ہندوستانی مسلمان فریضہ دعوت سےغافل کیوں؟

عدیل اختر
جون 2024

ہندوستان کے مسلمانوں میں دین اسلام سے عقیدت ایک بین حقیقت ہے۔ عام مسلمان دین سے عقیدت رکھتے ہیں اور بیشتر مسلمان کسی نہ کسی فرقے، مسلک، جماعت یا نظریے کی پیروی کرتے ہیں۔ مذہبی پہچان والے جتنے بھی حلقے ہیں وہ اپنے اپنے عقیدوں اور طور طریقوں کے ساتھ دین اسلام سے وابستگی کا دم بھرتے ہیں۔ اسی جذبے سے وہ دین اسلام کے پھیلنے کی خبروں سے خوش ہوتے ہیں اور کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں میں عمومی طور پر غیر مسلموں کو دین اسلام کی طرف دعوت دینے میں کوئی خاص دل چسپی نہیں رہی ہے۔ آزاد بھارت کے مسلمانوں میں گذشتہ کچھ دہائیوں سے ہی دعوت دین کا خال خال چرچا شروع ہوا ہے اور اس کی باقاعدہ مخالفت کا رجحان بھی ابھی تک پایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ایک غور طلب سوال ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟

مسلمانوں کو مجموعی طور سے سامنے رکھ اس سوال پر غور کریں تو یہ جواب ملتا ہے کہ دین اسلام سے عام مسلمانوں کا تعلق شعوری نہیں ہے بلکہ جذباتی اور روایتی ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات، احکام اور اخلاقیات مسلمانوں کی عملی زندگی پر چھائی نہیں ہیں۔ مذہبی حلقوں میں بھی اصل توجہ اپنی اپنی روایتوں،مسلکی پہچانوں اور گروہی عصبیت نیز دنیاوی مفادات پر ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور عام ذہنیت کی تشکیل قرآن کے پیغام اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے نہیں ہوتی ہے بلکہ آبا واجداد سے چلی آرہی روایتوں اور اپنے خاندان، مقام یا مسلک و فرقے کے مولویوں کے بیانوں اور واعظوں سے ہوتی ہے۔ خود ان مولویوں کی علمیت و دین داری اپنے مادر علمی کے مسلک، روایت اور علمی معیار پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ عام طور سے بہت سطحی ہوتی ہے اور دین کی روح اور دین و شریعت کے اعلی ترین مقاصد سے ناآشنا ہوتی ہے۔

جن مذہبی حلقوں،مسلکی مدرسوں، گروہوں اور جماعتوں سے مسلمان عام طور سے وابستہ ہیں ان میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور جمیعت علما وغیرہ معروف و مشہور ہیں۔

دیو بندی

دیوبندی طبقہ مسلمانوں کی مذہبی سوچ اور رویے پر اثر رکھنے والا سب سے نمایاں طبقہ ہے اور اس کی نسبت دارالعلوم دیوبند سے ہے۔ دارالعلوم دیوبند ام المدارس ہے یعنی پورے بر صغیر میں دینی مدارس و مکاتب کی کثیر تعداد اس کے واسطے سے وجود میں آئی ہے۔ یہ برصغیر میں دین اسلام کا نقیب ہے اور خود اپنے آپ میں ایک مکتب فکر ہے۔ لیکن دارلعلوم دیوبند کی پہچان حنفی مسلک کی تعلیم و تبلیغ والے ایک ادارے کی ہے۔اسی کے ساتھ اس کا ایک سیاسی پس منظر بھی ہے جس سے اس کا موقف بندھا ہوا ہے۔ یہ انگریزی اقتدار کے خلاف جدو جہد کا مرکز رہا ہے۔ یہ جدو جہد اہل ہند کی ایک اجتماعی قومی تحریک کی صورت میں ہوئی تھی جس کے زیر اثر ملک میں ہندو مسلم گٹھ جوڑ اور گنگا جمنی تہذیب کی روایت پروان چڑھی۔ چناں چہ دیوبندی فکر پر اس روایت کا اثر اور دباؤ ابھی تک قائم ہے۔

دارالعلوم دیوبند اور اس کی پیروی کرنے والے تمام لوگوں کی سیاسی و سماجی ترجمانی جمیعت علما ہند کرتی ہے۔ جمیعت علما ہند کا نظریۂ شروع سے ہی نیشنلزم یعنی وطنی قومیت کا رہا ہے۔ آزادی سے پہلے تحریک اور آزادی کے دوران بھی، پھر آزادی و تقسیم ہند کے بعدبھی بھارت میں جمیعت علمائے ہند کانگریس کے انڈین نیشنلزم کی وکیل اور کانگریس پارٹی کی معاون رہی ہے۔

