پچھلے 7؍اکتوبر2023 کو حماس اور الجہاد الاسلامی نامی مزاحمتی تنظیموں کے اسرائیل کے کچھ علاقوں پرحملے اور وہاں سے کچھ اسرائیلیوں، بالخصوص فوجیوں، کو یرغمال بنا کر غزہ میں لانے کے بعد 8؍اکتوبر سے غزہ پر اسرائیل کا بحری، بری اور ہوائی حملہ سات ماہ سے جاری ہے۔ اس دوران غزہ کی 70فیصد بلڈنگوں کو زمین بوس کر دیا گیا ہے، تقریباً 34ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا گیا ہے، 73ہزار کو زخمی کیا گیا ہے اور 13ہزار فلسطینی بچوں کو یتیم بنایا گیا ہے۔ غزہ کی تمام نو(9) یونیورسٹیوں، لاتعداد اسکولوں اور مسجدوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ بجلی، پانی،سیور لائن، انٹرنیٹ اور ٹیلیفون وغیرہ کے سسٹم برباد کر دیے گئے ہیں۔ کھانا اور دواؤں کے باہر سے آنے پر شدید پابندی نافذ کر دی گئی ہیں۔ بغیر علاج کے لوگ زخموں اور بیماریوں سے اور بغیر غذا اور پانی کے بھوک سے مر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے سو سال میں پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں سمیت دنیا کے کسی علاقے میں اتنی تباہی نہیں مچائی گئی ہے۔
یہ سب سات ماہ سے ہو رہا ہے اور غزہ کے عین پڑوسی ملک، مغرب میں مصر، جنوب میں سعودی عرب اور مشرق میں اردن خاموش ہیں بلکہ جو کچھ ہو رہا ہے زبان حال سے اس کی تائید کر رہے ہیں۔ تنظیم تعاون اسلامی (او-آئی-سی) کے تمام 58ممبران بھی زبان حال سے خاموش ہیں سوائے ایران اور ایک حد تک ترکی کے۔صرف کچھ غیرحکومتی تنظیمیں جیسے لبنان کی حزب اللہ اور الجماعۃ الاسلامیۃ، عراق کی الحشد الشعبی اور یمن کی انصاراللہ ایک حد تک اسرائیل پر حملے کر کے اس کو پریشان کر رہے ہیں لیکن اتنا نہیں کہ وہ غزہ کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔
سایکس پیکونظام اب بھی قائم ہے
یہ سوچنا ہوگا کہ عرب اور اسلامی ممالک اتنے مجبور کیوں ہیں؟ درحقیقت مشرق وسطی کے ممالک سو سال سے زیادہ سے سایکس پیکو( Sykes-Picot )نظام کے تابع ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پہلی جنگ عظیم کے شروع میں برطانیہ، فرانس اورقیصری روس نے مل کر عرب دنیا کے مشرقی حصے کو آپس میں بانٹ لیا تھا اور یہ فیصلہ بھی کر دیا تھا کہ مغرب کے مفادات کے محافظ کے طور پر علاقے کی سب سے مرکزی جگہ (فلسطین) میں یہودی ’’ قومی وطن‘‘ بنایا جائے گا۔ اسی دوران جھوٹے طور سے برطانیہ نے شریف مکہ حسین بن علی سے خفیہ معاہدہ کیا کہ اگر وہ جنگ میں ترکیوں کے خلاف برطانیہ کی مدد کریں تو ان کو ’’عرب ممالک کا بادشاہ ‘‘ بنا دیا جائے گا۔ اس کے بعد حسین بن علی نے عرب قبائل کو اکسا کر برطانوی جاسوس لارنس (جو بعد میں لارنس آف عربیہ کے نام سے مشہور ہوا) کی قیادت میں ترکی فوجوں پر مشرق میں حملہ کرنا شروع کیا جب کہ مغرب میں ترکی اس وقت برطانیہ اور فرانس کی فوجوں سے برسر پیکار تھا۔ اسی دوران نومبر 1917 میں روس میں بولشویک انقلاب آ گیا۔ انھیں قیصر روس کی دستاویزات میں سایکس پیکو معاہدے کی کاپی ملی۔ اول تو انھوں نے روس کو اس معاہدے سے الگ کر لیا، دوسرے انھوں نے اس معاہدے کی ایک کاپی شریف مکہ کو بھیج دی کہ دیکھو تمھارے حلیف رازدارانہ طور سے کیا سازش رچ رہے ہیں۔سادہ لوح شریف حسین نے وہ کاغذات مصر میں برطانوی ریزیڈنٹ کے پاس بھیج کر پوچھا کہ کیا صحیح ہے؟ درحقیقت ان کی برطانیہ سے بات چیت قاہرہ میں برطانوی سفارتخانے کے ذریعے ہو رہی تھی۔ وہاں سے ان کو جواب آیا کہ ’’ یہ بالشویک دماغ کی ایجاد ہے‘‘ (figment of Bolshevik imagination)۔ یہ جواب پا کر شریف حسین اطمنان سے بیٹھ گئے جب کہ جنگ ابھی چل رہی تھی اور ایک سال بعد نومبر 1918 میں ختم ہوئی۔
