امریکہ کا صدارتی انتخاب اور مسلمان

سید خالد حسین،سنگاپور
جولائی 2024

امریکہ میں ساٹھویں صدارتی انتخابات 5 نومبر 2024 کو منعقد ہوں گے، جن میں امریکی شہری ملک کے صدر اور نائب صدر کا انتخاب کریں گے۔ موجودہ صدر جو بائیڈن، جو کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن ہیں، دوبارہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے پیشرو، ریپبلکن پارٹی کے رہنما ڈونالڈ ٹرمپ، بھی 2020 میں بائیڈن سے ہارنے کے بعد دوسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگر دونوں کو نامزد کر دیا جاتا ہے تو یہ 1956 کے بعد پہلی بار صدارتی انتخابات کا دوبارہ مقابلہ ہوگا۔ یہ انتخابات جیتنے والا صدر 20 جنوری 2025 کو اپنے عہدے کا چارج لے گا۔
سال 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 16 کروڑ 14 لاکھ ہے، جن میں 28 لاکھ تک مسلم-امریکی اور عرب-امریکی ووٹرس ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی مسلم شہری حقوق کی حمایتی تنظیم کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز (CAIR)، کے مطابق اس بار رجسٹرڈ مسلم ووٹروں کی تعداد 2022 کی بہ نسبت 12 لاکھ سے دو گنی ہو کر 25 لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے، اور تین لاکھ افریقی-امریکی، سفید فام-امریکی اور لاطینی-امریکی مسلمان ووٹر ہیں جو روایتی طریقہ کے ذریعے ناقابل شناخت ہیں۔ درجہ کے لحاظ سے رجسٹرڈ مسلم-امریکی ووٹروں کی سب سے زیادہ تعداد والی ریاستوں میں کیلیفورنیا، نیویارک، ورجینیا، ٹیکساس، مشیگن، نیو جرسی، فلوریڈا، الینوائے، میری لینڈ، جارجیا اور اوہائیو شامل ہیں۔ اس بار انتخابی مہم کے اہم مسائل میں اسقاط حمل، امیگریشن، صحت، تعلیم، معیشت، خارجہ پالیسی، سرحدی سلامتی، ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی۔ کے حقوق، موسمیاتی تبدیلی اور جمہوریت متوقع ہے۔
انتخابات سے چار ماہ قبل کے کئی سروے بتا رہے ہیں کہ 2024 کے وائٹ ہاؤس کے لئے بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ اس صدارتی دوڑ کو خالصتاً سکہ اچھالنے کے مترادف ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے کیونکہ اس میں بائیڈن اور ٹرمپ اعداد و شمار کے لحاظ سے ایک دوسرے کے برابر ہیں یا بہت معمولی فرق رکھتے ہیں۔ تاہم ایک پولنگ ماڈل سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے امکانات اچانک کم ہو گئے ہیں۔ رائے شماری کے تجزیے، سیاست، معاشیات اور کھیلوں کی امریکی ویبسائٹ “538” کے صدارتی انتخابات کے 24 جون کے 1,000 simulations (نقشوں) میں بائیڈن نے 502 بار کامیابی حاصل کی جبکہ ٹرمپ نے 495 بار کامیابی حاصل کی۔ خالص افراتفری کے منظر نامے کا ابھی بھی بہت کم امکان ہے: 3 نقشوں میں کوئی بھی امیدوار الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت نہیں جیت سکتا جو انتخابات کو ایوانِ نمائندگان تک پہنچا دے گا۔
مسلم مخالف اقدامات
2020 کے صدارتی انتخابات میں مسلمانوں نے بائیڈن کی حمایت کی تھی اور ان کو جیتنے میں مدد کی تھی۔ اس کی ایک وجہ اس وقت کے صدر ٹرمپ کی جنوری 2017 میں سات مسلم اکثریتی ممالک کے تارکین وطن کے داخلے پر عائد پابندی تھی، جس کو بائیڈن اور دیگر ناقدین نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک بتایا تھا۔ امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے ابتدائی پابندی کو روک دیا تھا۔ لیکن 2018 میں سپریم کورٹ نے اس پابندی کو ایک ترمیم کرکے برقرار رکھا اور اس میں اور ممالک شامل کر دیے گئے۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ برقرار رکھنے والی پابندی میں ایران، عراق، لیبیا، سوڈان، صومالیہ، شام اور یمن سے آنے والے لوگوں پر پابندیاں عائد کی گئیں تھیں۔ شمالی کوریا اور وینزویلا کے شہریوں کو بھی ویزے کی پابندیوں کا سامنا پیش آیا، لیکن ان کے خلاف اقدامات سے نسبتاً کم لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ جنوری 2020 میں ٹرمپ نے چھ اور ممالک پر سفری پابندیاں عائد کیں جن کے تحت برما، اریٹیریا، کرغزستان اور نائیجیریا سے مستقل رہائش کے خواہاں مسافروں کے لیے ویزا جاری کرنا بند کردیا گیا اور سوڈان اور تنزانیہ کے شہریوں کو نئی پابندیوں کے تحت ڈائیورسٹی ویزا لاٹری سے روک دیا گیا۔
