مغربی بنگال کے مسلمان سیاسی بے وقعتی کا شکار

نوراللہ جاوید
جولائی 2024

بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں 2019جیسی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ۔دعوے تو کافی بڑے تھے کہ بنگال میں 35سیٹوں پر اس کی جیت یقینی ہے تاہم بنگالی مسلمانوں کی سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے محض 12سیٹوں پر ہی سمٹ کر رہ گئی۔ یہاں تک کہ 2021کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس کےلیے انتخابی حکمت عملی بنانے والے پرشانت کشور بھی تسلسل کے ساتھ ممتا بنرجی کی بڑی شکست کی پیشین گوئی کررہے تھے۔دراصل گزشتہ چار برسوں میں اساتذہ تقرری گھوٹالہ،میونسپلٹی گھوٹالہ، راشن گھوٹالہ، کوئلہ اسمگلنگ گھوٹالہ سمیت کئی اور گھوٹالے سامنے آئے جس میں براہ راست ترنمول کانگریس کے لیڈران مبینہ طورپر ملوث رہے ہیں ۔اساتذہ تقرری گھوٹالہ کی وجہ لاکھوں طلبہ اور نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ایک دہائی سے زائد عرصے سے اسکولوں میں تقرری نہیں ہورہی ہے۔ظاہر ہے کہ ان گھوٹالوں کی وجہ سے عوامی ناراضگی فطری بات تھی اس لئے یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ یہ ناراضگی نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ مگر بی جے پی کومایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔جب کہ انتخابات سے عین قبل شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ، مودی اور امت شاہ کی فرقہ وارانہ تقاریر سے ماحول سازی کی بھر پور کوشش کی گئی ۔
بی جے پی کی ناکامی اور ترنمول کانگریس کی شاندار جیت کے پیچھے ریاست کے 27فیصد مسلم اور دلت بالخصوص راج بنشی ووٹروں کا اہم کردار رہا ہے۔انتخابی نتائج کو گرچہ ایک مہینے ہوچکے ہیں مگر بنگال میں بی جے پی کی ناکامی کی وجوہات خود بی جے پی کو بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے اور وہ اندرونی اختلافات کی شکار ہے۔ترنمول کانگریس کی شاندار جیت کے پیچھے ممتا بنرجی کی فلاحی اسکیموں کا اہم رول رہا ہے ۔2021کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد ممتا بنرجی نے لکشمی بھنڈار اسکیم شروعات کی تھی۔اس کے تحت عام خواتین کو ماہانہ 500روپے اور ایس سی اور ایس ٹی قبائلی خواتین کو 1000روپے دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس سال اپریل سے اس رقم میں اضافہ ہوکر عام خواتین کےلیے 1000روپے اور ایس سی و ایس ٹی خواتین کےلیے 1250روپے کردیا گیا ۔اس اسکیم کی وجہ سے خواتین ووٹر مضبوطی کے ساتھ ممتا بنرجی کے ساتھ کھڑی رہیں۔لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس پوسٹ پول سروے کے مطابق ترنمول کانگریس کے ووٹ میں 10فیصد کا اضافہ ہوا اور اس میں خواتین ووٹر کا اہم کردار رہا ہے۔جب کہ سندیش کھالی کے نام پر نہ صرف خواتین کوبھڑکانے کی کوشش کی گئی بلکہ فرقہ وارانہ ماحول سازی کی بھی کوشش کی گئی۔مگر مسلم ووٹروں کی پولرائزنگ راج بنشی اور دلت و قبائلی ووٹروں تک ممتا بنرجی کی رسائی کی وجہ سے بی جے پی کی تدابیر دھری کی دھری رہ گئیں۔بنگال میں اگر بی جے پی نے 12سیٹیں جیتی ہے تو اس کی وجہ ممتا بنرجی کا تکبرانہ مزاج اور کانگریس کی ریاستی قائدین کی ضد ہے۔اگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد ہوجاتا تو مالدہ شمال، رائے گنج، بالور گھاٹ میں بی جے پی کی شکست یقینی تھی ۔
