کیا 2024 کے عام انتخابات کا مینڈیٹ چرایا گیا ؟

عبدالباری مسعود
اگست 2024

یا مودی کی تیسری حکومت بھی عوامی مینڈیٹ چوری کرکے بنی ہے؟  انتخابی نظام پر نظر رکھنے والی سول سوسائٹی کی دو مؤقر اور معتبر  تنظیموں نے حالیہ اختتام پذیر  لوک سبھا انتخابات کے دوران ہونے والی مبینہ بدعنوانیوں ، ووٹوں میں ہیرا پھیری  اور  ووٹوں کی زیادہ گنتی  کے بارے میں جو تحقیقاتی رپورٹیں  شائع کی ہیں ان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ  یہ  stolen mandate  یا  بے ایمانی  سے بنی حکومت ہے۔ ان  تنظیموں کے مطابق پانچ کروڑسے زائد کے ووٹوں کے اضافہ سے  بی جے پی اور اس کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو  76 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیابی ملی،  بصورت دیگر این ڈی اے کی مجموعی نشستوں کی تعداد 293سے کم ہوکر 217رہ جاتی اور بی جے پی کی 240سے کم ہو کر 160 یا 170 رہ جاتی جس کا  دعوی حزب اختلاف کے قائدین  انتخابی مہم کے دوران کر رہے تھے۔ یعنی ملک کے عوام سے اپنی پسند کی حکومت  تشکیل دینے کا اختیار  یا مینڈیٹ چھینا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں سب سے پہلے  ووٹ فار ڈیموکریسی (مہاراشٹر)  نامی تنظیم نے 22 جولائی کو ممبئی کے وائی بی چوان سنٹر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں لوک سبھا انتخابات 2024 کے  نتائج کے بارے میں اپنی جامع رپورٹ جاری کی۔جس کا عنوان ہے،’  “Report: Conduct of Lok Sabha Elections 2024″۔  اس  رپور ٹ میں ووٹوں میں ہیرا پھیری، رائے دہی اور ووٹ شماری کے دوران ہوئی بدعنوانیوں  کا جامع تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ سوال  کھڑاکیا گیا کہ کیا  2024کا مینڈیٹ  ہندوستان کے عوام سے چھینا گیا ہے؟

رپورٹ میں انتخابی عمل( جو تقریبا ڈھائی مہینے تک جاری رہا ) کے  دوران میں  ہونے والی مبینہ دھاندلیوں، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور ریٹرننگ  افسران ( انتخابی افسران ) کا رویہ، ای وی ایم  میں محفوظ ووٹوں  اور ان کی شماری کے درمیان مبینہ فرق اور انتخابات کے ہر مرحلہ میں ووٹوں میں اضافہ (”ڈمپ” ووٹ) ریاستی اور  قومی سطح پر جیسے اہم امور کا  تجزیہ ہے ۔ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ  ابتدائی ووٹر ٹرن آؤٹ اور حتمی ٹرن آؤٹ کے درمیان مجموعی طور پر 5 کروڑ ووٹوں میں اضافہ (”ڈمپ”) کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں انتخابات کے دن  الیکشن کمیشن نے راے دہی کے  جو اعداد و شمار پیش کیے  تھے میں ان میں بعد ازاں زبردست اضافہ کیا گیا ۔  اس مبینہ اضافے کا فائدہ  حکمراں بی جے پی اور اس کے زیر قیادت  نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو ہوا ۔

ووٹ فار ڈیموکریسی  کے پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ  ’’ کل  رائے دہی اور ووٹوں کی گنتی کے درمیان فرق کے علاوہ  الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) کی طرف سے بغیر کسی جواز یا وضاحت کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ کی بابت سنگین سوالات کھڑے ہوتے ہیں ۔ حالانکہ  ہم بحیثیت  شہری اور رائے دہندہ  الیکشن کمیشن کی ساکھ پر شک نہیں کرتے ہیں لیکن انتخابات کے دوران اس کا جس طرح کا رویہ رہا اور  انتخابی عمل کے غیر منصفانہ نتائج نے ہمیں سنجیدگی سے فکر مند ہونے پر مجبور کردیا  ہے۔‘‘