چناں چہ دارالعلوم دیوبند اور جمیعت علما ہند کے لیے ہندوستان میں غیر مسلموں (خاص طور سے ہندوؤں) کو دین اسلام کی طرف دعوت دینے کا معاملہ خلاف مصلحت رہا ہے۔ اس لیے نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ اس طرح کے رجحان اور کوششوں کی حوصلہ شکنی بھی کی۔ یہ چیز آج تک چلی آرہی ہے، حالاں کہ اس موقف میں اب کسی قدر نرمی محسوس ہونے لگی ہے، مگر اجتماعی طور پر نہیں بلکہ انفرادی سطح پر۔

دیوبندی حلقے سے نکلنے والی تبلیغی جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کو دعوت دینے کے بجائے صرف مسلمانوں ہی کی اصلاح کا کام کیا جائے۔ اس جماعت کے نزدیک اسی کا نام دعوت و تبلیغ ہے اور تبلیغی جماعت کا عمل جہاد ہے۔ لہذا تبلیغی جماعت بھی غیرمسلموں میں دعوت دین کی کبھی ہمنوا نہیں رہی ہے، البتہ از خود مسلمان ہونے والے افراد کا یہ جماعت استقبال کرتی ہے۔

دیوبندی حلقے کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کا دوسرا بڑا طبقہ بریلوی طبقہ ہے۔ اس طبقے کے اندر بھی کئی طرح کےلوگ ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو دین کے لیے مخلصانہ فکر رکھتے ہیں، علمی روایت و سلسلہ رکھتے ہیں اور تزکیہ نفس کے اس نظام سے تعلق رکھتے ہیں جسے تصوف کہتے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہیں جو عرس، میلوں ٹھیلوں اور درگاہوں کی زیارت کرنے کو ہی دین سمجھتے ہیں، اور جو مسلمان ان خرافات سے دور ہیں انھیں مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ ان کے علاوہ کچھ زیادہ بگڑے ہوئے اور شرک و بدعت کو اپنا دین بنانے والے لوگ بھی اس طبقے کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ آخری دو طبقے تو قطعی قابل ذکر نہیں ہیں لیکن تصوف و خانقاہیت سے جڑا سنجیدہ طبقہ بھی دعوت دین کا تصور نہیں رکھتا ہے حالاں کہ یہ لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ بر صغیر میں دین اسلام کا فروغ صوفیوں اور ولیوں کے ذریعے ہوا ہے، اور “خواجہ اجمیری” نے یہاں کے کفرستان میں دین اسلام کی مشعل جلائی اور آج کے مسلمانوں کی اکثریت انھی لوگوں کی نسل سے ہے جو صوفیوں کے ہاتھوں پر اسلام لائے تھے۔ ان لوگوں کی توجہ “دیوبندیوں” اور “وہابیوں” کا رد کرنے نیز مراقبوں اور وظیفوں میں غرق رہنے پر ہی مرکوزہے۔

ان دونوں کے درمیان تیسرا معتدل طبقہ وہ ہے جو جماعت اسلامی کے نظریے اور تحریک سے پیدا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کی بنیاد دعوت دین اور اقامت دین کی فکر پر ہی رکھی گئی تھی۔ اس تحریک کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے تحریک آزادی کے دوران ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان چل رہی قومی کشمکش سے الگ ہٹ کر مسلمانوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ اپنی سماجی اور سیاسی زندگی کو بھی دین و شریعت کے مطابق بنائیں۔ اقامت دین کو اپنا قومی مقصد بنائیں اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کی تعمیر کریں۔