تاہم شمالی بنگال بالخصوص مالدہ کی دونوں سیٹیں اور رائے گنج جہاں مسلم ووٹر 45فیصد سے زائد ہیں، میں بڑی تعداد میں مسلم ووٹر نے کانگریس کو ووٹ دیا۔مالدہ شمال اور رائے گنج میں بی جے پی کی جیت کے فرق سے کہیں زیادہ کانگریس کے امیدواروں نے ووٹ لیا۔تملوک اور کانتھی لوک سبھا سیٹوں کو چھوڑ کر، مغربی بنگال کی حکمران جماعت نے جنوبی بنگال کی مسلم اکثریتی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، جہاں اقلیتوں نے بی جے پی کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ٹی ایم سی کو ووٹ دیا۔تاہم شمالی 24پرگنہ اور جنوبی24پرگنہ میں آئی ایس ایف (عباس صدیقی) نے کانگریس اور بائیں محاذ کے امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی ۔بشیر ہاٹ ، جے نگر اور متھرا پور یہ وہ سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹ کی شرح 35سے 45فیصد کے درمیان ہے۔جے نگر اور متھرا پور کی سیٹ ریزرو ہے اس کے باوجود آئی ایس ایف کا اتنے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کرنا مستقبل میں ترنمول کانگریس کےلیے بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔
لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس پوسٹ پول سروے کے مطابق2021 کے انتخابات میں انہوں نے 75فیصد مسلم ووٹ حاصل کیا۔ تاہم مسلمانوں کی مضبوط حمایت کے باوجود میونسپل، پنچایتی ،ضمنی انتخابات اور لوک سبھا انتخابات میں ترنمو ل کانگریس نے مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے امیدوار نہیں بنایا۔مالدہ شمال اور رائے گنج جہاں مسلم ووٹرس کی آبادی 45فیصد سے زائد ہے لیکن اس کے باوجود یہاں سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا۔اب چوں کہ انتخابات ختم ہوچکے ہیں ایسے میں سوال یہ ہے کہ ممتا بنرجی کو یک طرفہ ووٹ دینے والے بنگال کے مسلمان سماجی، اقتصادی اور معاشی اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں ۔یہ سوال اس لئے بھی اہم ہوگیا ہے کہ انتخابی موسم کے درمیان ہی کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے پسماندگی کے شکار مسلمانوں کو ریزرویشن کے جو فائدے مل رہے تھے ،سے بھی محروم کردیا۔ممتا بنرجی سپریم کورٹ میں اس سرعت کا مظاہرہ نہیں کررہی ہیں جو ہائی کورٹ کے ذریعہ 26ہزار اساتذہ کی تقرری منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف کیا تھا۔اگر اوبی سی ریزرویشن پر جلد فیصلہ نہیں آتا ہے کہ ریزرویشن کا فائدہ حاصل کرکے تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کو بہت ہی مایوسی کا سامنا کرنے پڑے گااور ریاست کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ کی نمائندگی جو پہلے ہی مایوس کن تھی وہ افسوس ناک حد تک کم ہوجائے گی۔سرکاری ملازمت میں تقرری پہلے ہی روکی ہوئی اور عدالتی کارروائی کی وجہ سے معلق ہے ۔