جنگ ختم ہونے کے بعد فلسطین میں یہودیوں کے بسانے کا سلسلہ فوراً شروع ہو گیا جو بالآخر 1948 میں اسرائیل کے قیام پر منتج ہوا۔ دوسری طرف فلسطین، شام بشمول موجودہ لبنان، عراق اور کویت وغیرہ کو برطانیہ اور فرانس نے آپس میں بانٹ لیا۔ بڑی کشمکش کے بعد برطانیہ نے شریف حسین کے ایک بیٹے فیصل کو عراق کا بادشاہ بنا دیا ااور دوسرے بیٹے عبداللہ کو شرق اردن(موجودہ اردن) کا امیر بنا دیا جب کہ خود شریف حسین کو گرفتار کرکے قبرص میں نظر بند کردیا۔ لیکن یہ سب علاقے بشمول مصر، سعودی عرب اور خلیج کی امارتیں، برطانیہ کے زیرِاثر رہے جب کہ کچھ علاقے (شام بشمول لبنان) فرانس کے زیراِثر رہے۔
پہلی جنگ عظیم کے ختم ہونے پر معاہدۂ سیفر( Treaty of Sèvres ) (10؍اگست1920) کے تحت ترکی میں خلافت کا خاتمہ کردیا گیا۔ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں ترکی کو اپنے علاقوں سے محروم کیا گیا۔ ارمینیا کو آزادی دی گئی۔کردوں کے لیے خودمختار علاقہ بنایا گیا اور یونان کا ترکی کے کچھ علاقوں پر قبضہ تسلیم کیا گیا۔ اس معاہدے کو ترکی کی نئی حکومت نے ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جولائی1923 میں لوزان کا معاہدہ عمل میں آیا جس پر ترکی کی نئی حکومت نے دستخط کیا۔ اس معاہدے کے ذریعے حلیف طاقتوں نے ترکی کی موجودہ سرحدوں کو تسلیم کیا۔ ترکی کو اپنےدوسرے تمام املاک کے ساتھ قبرص اور بعض جزیروں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اسی کے ساتھ ترکی کو سو سال کے لیے بہت سے حقوق سے محروم کر دیا گیا جس میں بڑی فوج قائم کرنے، فوجی انڈسٹری قائم کرنے ، ملک کے اندر اور ساحلوں کے پاس پٹرول کی تلاش پر پابندی لگائی گئی اور آبنائے باسفورس کو ساری دنیا کے لیے مفت کھول دیا گیا جب کہ اسی طرح کی نہر سوئز اور پناما کنال سے بحری جہاز پیسے دے کر گذرتے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد درپردہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے تمام ممالک پر برطانیہ اور فرانس کا براہ راست یا بالواسطہ تسلط جاری رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں برطانیہ اور فرانس دونوں نڈھال ہو گئے جس کی وجہ سے یہ سب علاقے نئی تنومند طاقت امریکہ کے زیرِاثر آ گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی کم زوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودیوں نے فلسطین میں اسرائیل کی بنیاد مئی1948 میں رکھ دی۔ امریکہ اور روس نے اسے فوراً تسلیم کر لیا۔
نیا آقا
امریکہ کے چودھری بننے کے بعد جس ملک نے بھی ذرا سی آزاد روی دکھائی اس کو فوجی انقلاب کے ذریعے دوبارہ غلام بنا لیا گیا۔ یوں مصر میں جولائی 1952 میں جمال عبدالناصر کا انقلاب لایا گیا۔ایران میں اگست 1953 میں مصدق کی حکومت توڑ ی گئی۔ عراق، شام، یمن، سوڈان اور لیبیا وغیرہ میں فوجی انقلاب لائے گئے۔ اس غلامی میں یہ بھی شامل تھا کہ عرب ممالک اپنی شدید اندرونی ضرورت کے علاوہ ہتھیار نہیں خریدیں گے۔ جب مصر نے اس خفیہ پالیسی کی خلاف ورزی کر کے روس کے ذریعے چیکوسلوواکیہ سے1955 میں اسلحے خریدے تو مصر بھی دشمن بن گیا۔