رپورٹ مجموعی طور پر 4 ابواب پر مشتمل  ہے جس میں انتخابی نتائج میں ممکنہ ہیرا پھیری کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کو  اپنی نشستوں کی کل تعداد میں کمی کے باوجود  اسے اپنی نشستیں بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ رپورٹ میں امیدواروں کو کسی حلقے میں ممکنہ بدعنوانیوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کی غرض سے  ایک چیک لسٹ منسلک کی گئی ہے۔ مزید برآں  انتخابی عمل کی شفافیت کو اجاگر کرنے کےلیے رپورٹ میں قانونی  مدد کے  لیے   متعلقہ عدالتی نظیریں اور انتخابی قوانین بھی پیش کیے  گئے ہیں  جو آزادانہ اور منصفانہ انداز میں انتخابات کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر، ممبئی نارتھ ویسٹ اور فرخ آباد پارلیمانی حلقوں میں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے والی بد عنوانیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

 

الیکشن کمیشن سے سوال

انتخابی  دھاندلیوں، ابتدائی ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار کے اعلان میں تاخیر، اور حتمی ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار میں خاطر خواہ اضافے کو اجاگر کرتے ہوئے  رپورٹ  میں  ان امور پر ا لیکشن کمیشن  کی  خاموشی  کے لیے   اسے سخت ہدف  تنقید بنایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  پہلے مرحلہ کے لیے  الیکشن کمیشن  نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ حتمی اعداد و شمار میں خاطر خواہ اضافہ کیوں ہوااور نہ ہی اس  نے  حتمی اعداد و شمار جاری کرنے میں طویل تاخیر (11 دن)  اور وہ بھی صرف فیصد کے بارے میں  وضاحت  پیش کی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیشن  نے حتمی ووٹر ٹرن آؤٹ میں زبردست اضافہ اور ای وی ایم ووٹوں اور گنتی کے درمیان فرق سے متعلق آج تک کسی سوال کا جواب نہیں دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ کچھ امیدواروں کو  فارم 17C  نہیں دیا گیا، جس میں پولنگ کے اختتام پر ڈالے گئے ووٹوں کا ریکارڈ  درج ہوتا ہے۔

ووٹوں میں اضافے  سے  حکمران اتحاد کوفائدہ  وی ایف ڈی کے مطابق  ابتدائی ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار کے مقابلے حتمی ووٹر ٹرن آؤٹ میں خاطر خواہ اضافہ بتاتا ہے کہ ان اضافے سے حکمران اتحاد  این ڈی اے  کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔  رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پچھلے انتخابات میں جہاں پولنگ کے دن کی شام کو ووٹروں کی تعداد میں اضافہ اور حتمی ٹرن آؤٹ کے درمیان فیصد کا اضافہ تقریباً 1فیصد  تھا، 18ویں لوک سبھا انتخابات میں یہ فرق 3.2 فیصد  تک بڑھ گیا اور تمام سات مرحلوں میں 6.32فیصد  تک پہنچ گیا۔ رپورٹ کے مطابق  یہ اعداد و شمار حیران کن ہیں  جس میں  12.54فیصد  آندھرا پردیش میں اور 12.48فیصد  اوڈیشہ میں اضافہ درج کیا گیا۔ یہاں تک کہ حتمی ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافے کا مجموعی اوسط 4.72فیصد  ہے۔دوسرا دعویٰ یہ کیا گیا ہ بی جکہ حتمی  ووٹوں میں  زبردست  اضافہ 15 ریاستوں میں 79 سیٹوں پر بی جے پی کی زیرقیادت قومی جمہوری اتحاد کی جیت کے فرق سے زیادہ تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”یہ نکتہ قابل ذکر  ہے کہ دوسرے مرحلے میں جس طریقہ سے  ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافہ کیا گیا  اس  سے، این ڈی اے اور بی جے پی کے لیے فائدہ مند نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر  مغربی بنگال  کی 3 نشستوں میں سے 3، اتر پردیش کی  8 میں سے 8، مدھیہ پردیش کی 6 میں سے 6، چھتیس گڑھ کی  3 میں سے 3، تریپورہ  ایک میں  ایک ، جموں و کشمیر کی  ایک  میں سے ایک ، کرناٹک میں 14 میں سے 12، راجستھان   میں 13 میں سے  10 اور آسام میں 5 سے  4 نشستوں کا بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ یہ چیز  پولنگ کے دیگر 6 مرحلوں بشمول مغربی بنگال، اتر پردیش، جموں و کشمیر، کرناٹک، راجستھان جیسی ریاستوں میں نہیں دیکھی گئی۔ دوسرے  مرحلے میں کیرالہ کی مثال اس لحاظ سے انوکھی ہے کہ اس مرحلے میں بی جے پی کو ریاست کی کل 20 سیٹوں میں سے ایک سیٹ ملی،  ایک اور سیٹ پر وہ دوسرے نمبر پر رہی  جبکہ  دیگر  14 سیٹوں پر تیسرے نمبر پر رہی! ایسا لگتا ہے کہ یہاں واضح  طور پر ہیرا پھیری ہوئی ہے۔ ’’ مزید برآں اس میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 5 کروڑ ووٹوں میں زبردست  اضافے سے بی جے پی اور این ڈی اے کو کم از کم 76 سیٹیں حاصل کرنے کا فائدہ ہوا ہے اگر ووٹوں کا یہ اضافہ نہیں کیا جاتا تو این ڈی اے کی مجموعی نشستوں کی تعداد 293سے کم ہوکر 217رہ جاتی اور اس میں بی جے پی کی نشستوں کی تعداد 240سے کم ہو کر 160 یا 170 رہ جاتی ۔ رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ دس ریاستوں میں این ڈی اے کے امیدواروں نے 18 حلقوں میں انتہائی معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی۔