مغربی بنگال میں گزشتہ 12سالوں سے برسراقتدار ترنمول کانگریس کی حکومت کے دور میں مسلم کمیونٹی کی سماجی و اقتصادی ، تعلیمی ترقی کی رفتاراور نمائندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مغربی بنگال حکومت کی کابینہ اور قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کتنی ہے؟۔ 2011 میں ترنمو ل کانگریس کی جیت کے بعد کابینہ میں مسلم ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ لیکن اس کے بعد کے انتخابات میں اس میں مسلسل گراوٹ آئی ۔2021میں تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد کابینہ میں مسلم نمائندگی کم ہوگئی۔معاشی اعتبار سے بنگال کے مسلمانوں کی اچھی حالت نہیں ہے۔قومی اوسط کے مقابلے مغربی بنگال میں مسلمانوں کے لیے روزگار کے مواقع میں تفاوت ہے۔ لیبر فورس سروے 2018-2019کی مطابق قومی سطح پر22فیصد مسلمان مستقل تنخواہ والی ملازمت کرتے ہیں جب کہ بنگال میں صرف 13فیصد مسلمانوں کے پاس مستقل ملازمت ہے۔قومی سطح پر غیر مستقل کاموں سے وابستہ مسلمانوں کی تعداد 26فیصد ہے جب کہ بنگال میں 34فیصد مسلمان غیر منظم سیکٹر سے وابستہ ہیں۔ سروے بتاتا ہے کہ مغربی بنگال میں تنخواہ دار مسلم کارکنان بھی ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے اوسطاً کم کماتے ہیں، ان کی تنخواہ میں تقریباً 3,500روپے کا فرق ہے۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بنگال میں یومیہ مزدوری 300سے400روپے کے درمیان ہے جبکہ کیرلہ ، تمل ناڈو اور کرناٹک میں 700روپے ہیں ۔اس لئے ملک بیشتر ریاستوں میں بنگالی مزدوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
کچھ سروے اس سے بھی زیادہ سنگین صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں۔ SNAP، گائیڈنس گلڈ، اور پرتیچی ٹرسٹ کی طرف سے کیے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دیہی بنگال میں تقریباً 80فیصد مسلم گھرانے صرف پانچ ہزارروپے ماہانہ کماتے ہیں، جو کہ پانچ افراد کے خاندان کی غربت کی سطح کی آمدنی کے بہت قریب ہے۔ یہ تشویشناک ہے کہ یہاں کے 38.3فیصد مسلم گھرانے 2500یا اس سے کم کماتے ہیں، جو غربت کی سطح کا محض نصف ہے۔ صرف 3.4فیصد مسلم گھرانے 15,000روپے یا اس سے زیادہ ماہانہ کماتے ہیں۔ مغربی بنگال کے مسلمان اوسط ہندوستانی مسلمان کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ غیر محفوظ ہیں۔مرشد آباد، مالدہ اور اتر دیناج پور کے اضلاع، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، مغربی بنگال کے سب سے پسماندہ علاقوں میں سے ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے -5 (2019-21) سے ملٹی ڈائی مینشنل پاورٹی انڈیکس (MPI) کے مطابق، ان اضلاع میں غربت کی شرح بالترتیب16.55فیصد ،15.75فیصد اور 21.65فیصد ہے۔جبکہ ریاست کی اوسط 11.89فیصد ہے۔ یہ تین اضلاح ریاست کی آبادی کا تقریباً 15فیصد ہونے کے باوجود ان اضلاع میں صرف 3فیصد سرکاری میڈیکل کالج ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان علاقوں میں موجودہ میڈیکل کالجوں کو ریاست کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ مریضوں کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ یہ صحت کی دیکھ بھال اور وسائل تک رسائی میں نمایاں تفاوت کو نمایاں کرتا ہے، جو ان اضلاع میں جاری سماجی اقتصادی چیلنجوں کو واضح کرتا ہے۔