اب برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اکتوبر 1956 میں مشترکہ حملہ کر کے صحرائے سینا بشمول سوئز کنال پر قبضہ کر لیا۔ اس کو امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش سمجھا اور ان کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ پھر امریکہ کے ایماء پر اسرائیل نے مصر، اردن اورشام پر جون1967 میں حملہ کیا۔ اکتوبر1973 میں مصر اور شام نے اپنی زمینیں واپس لینے کی کوشش کی۔ شام تو کام یاب نہیں ہو سکا لیکن مصر نے صحرائے سینا کا ایک تہائی حاصل کر لیا۔ اس کے بعد طویل مباحثات کے نتیجے میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا لیکن شام کی جولان پہاڑیوں، غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ باقی رہا۔
فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک فتح وغیرہ نے مسلح جدوجہد جاری رکھی لیکن بیروت پر 1982 میں اسرائیلی حملے کے بعد انھوں نے ہار مان لی اوربالٓاخر اوسلو معاہدے(1992) کے تحت اسرائیل سے صلح کر لی جس کے تحت پانچ سال کے اندر فلسطینی ریاست قائم ہونی تھی لیکن وہ آج تک قائم نہیں ہو سکی اور جو علاقے فلسطینی ریاست کو دینے تھے وہاں دھیرے دھیرے سینکڑوں یہودی نوآبادیاں قائم ہو گئیں جس کی وجہ سے مستقبل میں کسی فلسطینی ریاست کے قائم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر اوسلو معاہدہ نافذ ہو گیا ہوتا تو فلسطینی مزاحمت بھی ختم ہو گئی ہوتی۔
اسی زمانے میں فروری سنہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب اسی غلامی سے نجات کے لیے آیا۔ نتیجۃً تب سے تمام مغربی ممالک ایران کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں اور اس پر طرح طرح کی عقوبات (Sanctions) نافذ کیے ہوئے ہیں۔ صدام حسین، حافظ الاسد اور قذافی وغیرہ نے جب ذرا سی بغاوت کا اشارہ دیا تو ان کو بھی توڑ دیا گیا۔
حالات سدھارنے کا موقع گنوا دیا گیا
سایکس پیکو زدہ عرب ممالک کو حالات سدھارنے کا ایک سنہری موقع ’’سرد جنگ‘‘ کے دوران ملا تھا جب دنیا بڑی حد تک دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ایک امریکہ کے ساتھ تھا تو دوسرا سوویت یونین کے ساتھ۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی کے پانچویں دہے سے لے کر بیسویں صدی کے نویں دہے تک چلااور سوویت یونین کے اپنے داخلی تناقضات کا شکار ہو کر بکھرنے کی وجہ سے ختم ہوا۔ اس لمبے عرصے میں متعدد عرب ممالک نے خود کو سوویت کیمپ سے جوڑ لیا جس میں مصر، شام، عراق، سوڈان اور یمن شامل تھے جب کہ تمام دوسرے ممالک امریکی کیمپ میں تھے۔ بعد میں ستمبر 1969 کے انقلاب کےبعد لیبیا بھی سوویت کیمپ میں شامل ہو گیا۔
یہ موقع تھا کہ یہ عرب ممالک سایکس پیکو کی قیود سے آزاد ہو کر ہر قسم کی ترقی کرتے لیکن انھوں نے سیاسی طور پر سوویت ماڈل کو اختیار کیا جس میں ایک پارٹی کی حکومت، آزادیوں کا مکمل فقدان، مرکزی پلاننگ اور سیاسی مخالفین کے ساتھ سخت ترین رویہ رکھنا شامل تھا۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ ان سارے ممالک نے سوویت یونین کی خفیہ پولیس ( کے جی بی) یا کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ پولیس(ستاسی) سے اپنے ممالک کی خفیہ پولیس کی ٹریننگ کرائی جس کی وجہ سے معمولی سے معمولی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ بدترین سلوک، تعذیب، جیل اور پھانسی تک کی سزائیں دی جانے لگیں۔ نتیجے میں سوویت گولاگ عرب ملکوں میں بھی پیدا ہو گئے۔ عوام آزاد سوچ اور امنگوں کے مطابق ترقی کرنے کے مواقع سے محروم ہو گئے اور ایک منافق معاشرہ وجود میں آیا جس میں اکثر لوگ حاکم کی چاپلوسی کرتے یا کم ازکم اس کی چیردستیوں کو خاموشی سے سہتے۔
