کانوڑ یایاترا کے راستے پر موجود مسلم دوکانداروں کو اپنی شناخت ظاہر کرنے اور دوکان پر نام کی تختی لگانے کے یو گی حکومت کے غیر آئینی فیصلے پر سپریم کورٹ نے گرچے عبوری روک لگا دی ہے تاہم اس کا اثر یوگی حکومت پر پڑتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اپنے سابقہ موقف پر قائم ہے ۔ یوگی حکومت کی طرف سے جاری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ پوری ریاست میں کانوڑیا راستے پر موجود کھانے کی دوکانوں کے مالکان کو اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے نام کی تختی لگانی ہوگی۔حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دوکانداروں کی شناخت ظاہر ہونے سے کانوڑ یوں کی آستھا ؤںکا تقدس برقرار رہے گا ۔ریاستی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ حلال سرٹیفکیٹ کے حامل سامان بیچنے والوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کی جائے گی۔ حکومت نے حلال سرٹیفیکٹ والے مصنوعات کے خلاف کاروائیوں میں مزید تیزی لانے کی بات کہی ہے ۔ریاستی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور کئی سرکردہ افراد نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی ۔ایسو سی ایشن آف پراستے یکشن آف سول رائٹس(اے پی سی آر ) ،ممبر پارلیمنٹ مہوا موئترا، پروفیسر اپوروا نند اور کالم نگار آکار پٹیل نے اپنی عرضی میں یوگی حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے تمام عرضیوں پر سماعت کے بعد یوگی حکومت کے فیصلے پر عبوری روک لگا دی ہے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں یوگی حکومت سے جواب بھی طلب کر لیا ہے ۔لیکن سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کے با وجود یوگی حکومت کے موقف میں بظاہر کوئی تبدیلی نظرنہیں آ رہی ہے ۔
یوگی حکومت نے ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر کس طرح عمل کرے گی ۔ اس کے برخلاف یوگی حکومت کے وزیر دیا شنکر مشرنے کہا ہے کہ یوگی حکومت اپنے پہلے کے موقف پر قائم ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے اس پر ابھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حلال سرٹیفیکٹ معاملے میں بھی حکومت اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی ہے ۔حلال مصنوعات کے خلاف ہماری کاروائی پہلے کی طرح جاری رہے گی ۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں حلال مصنوعات کی فروخت کسی قیمت پر نہیں ہونے دی جائے گی ۔دیا شنکر مشر نے واضح کیا ہے کہ حلال مصنوعات کے بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی سرٹیفیکٹ نہیں جاری کیا جا تا ۔اس معاملے میں کچھ لوگ اپنی من مانی چلا رہے ہیں جو کسی قیمت پر برداشت نہیں کی جائے گی ۔یوگی حکومت کے اڑیل رویے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زمینی سطح پر سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کا کوئی خاص اثر ہونے والا نہیں ہے ۔کیوں کہ سپریم کورٹ کاحکم امتناعی آنے کے بعد یوگی حکومت نے اس معاملے میں اپنا موقف اور سخت کر لیا ہے ۔ اس نے نام کی تختی پر زور نہ دے کر حلال مصنوعات پر اپنی توجہ مرکوز کر لی ہے ۔ ویسے بھی اس بات کو لے کر شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یوگی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر کس حد تک عمل کرتی ہے ۔
معاملہ دراصل کانوڑ یاراستے پر موجود دوکانوں پر نام کی تختی لگانے کا نہیں ہے ۔بلکہ پس پردہ معاملہ مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کاہے ۔ جو لوگ اس مسئلے کو وقتی سیاست سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں وہ اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ماضی میں جن لوگوں نے یوگی حکومت کی کاروائیوں اور فیصلوں کو وقتی یا چناوی سیاست کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کر دیا تھا ، یہی چیزیں بعد میں یوگی حکومت کی پالیسی کا حصہ بن گئیں ۔ جیسے سلاٹر ہاؤس پر پابندی ، نئے دینی مدارس کو مالی گرانٹ پر نہ لینے کا فیصلہ ، بلڈوزروں کے ذریعے انہدامی کارروائی ، سڑکوں پر نماز کی پابندی یامساجد میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی وغیرہ ایسی کارروائیاں تھیں جو آج یوگی حکومت کی مستقل پالیسی بن گئی ہے ۔اس طرح کی پالیسیوں کا سلسلہ روز بہ روز دراز ہوتا جا رہا ہے ۔