رپورٹ میں خصوصی  طور پر تین جدول  میں ان  تمام پارلیمانی حلقوں کی فہرست  پیش کی گئی ہے جن میں فتح  اور شکست  کا فرق  ایک  لاکھ ووٹوں سے کم ہے۔ ان حلقوں میں  جہاں  پچاس ہزار ووٹوں یا اس سے کم  ووٹوں  کے فرق سے شکست  ہوئی ہے  ان میں ای وی ایم  میں ڈالے گئے  ووٹ اور برآمد کئے گئے ووٹوں میں بد عنوانیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ایک جدول  میں ان   منتخب حلقوں  کو پیش کیا گیا ہے جہاں  مبینہ  طور پر دھاندلیاں  کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک درجن سے زائد  جدولوں میں  ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافہ، ووٹوں کی حتمی تعداد میں اضافہ اور ممکنہ دھاندلیوں کے متعدد پہلوؤں کا تجزیہ  دیا گیا ہے ۔

ووٹ فار ڈیموکریسی کی اس رپورٹ کو  سابق آئی اے ایس افسر ایم جی دیوا شیام اور ڈاکٹر  پیارے لال گرگ نے مرتب کیا ہے  جسے الیکشن کمیشن ارسال کیا گیا ہے۔  وی ایف ڈی کو سماجی کارکنان تیستا سیتلواد، ڈالفی ڈیسوزا، فادر فریزر میسکرنہس  اور خلیل  دیشمکھ نے  قائم کیا ہے ۔

اس  رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ا یسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) نے بھی  ایک  رپورٹ   پریس کلب آف انڈیا ، نئی دہلی میں  منعقد ایک پریس کانفرنس میں جاری کی ۔اے ڈی آر کی رپورٹ کا عنوا ن ہے:”Discrepancies between the votes cast and the votes counted in the 2024 Lok Sabha Election: Multiple Perspectives”

اس میں یہ دعوی کیا گیا کہ 18ویں عام انتخابات میں بھی  ووٹوں کی گنتی میں 2019 کے عام انتخابات کی طرح  زبردست فرق پایا گیا۔   کل  543 پارلیمانی حلقوں میں سے سوائے  پانچ حلقوں کے، اکثر میں  ووٹوں  کی گنتی  یا تو زیادہ کی گئی یا کم ۔رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ 4 نومبر، 2019 کو’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز’ (ADR) اور ‘کامن کاز’ نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت سے یہ استدعا کی گئی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ہدایت کہ جب تک رائے دہی  کے اعداد و شمار حقیقی اور درست نہ ہو اس وقت  تک  عارضی اور تخمینہ شدہ اعداد و شمار کی بنیاد  پرنتائج  کا اعلان نہ کرے  ۔ کیونکہ ا لیکشن کمیشن نے تخمینہ شدہ اعداد و شمار کی بنیاد پر 23 مئی 2019 کو تمام حلقوں میں انتخابی نتائج کا اعلان کیا تھا۔ اس کی تصدیق الیکشن کمیشن کے پریس نوٹ مورخہ یکم  جون 2019 سے ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’… ووٹوں کی گنتی کے بارے میں حتمی اعداد و شمار نتائج کے اعلان کے چند دنوں کے اندر دستیاب کر دیے گئے ہیں۔‘‘