مغربی بنگال میں مسلمانوں کے لیے تعلیمی حصول میں تفاوت اعلیٰ تعلیم تک وسیع ہے۔ ریاست کی آبادی کا 27فیصد ہونے کے باوجود، اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کا تناسب صرف 12فیصد ہے۔مرکزی وزارت تعلیم کی سالانہ رپورٹ AISHE2021-22 کے مطابق مغربی بنگال میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال عدام توازن کا شکار ہے۔مثال کے طور پرجادوپور یونیورسٹی میں 2015-16 کے تعلیمی سال کے دوران، کل8 ,320طلبہ ء کے اندراج میں سے صرف 50 (0.6) فیصد مسلم طلبہ کا اندراج ہوا۔ اسی طرح انڈین اسٹیٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس آئی) جو کہ مرکزی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والا ادارہ ہے نے اس مدت میں 740 میں سے محض آٹھ(08.1)مسلم طلبہ کا داخلہ ہوا۔سالانہ رپورٹ AISHE2021-22کی رپورٹ کے مطابق رابندر بھارتی یونیورسٹی میں 2015-16 میں46,522طلبہ کے اندراج کے ساتھ، صرف2 .34فیصد مسلم طلبہ تھے، جبکہ سلی گوڑی کی یونیورسٹی آف نارتھ بنگال میں 2.6فیصدمسلم طلبہ تھے۔مزید یہ کہ اسی رپورٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کالج کے اساتذہ میں مسلمانوں کی نمایاں کمی ہے۔ 2012-13 میں کالج کے اساتذہ میں سے صرف3 .12فیصدمسلمان تھے جو کہ 2018-19 میں بڑھ کر7 .8فیصد ہو گئے۔ تاہم یہ ظاہری اضافہ اس وقت اپنی اہمیت کھو دیتا ہے جب اس بات پر غور کیا جائے کہ عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ کو حساب سے خارج کر دیا گیا ہے۔
دیگرسرکاری ملازمتوں میں بھی صورت حال کوئی اچھی نہیں ہے۔ 2008 اور 2016 کے درمیان، مغربی بنگال میں سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی میں معمولی اضافہ دیکھا گیا، جو کہ 5.19فیصد سے بڑھ کر6.08فیصد ہو گیا۔ تاہم یہ ان کی آبادی کے 27 فیصد حصہ سے نمایاں طور پر کم ہے۔ اس کے مقابلے میں، شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی)5.7سرکاری ملازمتیں رکھتے ہیں، جو ان کے 6فیصد آبادی کے حصے سے مطابقت رکھتا ہے۔ جب کہ درج فہرست ذاتیں (SCs) ریاست کی 23فیصد آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود اس طرح کے17.66عہدوں پر فائز ہیں۔اب حکومت نے اس طرح کے سروے بند کردئیے گئے ہیں ۔کلکتہ میونسپل کارپوریشن کے میئر کے عہدہ پر جب ریاستی وزیر فرہادحکیم کو فائز کیا گیا تو اس قدم کو سیاست میں مسلمانوں کی شمولیت سے جوڑا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ کلکتہ کارپوریشن میں مسلم ملازمین کی تعداد محض 5.2فیصد ہے جب کہ 2008میں یہ 5.4فیصد تھی ۔تقرری میں کمی اور آؤٹ سورسنگ میں اضافہ کی وجہ سے، شہری خدمات میں مسلمانوں کی مکمل تعداد 2008 میں 1555سے کم ہو کر 2019 میں 1161ہوگئی۔ کلکتہ پولیس میں کل 25999نفری میں سے صرف11.14فیصد (2897) جو 2008 میں بائیں محاذ کے دور حکومت میں 9.13 فیصد مسلمان ہیں۔ پولیس میں مسلمانوں کی موجودگی 2008 اور 2019 کے درمیان صرف01.2فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