اب چار سال بعد جب بائیڈن اور ٹرمپ دوبارہ صدارتی انتخابات کے مقابلے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی کو انہی مسلم ووٹرس، جنہوں نے 2020 میں بائیڈن کو کامیاب کرانے میں مدد کی تھی، کی جانب سے مخالفت اور منفی ردعمل کا سامنا ہے اور ان میں سے بہت سارے بائیڈن کو ہرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی اصل وجہ گزشتہ نو ماہ سے جاری غزہ پٹی کے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کی اندھا دھند اور انتہائی جارحانہ بمباری اور ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کے باوجود امریکہ کی یہودی ریاست اور اس کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حمایت اور مدد ہے۔ واشنگٹن کی تل ابیب کے لیے جاری سیاسی اور سفارتی حمایت اور فوجی و دیگر امداد پر بڑھتا ہوا غم و غصہ بہت سے عرب-امریکی اور مسلم-امریکی ووٹروں کو یہ اعلان کرنے پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ انتخابات سے دور رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے کے لئے وہ اپنی آواز بلند کریں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی ہے، اور یہ کہ ماضی میں ان کی طرف سے بائیڈن کی حمایت کے باوجود واشنگٹن کا اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں موقف خاص طور پر تکلیف دہ ہے۔
‘بائیڈن چھوڑو’ تحریک
دسمبر 2023 میں امریکہ کی چھ اہم انتخابی مقابلے والی ریاستوں (battleground states) سے تعلق رکھنے والے مسلم رہنماؤں نے غزہ میں اسرائیل کی جنگ کی حمایت پر بائیڈن کے دوبارہ منتخب ہونے کے خلاف اپنی برادریوں کو متحرک کرنے کا عزم کیا لیکن وہ کسی متبادل امیدوار پر متفق نہیں ہوسکے۔ ان رہنماؤں کی AbandonBiden# مہم اس وقت شروع ہوئی جب مینیسوٹا کے مسلمانوں نے بائیڈن سے 31 اکتوبر تک جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ یہ مہم بالاخر مشیگن، ایریزونا، وسکونسن، پنسلوانیا اور فلوریڈا تک پھیل گئی۔ یہ ریاستیں ان مٹھی بھر ریاستوں میں شامل ہیں جنہوں نے بائیڈن کو 2020 کا الیکشن جیتنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ ان ریاستوں کی بڑی مسلم-امریکی اور عرب-امریکی برادریوں کی مخالفت الیکٹورل کالج کی جیت کے لیے بائیڈن کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے لیے ایک بڑی شرمندگی کی بات یہ بھی ہے کہ تین ماہ قبل رمضان المبارک میں بائیڈن کی افطار کی دعوت کو بہت سے مسلم-امریکی رہنماؤں نے واشنگٹن کی غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کی حمایت کی وجہ سے مسترد کر دیا تھا۔ یہ صورت حال ان چیلنجوں پر روشنی ڈالتی ہے جن کا بائیڈن کو غزہ کے تنازعے پر اپنے موقف پر آنے والے دنوں میں سامنا ہے۔ اس طرح وہ مسلمان-امریکیوں اور سیاہ فام-امریکی برادری پر مشتمل اپنے اکثریتی ووٹ بینک کی حمایت کھو رہے ہیں۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق عرب-امریکیوں میں بائیڈن کی حمایت 2020 کے مقابلے میں اچھی خاصی کم ہو کر 17 فیصد رہ گئی ہے۔ عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ صورتحال مشیگن جیسی ریاست میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے جہاں بائیڈن نے 2020 میں 2.8 فیصد پوائنٹس سے کامیابی حاصل کی تھی اور جہاں عرب-امریکی ووٹروں کی تعداد 5 فیصد ہے۔ وسکونسن کی مسلم-امریکی کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر طارق امین کا کہنا ہے کہ ان کی ریاست میں، جہاں بائیڈن تقریباً 20ہزار ووٹوں سے جیتے تھے، 25ہزار مسلم ووٹر ہیں۔ انہوں نے عہد کیا کہ “ہم ووٹ بدلیں گے، اور اس طرح نتیجہ بھی بدلیں گے۔”
ایک بڑا سوال