یوگی حکومت کے ایک اور فیصلے نے ریاست کے دینی مدارس کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔اتر پردیش کے چیف سکریٹری کی طرف سے غیر تسلیم شدہ دینی مدارس کے سروے کے بعد ضلع افسران کو ہدایت دی گئی ہے کہ ریاست کے غیر تسلیم شدہ 8449؍ دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو مدارس سے نکال کرسرکاری اسکولوں میں شفٹ کردیا جائے۔یو گی حکومت کے اس فیصلے نے ریاست کے سیکڑوں دینی مدارس کو ایک نئی مشکل سے دو چار کر دیا ہے ۔ حکومت کی طرف سے غیر تسلیم شدہ دینی مدارس کی جو فہرست جاری کی گئی ہے ان میں دارا العلوم دیوبند ، ندوۃ العلما ، مظاہر العلوم ،جامعہ سلفیہ ، جامعہ اشرفیہ ، جامعۃ الفلاح ،مدرسۃ الاصلاح جیسے قدیم اور بڑے دینی ادارے شامل ہیں ۔مدارس کے ذمہ داران کے مطابق مقامی انتظامیہ کی طرف سے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے یہاں پڑھنے والے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کر دیں ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت کئی مسلم تنظیموں نے اس معاملے میں اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور یوگی حکومت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ پرسنل لابورڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یو پی اور ایم پی کی حکومتیں دینی مدارس کی شناخت ختم کرنے اور ان کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔بورڈ نے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 30(اے) کے تحت اقلیتوں کو اپنے تعلیمی اداروں کو چلانے اور اس کو قائم کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے ۔ تاہم ان تنظیموں کی احتجاجی آوازیں صدابہ صحرا ثابت ہورہی ہیں۔حکومتی سطح پر مسلم منافرت کو اس انداز سے ہوا دی جا رہی ہے کہ جس سے سماجی ڈھانچہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر تقسیم ہو جائے ۔اس منافرت کا اندازہ شہروں کے پاش علاقوں میں رہنے والے بعض مسلم خاندانوں کی حالت دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے ۔ روزانہ برتے جانے والے امیتازی سلوک اور سکیورٹی کے خطرات کے پیش نظر پاش علاقے کے افراد بھی مسلمانوں کی گنجان آبادیوں میں منتقل ہونا بہتر سمجھ رہے ہیں ۔غیر اعلانیہ مسلم بائکاٹ کا سب سے زیادہ برا اثر مسلمانوں کے روزگار پر پڑا ہے۔چھوٹے کاروباری اداروں سے مسلم ملازمین بتدریج کم ہو رہے ہیں ۔کارو باری اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے لیے روزی راستے ی کمانا محال ہوتا جا رہا ہے ۔ سب سے زیادہ مشکل ان چھوٹے دوکانداروں اور وینڈروں کو ہے جو اپنا کارو بار ہائی ویز اور مصروف بازاروں میں کرتے ہیں۔ ان دوکانداروں کو تو سال کے بارہ مہینے اسی طرح کے مخالف ماحول کا سامنا رہتاہے ۔یہ امتیازی سلوک ڈیلیوری بوائے سے لے کر ٹھیلہ لگانے والے چھوٹے مسلم دوکانداروں سے روا رکھاجا رہا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے تحریری
فیصلوں کوتو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لیکن جو چیزیں غیر اعلانیہ طور سے ہو رہی ہیں ان کا تدارک کس طرح کیا جائے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں شکست کے بعد بھی یوگی حکومت اس طرح کے فیصلے کیوں لے رہی ہے ۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ بی جے پی کی پشت پر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا ایجنڈا کار فرما ہے ۔ اس ایجنڈا کو اس طرح سے لاگو کیا جا رہا ہے کہ اگر ریاست میں کسی اور پارٹی کی حکومت بنے تو بھی اس کو تبدیل یا ختم کرنے کی ہمت نہ کرے ۔اس وقت یو پی کی تمام نام نہاد سیکولر پارٹیاں آر ایس ایس کے سامنے اعصابی دباؤ کا شکارہیں ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کانوڑیوں کے راستے پر دوکانداروں کی شناخت ظاہر کرنے والے سرکاری حکم نامے کے خلاف بیان بازی تو سبھی پارٹیوں نے کی لیکن اس کے خلاف کوئی عملی یاقانونی اقدام کسی پارٹی نے نہ کیا۔ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کرنے والوں میں ترنمول کانگریس اور انسانی حقوق کے کارکنان ہیں ۔یو پی میں کانگریس اور سماج وادی پاڑتی دونوں ہی لفظ ’’ مسلمان ‘‘ کے استعمال سے گریز کرتی ہیں۔اگر مجبوری میں اس کا استعمال کرنا ہی پڑجائے تو وہ بے معنی اور غیر اہم ہوتا ہے ۔ مسلم مخالف پالیسی کے خلاف ان سیکولر پارٹیوں نے عام طور سے چپی سادھ رکھی ہے ۔ اگر یوگی حکومت کے اس فیصلے پر سپریم کورٹ عبوری روک نہیں لگاتی تو سیکولر پارٹیوں نے بیان جاری کرکے اپنی دیرینہ رسم نبھا دی تھی ۔یہ بات واضح ہے کہ یوگی حکومت خود کو آئین اور قانون سے ماورا تصور کرتی ہے ۔ یوگی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف جو استبدادی کاروائیاں کی گئی ہیں بڑی حد تک سیکولر پارٹیوں کی مرہون منت ہیں ۔ایسی کاروائیوں کے خلاف ان پارٹیوں نے کبھی کچھ نہیں کیا ۔ جبکہ یہ پارٹیاں چناؤ میں مسلمانوں کا ایک مشت ووٹ حاصل کرتی آ رہی ہیں ۔ان پارٹیوں کو تو صرف مسلمانوں کے ووٹ سے مطلب ہے تاکہ اقتدار تک پہنچ جائیں ۔ملک کی آزادی سے پہلے ریلوے اسٹیشنوں اور عوامی مقامات پر ’’ مسلم پانی اور ہندو پانی ‘‘’’ مسلم چائے اور ہندو چائے ‘‘ کی صدائیں سنائی دیا کرتی تھیں ۔ان صداؤں کے لیے انگریزوں کے بنائے ہوئے نظام حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا جاتا تھا ۔ کہا جاتا تھا کہ یہ سب انگریزوں کی ’’ پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی کا نتیجہ ہے ۔انگریزوں کو ملک چھوڑے ہوئے آٹھ دہائیاں بیتنے کو ہیں ۔لیکن موجودہ حکومت ہندو مسلم منافرت کو نہ صرف ہوا دے رہی ہے بلکہ عصبیت پر مبنی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں مصروف ہے جس میں مسلمانوں کے لیے سرے سے کوئی جگہ ہی نہ ہو ۔یہ صورت حال انگریزی راج کے بدترین دور سے بھی زیادہ وحشت ناک ہے ۔