یہ اعدادوشماربتاتے ہیں کہ سیکولرزم کی چمپئن اور مسلمانوں کی مسیحا کہی جانے والی ممتا بنرجی مسلمانوں کو برابر ی کا درجہ دینے میں کس قدر سنجیدہ ہیں ۔غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستیں مسلمانوں کی سیکورٹی و سلامتی اور مذہبی شناخت کے ایشو کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں اور ان کی کوشش رہتی ہے کہ سیاسی بیانہ اسی کے ارد گرد گھومتا رہے ۔افسوس ناک پہلو بھی یہی ہے کہ بی جے پی بھی انہیں ایشوز کو اٹھاکر پولرائز کرتی ہے۔مگر سبھاشیش رے اور سمن ناتھ کی تحقیق بتاتی ہے کہ مسلمان سیکورٹی اور سلامتی کے اعتبار سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ 2011 میں مغربی بنگال میں فسادات کی تعداد 15 تھی، جو 2017 میں بڑھ کر 58 تک پہنچ گئی۔ حاجی نگر، بدوریا، بشیرہاٹ، آسنسول، پرولیا، دھولگر – بڑے فرقہ وارانہ واقعات کی فہرست میں شامل ہے۔فرقہ وارنہ فسادت میں بالواسطہ یا پھر بلاواسطہ شامل رہنے والوں کا ترنمول کانگریس میں خیرم مقدم کیا جانے لگا۔بسوناتھ گوسوامی کے ذریعہ داخل کردہ آر ٹی آئی پر موصول جواب کے مطابق، صرف ہاوڑہ شہر پولیس نے صرف 18 مہینوں میں فسادات کے 59 کیس درج کیے (2021 میں 36، 2022 میں 23)۔ 2011 کے بعد سے سیاسی تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔سیاسی تشدد میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی جانیں گئی ہیں۔لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بنگال میں کئی مقامات مسلم نوجوان ہجومی تشدد کے شکار ہوئے ہیں ۔بھانگر میں عباس صدیقی کی پارٹی آئی ایس ایف کے نوشاد صدیقی کے 2021کے اسمبلی انتخابات میں جیتنے کے بعد سے ہی ان کے حامی نشانے پر ہیں ۔لوک سبھا انتخابات میں بشیر ہاٹ میں آئی ایس ایف کے حامیوں کے خلاف بڑ ے پیمانے پر تشدد کے واقعات ہوئے۔
تاہم سوال یہ ہے بنگال کے سیاسی منظرنامہ میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور اقتصادی صورت حال موضوع بحث کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کا سیدھا جواب ہے کہ ترنمول کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ دوطرح سے تعلقات استوار کیے ہیں ۔مذہبی لیڈروں اور علما کرام سے انفرادی طور پر رابطہ کیا ہے ۔اس کےلیے ائمہ مساجدو موذنین کی کئی تنظیمیں بنائی گئیں ۔ان تنظیموں کا وقت اور ضرورت کے لحاظ سے استعمال کیا جاتا ہے۔گزشتہ سال 21اگست 2023کو ائمہ و موذنین کی ایک کانفرنس بلائی گئی۔ ترنمول کانگریس کی مقامی لیڈروں نےریاست بھر کے ائمہ و موذنین کواس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ۔ریاستی وزیر فرہاد حکیم اس کی قیادت کررہے تھے۔ممتا بنرجی نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور انہوں نے ائمہ و موذنین کی تنخواہ میں 500روپیے کے اضافہ کا اعلان کیا۔انہوں نے توازن قائم کرنے کےلیے پنڈتوں کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا۔المیہ دیکھیے کہ اتنی بڑی کانفرنس میں مسلمانوں کی سماجی و معاشی اور اقتصادی ترقی سے متعلق نہ مسلم قائدین نے بات کی اور نہ ممتا بنرجی نے۔مشہورانگریزی میگزینEconomic and Political Weeklyنے بنگال میں ترنمول کانگریس کی سیاست اور ریاست میں ہونے تشدد کے واقعات کا موازنہ کرتے ہوئے Corrupt religious leaders and evil Muslim elementsکی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہی دونوں عناصر کی مدد سے ترنمو ل کانگریس ریاست کے مسلمانوں کو قابو میں کرتی ہے اورکوئی آواز بلند ہوتی ہے تو اس کو خاموش کردیا جاتا ہے۔2022فروری میں طلبہ لیڈر انیس خان کا بہیمانہ انداز میں پولس کے ہاتھوں قتل کردیا گیا۔ریاست کی جیلوں میں حالیہ برسوں میں نصف درجن مسلم قیدیوں کی موت ہوئی ہے۔ان تمام اموات کی کوئی جانچ نہیں ہوئی ہے۔