نیا سایکس پیکو
سادات کے صدر بننے کے بعد دھیرے دھیرے مصر امریکی کیمپ میں منتقل ہو گیا۔ دوسرے ممالک جو بچے تھے وہ بھی سوویت یونین کے 1991 میں بکھر نے کے بعد چاہتے نہ چاہتے ہوئے امریکی کیمپ کا حصہ بن گئے۔ جو نہ بنے ان کو امریکہ نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کی وجہ سےدنیا کا واحد سپرپاور بننے پر تباہ و برباد کر دیا جن میں افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور یمن شامل ہیں۔ نتیجۃً یہ سب ممالک بھی ایک نئے سایکس پیکو عہد میں داخل ہو گئے جس کا قائد اب امریکہ ہے۔ اب ایران کے علاوہ اس بڑے خطے میں امریکہ کی مرضی کے خلاف کوئی بڑی پالیسی نہیں بنتی اور نہ ہی کوئی بڑا اقدام ہوتا ہے۔ اور یہی ہے وہ سبب جس کی وجہ سے غزہ میں غیرمعمولی اسرائیلی مظالم کے باوجود عرب ممالک زیادہ تر خاموش ہیں یا کھلے عام یا درپردہ اسرائیل اور امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔
یہی وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے حماس اور الجہاد الاسلامی وغیرہ نے فوجی تیاری کی۔ 2006 کے بعد سے متعدد بار ان کی اسرائیل سے لڑائی ہوئی ہے۔ لیکن 7؍اکتوبر2023 کا حملہ پچھلی ساری کوششوں سے بڑا تھا۔ اس کا سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ اسرائیل نے فلسطین کے کچھ علاقوں پر 1948 سے اور باقی ماندہ علاقوں پر 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے اور اس کی ان علاقوں کو چھوڑنے کی کوئی نیت نہیں بلکہ وہ زمین پر ایسے ’’ حقائق‘‘ مسلسل بناتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے مستقبل میں فلسطین کے کسی چھوٹے سے علاقے پر بھی آزاد حکومت کے قائم ہونے کا کوئی امکان نہیں رہ گیا ہے۔
حماس کا حملہ حق خود ارادیت کا استعمال ہے
7؍اکتوبر2023 کو حملہ کر کے فلسطینیوں نے اپنے حق مزاحمت کا استعمال کیا ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کا حق ہے۔ اس لیے اس حملے کو کسی طرح غلط نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے غیرمعمولی فوجی انتقام کے خلاف پہلے جنوبی افریقہ کی حکومت ہیگ(ہالینڈ) میں اقوام متحدہ کے تحت قائم بین الاقوامی عدالت نے چارہ جوئی کی اور بڑی حد تک اسرائیل کو ننگا کرنے اور اس کے خلاف عارضی آرڈر جاری کرانے میں کام یاب رہی (مستقل آرڈر آنے میں حسب معمول کافی وقت لگے گا)۔ اس کے بعد دنیا کے 52ملکوں نے مل کر بین الاقوامی عدالت میں ایک اور مقدمہ اسرائیل کے 1967 سے فلسطینی علاقوں پر مسلسل قبضے کے خلاف قائم کیا ہے۔ یہ مقدمہ ابھی چل رہا ہے اور اس کا فیصلہ آنے میں کافی وقت لگے گا۔
افسوس ہے کہ ان امور میں اکثر عرب اور اسلامی ممالک کا کوئی رول نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے پہل کی ہے۔نیکاراگوا، کیوبا، مالی، نائجر، موریتانیا، مالدیپ، کولومبیا اور بولیویا نے غزہ میں نسل کشی کی وجہ سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں جب کہ چلی، ہنڈوراس، بیلیز، جنوبی افریقہ، چاڈ، ترکی، اردن اور بحرین نے اسرائیل سے اپنے سفراء واپس بلا لیے ہیں۔ کسی بڑےعرب یا مسلم ملک کو اسرائیل سے تعلقات توڑنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
