بنیاد پر ایک صدارتی حکمنامہ کے ذ ریعہ کردیا گیا جس کے خلاف مقدمہ ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ہر حکومت اس سلسلے میں کوئی جواب داخل کرنے سے بچتی ہے۔ جسٹس مشرا کمیشن نے اس چیز کو سیکولر آئین پر بد نما داغ قرار دیتے ہوئے مذہبی بندش ہٹانے کی پرزور سفارش کی تھی۔
دستور کی دفعہ 340کے تحت سماجی و تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر ریزر ویشن کی سہولت دینے کی اجازت ہے۔ چناں چہ جن ریاستوں میں مسلم آبادی کو ریزر ویشن ملا ہے وہ اسی بنیاد پر ملا ہے۔ اس کے لیے جو ضروری ضابطہ کی کارروئی ہے یعنی کمیشن بناکر اس فرقہ کی تعلیمی و سماجی پسماندگی کا پتہ لگانا۔ ان ریاستوں کی حکومتوں نے با ضابط اس کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا اور ان کی رپورٹوں کی ر وشنی میں ریزر ویشن دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
عدالتوں کا رویہ بھی منصفانہ نظر نہیں آتا۔کلکتہ ہائی کورٹ کا تازہ فیصلہ سامنے ہے۔ جس نے بنگال میں متعدد مسلم برادریوں کو پسماندگی کے زمرے سے خارج کردیا۔ وہیں جب کہ معاشی پسماندگی کی بنیاد پر دستوری اعتبار سے ریزرویشن نہیں دیا جاسکتاہے مگر وفاقی حکومت کے دس فی صد ریزرویشن کو برقرار رکھا۔
اب سوال یہ ہے کہ عین انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کو مسلم ریزر ویشن کی کیوں یاد آگئی ۔ کیا وہ دس سال سے سو رہے تھے ؟
اس کی اصل وجہ کیا ہے۔ جیسا کے اوپر بیان کیا گیا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی ہندو مفادات کے تحفظ کی بات کرتی ہے اور ملک کے تمام باشندوں کو ہندو ہی قرار دیتی ہے لیکن وہ اپنے ہم مذہبیوں کے ساتھ بھی عادلانہ اور مساویانہ رویہ اختیار کرنا نہیں چاہتی کیوں کہ وہ منوسمرتی کے مطابق آبادی کے ایک بڑے طبقہ کو غلام بنائے رکھنا چاہتی ہے۔ جب بھی سماجی انصاف کے لیے سرکاری قدم اٹھایا جاتا ہے وہ مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ موجودہ انتخابی مہم کے دوران جب کانگریس اور انڈیا محاذ کی شریک جماعتوں نے ذات پات کی شماری ( جو پہلی اور آخری مرتبہ1931, میں ہوئی تھی) کرانے، ریزر ویشن کوٹہ سے 50 فی صد کی بندش ہٹانے، دولت و وسائل کی مساویانہ تقسیم جیسے وعدے کیے تو اس سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے پیروں تلے زمین ہل گئی۔ جس سے ان کے ہندوتو پراجیکٹ پر کاری ضرب لگتی ہے۔ چناں چہ جب ایسا معاملہ ہوتا ہے وہ اس کا رخ موڑنے یا اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لیے مسلمانوں کو بیچ میں گھسیٹ لاتے ہیں۔ جیسا کہ منڈل کمیشن کی سفارشات کے وقت ہوا۔ بعض تاریخی عوا مل کے سبب آبادی کے ایک حصہ میں مسلمانوں کے تئیں نفرت بھر دی گئی ہے جیسا کہ گاندھی جی کے پوتے تشار گاندھی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مہاتما گاندھی نے یہ احساس کرلیا تھا کہ ہنسا اور نفرت ہندوستانی معاشرہ کی فطرت میں ہے۔ ان کے مطابق 1992 میں ہنسا کی اس فطرت کا مظاہرہ ہوا جو کچھ سیکولر ہونے کا بھرم تھا وہ بھی 2014میں مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