(دہلی کی تہاڑ جیل میں دیگر مظلوموں کے ساتھ چار سال سے قید نوجوان اسکالر ومقرر عمر خالد کا محرومی عدل کے درمیان اظہار حق و استقامت)
عمر تھا صحن عدالت سے آج پھر گذرا
حصارِ جبر میں لپٹا بدن سنبھالے ہو ئے
کوئی بھی خوف عیاں تھا نہ اس کے چہرے سے
لبوں پہ اس کے عجب موج تھی تبسم کی
وہ موج غرق تھی زنداں کی خامشی جس میں
وہ موج جس میں چھپی تھی فضا کی سفاکی
وہ موج جس میں نہاں موسموں کی شدت تھی
وہ موج جس میں بہاروں کے قافلے گم تھے
وہ موج جس میں رواں ماں کے غم کا دریا تھا
وہ موج جو تھی نشاں باپ کی محبت کا
وہ موج رقصاں تھی بہنوں کی آرزو جس میں
وہ موج محفل یاراں کی جس میں یادیں تھیں
وہ موج پوچھ رہی تھی کہ جرم کیا ہے مرا
ہزار ظلم وستم نے مجھے ہے کیوں گھیرا
لگی ہے کیوں یہ زبان کھولنے پہ پابندی
ہے دور کیوں بھلا تقدیرِ رنگ و بو مجھ سے
عمر جو صحن عدالت سے آج گذرا تو
صدا یہ گونج رہی تھی کہاں ہے آزادی
صدا یہ گونج رہی تھی
کہاں ہے آزادی۔۔۔۔؟
انتظار نعیم
E-45، ابولفضل انکلو، جامعہ نگر، نئی دہلی-110025
Mob: 9810841086