27 فروری 2020 کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے نتائج کے اعلان کے صرف چار ماہ بعد 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں استعمال ہونے والی VVPAT سلپس کو دریا برد کرنے کی پراسرار عجلت’ کے خلاف عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔  یہ اقدام  کنڈکٹ آف الیکشن رولز 1961  کی شق 94 (b) کی خلاف ورزی تھا۔ اس شق  میں کہا گیا ہے کہ ”کسی بھی الیکشن میں استعمال شدہ یا پرنٹ شدہ سلپس کو الیکشن کے نتائج کے اعلان کی تاریخ سے ایک سال تک برقرار رکھا جائے گا۔ رپورٹ میں اے ڈی آر کی طرف سے قانونی چارہ جوئی کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا  گیا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود ان پر عمل نہیں کیا گیا ۔

خیال رہے کہ 17ویں عام انتخابات کے دوران، جبکہ انتخابات کے پہلے 6 مرحلوں کے لیے، ووٹر ٹرن آؤٹ ایپ نے ووٹروں کی صحیح تعداد ظاہر کی تاہم آخری مرحلے میں یعنی ووٹنگ کے 7ویں مرحلے میں ان  اعداد و شمار میں اضافہ کردیا گیا۔ اور الیکشن کمیشن نے سابقہ ڈیٹا کو ہٹا دیا۔ راقم سے بات کرتے ہوئے اے ڈی آر کے بانی رکن پروفیسر جگدیپ چھوکر  نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں 2024 کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے لیکن الیکشن کمیشن کو ان سوالات کا جواب دینا ہوگا جو ہم نے شواہد کی بنیاد پر اٹھائے ہیں۔

الیکشن کمیشن کا  یہ آئینی فرض   ہے کہ وہ حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر حتمی انتخابی نتائج کا اعلان کرے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں اور قانون کی حکمرانی برقرار رہے  ۔ الیکشن کمیشن ووٹوں کی گنتی سے متعلق حتمی اور مستند اعداد و شمار جاری کرنے سے پہلے انتخابی نتائج کا اعلان کرنے میں اب تک کوئی معقول وضاحت دینے میں ناکام رہا ہے، ای وی ایم ووٹوں میں مماثلت کے باعث ای وی ایم ووٹوں کی گنتی، ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافہ، تعداد کا انکشاف نہ ہونا ، ووٹوں کے پولڈ ڈیٹا کے اجراء میں غیر معقول تاخیر اور اس کی ویب سائٹ سے کچھ اعداد وشمار کو ہٹانے جیسے واقعات نے  الیکشن کمیشن کی ساکھ پر  ایک بڑا داغ  لگادیا ۔  چنانچہ موجودہ انتخابات  کے دوران  اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اراکین  نے  الیکشن کمیشن  کے متعصبانہ طرز عمل  کوسخت  تنقید کا نشانہ بنایا۔ اب ووٹ فار ڈیموکریسی (VFD)  کے سنسنی خیز دعووں  نے  الیکشن کمیشن کی  جانب داری کو طشت از بام کردیا ہے۔

یاد رہے ملک میں 2004 میں جب  پہلی مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے بعد سے ہی الیکٹرانک انتخابی نظام  کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ یہ معاملہ  بی جے پی کے 2014 میں  برسر اقتدار آنے کا بعد نہایت سنگین شکل اختیار کرگیا ہے

بالخصوص الیکشن کمیشن کے ’جانبدارانہ رویہ‘  نے  اس صورت حال کو دو آتشہ کردیا ہے۔  خود بی جے پی نے 2009 کی شکست کے بعد یہ معاملہ پرزور طریقہ سے اٹھایا تھا ۔ اس کے ایک لیڈر جی ایل  نرسہما نے ای وای ایم پر ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا پیش لفظ  ایل کے ایڈوانی نے لکھا تھا۔  لیکن  اب وہی بے جی پی الیکٹرانک انتخابی نظام کی سب سے بڑی وکیل ہے۔