چونکہ امریکی اور اسرائیلی حکام نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو مستقل طور پر روکنے کے لیے دباؤ کو مسترد کر دیا ہے، اس لئے مسلم-امریکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں توقع نہیں ہے کہ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ بہتر سلوک کریں گے۔ ان کی نظر میں بائیڈن کو ووٹ دینے سے انکار کرنا ہی امریکی پالیسی کی تشکیل نو کا واحد ذریعہ ہے۔ لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان-امریکی اور عرب-امریکی بائیڈن کو ووٹ نہیں دیں گے تو پھر کس کو دیں گے۔ کیا وہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے؟ انہیں ایسا کرنے سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ اپنے صدارتی دور میں ٹرمپ متعدد مسلم ممالک کے تارکین وطن پر پابندی لگانے والے کے علاوہ اسرائیل کے حامی امریکی صدور میں سے ایک تھے۔ انہوں نے گولان کی پہاڑیوں کے اسرائیل کے متنازعہ الحاق اور یروشلم کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ یروشلم کا کنٹرول کئی دہائیوں سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا ایک اہم نکتہ رہا ہے۔
البتہ اپنے صدارتی دور میں سخت گیر اسرائیل نواز پالیسیاں نافذ کرنے کے باوجود ٹرمپ نے غزہ میں جاری جنگ کے بارے میں عوامی سطح پر زیادہ کچھ نہیں کہا ہے۔ لیکن جو کچھ انہوں نے کہا ہے وہ ریپبلکن پارٹی کے لوگوں کی اسرائیل کی حمایت برقرار رکھتے ہوئے جنگ میں عدم دلچسپی کا آئینہ دار ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ میں فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کے خلاف بڑھتا ہوا معاندانہ موقف اختیار کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ٹرمپ نے مبینہ طور پر ایک کمرہ بند میٹنگ میں اپنی پارٹی کے عطیہ دہندگان سے کہا تھا کہ وہ اس صورت حال سے زیرو رواداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے جس کو وہ مبینہ طور پر “بنیاد پرست انقلاب” کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا اشارہ اس “انقلاب” کی طرف تھا جس نے حالیہ مہینوں میں امریکہ کے کالج کیمپسوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان مظاہروں میں جو امریکی شہری نہیں ہیں انہیں ملک بدر کردیا جائے گا۔انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ غزہ سے آنے والے پناہ گزینوں پر پابندی لگا دیں گے اور اگر وہ دوسری بار جیت جاتے ہیں تو اپنی پہلی مدت کے مسلمانوں پر سفری پابندی کو فوری طور پر بڑھا دیں گے۔
اس سے ایک ماہ قبل ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ جیتتے ہیں تو وہ فوری طور پر تمام تارکین وطن کی “نظریاتی جانچ” شروع کر دیں گے۔ حماس کی حمایت کرنے والے تارکین وطن کو گرفتار کرنے اور ملک بدر کرنے کے لیے افسران بھیجیں گے، حماس کی حمایت کرنے والے تارکین وطن کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیں گے اور حماس اور مسلم “انتہا پسندوں” کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں پر پابندی لگا دیں گے۔ ٹرمپ، جو عام طور پر زیادہ وسیع پیمانے پر اسرائیل کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں، نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ وہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد جاری “دہشت گردی کے خلاف جنگ” میں اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کے ارکان کی طرح اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل، جو کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی کا سنگ بنیاد ہے، کی عملداری پر مسلسل شکوک کا اظہار کیا۔
دریں اثناء ٹرمپ اور کانگریس میں کم از کم ایک درجن ریپبلکن نے بھی ایک اور مسلم پابندی کا مطالبہ کیا ہے جس سے مسلم اکثریتی ممالک سے امریکہ کے سفر پر پابندی لگ سکتی ہے۔ انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں پر پابندی لگانے کے لیے قانون سازی متعارف کرائی ہے اور صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حماس کی حمایت کرنے والے کسی بھی فرد کے ویزے کو منسوخ کریں۔ اس طرح واضح ہے کہ ٹرمپ مظاہرین پر اور بھی سخت ہوں گے اور بائیڈن سے بھی زیادہ سختی سے اسرائیل کو گلے لگائیں گے-