بنگال کی ملی تنظیمیں جمعیۃ علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند کا دائرہ کار ریاست بھر میں پھیلا ہوا ہے۔اول الذکر جمعیۃ علما ئے ہند نے ایک وزارت کے بدلے ممتا بنرجی کے سامنے اپنی پوری تنظیم کو گروی رکھ دیا ہے۔جماعت اسلامی ہند کےلیے ماحول سازگار تھا تاہم جماعت اسلامی بنگال کی موجودہ قیادت بصیرت سے خالی ہے۔چناں چہ مسلمانوں کی اقتصادی ، سماجی اور معاشرتی ترقی کےلیے ان دس سالوں میں کوئی تحریک نہیں چلائی گئی ۔حالیہ دنوں میں ریاست میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جس کے ذریعہ بی جے پی کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع ملا اور ان واقعات میں ترنمو ل کانگریس کے شرپسند مسلم لیڈ ملوث رہے ہیں مگر مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرأت نہیں کی ۔سندیش کھالی کا واقعہ ہو یا پھر چوپڑا میں اسلامی شریعت کے نام پر ایک پڑیمی جوڑے کی سرعام پٹائی کا معاملہ ۔ملی تنظیموں نے اس وقت بھی خاموشی اختیار کرلی جب ممتا بنرجی نے قرآن سمیت مذہبی کتابوں سے متعلق نازیبا تبصرہ کیا یا پھر ریاستی وزیر فرہا دحکیم کے ذریعہ اسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش گئی ۔
سیکورٹی اور سلامتی کے سوال کو اتنا بڑا بنادیا گیا ہے کہ مذہبی وملی قائدین بدعنوانی کے خلا ف مذمت کرنے کی جرأت تک نہیں کرپارہے ہیں۔ چاہے وہ بدعنوانی وقف بور ڈ میں ہو یاعالیہ یونیورسٹی میں۔مسلمانوں کے سامنے سیکورٹی کا سوال اتنا اہم ہوگیا کہ انہوں نے ممتا حکومت کے سامنے مکمل طور پر خودسپردگی کردی ہے اور دوسری طرف ممتا بنرجی ہیں جو 2021کے بعد نرم ہندتو کی سیاست کررہی ہیں ۔سرکاری خزانے سے مندروں کی تعمیر کرارہی ہیں ۔ساحلی مقام دیگھا میں پوری کے طرز کےجگن ناتھ مندر کی تعمیر ہورہی ہے جس پر کئی سو کروڑ روپے خرچ ہورہے ہیں اور دوسری طرف ریاست کے اعلیٰ تعلیمی ادارے فنڈ کی قلت سے جوجھ رہے یہںہے۔ترنمول کانگریس کو احساس ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس ان کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے اس لئے وہ نرم ہندتو کی سیاست کریں یا پھر مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی سوال کو نظر انداز کردیں، مسلمان اس پر بات نہیں کریں گے ۔یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان سیاسی طور پر بے اثر ہیں۔گزشتہ سال ضمنی انتخاب میں مسلم اکثریتی علاقہ ساگر دیگھی میں ترنمول کانگریس کے امیدوار کی شکست اور بالی گنج میں معمولی فرق سے جیت کے بعد ممتا بنرجی حرکت میں آئیں تھی ۔انہوں نے آنا فانا مسلمانوں کی ترقی کےلیے کم و بیش تین بورڈ کی تشکیل کی ۔مگر موجودہ لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں کے غیر مشروط حمایت نے مسلمانوں کی اہمیت کو مزید کم کردیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بے وقعتی کہاں جاکر ختم ہوگی ہے۔

•••

نوراللہ جاوید