مصر کی سرحد غزہ سے براہ راست ملتی ہے۔ اگر وہ چاہتا تو غزہ میں اسرائیل کو اتنی آزادی نہ ملتی اور نہ ہی وہاں بھکمری کی صورت حال پیدا ہوتی۔ لیکن چوں کہ یہ سب ممالک امریکہ کے غلام ہیں، اس لیے کسی کی ہمت کوئی بڑا کام کرنے کی نہیں ہے حالاں کہ جب بھی انھوں نے ماضی میں ہمت کی تو مغرب د ہل کر رہ گیا جیسے 1973 میں پٹرول پر پابندی کا اعلان جو کہ عملاً لاگو نہیں ہوا لیکن اس کے صرف اعلان نے ہی مغربی ممالک کو بدحال کر دیا تھا۔ اس کے کچھ دن بعد اس پالیسی کے سرخیل شاہ فیصل کو سازش کے تحت قتل کرا دیا گیا تھا۔
عرب بہاریہ کا خوف
اس سیاسی غلامی کے خلاف سنہ2010 میں عرب بہاریہ (عرب اسپرنگ) شروع ہوئی جس کے تحت کم ازکم مصر اور تونس میں آزاد حکومتیں قائم ہوئیں لیکن جلد ہی ان حکومتوں کا تختہ پلٹ دیا گیا اور امریکہ نواز عوام دشمن حکومتیں وہاں پھر قائم ہو گئیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے تمام عرب ممالک میں قائم حکومتیں پریشان ہیں۔ چاہے وہ شاہی ہوں یا فوجی یا ’’جمہوری‘‘ وہ سب ڈکٹیٹرشپ ہیں جن کو عوام کی تائید حاصل نہیں ہے اور وہ امریکہ کی چھترچھایا میں رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے کسی حکومت کی ہمت نہیں ہے کہ امریکہ کی مرضی کے خلاف اسرائیل سے ٹکر لے یا موجودہ صورت حال میں حماس اور الجہادالاسلامی کی مدد کرے۔ بلکہ بعض حکومتیں درپردہ اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں کیوں کہ ان کو لگتا ہے کہ اگر حماس غزہ میں کام یاب ہو گئی تو ان کی گدی کو بھی خطرہ لاحق ہوجائے گا اور عرب بہاریہ کی صورت حال دوبارہ پیش آ سکتی ہے۔
الاخوان المسلمون کا خوف
عرب حکومتوں کی حماس کے تئیں بےرخی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اسے الاخوان المسلمون کی ایک شاخ سمجھتے ہیں۔ ان کو ڈر ہے کہ حماس کی سرفرازی کے بعد فلسطین پر اسی کی حکومت قائم ہو گی اور یہ سب عرب حکومتوں کے لیے فال بد ہو گا کیوں کہ 2012 میں مصر میں الاخوان المسلمون کی حکومت کے قیام کی وجہ سے تمام عرب حکومتوں کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اگر کہیں الاخوان المسلمون سیاسی طور مستحکم ہوگئے تو اس کے اثرات ان کے ملکوں تک ضرور پہنچیں گے۔ حماس نے اس تأثر کو زائل کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ اس نے بار بار کہا ہے کہ اس کی بنیاد ضرور فلسطین میں الاخوان المسلمون کے لوگوں نے ڈالی ہے لیکن وہ ایک وطنی حریت پسند تحریک ہے جس کا فلسطین کے باہر کے معاملات میں کوئی عمل دخل نہ پہلے رہا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔ لیکن یہ یقین دہانی عرب حکومتوں کے لیے کافی نہیں ہے۔
اب غزہ کی صورت حال یہ ہے کہ اس بزدلی اور سازش کے باوجود حماس اور الجہاد الاسلامی کام یاب ہو چکے ہیں۔ اسرائیل ناکام ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والا امریکہ بھی اپنے مقاصد میں ناکام ہو چکا ہے۔ دیر سویر نہ صرف غزہ اور فلسطین میں ایک نئی صبح طلوع ہونے والی ہے بلکہ اس کے اثر سے عرب اور اسلامی ممالک میں بھی ایک نئی عوامی بیداری آئے گی۔ غزہ کے لوگوں کی غیرمعمولی قربانیاں ایک نئی صبح کے طلوع میں مددگار ہوں گی۔