تقسیم ہند کے بعد بانی تحریک نے خود تو پاکستان میں قیام کیا اور وہاں کے معاشرے میں اقامت دین کی کوششوں میں لگے رہے، لیکن ان کے جو ہم نوا ہندوستان میں رہ گئے تھے انھوں نے جماعت اسلامی ہند کے نام سے دعوت دین اور اصلاح امت کا کام جاری رکھا۔ اپنے رفقاء کی رہ نمائی اور دیگر تمام اہل فکر مسلمانوں کے لیے بانی تحریک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک مربوط لائحہ عمل تجویز کیا جسے جماعت اسلامی ہندنے خطبہ مدراس کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں کو بنیادی طور سے پیغام دیا گیا تھا کہ وہ قومی کش مکش سے خود کو الگ رکھیں اور ہندوستانی سماج میں تبلیغ اسلام کا کام کریں۔ تمام علاقائی زبانوں میں قران کا ترجمہ اور اسلام کی وضاحت کرنے والا لٹریچر، دعوتی اخبارات و رسائل شائع کریں اور ہندوؤں کے ساتھ فرقہ وارنہ کشمکش سے بچیں۔ چناں چہ جماعت اسلامی ہند نے انھی خطوط پر کام شروع کیا۔ جماعت نے نہ صرف ہندی اور علاقائی زبانوں میں قران کے تراجم نیز اسلامی لٹریچر شائع کیے بلکہ مختلف مواقع پر مختلف عنوانات سے غیر مسلموں کے خصوصی یا مسلمانوں کے ساتھ ملے جلے اجتماعات بھی منعقد کیے۔ جماعت کے مرکز اور علاقائی دفاتر سے ہندی اور علاقائی زبانوں کے میگزین بھی شائع ہونے شروع ہوئے جو ابھی بھی شائع ہورہے ہیں۔اس طرح جماعت اسلامی ہند ہندوستان میں اسلام کی دعوت و اشاعت کی نقیب بنی۔ جماعت کے ارکان و کارکنان کو غیر مسلموں سے دعوتی روابط استوار کرنے اور انھیں دعوتی کتب دیتے رہنے کی تاکید تھی۔ جماعت کے ایک سابق امیر مولانا سراج الحسن صاحب نے ہندوستان کو “دارالدعوۃ” تک قرار دیا تھا۔ جماعت نے متعدد بار مختلف عنوانات سے دعوتی مہمیں بھی چلائیں۔

لیکن جماعت اسلامی کی ان کاوشوں سے دیگر مذہبی حلقوں نے کوئی خاص ترغیب حاصل نہیں کی اور خود مختلف وجوہ سے جماعت کا عوام میں اثر و نفوذ بھی محدود رہا۔ یہاں تک کہ تبلیغی جماعت جیسی جماعت بھی جماعت اسلامی کی مخالفت پر کمر بستہ رہی، کیوں کہ دیوبندی حلقہ سے تعلق ہونے کے علاوہ، اس کا مؤقف یہ بھی ہے کہ تبلیغی جماعت ہی برحق ہے اور باقی سارے تبلیغی و دعوتی کام لایعنی اور غیر سنجیدہ ہیں۔

الغرض، آزاد ہندوستان میں غیر مسلموں میں دعوت دین کا نظریہ اور کوششیں جماعت اسلامی اور اس سے متاثر لوگوں میں ہی بڑی حد تک محدود رہیں۔ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور مسلم کش فسادات نےخود جماعت پر ملت کے تحفظ کی تدابیر اختیار کرنے، لٹے پٹے مسلمانوں کی بازآباد کاری اور غیر مسلموں میں اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے پھیلائی جارہی غلط فہمیوں کو رفع کرنے نیز ان سے خیرسگالی اور برادرانہ تعلقات استوار کرنے کا دباؤ بڑھا دیا۔ اس کے لیے جماعت نے ملکی وصوبائی سطح پر متعدد ادارے قائم کیے، جیسے فورم فار ڈیموکریسی و کمیونل امیٹی، دھارمک جن مورچہ اور سدبھاؤنا منچ وغیرہ۔ چناں چہ داخلی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے گذشتہ تین دہائیوں میں جماعت کے نظریے اور اپروچ میں جو تبدیلیاں واقع ہوئیں اس نے سب سے زیادہ دعوتی سرگرمیوں کو متاثر کیا۔

جماعت اسلامی ہند کی دعوتی سرگرمیو‌ں میں گذشتہ برسوں میں کچھ قابلِ اعتراض طریقے بھی سامنے آئے جو دعوت کے مقصد اور دعوتی اپروچ کے مطابق نہیں تھے بلکہ وہ بین المذاہب اتحاد و ہم آہنگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ حال ہی میں جماعت کے مرکزی اور علاقائی دفاتر میں شعبہ دعوت کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ دعوت جماعت کے ہر کارکن پر عائد ایک فریضہ ہے جس پر ہر رکن و کارکن کو توجہ دینی چاہیے۔ دعوت کے لیے الگ سے ایک شعبے کے تحت دعوتی پروگراموں اور مہمات کی کوئی افادیت اور ضرورت نہیں ہے۔