کلیدی حیثیت
امریکہ میں مسلمان بیشک ملک کی آبادی کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہیں لیکن مشیگن جیسی ریاستوں میں ان کا ووٹ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ مشیگن ایک ایسی ریاست ہے جہاں بائیڈن نے 2020 میں تقریباً ایک لاکھ55ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ مسلم-امریکیوں اور مسلم عرب-امریکیو ں نے مشیگن اور دیگر اہم سوئنگ ریاستوں، بشمول پنسلوانیا اور وسکونسن، میں بائیڈن کو جیتنے میں مدد کی تھی۔ ٹرمپ نے 2016 میں مشیگن کو 11ہزار سے کم ووٹوں سے جیتا تھا۔ لیکن اب بہت سے مسلم-امریکی کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ دوبارہ ڈیموکریٹس کو ووٹ نہیں دیں گے۔
گزشتہ سال نومبر میں اسلامی تنظیم CAIR کے قومی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نہاد عواد نے کہا کہ بائیڈن نے غزہ کے جاری بحران کے دوران “ہمارے لوگوں کو نظر انداز کیا” اور اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں “ہم انہیں نظر انداز کرنے جا رہے ہیں”. انہوں نے مزید کہا “ہم نے انہیں ذاتی طور پر براہ راست بتایا کہ اگر آپ فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں تو آپ کو 2024 میں ہمارے ووٹ نہیں ملیں گے۔ ہمارے لیے انہیں ووٹ دینے یا ان کی حمایت کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم-امریکی، جو غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں واشنگٹن کی پالیسی کی سخت مخالفت میں متحد ہیں، کے ووٹوں کی تعداد میں اضافے کے علاوہ “ہمارے بیلٹ نہ صرف پالیسی بنانے بلکہ اپنے لیڈروں کا تعین کرنے اور اپنی قوم کے لیے ایک بہتر راستہ طے کرنے کے کی طاقت رکھتے ہیں”۔ بائیڈن کے متبادل کے بارے میں پوچھے جانے پر مینیسوٹا کے CAIR باب کے ڈائریکٹر جیلانی حسین نے کہا، “ہمارے پاس دو آپشن نہیں ہیں۔ ہمارے پاس بہت سے آپشن ہیں۔” انہوں نے کہا کہ “ہم ٹرمپ کی حمایت نہیں کر رہے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “مسلم-امریکی کمیونٹی فیصلہ کرے گی کہ دوسرے امیدواروں کا انٹرویو کیسے کیا جائے۔”

متبادل مسائل
بہر حال یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ چاہے وہ ڈیموکریٹ ہوں یا ریپبلکن، اسرائیل کے بارے میں امریکی پالیسی اور سیاسی، سفارتی اور فوجی حمایت اور امداد میں جلد کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی صدارتی امیدوار صیہونیوں کی مالی امداد کے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ اس لئے مسلم-امریکی ووٹروں کے لئے بائیڈن اور ٹرمپ دونوں برابر کے اسرائیل نواز اور عرب اور مسلم مخالف رہنما ہیں۔ اس لئے مسلم-امریکیوں اور عرب-امریکیوں کو اب کچھ اورسوچنا ہوگا اور اسلام، مسلم اور عرب کے علاوہ دیگر اہم انتخابی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ ان کو ایسے امیدوار کو ووٹ دینا ہوگا جس کی ان مسائل پر پالیسیاں اسلامی یا مسلم نقطہ نظر سے اور اخلاقی طور پر بہتر لگتی ہوں۔ ان مسائل میں اسقاط حمل، امیگریشن، ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی۔ اور ٹرانسجینڈر وغیرہ شامل ہیں۔
اسقاط حمل پر ریپبلکن پارٹی کا موقف ہے کہ “غیر پیدائشی بچے کا زندگی کا بنیادی حق ہے جس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی”، جبکہ ڈیمو کریٹک پارٹی مساوی “محفوظ اور قانونی اسقاط حمل” تک رسائی کی حمایت کرتی ہے۔ جون کے تیسرے ہفتے میں ریپبلکن اسٹڈی کمیٹی، جو کہ ایوان کی 100 فیصد ریپبلکن قیادت اور ان کے تقریباً 80 فیصد اراکین کی نمائندگی کرتی ہے، نے ایک بجٹ جاری کیا جو کہ اس کی بہت سی دیگر مخالف انتخابی پابندیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسقاط حمل کی توثیق کرتا ہے۔ اس میں عصمت دری یا بدکاری کے لیے صفر استثنیٰ کے ساتھ پابندی کا بھی ذکر ہے۔ اگر ہاؤس ریپبلکن کی یہ بات مان لی جاتی ہے تو یہ تمام تجاویز ملک کا قانون بن جائیں گی۔ دوسری طرف اسقاط حمل کے حقوق ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما بائیڈن کی انتخابی مہم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ گزشتہ اپریل میں ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیا کہ 2022 کے اوائل سے اسقاط حمل کے حقوق کی حمایت میں دوہرے ہندسوں میں اضافہ ہوا ہے اور ریکارڈ 59 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ اسقاط حمل کو قانونی ہونا چاہیے۔