تحریک اسلامی سے وابستہ وہ افراد اور گروہ جو جماعت اسلامی ہند کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے رہے ہیں وہ جماعت کی روایتی دعوتی اپروچ پر بھی یہ تنقید کرتے رہے ہیں کہ جماعت دعوت کے بجائے افہام و تفہیم کی بات کرتی ہے اور اپنا دعوتی مدعا براہ راست پیش کرنے کے بجائے بالواسطہ پیش کرتی ہے حالاں کہ دعوت دین کا قرآنی اور نبوی طرز واضح، دوٹوک اور بلا مداہنت اللہ کی طرف بلانے کا ہے۔

جماعت اسلامی کی دعوتی سرگرمیوں میں کمی آنے کی ایک اور وجہ ترجیحات کا بدل جانا بھی ہے۔ جب سچر کمیٹی کی رپورٹ سے مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی، معاشی بدحالی اور سماجی کم زوری پوری طرح عیان ہوکر سامنے آگئی تو بجا طور پر مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اپنی قوم کی تعمیر و ترقی اور امپاور منٹ کے انھیں خود ہے متحرک ہونا ہوگا۔ اس میدان میں جماعت نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلمانوں میں تعلیمی اداروں کا قیام، ہونہار اور غریب طلبہ کو وظائف کی فراہمی، بعض اہم میدانوں کی طرف مسلم نوجوانوں کو متوجہ کرنا اور ان میں ترغیب پیدا کرنا، مسلمانوں کی معاشی بدحالی کو دور کرنے کی طرف بھی متعدد سرگرمیوں کے ذریعے جماعت نے قدم آگے بڑھایا۔ ظاہر ہے ان کاموں کی اہمیت، ضرورت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ان میدانوں میں جماعت کی بڑھتی دل چسپی نے اس کے اصل کام دعوت دین اور اقامت دین کو بڑی حد تک متاثر کیا۔

گذشتہ دہائیوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف لوگوں نے دعوت دین کی سرگرمیاں الگ الگ انداز سے شروع کیں جن میں سے کچھ باقی ہیں اور کچھ ماند پڑگئیں۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں اور قابل ذکر سرگرمی ڈاکٹر ذاکر نائک اور ان کے اسلامک ریسرچ سینٹر کی تھی۔ جنھوں نے ڈیجیٹل چینل کے توسط سے اور بین مذہبی مناظروں کے ذریعے اسلام کو عوامی سطح پر متعارف کرانے میں کام یابی حاصل کی اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اندر دعوت دین کا جوش و جذبہ پیدا کیا، تاہم ڈاکٹر ذاکر نائیک مجادلہ،حکمت و موظتہ حسنہ کی قرانی ہدایت کو ملحوظ نہ رکھ سکے اور بلآخر مودی حکومت کے عتاب کا شکار ہوکر جلاوطن ہونے پر مجبور ہوئے۔ان کے علاوہ مولانا کلیم صدیقی ایک داعی شخصیت کے طور پر عوام کے درمیان مقبول ہوئے لیکن انھیں بھی حکومت کے عتاب کا شکار ہوکرجیل جانا پڑا۔ لیکن مولانا کلیم صدیقی کےطریقہ دعوت پر بھی اہل علم کے کئی اعتراضات تھے۔ نومسلموں کی قانونی مدد و رہ نمائی نیز مسلم معاشرے میں انھیں جذب کرنے کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر عمر گوتم کے ساتھ بھی یہی ہوا وہ بھی غیر قانونی سرگرمیوں کے الزامات میں جیل میں بند ہیں۔دعوتی میدان میں کام کرنے والوں کو حکمت و تدبرکے ساتھ ملکی قوانین اور دستوری ضوابط کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔

اس پورے منظرنامے سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ ملک میں جمہوریت، عقیدے و تبلیغ دین کی آزادی کے باوجود عملاً دعوت دین کا کام کرنا آسان نہیں ہے۔ اکثریتی فرقے کے مذہبی قائدین تبدیلی مذہب اور اس کے لیے تحریک دینے کے شدت سے مخالف ہیں اور حکومتوں پر شدید دباؤ بنائے رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی تائید و مدد سے بننے والی موجودہ حکومت تبدیلی مذہب پر مکمل پابندی کا مؤقف رکھتی ہے اور دعوت دین کی سرگرمی کو ایک مجرمانہ فعل قرار دیتی ہے۔ اس ناسازگاراور مخالف ماحول کی بنا پر ملک میں مسلمان دعوت دین کے فریضے کو انجام نہیں دے پارہے ہیں۔