امیگریشن کے معاملے پر ٹرمپ نے امریکی کالج سے گریجویشن کرنے والے غیر ملکی شہریوں کو “خود بخود” گرین کارڈ دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم ان کے ترجمان نے کہا کہ گریجویٹس کی “تمام کمیونسٹوں، بنیاد پرست اسلام پسندوں، حماس کے حامیوں، امریکہ سے نفرت کرنے والوں اور عوامی الزامات کو خارج کرنے کے لیے” اسکریننگ کی جائے گی۔ ٹرمپ کے تازہ ترین تبصرے اس وقت سامنے آئے ہیں جب بائیڈن نے جون کے شروع میں ایک انتظامی کارروائی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت کچھ غیر دستاویزی شریک حیات اور امریکی شہریوں کے بچوں کو ملک چھوڑے بغیر قانونی مستقل رہائش کے لیے درخواست دینے کی اجازت دی گئی تھی۔
2023 کے آخر میں امریکہ میں اسلامو فوبک تعصب میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے آخری تین مہینوں میں CAIR کو نسل یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے بارے میں حیران کن 3578 شکایات موصول ہوئیں۔ یہ تعداد اس تشویشناک حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ بائیڈن کے دور میں اسلامو فوبک تعصب غیر معمولی سطح پر پہنچ گیا ہے، جو کئی لحاظ سے پچھلی انتظامیہ کے خوفناک ٹریک ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ 9/11 کے حملوں نے، جس نے امریکہ میں اسلامو فوبیا کو جنم دیا، بہت سے مسلم-امریکیوں کو ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف راغب کیا تھا کیونکہ اس پارٹی نے مسلم مخالف تعصب کے خلاف ان کی جنگ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم پچھلی دہائی کے دوران +LGBTQ اور دیگر “ترقی پسند” رجحانات کے لیے ڈیموکریٹس کی حمایت نے اس اتحاد کو چیلنج کیا ہے، جس میں بہت سے مسلم-امریکیوں نے بنیادی اسلامی اقدار سے واضح طور پر متصادم تصورات سے ہم آہنگ ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
لیکن ثقافتی طور پر قدامت پسند ریپبلکن کا تیزی سے پبلک اسکول کی تعلیم کے بارے میں والدین کے خدشات کی طرف جھکاؤ اور +LGBTQ کے حقوق کے خلاف موقف پر مسلم-امریکیوں کو ایک ممکنہ تبدیلی نظر آرہی ہے۔
ٹرانسجینڈر کے معاملے میں بائیڈن نے اس سال ایسٹر سنڈے کو “ٹرانس جینڈر ڈے آف ویزیبلٹی” کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ “ٹرانس جینڈر ڈے آف ویزیبلٹی”، جس کا آغاز 2009 میں بیداری کے دن کے طور پر کیا گیا تھا تاکہ خواجہ سراؤں اور صنفی غیر موافق لوگوں کی کامیابیوں کا جشن منایا جا سکے، ہر سال 31 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ ایسٹر کی تاریخ سال بہ سال تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن اس سال دونوں دن اتفاقاً ایک ساتھ آئے تھے۔ لیکن ریپبلکن نے بائیڈن کے اس فیصلے کی زبردست مخالفت اور مذمت کی۔
سال 2020 کے بر عکس اس سال امریکی مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ اپنا ووٹ کس کو دیں کیونکہ اب بائیڈن اور ٹرمپ مسلمانوں کے تعلق سے ایک ہی صفحہ پر ہیں اور ایک سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے دونوں ہی برابر کے evil ہیں۔ البتہ اسلامی نقطہ نظر سے اسقاط حمل، ایل۔ جی۔ بی۔ ٹی۔، ٹرانسجنڈر اور تعلیم کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسیاں بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا مسلم امریکی ووٹر بڑے پیمانے پر بائیڈن کے خلاف ہو جائیں گے یا نہیں، لیکن حمایت میں چھوٹی تبدیلیاں ان ریاستوں میں فرق پیدا کر سکتی ہیں جن میں بائیڈن نے 2020 میں کم ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔

•••

سید خالد حسین،سنگاپور